• 26 اپریل, 2024

حیاتِ نورالدین (قسط 10)

حیاتِ نورالدین
آپؓ کی شانِ سادگی
قسط 10

چہ خوش بودے اگر ہر یک زِامت نورِدیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نور یقین بودے

حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ساری زندگی سادگی کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ آپ مجسم سادگی تھے اور مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُتَکَلِّفِیۡنَ کی ایک حسین مثال تھے۔ آپ کی ساری زندگی باوجود اس کے کہ آپ کئی سال ریاست جموں میں شاہی طبیب بھی رہے سادگی سے گزری۔

آپ کی سادگی کا نمونہ تاریخ احمدیت جلد سوم میں یوں کھینچا گیا ہے کہ
باوجود اپنی شان اور وجاہت کے آپ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے، آپ کی طبیعت میں تکلف اور بناوٹ بالکل نہ تھی۔ اکثر پاجامہ اور کھلا کرتہ پہنتے اور سر پر عام طور پر لنگی کا استعمال کرتے، صدری کا استعمال بھی کرتے تھے۔شیخ مولا بخش صاحب سیالکوٹی آپ کے لئے اکثر گرگابی کا تحفہ لایا کرتے تھے مگر آپ اس کی ایڑھی بٹھا لیتے۔اکثر لکھتے ہوئے کلک اور دیسی سیاہی استعمال کرتے، کبھی کبھی نب والے قلم سے بھی لکھ لیتے مگر اس سے بالکل مانوس نہیں تھے۔ یا اس کو پسند ہی نہیں فرماتے تھے۔آپ مطب کے مشرقی دروازہ کے شمالی حصہ کے قریب صف پر بیٹھتے تھے۔صف پر ادنیٰ درجہ کی اون کا بچھونا ہوتا تھا ساتھ تکیہ رکھا ہوتا۔ سامنے معمولی سی تپائی ہوتی تھی مگر یہ پابندی نہیں تھی کہ لازما اس پر رکھ کر ہی لکھیں اکثر دوزانو بیٹھ کر لکھتے۔خضاب کبھی استعمال نہ کیا ہمیشہ مہندی لگایا کرتے تھے۔ماسٹر عبدالرؤوف صاحب بھیروی کا بیان ہے کہ حضرت مولانا نورالدین صاحب کو میں نے دیکھا ہے کہ اگر کرتے پر بٹن ابتدا سے نہیں لگا تو آخر دم تک اس پر بٹن نہیں دیکھا گیا۔ آپ کی مرغوب غذا یہ تھی کہ شوربے میں روٹی بھگو لیتے تھے۔

کبھی گرمیوں میں سرد کوٹ پہنے نہیں دیکھے گئے۔ سادہ پگڑی کے پیچوں میں سے مہندی رنگے سرخ بال کبھی باہر نکلےہوئے نظر آتے تھے۔ہاتھ میں لمبا عصا رکھتے تھے۔

غرض یہ کہ آپ کے لباس، کھانے اور بودوباش میں سادگی کا رنگ غالب تھا۔ مگر سادگی اور بے تکلفی کے باوجود ایک خدادا د رعب رکھتے تھے۔ صبح سے شام تک پبلک میں رہتےمگر آپ کی وجاہت اور رعب اور دبدبہ اور شوکت میں ذرہ برابر فرق نہ آتا تھا۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ539)

اپنے لباس کی سادگی کے بارے میں ایک دفعہ آپ نے خود مولوی محمد علی صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا۔
لباس میں میں نے ترقی نہیں کی جب سے ہوش سنبھالا یہی لبا س پہنتا ہوں۔

(مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین صفحہ290)

ایک اور جگہ پر آپؓ فرماتے ہیں۔
میں جب مرزا صاحب کا مرید نہ تھا تب بھی میرا یہی لباس تھا۔ میں امرا ء کے پاس گیا اور معزز حیثیت سے گیا مگر تب بھی یہی لباس تھا مرید ہوکر بھی میں اسی حالت میں رہا۔

