• 9 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 21)

قرآنی انبیاء
حضرت ذو الکفل (حزقیل) علیہ السلام
قسط 21

حزقیل کے معنے ہیں: ’’جسے خدا کی طرف سے طاقت ملی ہو‘‘ بہت صبر کرنے والا نبی جس نے بنی اسرائیل میں نمایاں تبدیلی پیدا کر دی تھی۔ قرآن کریم نے اس نبی کو ’’مِنَ الْأَخْيَارِ‘‘ یعنی بہترین لوگوں میں سے قرار دیا۔ حزقیل کو چار بڑے انبیاء میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ بعض علمائے بائبل کا خیال ہے کہ حزقیل اسرائیلی نبیوں میں سے آخری نبی تھے۔ اس کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے وہ درحقیقت بڑے بڑے علماء تھے۔

قرآن کریم میں ذکر

حضرت ذوالکفل علیہ السلام کاذکر نام لے کر قرآن کریم میں دو جگہ پر اور بغیر نام کے ایک جگہ پر آتاہے اللہ تعالی فرماتا ہے: وَاِسۡمٰعِیۡلَ وَاِدۡرِیۡسَ وَذَا الۡکِفۡلِ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۶﴾ وَاَدۡخَلۡنٰہُمۡ فِیۡ رَحۡمَتِنَا ؕ اِنَّہُمۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۸۷﴾ (الانبیاء: 86-87) جس میں اسمٰعیلؑ، ادریسؑ اور ذوالکفلؑ کا اکٹھا ذکر آتا ہے۔ دوسری جگہ پر اللہ تعالی فرماتا ہے: وَاذۡکُرۡ اِسۡمٰعِیۡلَ وَالۡیَسَعَ وَذَا الۡکِفۡلِ ؕ وَکُلٌّ مِّنَ الۡاَخۡیَارِ (صٓ: 49) اسماعیلؑ یسعیاہؑ اور ذوالکفلؑ کا اکٹھا ذکر آتا ہے۔ گویا دو سورتوں یعنی انبیاء اور ص میں ان کا ذکر آتا ہے ایک جگہ پر اسماعیلؑ اور ادریسؑ کے ساتھ اور دوسری جگہ پر اسماعیل اور یسعیاہؑ کے ساتھ۔

(تفسير كبير جلد 5 صفحہ 555)

بغیر نام لئے ان کاذکر قرآن کریم میں سورہ بقرہ میں ان الفاظ میں آتا ہے۔ اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ۚ فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ؕ قَالَ کَمۡ لَبِثۡتَ ؕ قَالَ لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانۡظُرۡ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمۡ یَتَسَنَّہۡ ۚ وَانۡظُرۡ اِلٰی حِمَارِکَ وَلِنَجۡعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانۡظُرۡ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَکۡسُوۡہَا لَحۡمًا ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ ۙ قَالَ اَعۡلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۶۰﴾ (البقرہ: 260) اس واقعہ کی مکمل تفصیل آگے آئے گی۔

ذو الکفل ہی حزقیل ہیں

حقیقت یہ ہے کہ ذوالکفل معرب ہے حزقیلؑ کا۔ یاء واؤسے بدلتی رہتی ہے او رواو فاء سے بدل جاتی ہے۔ پس حزقیل سے حزکفل اور اس سے ذوالکفل ہوجانا کوئی بعید بات نہیں۔ یہ بھی ہو سکتاہے کہ حزقیل کا عربی میں ترجمہ کرکے اسے ذوالکفل کہہ دیا گیا ہو۔ کیونکہ حزقیل کے معنے ہیں ’’جسے خدا کی طرف سے طاقت ملی ہو‘‘ اور کفل کے معنے بھی حصہ کے ہیں۔ پس ذوالکفل کے معنے ہیں جس کو بڑا حصہ ملا ہو۔پس ہو سکتاہے کہ عربوں نے حزقیل کانام سنکر اور عبرانی میں اس کے معنے سنکر اس کا ترجمہ ذوالکفل کر لیا ہو۔

(تفسير كبير جلد 5 صفحہ 555)

ذو الکفل کے حزقیل ہونے پر دو دلائل

یسعیاہؑ کے ساتھ اس کے نام کا آنا مزید ثبوت ہے کہ یہ نبی حزقیل ہی ہیں۔ حزقیل اور یسعیاہ کا خاص جوڑ تھا جو پیشگوئیاں یسعیاہ نے کی تھیں وہ حزقیل کے زمانہ میں پوری ہوئی تھیں اور یہودی مصنف یسعیاہ اور حزقیل کاباہم مقابلہ بھی کرتے ہیں۔

(تفسير كبير جلد 5 صفحہ 555)

اسی طرح حزقیل نبی کی قبر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ڈیر نمرود کے پاس کفلؔ جگہ پر یہ قبر بتائی جاتی ہے۔ اس جگہ کانام کفل ہونا صاف بتاتاہے کہ عربوں کی زبان میں حزقیل کانام ہی کفل تھا۔

(جیوش انسائکلو پیڈیا) (تفسير كبير جلد 5 صفحہ 558)

حضرت ذو الکفل علیہ السلام کی پیدائش و وفات

غالباً حضرت ذو الکفل علیہ السلام کی پیدائش 622قبل مسیح کی تھی اور 592قبل مسیح میں ان کا الہامی زمانہ شروع ہوتا ہے جب وہ قریباً تیس سال کے تھے اندازاً بائیس سال تک انہوں نے نبوت کی اور 570 قبل مسیح میں52 سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی۔حزقیل نے شادی بھی کی۔

(تفسير كبير جلد 5 صفحہ 556)

حزقیل کے متعلق یہودی لٹریچر میں لکھا ہے کہ وہ جوشوعا کی اولاد میں سے تھے۔ او ربعض کہتے ہیں کہ وہ یرمیاہ کےبیٹے تھے۔

(تفسير كبير جلد 5 صفحہ 557)

حزقیل نبی بائبل کے مورخوں کے نزدیک ساتویں صدی قبل مسیح کے آخر میں پیدا ہوئے اور قریباً 570سال قبل مسیح کے آخر تک زندہ رہے۔۔۔حزقیل جلا وطنی میں بابل کے پاس ہی فوت ہوئے اور ایک لمبے عرصہ تک ان کی قبر کی زیارت یہودی اور مسلمان کرتے رہے۔

(جیوش انسائیکلو پیڈیا)

(تفسير كبير جلد 5 صفحہ 558)