(بدر 4جولائی 1912ء صفحہ7)

لباس کے بارے میں ایک موقع پر بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا
بعض آدمی لباس ہی کے بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ میں جب ریاست بھوپال میں تھا تو وہاں کے شاہی خاندان میں ایک شادی تھی۔ میرے وہاں ایک شاگرد تھے جو اب بھی وہاں اچھے عہدے پر ہیں انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم بھی چلیں گے۔ میں نے کہا اچھا۔ وہ گھر سے کپڑے بد ل کر آئے بڑے ہی زرق برق تھے۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان میں سونا ہی سونا ہے۔وہ جب آگئے تو مجھ سے کہا کہ آپ نے کپڑے نہیں بدلے۔میں نے کہا کہ بھائی ہمارا دوست ہدایت اللہ تو کہیں مکان بند کرکے چلا گیا ہے۔ چنانچہ ویسے ہی چل کھڑے ہوئے۔ جب پہلی ڈیوڑھی پر پہنچے تووہ آگے تھے اور میں پیچھے۔ دربان نے ان کو روکا۔میں آگے بڑھ گیا اور دربان سے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ ہیں اس نے کہا اچھا۔میں نے دربان سے کہا کہ تو ان کے لباس کو نہیں دیکھتا۔ اس نے کہا کہ لباس کا کیا ہے کرایہ پر اس سے بھی اچھا لباس ہر شخص کو مل سکتا ہے۔ آگے گئے تو وہاں معلوم ہوا کہ اس وقت خاص دربار ہے۔ سوائے خاندان کے خاص خاص آدمیوں کے کوئی نہیں جا سکتا۔ مجھ کو تو دربان نے کہا آپ اندر تشریف لے جائیں لیکن ہمارے ان ہمراہی کو وہیں دالان میں بٹھا لیا جہاں پہلے سے اور بھی رؤسا بیٹھے ہوئے تھے۔ غرض کہ میں اپنے اسی سادہ اور معمولی لباس سے اس خاص دربار میں بلا روک ٹوک چلاگیا۔

(مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین صفحہ289)

اس واقعہ سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ محض لباس ہی نہیں بلکہ انسان کی ذاتی شخصی وجاہت اور خدا کی طرف سے عطا شدہ رعب ہی انسان کے لئے حقیقی عزت کے سامان پیدا کرتی ہے۔

غرض آپؓ نے کبھی لباس کو غیر معمولی اہمیت نہ دی۔ آپ بیان کرتے ہیں
میں کشمیر میں تھا ایک روز دربار کو جا رہا تھا۔ یار محمد خان ایک شخص میری اردلی میں تھا۔ اس نے راستہ میں مجھ سے کہا کہ آپ کے پاس جو یہ پشمینہ کی چادر ہے یہ ایسی ہے کہ میں اس کو اوڑھ کر آپ کی اردلی میں بھی نہیں چل سکتا۔ میں نے اس سے کہا کہ تجھ کو اگر بری معلوم ہوتی ہے تو میرے خدا کو تجھ سے بھی زیادہ میرا خیال ہے۔ میں جب دربار میں گیا تو وہاں مہاراجہ نے کہا کہ آپ نے ہیضہ کی وبا میں بڑی کوشش کی ہے آپ کو خلعت ملنا چاہئے۔ چنانچہ ایک قیمتی خلعت دیا۔ اس میں جو چادر تھی وہ نہایت ہی قیمتی تھی۔ میں نے یار محمد خان سے کہا کہ دیکھو ہمارے خداتعالیٰ کو ہمارا کیسا خیال ہے۔

(مرقاۃ الیقین صفحہ244)

سب مال ودولت سے بڑھ کر امام الزمان کی محبت کی آپؓ عظیم الشان مثال تھے۔ آپ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی حکم پر اپنا گھر بار تک چھوڑ دیا جوکہ بھیرہ میں ایک کثیر رقم خرچ کرکے آپؓ تعمیر کروا رہے تھے۔ چنانچہ اسی محبت کو بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں۔

میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے، جس کو چور اور قزاق نہیں لے جاسکتا۔ مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا۔ پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر مَیں چند روزہ دنیا کے لئے مارا مارا پھروں؟مَیں سچ کہتا ہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھنا چاہے میں نہیں رہ سکتا۔ ہاں امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں، پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے۔ پس میری دولت میرا مال، میری ضرورتیں اس امام کے اتباع تک ہیں اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتا ہوں۔

(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 132)

ہمارے پیارے آقاسیدنا حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپؓ کی شانِ سادگی کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی سادگی اور اطاعت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ہم نے خود حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے آپ مجلس میں بڑی مسکنت سے بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مجلس میں شادیوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ ڈپٹی محمد شریف صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی ہیں وہ سناتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے یعنی آپ نے اپنے گھٹنے اٹھائے ہوئے تھے اور سر جھکا کر گھٹنوں میں رکھا ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب جماعت کے بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرت اولاد بھی ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کے دوست ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو اس سے بھی جماعت بڑھ سکتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول نے گھٹنوں پر سر اٹھایا اور فرمایا کہ حضور میں تو آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن اس عمر میں مجھے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہنس پڑے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں دیکھو یہ انکسار اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ رتبہ ملا۔

(ماخوذ از الفضل 27 مارچ 1957ء صفحہ5 جلد46/11 نمبر74)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے اخلاص، عاجزی اور سادگی کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ خدمت کے لئے مختلف سامانوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ کھانا پکوانے کی ضرورت ہوتی تھی۔ شروع شروع میں جب قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس مہمان آتے تھے سودا وغیرہ لانے کی ضرورت ہوتی تھی اور یہ ظاہر ہے کہ یہ کام صرف ہمارے خاندان کے افرادنہیں کر سکتے تھے۔ اکثر یہی ہوا کرتا تھا کہ جماعت کے افراد مل ملا کر وہ کام کر دیا کرتے تھے۔ اس وقت طریق یہ تھا لنگر خانے کا باقاعدہ انتظام تو نہیں تھا کہ اگر ایندھن آ جاتا اور وہ اندر ڈالنا ہوتا یعنی سٹور میں رکھنا ہوتا تو گھر کی خادمہ آواز دے دیتی کہ ایندھن آیا ہے کوئی آدمی ہے تو وہ آ جائے اور ایندھن اندر ڈال دے۔ آگ جلانے کے لئے جو سامان آیا ہے۔ پانچ سات آدمی جو حاضر ہوتے وہ آ جاتے اور ایندھن اندر ڈال دیتے۔ دو تین دفعہ ایسا ہوا کہ کام کے لئے باہر خادمہ نے آواز دی مگر کوئی آدمی نہ آیا۔ ایک دفعہ لنگر خانے کے لئے اوپلوں کا ایک گڈا آیا۔ (وہ جو جلانے کے لئے اوپلے استعمال کئے جاتے ہیں) بادل بھی آیا ہوا تھا۔ خادمہ نے آواز دی تا کوئی آدمی مل جائے تو وہ اوپلوں کو اندر رکھوا دے مگر اس کی آواز کی طرف کسی نے توجہ نہ کی۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول اُس وقت مسجد اقصیٰ سے قرآن کریم کا درس دے کر واپس تشریف لا رہے تھے۔ آپ اس وقت خلیفہ نہیں تھے مگر علمِ دینیات، تقویٰ اور طب کی وجہ سے آپ کو جماعت میں ایک خاص پوزیشن حاصل تھی اور لوگوں پر آپ کا بہت اثر تھا۔ آپ درس سے فارغ ہو کر گھر جا رہے تھے کہ خادمہ نے آواز دی اور کہا کہ کوئی آدمی ہے تو وہ آ جائے۔ بارش ہونے والی ہے ذرا اوپلے اٹھا کر اندر ڈال دے۔ لیکن کسی نے توجہ نہ کی۔ آپ نے جب دیکھا کہ خادمہ کی آواز کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی تو آپ نے فرمایا اچھا آج ہم ہی آدمی بن جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر آپ نے اوپلے اٹھائے اور اندر ڈالنے شروع کر دئیے۔ ظاہر ہے کہ جب شاگرد استاد کو اوپلے اٹھاتے دیکھے گا تو وہ بھی اس کے ساتھ ہی وہی کام شروع کر دے گا۔ چنانچہ اور لوگ بھی آپ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ کام کرنے لگے اور اوپلے اندر ڈال دئیے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں مجھے یاد ہے مَیں نے دو تین مختلف مواقع پر آپ کو ایسا کرتے دیکھا اور جب بھی آپ ایسے اٹھانے لگتے اَور لوگ بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جاتے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد29 صفحہ326-327)