حضرت ذوالکفلؑ کا مقام و مرتبہ

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: ’’اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل (کا بھی ذکر کر۔ وہ) سب صبر کرنے والوں میں سے تھے اور ہم نے ان کو اپنی رحمت میں داخل کیا۔ یقیناً وہ نیک لوگوں میں سے تھے‘‘

(انبیاء:86-87)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ ان تینوں نبیوں کا ذکر کرکے فرماتا ہے کہ: كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِيْنَ، اور اس سے اشارہ کرتا ہے کہ حضرت ایوبؑ کے بعد ہم نے ان تینوں نبیوں کاذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ بھی صابر تھے اور ایوبؑ سے مصیبت برداشت کرنے میں مشابہت رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت اسماعیلؑ کو اپنے باپ اورملک کی جدائی اختیار کرنی پڑی اور ادریسؑ اور ذوالکفلؑ کبھی مختلف مصائب اور آفات میں سے گزرنا پڑا جیسا کہ ان کے حالات سے ظاہر ہے۔ (تفسير كبير جلد 5 صفحہ 560) اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور مقام پر فرمایا: ’’اور اسماعیل کو بھی یاد کر اور اَلْیَسَع کو اور ذوالکفل کو اور وہ سب بہترین لوگوں میں سے تھے۔‘‘ (ص: 49)

بائبل کے لٹریچر میں حزقیل کو چار بڑے انبیاء میں سے شمار کیا جاتا ہے۔۔ ۔ بعض ائمہ بائبل کا خیا ل ہے کہ حزقیل اسرائیلی نبیوں میں سے آخری نبی تھے۔ اس کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے وہ درحقیقت بڑے بڑے علماء تھے۔ یایوں کہہ لو کہ خالی مجددانہ رنگ رکھتے تھے۔ نبوت کا رنگ نہیں رکھتے تھے۔۔ ۔ حزقیل کو اس لحاظ سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ ان کے زمانہ کے بعدیہود نے قریباً قریباً ظاہری بت برستی چھوڑ دی جو اس سے پہلے زمانوں میں بار بار ان میں عود کر آتی تھی۔

(تفسير كبير جلد 5 صفحہ 556)

خاندان کا تعارف

بائبل کے لٹریچر میں حزقیل ایک مشہور مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی بتدائی عمر یروشلم کی عبادت گاہ میں صرف ہوئی تھی جہاں انہوں نے دینی تعلیم بھی حاصل کی۔ حزقیل ان لوگوں میں سے تھے جن کو بابل کابادشاہ قید کرکے یروشلم سے لے گیا تھا۔ انکی کتاب میں باربار ان کی قید کے زمانہ کا ذکر آتاہے گو وہ علماء کے لیڈر نہیں تھے مگر بوجہ ان کے بڑھتے ہوئے رسوخ کے بادشاہ نے ان کو اس قابل سمجھا کہ ان کو گرفتار کرکے یروشلم سے لے جائے۔

(تفسير كبير جلد 5 صفحہ 555)

حضرت ذوالکفلؑ کی انکساری

حزقیل اپنے آپ کو آدم زاد کہتے تھے (حزقیل باب 2 آیت 1)، (حزقیل باب 3 آیت 25)، (حزقیل باب 4 آیت 1)، (حزقیل باب 5 آیت 1)، (حزقیل باب 6آیت 2)۔ غرض کثرت کے ساتھ ان کو آدم زاد یا دوسرے لفظوں میں ابن آدم کہا گیا ہے بلکہ قریباً جہاں بھی خدا ان کو مخاطب کرتاہے آدم زاد کے لفظ سے مخاطب کرتاہے یہ ایک مشابہت ہے جوحزقیلؑ اور ادریسؑ اور مسیح میں ہے۔


حزقیل کچھ عرصہ تک خاموش بھی رہے اور انہوں نے کہا کہ میں خدا کے حکم سے خاموش رہا ہوں (حزقیل باب 3 آیت 26) اس میں ان کی زکریاؑ سے مشابہت معلوم ہوتی ہے۔

حزقیل کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبوکدنضر کے بہت مداح اور اسرائیل اور مصر اور ٹائر کے خلاف اس نے جو اقدام کئے تھے ان کو وہ جائز سمجھتے تھے اور ان لوگوں کی شرارتوں کا اسے نتیجہ سمجھتے تھے۔

حزقیل کی کتاب غالباً بائبل کی پہلی اور آخری کتاب ہے جس کا کچھ حصہ خود نبی نے لکھاہے۔ اسی کتاب کے کچھ حصے تو ان کے بیان کئے معلوم ہوتے ہی اور کچھ لکھے ہوئے ہیں۔

(انسائیکلو پیڈیا ببلیکا صفحہ1456تا 1458)

(تفسير كبير جلد5 صفحہ556)

مفسرین کا روایات کی بناء پر دعویٰ اور اس کا رد

اسلامی مفسرین نے ذوالکفل کے متعلق بہت سی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ دعویٰ کیاہے کہ وہ ایک غیر نبی شخص تھا جسے بعض کے نزدیک ایک نبی نے اور بعض کے نزدیک ایک بادشاہ نے اپناقائم مقام مقرر کیا جو دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو عبادت کرتا تھا۔ اور غصہ میں کبھی نہیں آتا تھا۔

ایک روایت عبد ا للہ بن عمر ؓ سے رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کرکے حدیثوں میں یہ آتی ہے جسے علاوہ اور کتابوں کے مسند احمد ؒ اور سنن ترمذی میں بھی بیان کیاگیا ہے کہ ذوالکفل ایک شخص تھا جس نے ایک عورت کو بدکاری پر مجبور کیا اور اسے کچھ رقم دی۔ عورت فاقوں کی وجہ سے مجبور تو ہوگئی لیکن رونے لگ گئی اس پر اسے خدا کا خوف آگیا۔ اور اس نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور خود بھی توبہ کرلی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث میں کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جن سے معلوم ہو کہ یہ وہی ذوالکفل ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں آتاہے بلکہ انہی حدیثوں میں اس کانام ذوالکفل بھی آتا ہے پس اگر یہ حدیثیں درست ہیں تو بالکل ممکن ہے کہ یہ روایت کسی اور شخص کے متعلق ہو۔ کیونکہ ہر عقلمند سمجھ سکتاہے کہ یہ واقعہ ایسا نہیں جس کے مر تکب کو انبیاء کے ساتھ گنا جائے۔ اور اسمٰعیلؑ اور ادریسؑ اور اسمٰعیل او ر یسعیاہ کے ساتھ اس کانام لیا جائے‘‘

(تفسير كبير جلد5 صفحہ555)

بائبل میں موجود حضرت حزقیل کی کتاب میں موجود تعلیمات کا خلاصہ

حزقیل کی کتاب میں کل 48 ابواب ہیں۔ شروع کے ابواب میں تعلیمات کا بیان ہے جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

1۔ حزقیل نبی اور اسی طرح یرمیاہ نبی یہ دونوں اس بات کی تائید میں تھے کہ بابلی حکومت کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ اس کی تائید کی جائے۔ اس وقت کے علماء نے یرمیا ہ نبی اور حزقیل دونوں کو ہی ملک کاغدار قرار دیا۔ حزقیل نے ان لوگوں کو غدار قرار دیا ہے جوبابلی حکومت کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔

2۔ حزقیل کا خیال تھا کہ وہ یہودی جو پکڑ کر بابل لائے گئے ان کے ذریعہ ایک نئی یہودی قوم جو اپنے مذہب پر قائم ہوگی کھڑی کی جائیگی۔ چنانچہ یہ پیشگوی پوری ہوئی اور اس کے بعد یہودیوں نے کبھی ظاہری شرک نہیں کیا۔ کچھ تو اس وجہ سے کہ جو سزا ان کوملی تھی اس سے سبق حاصل ہوگیا۔ اور کچھ اس وجہ سے کہ ا یک لمبے عرصہ تک بت پرست قوم میں رہنے کی وجہ سے ان پر بتوں کی حقیقت واضح ہوگئی۔ اس معاملہ میں حزقیلؑ کو مسیح ناصر ی اور مسیح محمدی سے مشابہت حاصل ہے۔

3۔ حزقیل بتاتے ہیں کہ کس طرح خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو بابل میں ظاہر کیا اور پھران کو نبوت کا کام سپرد کیاان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے ابتدائی دنوں میں حضرت زکریاؑ کی طرح انہیں خاموش رہنے کاحکم ملا تھا۔

4۔ حزقیل اپنی قوم کی دوبارہ نجات اور ترقی کی بھی خبر دیتے ہیں اور ایک لمبے عرصہ تک اس کے محفوظ رہنے کی پیشگوئی کرتے ہیں۔ حزقیل نے دوبارہ یروشلم کے معبد بنانے کے متعلق بھی پیشگوئی کی ہے۔ اور اس کے متعلق ہدایتیں دی ہیں۔ چنانچہ وہ تمام قوانین بیان کئے ہیں جن کے مطابق معبد بنایا جائے گا۔ اور جس کے مطابق کاہن کام کریں گے۔

5۔ انسان کے متعلق حزقیل کی یہی تعلیم ہے کہ وہ مقتدر ہے اور بد سے نیک اور نیک سے بد ہونےکی طاقت رکھتاہے۔ وہ اس کاطریقہ یہی بتاتاہے کہ انسان ارادہ کرے اورعزم کرلے۔ اور یہ کہ حزقیل توبہ کے ذریعہ سے دائمی زندگی کے قائل تھے۔ پھر وہ توبہ پر زیادہ زور دیتا ہے اور کہتا ہے: ’’سو توبہ کرو اور اپنی ساری بدکاریوں سے باز آؤ تاکہ بدکاری تمہاری ہلاکت کا باعث نہ ہو۔ سارے برے کام جنہیں کر کے تم گناہ گار ہوتے ہو آپ سے جدا کر کے پھینک دو اور اپنے لئے ایک نیادل اور نئی روح پیدا کرو‘‘

(حزقیل باب 18 آیت 30-31) (تفسير كبير جلد5 صفحہ556-557)

6۔ حزقیل کے متعلق لکھاہے کہ اس نے یسعیاہ سے زیادہ تفصیل کے ساتھ خدا کے تخت گاہ کاحال بیان کیا لیکن یہودی علماء کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ و ہ یسعیاہ سے بڑا تھا۔ اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ اس نے خدا کے تخت کو صرف ایک دفعہ دیکھا اس لئے زیادہ تفصیل سے یاد رکھا۔ یسعیاہ بار بار دیکھتا تھا اس لئے اس کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی تھی۔

7۔ حزقیل نبی کادعویٰ تھا کہ خداتعالیٰ کی رویت ان کو حاصل ہوئی۔ حزقیل زیادہ تر اپنی قوم کی تباہی کی خبریں دیتے ہیں۔ چنانچہ اپنی کتاب میں انہوں نے ایک رویا بیان کی ہے جس میں ایک کتاب انہیں دکھائی گئی اور انہیں کہا گیا کہ تم اس کو کھالو۔ اس کتاب پر لکھا تھا: ’’نوحہ، ماتم اور واویلا‘‘ اس میں اشارہ کیاگیا تھا کہ ان کی ساری زندگی ان الفاظ کے ماتحت گذرے گی۔

حزقیل کے زمانہ میں معلوم ہوتا ہے یہودیوں میں تہذیب بہت بڑھ گئی تھی اور وہ ایک مضبوط قوم بن گئے تھے گو سیاسی طور پر وہ کمزور ہوگئے تھے ان کی جتھہ بندی کی وجہ سے کوئی شخص ان کو حق نہیں سنا سکتا تھا۔ جو حق بات کہتا تھا سارے اس کے پیچھے پڑجاتے تھے۔

8۔ حزقیل سے کہا گیا کہ جو کچھ میں تجھے کہوں وہ لوگوں کو پہنچا۔ ورنہ تو ذمہ دار ہوگا۔ یہ وہی تعلیم ہے جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے کہ: یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ (المائدہ: 68) یعنی اے ہمارے رسول! لوگوں کو وہ ساری تعلیم پہنچا جو میں نے تجھ پر نازل کی ہے اور اگر تو ساری تعلیم نہیں پہنچا ئے گا تو یہ سمجھا جائے گا کہ تو نے کوئی حصہ بھی نہیں پہنچایا۔

9۔ حزقیل کو استرے سے اپنے سر اور داڑھی کے بال منڈوانے کاحکم دیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہودی داڑھی تو رکھتے تھے مگر اسے کوئی ضروری چیز نہیں سمجھا جاتا تھا۔