(خطبہ جمعہ 13 نومبر 2015ء)

تعمیل حکم حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ میں جوتے
اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں

ایک مرتبہ آپ مطب میں بیٹھے تھے۔ ارد گرد لوگوں کا حلقہ تھا۔ ایک شخص نے آکر کہا کہ مولوی صاحب! حضور یاد فرماتے ہیں۔ یہ سنتے ہی اس طرح گھبراہٹ کے ساتھ اٹھے کہ پگڑی باندھتے جاتے تھے اور جوتا گھسیٹتے جاتے تھے۔ گویا دل میں یہ تھا کہ حضورؑ کے حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔ پھر جب منصب خلافت پر فائز ہوئے تو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ تم جانتے ہو نورالدین کا یہاں ایک معشوق ہوتاتھا جسے مرزا کہتے تھے۔ نورالدین اس کے پیچھے یوں دیوانہ وار پھرا کرتا تھا کہ اسے اپنے جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں ہوا کرتا تھا۔

(حیات نور صفحہ188)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی زندگی تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اور ان کو پڑھا جائے تو ایمان اور یقین میں اضافہ ہوتا ہے۔

اسی طرح مرزا سلام اللہ صاحب مستری، قطب الدین صاحب دہلوی کی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عید الاضحیہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے گھر سے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی کپڑے دھلے ہوئے ہیں؟ معلوم ہوا کہ صرف ایک پاجامہ ہے اور وہ بھی پھٹا ہوا۔ آپ نے اس میں آہستہ آہستہ ازار بند ڈالنا شروع کر دیا۔ قادیان کا واقعہ ہے۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب ان دنوں صدر انجمن کے سیکرٹری تھے۔ انہوں نے پیغام بھیجا کہ حضور نماز عید میں دیر ہو رہی ہے۔ لوگوں نے قربانیاں بھی دینی ہیں۔ اس لئے جلد تشریف لائیں۔ فرمایا۔ تھوڑی دیر تک آتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر آدمی آیا۔ حضور نے اسے پھرپہلے کا سا جواب دیا۔ اتنے میں ایک آدمی نے آ کر دروازہ پر دستک دی۔ آپ نے ملازم کو فرمایادیکھو باہر کون ہے؟ آنے والے نے کہا۔ مَیں وزیر آباد سے آیا ہوں۔ حضرت صاحب سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ حضور نے اسے اندر بلا لیا۔ عرض کی کہ حضور مَیں وزیر آباد کا باشندہ ہوں۔ حضور کے، امّاں جی کے اور بچوں کے لئے کپڑے لایا ہوں۔ چونکہ رات کو یکّہ نہیں مل سکا تھا، اس لئے بٹالہ ٹھہرا رہا۔ اب بھی پیدل (چل کر) آیا ہوں۔ (تو اللہ تعالیٰ نے فوراً وہاں انتظام فرمایا)۔

(ماخوذ ازحیات نور صفحہ 641 جدید ایڈیشن)

اللہ تعالیٰ حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ پر اپنی بےانتہاء رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور ہمیں آپ کی سیرت کے ان حسین پہلوؤں کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے والا بنادے آمین

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

میری پیاری سہیلی بشریٰ حمید

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اگست 2022