10۔ توحید کی مخالفت کی وجہ سے یہود تباہ کئے جائیں گے مگر تھوڑے سے لوگ بچائے جائیں گے۔

11۔ وہ پھر بنی اسرائیل کی تباہی کی خبر دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ خداتعالیٰ کی سچی جماعت جب بگڑتی ہے تو غیر قوموں کو اس پر مسلط کیاجاتا ہے اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ غیر قومیں خود بھی بری ہیں۔ وہ خواہ کتنی ہی بگڑی ہوئی ہوں سچی کتاب سے تعلق رکھنے والی جماعت پر انکو مسلط کردیاجاتا ہے تاکہ نبی کی جماعت توبہ کرے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرے۔

12۔ جو لوگ سچے دین سے تعلق رکھ کر بگڑتے ہیں ان کے حق میں شفاعت بھی قبول نہیں کی جاتی۔

13۔ وہ یہودیوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ الٰہی کلام پر تمسخر اڑاتے ہیں اور پیشگوئیوں کو فضول قرار دیتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ حزقیل کی پیشگوئیوں کو سچا کرکے یہودیوں کو جھوٹا کریگا۔

14۔ انکی تعلیم میں سے ایک بات تو قرآن کریم کی ایک آیت کے نہایت ہی مشابہ ہے۔ حزقیل نے فرمایا: ’’جن کی آنکھیں ہیں کہ دیکھیں پروہ نہیں دیکھتے او ر ان کے کان ہیں کہ سنیں پروہ نہیں سنتے کیونکہ وہ باغی خاندان ہیں‘‘۔ (حزقیل باب 12 آیت 2) قرآن کریم میں آتا ہے: وَلَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَلَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ (الاعراف: 180)۔ یعنی ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ سنیں گے نہیں۔وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں کیونکہ جانور تو پھر بھی کچھ سن لیتا ہے اور کچھ دیکھتا ہے۔ مگر یہ روحانی اندھے اور روحانی بہرے نہ کچھ دیکھتے ہیں اور نہ کچھ سنتے ہیں۔

15۔ وہ ان لوگوں کو ملامت کرتاہے جو کہ جھوٹے طورپر خدارسیدہ بنتے ہیں۔

16۔ وہ مصر کی نبوکد نضر کے مقابلہ میں ایک زبردست شکست کی خبر دیتا ہے مگر چالیس سال کے بعد وہ پھراس کے بحال ہونے کی بھی خبر دیتا ہے۔

اپنی کتاب کے باب 38 و 39میں وہ یاجوج ماجوج کی خبر دیتاہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح وہ دنیا پر چھا جائیں گے لیکن آخر اللہ تعالیٰ ان کی تباہی کے سامان کریگا۔ اورباب 40 سے آگے وہ یروشلم کے دوبارہ بنائے جانے کی تفصیلات بیان کرتا ہے۔

(تفسير كبير جلد5 صفحہ556 تا 560 خلاصۃ)

حضرت ذوالکفلؑ کی رؤیا اور اس کی تعبیر

قرآن کریم میں آتا ہے کہ:

اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ۚ فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ؕ قَالَ کَمۡ لَبِثۡتَ ؕ قَالَ لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانۡظُرۡ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمۡ یَتَسَنَّہۡ ۚ وَانۡظُرۡ اِلٰی حِمَارِکَ وَلِنَجۡعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانۡظُرۡ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَکۡسُوۡہَا لَحۡمًا ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ ۙ قَالَ اَعۡلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۶۰﴾

(البقرہ: 260)

ترجمہ: یا پھر اس شخص کی مثال (پرتُو نے غور کیا؟) جس کا ایک بستی سے گزر ہوا جبکہ وہ اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھی۔ اس نے کہا اللہ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ کرے گا۔ تو اللہ نے اس پر ایک سو سالہ موت (کی سی حالت) وارد کر دی۔ پھر اسے اٹھایا (اور) پوچھا تو کتنی مدت (اس حالت میں) رہا ہے؟ اس نے کہا میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہا ہوں۔ اُس نے کہا بلکہ تُو سو سال رہا ہے۔ پس تو اپنے کھانے اور اپنے مشروب کو دیکھ وہ گلے سڑے نہیں۔ اور اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھ۔ یہ (رؤیت) اس لئے ہے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشان بنا دیں۔ اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کس طرح ہم ان کو اٹھاتے ہیں اور انہیں گوشت پہنا دیتے ہیں۔ پس جب بات اس پر کھل گئی تو اس نے کہا میں جان گیا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:اس آیت کے بارے میں مفسّر ین کہتے ہیں کہ یہ عزیرنبی کا وا قعہ ہے۔ وہ ایک دفعہ ایک تبا ہ شدہ بستی کے پاس سے گزرے تو انہوں نے اس کی تبا ہی اور خستہ حا لی کو دیکھ کر کہا کہ خدا تعالیٰ اس بستی میں رہنے والوں کو ان کی موت کے بعد کس طرح زندہ کرے گا۔ اس پرخدا تعالیٰ نے انہیں مار ڈالا اور وہ سو سال تک اسی حالت میں مردہ پڑے رہے۔ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بستی کے لو گوں کو آ باد کر دیا اور انہیں زندہ کر کے دکھا دیا کہ خدا تعالیٰ کیسا قادر ہے اور وہ مردوں کو کس طرح زندہ کیا کر تا ہے۔ جب وہ سو سال کے بعد زندہ ہو کر اُٹھ بیٹھے تو خدا تعالیٰ نے انہیں کہا کہ اپنے کھا نے کو دیکھ کہ وہ بھی ابھی تک سڑا نہیں اورپھر اس نے ان کے گدھے کو بھی زندہ کر دیا اور اس کی گلی سڑی ہڈیوں پر گو شت پو ست چڑھا دیا۔

مفسرین کے بیان پر ہونے والے اعتراضات

میرے نز دیک اگر یہ وا قعہ اسی طرح ہوا ہو جس طرح مفسرین بیان کر تے ہیں تو خود اس آیت کے مختلف ٹکڑے اس بیان کو با طل قرار دیتے ہیں:

پہلی بات جو ان معنوں کو رد کر تی ہے وہ اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا کے الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس نبی کا سوال صرف بستی کے متعلق تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زندہ کریگا۔ یہ سوال نہیں تھا کہ مردے کس طرح زندہ ہونگے۔ اگر مردوں کے زندہ ہونے کا سوال ہوتا تو کیا ان کے سامنے روزانہ کئی لوگ مرتے نہیں تھے اور جب وہ روزانہ یہ نظارہ دیکھتے تھے کہ لوگ مر کر زندہ نہیں ہوتے تو اس دن ایک تباہ شدہ بستی کو دیکھ کر ان کے دل میں مردوں کے زندہ ہونے کے متعلق کیسے سوال پیدا ہو گیا۔ اور اگر ان کا سوال صرف بستی کے مردہ ہونے سے اس کا اجڑنا اور زندہ ہونے سے اس کا آباد ہونا ہی مراد ہواکرتا ہے۔ مردوں کے زندہ ہونے سے اس سوال کا کوئی تعلق نہیں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اَنّٰی سے مراد ’’کب تک‘‘ ہے یا ’’کیسے‘‘ ہے۔ اگر کسی سوال کرنے والے کے جواب میں ’’سو سال‘‘ کا لفظ بولا جائے تو اس کے یہی معنے ہونگے کہ سائل کا سوال ’’کب تک‘‘ کا ہے ’’کیسے‘‘ کا نہیں۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سائل تو یہ سوال کرے کہ یہ بستی کس طرح زندہ ہو گی اور جواب یہ دیا جائے کہ سو سال کے بعد زندہ ہو جائے گی۔ سو سال کے الفاظ صاف طور پر بتا رہے ہیں کہ سوال کب کے متعلق ہے نہ کہ کیفیت کے متعلق۔

3۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک مارے رکھا پھر زندہ کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا۔ اگر تو حضرت عزیرؑ کی یہ غرض تھی کہ وہ دیکھیں کہ مردے کس طرح زندہ ہوتے ہیں تو ان کو مار کر پھر زندہ کر دینے سے یہ غرض پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ کہ مردہ کس طرح زندہ ہو ا کرتا ہے۔

4۔ اور اگر ان کی دوبارہ حیات سے اللہ تعالیٰ کا منشاء پورا ہو گیا تھا تو پھر وَانۡظُرۡ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا پر یہ اعتراض پڑتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے صرف گدھے کو ہی مار کر اور پھر اسے زندہ کر کے انہیں اپنی قدرت کا نظارہ کیوں نہ دکھا دیا۔ خود انہیں سو سال تک کیوں مارے رکھا۔ آخر اپنی موت سے تو اس بات کا پتہ نہیں لگتا کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے۔ یہ تو دوسرے کو دیکھ کر ہی پتہ لگتاہے۔

5۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے انکے گدھے کو بھی مارنا تھا تو پھر ان کو مارنے کی کیا ضرورت تھی؟ اسی طرح سوال یہ ہے کہ انہوں نے کونسی بات پوچھی تھی جس کا جواب یہ دیا گیا کہ ’’فَانۡظُرۡ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمۡ یَتَسَنَّہۡ‘‘۔ ان کاسوال تو یہ تھا کہ بستی کس طرح زندہ ہو گی۔ مگر جواب یہ دیا گیا کہ تو اپنے کھانے اور پینے کے سامان کی طرف دیکھ کہ وہ سڑا نہیں۔

6۔ اول تو ’’هٰذِہٖ‘‘ کا لفظ بتلاتا ہے کہ اس جگہ لوگوں کے مرنے اور دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی سوال نہیں بلکہ صرف شہر کی آبادی اور اس کی دوبارہ حیات کا سوال تھا۔ دوسرے ’’مِائَةَ عَامٍ‘‘ میں بتلا دیا کہ ’’اَنّٰی‘‘ کے ساتھ ’’کب‘‘ کا سوال کیا گیا تھا نہ کہ ’’کیسے‘‘ کا۔ یعنی سوال کیفیت کے متعلق نہ تھا بلکہ زمانہ کے متعلق تھا۔

غرض مفسرین کے بیان کردہ واقعہ پر کئی اعتراضات پڑتے ہیں۔ پہلا اعتراض تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عزیر کو کیوں مارا۔ اگر وہ نبی تھا تو یہ اس کے سوال کا اچھا جواب دیا کہ اسے سو سال تک مارے رکھا۔ اس عرصہ میں اس کے بیوی بچے بھی مر گئے اور اسے ایک صدی کے بعد غیر لوگوں میں زندہ کر کے بٹھلا دیا۔ اس شخص کو مار کر زندہ کرنے کی غرض زیادہ سے زیادہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح مردوں کو زندہ کیا کرتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ پھر گدھے کو گوشت پوست چڑھانے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر یہ سنت اللہ کے بھی خلاف ہے کہ کسی مردہ کو زندہ کیا جائے اور پھر اگر خدا تعالیٰ نے انہیں سو سال تک مارے رکھا تو اس کے ثبوت میں یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ کھانا پینا تو الگ رہا دنیا ہی بدل چکی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تو سو سال تک واقعہ میں مرا رہا تھا۔ مگر اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

غرض ان تمام امور پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسرین نے اس واقعہ کو جس رنگ میں پیش کیا ہے وہ درست نہیں۔

اس واقعہ کے بارے میں یہود ی علماء کی رائے

عوام یہودیوں نے اس خواب کے یہ معنے لئے ہیں کہ حزقیل گویا مردے زندہ کرتے تھے۔ لیکن چوٹی کے علماء نے یہ تشریح کی ہے کہ درحقیقت یہ ایک خواب تھا۔ یہی غلط فہمی قرآن کریم کی اس آیت کے متعلق بھی ہوئی۔ عام طور پر لوگوں نے یہ خیال کرلیا کہ سورہ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت میں مردہ کے زندہ کرنے کا ذکر ہے۔ حالانکہ مردہ زندہ کرنے کا ذکر نہیں۔ ایک مردہ قوم کے زندہ ہونے کاذکر ہے۔۔ ۔ علماء یہود کے نزدیک حزقیل مردے زندہ کیا کرتے تھے اس کے متعلق بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ رؤیا تھی جس کو یہ شکل دے دی گئی ہے۔ اس بارہ میں بھی ا نہیں مسیح سے مشابہت تھی۔

(میمونیڈ یاکتاب موفانیبو کین باب2 آیت 46، جیوش انسائیکلوپیڈیا صفحہ315 کالم 2)

(تفسير كبير جلد05 صفحہ557)

واقعہ کی حقیقت

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اب میں اس واقعہ کی وہ حقیقت بیان کرتا ہوں جو میرے نزدیک درست ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو اس شخص کی طرف دیکھ جو ایک بستی یا گاؤں پر سے ایسی حالت میں کہ وہ اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا گذرا اور اس نے سوال کیا کہ الٰہی! یہ بستی اپنی ویرانی کے بعد کب آباد ہو گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک مارے رکھا (یعنی خواب میں) اور پھر اسے اٹھایا۔ اور اس سے پوچھا کہ تو کتنی دیر تک رہا ہے۔ اس نے کہا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بات تو درست ہے لیکن اس کے علاوہ ہم تجھے ایک اور بات بھی بتاتے ہیں کہ تو سو سال تک بھی رہا ہے۔ تیری بات کے سچا ہونے کا تو ثبوت یہ ہے کہ تو اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ وہ سڑا نہیں۔ لیکن میری بات کے سچا ہونے کا ثبوت یہ کہ ہم نے تجھے کشفی حالت میں سو سال کا نظارہ دکھایا ہے اور جب یہ رؤیا پورا ہو گا اس وقت لوگوں کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ تیرا خدا کے ساتھ سچا تعلق تھا۔ جب اس پر یہ حقیقت روشن ہو گئی تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اوراس کے آگے یہ کچھ بھی مشکل نہیں کہ وہ ایسی اجڑی ہوئی بستی کو اپنے فضل سے پھر دوبارہ آباد کر دے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس بستی سے یروشلم مراد لیا کرتے تھے۔ جسے بخت نصر نے تباہ کر دیا تھا اور فرمایا کرتے تھے کہ وہ آدمی جویروشلم کے پاس سے گزرا حزقیل نبی تھا۔ جس پر خدا تعالیٰ نے اس بات کا انکشاف کیا کہ ایک سو سال تک یہ شہر دوبارہ آباد ہو جائےگا۔

یہاں اس بستی کے متعلق خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ گاؤں اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھا۔ یعنی پہلے چھتیں گریں اور پھر ان پر دیواریں گر گئیں۔ کیونکہ جو مکان عدم استعمال کی وجہ سے گریں بالعموم پہلے ان کی چھتیں گرتی ہیں۔ کیونکہ چھتوں میں لکڑی ہوتی ہے اور لکڑی کو دیمک لگ جاتی ہے جب چھتیں گر جاتی ہیں تو پھر بارش کی وجہ سے ننگی دیواریں بھی گرنے لگتی ہیں اور اس صورت میں وہ دیواریں چھتوں پر آ گرتی ہیں۔ اسی حالت کو واضح کرنے کے لئے خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں۔

ورنہ جو مکان زلزلہ وغیرہ کی قسم کے حادثات سے گرتے ہیں۔ انکی دیواریں پہلے گرتی ہیں اور چھت ان پر آگرتی ہے۔ ان الفاظ میں ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف کیا گیا ہے کہ اس گاوں کی ویرانی کا سبب زلزلہ وغیرہ نہ تھا۔ بلکہ اس کے باشندوں کا شہر چھوڑ کر چلا جانا اسکا موجب تھا۔

بہر حال حزقیل نبی کے دل میں یروشلم کی بربادی دیکھ کر یہ سوال پیداہوا کہ خدا تعالیٰ اس بستی کو کب زندہ کرے گا۔ بستی کو زندہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ مردہ لوگ کس طرح زندہ ہونگے۔ بلکہ اس کا مطلب وہی ہے جو دوسری جگہ بستیوں کو زندہ کرنے کے متعلق قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ فرما تا ہے: وَہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ۚ وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَہُوۡرًا ﴿ۙ۴۹﴾ لِّنُحۡیِۦَ بِہٖ بَلۡدَۃً مَّیۡتًا وَّنُسۡقِیَہٗ مِمَّا خَلَقۡنَاۤ اَنۡعَامًا وَّاَنَاسِیَّ کَثِیۡرًا ﴿۵۰﴾ (فرقان: 49-50) یعنی ہم نے بادل سے پاک و صاف پانی اتارا ہے۔ تاکہ اس کے ذریعہ ہم مردہ ملک کو زندہ کریں اور اسی طرح اس پانی سے اپنے پیدا کیے ہوئے چارپائیوں اور بہت سے انسانوں کو سیراب کریں۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے: وَاَحۡیَیۡنَا بِہٖ بَلۡدَۃً مَّیۡتًا (ق: 12) ہم بارش کے ذریعہ مردہ شہر کو زندہ کیا کرتے ہیں۔ پس مردہ شہر کو زندہ کرنے کے معنی ویران شہر کو آباد اور خوشحال کرنے کے ہوتے ہیں۔

حضرت حزقیلؑ نے بھی یہی سوال کیا کہ الٰہی یہ شہر کب آباد ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں رؤیا میں بتایا کہ سو سال کے عرصہ میں آباد ہو جائے گا۔ یہ رؤیا جس کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے حزقیل بنی کی کتاب میں بھی پائی جاتی ہے صرف اتنا فرق ہے کہ حزقیل نبی کی کتاب میں سو سال کی میعاد کا ذکر نہیں۔ یہ قرآن کریم کی صداقت اور اس کے کامل ہونے کا ایک زبردست ثبوت ہے کہ جو ضروری امور پچھلی کتب میں بیان نہیں ہوئے قرآن کریم نے انکو بھی بیان کر دیا ہے اور اس طرح ان کی کمی کو پورا کر دیا ہے۔

بہر حال حزقیل باب 37 میں لکھا ہے: خدا وند کا ہاتھ مجھ پر تھا اور اس نے مجھے خداوند کی روح میں اٹھا لیا۔ اوراس وادی میں جو ہڈیوں سے بھر پور تھی مجھے اتار دیا اور مجھے ان کے آس پاس چو گرد پھرا یا اور دیکھ وے وادی کے میدان میں بہت تھیں اور دیکھ وے نہایت سوکھی تھیں۔ اور اس نے مجھے کہا کہ اے آدم زاد کیا یہ ہڈیاں جی سکتی ہیں۔ میں نے جواب میں کہا کہ اے خدا وند یہوداہ۔تو ہی جانتا ہے۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ تو ان ہڈیوں کے اوپر نبوت کر اور ان سے کہہ، کہ اسے سوکھی ہڈیو! تم خدا وند کا کلام سنو۔ خداوند یہودا ہ ان ہڈیوں کو یوں فرماتا ہے کہ دیکھ میں تمہارے اندر میں روح داخل کروں گا اور تم جیو گے۔ اور تم پر نسیں بٹھا لاؤں گا اور گوشت چڑھاؤں گا اور تمہیں چمڑے سے مڑھوں گا اور تم میں روح ڈالوں گا اور تم جیو گےاور جانو گے کہ میں خداوند ہوں۔سو میں نے حکم کے بموجب نبوت کی اور جب میں نبوت کرتا تھاتو ایک شور ہوا اور دیکھ ایک جنبش اورہڈیاں آپس میں مل گئیں۔ ہر ایک ہڈی اپنی ہڈی سے اور جو میں نے نگاہ کی تو دیکھ نسیں اور گوشت ان پرچڑھ آئے اور چمڑے کی ان پر پوشش ہو گئی۔ پر ان میں روح نہ تھی۔ تب اس نے مجھے کہا کہ نبوت کر۔تو ہوا سے نبوت کر۔ اے آدم زاد! اور ہوا سے کہہ کہ خداوند یہوداہ یوں کہتا ہے کہ اے سانس! تو چاروں ہواؤں میں سے آ اور ان مقتولوں پر پھونک کہ وے جئییں۔ سو میں نے حکم کے بموجب نبوت کی اور ان میں روح آئی اور وے جی اٹھے اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے۔ ایک نہایت بڑا لشکر۔ تب اس نے مجھ سے کہا کہ اے آدم زاد! یہ ہڈیاں سارے اسرائیل ہیں۔ دیکھ یہ کہتے ہیں کہ ہماری ہڈیاں سوکھ گئیں اور ہماری امید جاتی رہی۔ ہم تو بالکل فنا ہو گئے۔ اس لئے تو نبوت کر اور ان سے کہہ کہ خداوند یہودا ہ یو ں کہتا ہے کہ دیکھ اے’ میرے لوگو! میں تمہاری قبروں کو کھولوں گا۔ اور تمہیں تمہاری قبروں سے باہر نکالوں گا اور اسرائیل کی سر زمین میں لاؤں گااور میرے لوگ جب میں تمہاری قبروں کو کھولوں گا۔ اور تم کو تمہاری قبروں سے باہر نکالوں گا تب جانوگے کہ خدا وند میں ہوں اور میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا اور تم جیئو گے اور میں تم کو تمہاری سر زمین میں بساؤں گا۔ تب تم جانو گے کہ مجھے خداوند نے کہااور پورا کیا۔ (حزقیل باب37)

یہ پیشگوئی ہے جو حزقیل نبی نے کی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو اس وقت بابل میں قید تھے۔ وہ اس بستی کے پاس سے کب گزرے۔ سو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ہو سکتا ہے یہ گزرنا بھی خواب میں ہی ہو۔ جیسا کہ بائیبل کے الفاظ سے ظاہر ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ نبوکد نضر جو بابل کا بادشاہ تھا اس نے 586 قبل مسیح یروشلم پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا تھا۔ اور اس کا ایک حصہ گرا دیا تھا۔ وہ وہاں کے بادشاہ اور اس کے خاندان کے تمام افراد کو پکڑ کر اپنے ملک میں لے گیا۔ اسی طرح شہر کے تمام شرفاء اور بڑے بڑے کا ریگروں کو بھی قید کر کے لے گیا۔ اور سوائے چند رذیل لوگوں کے وہاں کوئی باقی نہ رہا۔ حضرت حزقیلؑ بھی ان قیدیوں میں ہی تھے جنہیں نبوکدنضر نے گرفتا کیا۔

ان کے متعلق بحث ہوئی ہے کہ انہیں اس نے کیوں پکڑا اور مؤرخین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ چونکہ وہ لوگوں کو ترغیب دیتے تھے کہ نبوکدنضر کا مقابلہ کرو اور اپنے ملک کو نہ چھوڑو اس لئے وہ ان کو بھی قیدکر کے لے گیا۔ پرانی تاریخوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ جن شہروں کو گراتے اورویران کرتے تھے وہاں کے قیدیوں کو وہ ان کے اوپر سے گزارتے تھے تاکہ انہیں اپنی زلت اور بیچارگی کا احساس ہو۔

میرے نزدیک جب وہ پکڑے گئے اور یروشلم کے اوپر سے گزارے گئے اس وقت انہوں نے اس کے متعلق خدا تعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ خدایا یہ کیا ہو گیا ہے۔ شہر گرا دیا گیا ہے۔ سب بڑے بڑے لوگ قید کر کے لے جائے جا رہے ہیں۔ ایسی خطرناک تباہی کے بعد اب یہ شہر دوبارہ کب آباد ہو گا؟

وَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَاے الفاظ بھی اسی امر پر دلالت کرتے ہیں کہ یروشلم کے تباہ ہوتے ہی ان کے دل میں خیال پیدا ہواجب کہ گری ہوئی چھتیں انہیں نظر آ رہی تھیں۔ ورنہ بعد میں تو لوگ سا مان اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اس وقت ان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ الٰہی یہ شہر دوبارہ کب آباد ہو گا۔ ہم تو سب قید ہو کر جا رہے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسکو سو سال کی موت کا نظارہ دکھایا۔ یعنی کشفی رنگ میں انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ فوت ہو گئے ہیں اور سو سال کے بعد پھر زندہ ہوئے ہیں۔ اور خوا بوں میں ایسا ہونا کو ئی تعجب انگیز امر نہیں۔ انسان خواب میں مر تا بھی ہے اور مختلف قسم کے نظارے بھی دیکھتا ہے۔ حضرت حزقیل چونکہ اپنی قوم کے نبی تھے۔ اس لئے ان پر کشفی رنگ میں موت کی کیفیت وارد کر نے سے مراد درحقیقت بنی اسرائیل کی موت تھی اور اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے انہیں یہ بتانا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل سو سال تک غلامی اور ادبار کی حالت میں رہیں گے اس کے بعد انکو ایک نئی زندگی عطا کی جا ئیگی اور وہ اپنے شہر میں وا پس آ جا ئینگے۔

اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ اس جگہ رؤیا کا کوئی لفظ نہیں۔ مگر قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ وہ بعض دفعہ رؤیا کا تو ذکر کرتا ہے مگر رؤیا کا لفظ استعمال نہیں کرتا۔ چنانچہ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد حضرت یعقوبؑ کو جب بتا یا کہ میں نے دیکھا ہے کہ چاند اور سورج وغیرہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں تو انہوں نے رؤیا کا لفظ استعمال نہیں کیا۔پس یہ ضروری نہیں ہوتا کہ خواب کے ذکر میں خواب کا لفظ بھی استعمال کیا جائے۔

جب وہ یہ نظارہ دیکھ چکے تو ان کو اٹھایا گیا۔ یعنی ان کی کشفی حالت جاتی رہی اور خدا تعالیٰ نے ان سے پو چھا کہ: كَمْ لَبِثْتَ بتا تو کتنے عرصہ تک اس حالت میں رہا انہوں نے عر ض کیا: لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ۔ میں تو صرف ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہا ہوں۔ محا ورہ میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اچھی طرح معلوم نہیں۔ چنانچہ یہ محاورہ قرآن کریم میں بعض دوسرے مقامات پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ فرماتا ہے: قٰلَ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ عَدَدَ سِنِیۡنَ ﴿۱۱۳﴾ قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ فَسۡـَٔلِ الۡعَآدِّیۡنَ﴿۱۱۴﴾ (مومنون: 113-114) یعنی اللہ تعالیٰ کفار سے فرمائے گا کہ تم زمین میں کتنے سال رہے ہو۔ وہ کہیں گے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے ہیں۔ تو گننے والوں سے پو چھ لے یعنی ہم بہت تھوڑا عرصہ رہے ہیں یا ہمیں معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ کہ کتنا عرصہ رہے۔ حضرت حزقیلؑ کا یہ جواب ادب کے طور پر تھا۔ کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کا اس سوال سے کیا منشاء ہے۔ یعنی بات تو ظاہر ہے کچھ دیر ہی سو یا ہوں۔

’’قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ‘‘ اللہ تعالیٰ نے فر ما یا کہ اس بات کے علاوہ جو تیرے دل میں ہے ہم ایک اور بات بھی بتاتے ہیں اور وہ یہ کہ تو سو سال تک رہا ہے۔ یہاں بَلْ میں پہلے قول کی نفی نہیں کی گئی۔ بلکہ ایک اور بات بیان کی گئی ہے۔۔۔ اس آیت میں بَلْ کے لفظ سے حضرت حزقیلؑ کے اس خیال کی کہ وہ دن یا دن کا کچھ حصہ اس حالت میں رہے تر دید مد نظر نہیں بلکہ اس کے علاوہ ایک اور مضمون کی طرف ان کے ذہن کا انتقال کیا ہے اور بتا یا ہے کہ ایک نقطہ نگاہ سے دیکھو تو تم نے سو سال اس حالت میں گزارے ہیں۔ مگر چونکہ نبی کا قول بھی اپنی جگہ درست تھا اس لئے اس خیال سے کہ نبی خدا تعالیٰ کے قول کو مقدم رکھ کر اپنے خیال کو غلط نہ قرار دیدے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی فرما دیا کہ ہم تمہارے خیال کو رد نہیں کرتے۔ وہ بھی درست ہے۔ چنانچہ دیکھو تمہارا کھانا اچھی حالت میں ہے سڑا نہیں اور تمہارا گدھا بھی تندرست اپنی جگہ پر کھڑا ہے جس سے ثابت ہوا کہ تمہارا خیال بھی کہ تم صرف چند گھنٹے اس حالت میں رہے ہو اپنی جگہ درست ہے۔ ورنہ جو سو سال تک واقعہ میں مرا رہا ہو اسے یہ نہیں کہا جاتا کہ اپنا کھانا دیکھ وہ سڑانہیں۔

اور پھر فرمایا کہ یہ رؤیا ہم نے اس لیے دکھائی تاکہ ہم تجھے لوگوں کیلئے ایک نشان بنائیں اب تو ان مردہ ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم ان کو کس طرح کھڑا کرتے ہیں اور ان پر گوشت پوست چڑھاتے ہیں۔

اس کشف اور الہام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خوشخبری دی کہ ایک سو سال تک یہ شہرآباد ہو جائیگا۔ چنانچہ ٹھیک سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس شہر کی ترقی اور آبادی کی صورت پیدا کر دی۔ یروشلم کی تباہی دو دفعہ ہوئی ہے ایک دفعہ 597 قبل مسیح میں اور دوسری دفعہ یروشلم کی بغاوت پر 586 قبل مسیح میں یر و شلم کی دوبارہ بنیاد رکھی گئی اور تیس سال تک تعمیر جاری رہی جس کے نتیجہ میں 489 قبل مسیح میں یر وشلم صحیح طور پر آباد ہوا۔ پس درمیانی فا صلہ قر یباً سو سال (98سال) کا ہی ثا بت ہوتا ہے۔

وَانۡظُرۡ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَکۡسُوۡہَا لَحۡمًا کے الفاظ یہود کے اس قول کے مطابق استعمال کئے گئے ہیں جس کا حزقیل نبی کی کتاب میں بھی ذکر آ تا ہے کہ ’’ہماری ہڈیاں سو کھ گئیں اور ہماری امید جا تی رہی۔ ہم تو بالکل فنا ہو گئے‘‘۔ (حزقیل باب 37 آ یت 11) اللہ تعالیٰ نے انکو بتایا کہ تم ایک بار پھر زندہ ہو گے اور پھر اپنی کھوئی ہوئی طاقت اور عظمت حاصل کرو گے۔

غرض اس واقعہ کے متعلق با ئبل سے رؤیا بھی مل گیا۔ بنی اسرا ئیل کی ہڈیوں پر گو شت کا چڑھا یا جانا بھی ثابت ہو گیا۔ اسی طرح حزقیل نبی کو پکڑ کر لے جا نا بھی ثابت ہو گیا۔ حز قیل نبی کوپہلے تو صدمہ ہوا کہ یہ کیا ہو گیا ہے مگر جب اللہ تعالیٰ نے انکو بتا یا کہ یہ ہمیشہ کی تبا ہی نہیں تو انہوں نے کہا: اَعۡلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ خدا یا اب میری تسلّی ہو گئی ہے۔ اور گو بظاہر ان حالات کا بدلنا نا ممکن نظر آ تا ہے مگر یہ بات یقیناً ہو کر رہے گی۔ اور خدا تعالیٰ دوبارہ اس شہر اور قوم کو تر قی عطا فرمائے گا۔

(تفسير كبير جلد2 صفحہ594-600 مختصرًا)

(مرزا خلیل احمد بیگ۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

میری پیاری سہیلی بشریٰ حمید

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اگست 2022