• 3 مئی, 2024

عشق و مشک را نتواں نہفتن

عشق و مشک را نتواں نہفتن
ہمارے اندر سے آنحضرت ﷺ سے محبت کی خوشبوئیں پھوٹنی چاہئیں

یہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس بے عیب کائنات میں انسان بعض چیزوں کو روکنے اور محدود کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، ان میں ہوا، بارش اور بادل کا چلنا وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ خوشبو اور محبت کو بھی اگر ہم چھپانا چاہیں تو چھپا نہیں سکتے۔ سچ کہا ہے کسی نے ’’عشق و مُشک را نتواں نہفتن‘‘ کہ عشق (محبت) اور مُشک (خوشبو) چھپائے نہیں چھپتے۔

مادی دنیا میں اگر کسی کو کسی سےعشق یا محبت ہو جائے تو خواہ وہ دونوں فریق اِسے ظاہر نہ بھی کریں تو محبت ان کی اداؤں، ان کے عملوں، ان کی باتوں اور ان کی حرکات و سکنات سے ظاہر ہو ہی جاتی ہے۔ یہی کیفیت مُشک یعنی خوشبو کی ہے۔

کسی شاعر نے خوشبو کو محدود نہ کر سکنے کے حوالے سے اس شعر میں ایک اور طرح کا مضمون باندھا ہے:؎

ہم تو خوشبو ہیں ہمارا راستہ روکے گا کون
کس بلندی تک یہ دیواریں اٹھا لے جائے گا

میں نے کسی عزیز کے فون کے status میں پڑھا تھا کہ اگر خوشبودار پھولوں سے ہوا کا گزر ہو جائےتو ہوا بھی خوشبودار ہوجاتی ہےجو سارے ماحول کو مُعطر کر دیتی ہے۔

یہی کیفیت بلکہ اس سے بڑھ کر ہمیں روحانی دنیا میں نظر آتی ہےاور آنی بھی چاہیے۔ مذہبی دنیا میں اگر محبت کو لیں تو سب سے پہلے اپنے پروردگار اور خالق حقیقی سے اس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے۔ جو عبادات، نوافل اور ذکر الٰہی نیز شکر الٰہی کے دلی جذبات سے ظاہر ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پر ہمارے پیارے آقاسیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے عمل اور اپنی حرکات اور اپنی زندگی میں ڈھالنے سے بھی ہونا چاہئے۔ اس سچی محبت کا تقاضا ہے کہ جو کام ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے وہی کام ہم کریں۔ اللہ اور اس کی مخلوق سے ایسا ہی پیار کریں جیسا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔

صحابہ رضی اللہ عنہم کا اپنے آقا و مولیٰ سے پیار مثالی تھا۔ وہ جس جگہ سے گزرتے۔ صحابہؓ بھی وہاں سے گزرنا باعث ثواب وبرکت سمجھتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک سفر کے دوران ایسے درخت کے قریب سے گزرے جہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر قضائے حاجت کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی قافلہ سے الگ ہو کر اس درخت کے نیچے اسی طریق پر بیٹھ گئے جس طرح پیارے آقاؐ بیٹھے تھے حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کواس وقت حاجت محسوس نہ ہو رہی تھی۔

کسی نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے:؎

ہر راہ کو دیکھا ہے محبت کی نظر سے
شاید کہ وہ گزرے ہوں اسی راہ گزر سے

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں مومنوں کو اپنے والدین اور بچوں سے زیادہ آنحضرت ﷺ سے پیار کی نصیحت فرمائی ہے۔ فرمایا:

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ

(آل عمران: 32)

کہ اے محمدﷺ ! تو مومنوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کے دعویدار ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تم سے محبت کرے گا۔

یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی منزل آنحضور ﷺ سے محبت کے راستے سے ہوکر گزرتی ہے۔

ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم وضو والا پانی اپنے ہاتھوں اور چہروں پر مل رہے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ پوچھی توصحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ اللہ اور اس کی محبت کی وجہ سے۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول سے واقعی محبت کرتے ہواور چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کا رسول بھی تم سے محبت کرے تو تمہیں چاہیے کہ:

ہمیشہ سچ بولو

امانت میں خیانت نہ کرو اور

اپنے پڑوسی سے ہمیشہ حسن سلوک کرو۔

(مشکوٰۃ، باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق)

اس مضمون کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ اور ایک روایت میں اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ کے الفاظ میں بھی بیان فرمایا ہے یعنی آدمی اس کے ساتھ ہوتا ہےجس سے آپ محبت کرتے ہیں۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت داؤد علیہ السلام کی حصولِ محبتِ الٰہی کی یہ دعا صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلائی یہ دعا آپؐ خود بھی پڑھا کرتے تھے:

اَللّٰهُمَّ اِنِّىْٓ اَسْئَلُكَ حُبَّكَ وَ حُبَّ مَنْ يُّحِبُّكَ وَ عَمَلَ الَّذِيْ يُبَلِّغُنِىْ حُبَّكَ۔ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ اَحَبَّ اِلَيَّ مِنْ نَّفْسِىْ وَ مَالِىْ وَ اَهْلِىْ وَ مِنَ الْمَآءِ الْبَارِدِ۔

(ترمذی، کتاب الدعوات)

اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے اللہ! اپنی محبت میرے دل میں اتنی ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو۔

پس ہر مومن کے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے سے محبتِ الٰہی اور حُبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہونی چاہیے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی تقاریر و خطبات میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے کہ اوصاف اور خصوصیات کی وجہ سے چھوٹا محمد بننے کی کوشش کریں بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اندر اُتارنے کی کوشش کریں۔

جہاں تک خوشبو کا تعلق ہے تو اس کا بھی اوپر بیان کئے گئے مضمون سے بہت گہرا تعلق ہے۔ روحانی خوشبو سے یہی مراد ہے کہ ہمارے اعمال ایسے حسین اور خوبصورت ہوں کہ ہماری نسلیں ان کو دیکھ کر اس خوشبو کو اپنے اندر بسائیں اور جس طرح ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا جاتا ہے اسی طرح ایک مومن، دوسرے مومن کو اپنے نیک اعمال سے خوشبو دار اور رنگین کرتا چلا جائے۔

کہتے ہیں کہ گلاب کے پھولوں کی پتیاں زمین پر گرنے سے زمین کا وہ حصہ بھی خوشبو دار ہو جاتا ہے۔اور اس سے بھی گلاب کی بھینی بھینی خوشبو آنے لگتی ہے۔ اسی طرح ایک مومن کے کسی جگہ قیام کرنے اورصحبتِ صالحین کی وجہ سے پیدا ہونے والے نیک نمونے کی برکت سے وہ علاقہ اسلامی تعلیمات کی خوشبو سے مہکنے لگتا ہے۔اسی طرح کی مثال حدیثوں میں بھی ملتی ہے کہ عطرفروش کے پاس بیٹھنے سے خوشبو آئے گی اور آگ کا کام کرنے والے لوہار کے پاس سےدھواں اور بدبو ملے گی، لا محالہ ہمیں وہاں ہی بیٹھنا چاہئے جہاں سے ہمیں خوشبو ملے یعنی اللہ کے ذکر کی محفلیں۔

قارئین روزنامہ الفضل آن لائن لندن کی ایک بڑی تعداد اپنے مرحوم بزرگوں کی سیرت و سوانح پر مضامین تحریر کر کے الفضل میں بغرض اشاعت بھجوا رہی ہے۔ انہیں پڑھ کر یہ پوری تسلی سے کہا جا سکتا ہے کہ یاد رفتگان پر مشتمل ان مضامین میں بزرگان کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے مہکنے والی وہ پیاری خوشبوئیں ہوتی ہیں جووہ اپنی نسلوں میں چھوڑ گئے۔ کوئی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کی خاطر احمدی گھروں کا تربیتی دورہ کرنے پر مامور تھا۔ کوئی اپنے گھر میں نماز سنٹر بنا کر نماز باجماعت کی خوشبوئیں بکھیرتا ہوا اس دنیا سے روانہ ہوا۔ کوئی درس و تدریس ِ علوم ِ قرآن، دعوت الی اللہ اور تعلیم و تربیت کے فرائض ادا کرتا ہوا اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اور کوئی اپنے خاندانی باغیچے کو اسلامی، دینی اور جماعتی چمن بنا کر خوشبوئیں منتقل کر کے اس دنیا کو خیرباد کہہ گیا۔ ہم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہر دوسرے خطبہ جمعہ میں مرحومین کا ذکر خیراور سیرت کے خوشنما مہکتے واقعات سنتے ہیں اور ان سے ہم قسم ہا قسم کی خوشبوؤں سے فیض حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ خلافت کا یہ کتنا عمدہ فیضان ہے کہ ہمیں یہ آگہی ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلفاء کرام، صحابہؓ اور نیک بزرگوں کے اعمال کی خوشبوؤں کو اپنے اندر اُتارنے اور بسانے کی توفیق دے۔ اور ہم سنتِ رسول اور احادیث نبوی ﷺ پر اتنا عمل کریں کہ ہمارے اندر سے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک حسین اعمال کی خوشبوئیں پھوٹنے لگیں اور ہمارا ماحول ان خوشبوؤں سے معطر ہو کر مالامال ہوجائے۔ آمین۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں تجلی کرتا ہے تو پھر وہ پوشیدہ نہیں رہتا۔ عاشق اپنے عشق کو خواہ کیسے ہی پوشیدہ کرے مگر بھید پانے والے اور تاڑنے والے قرائن اور آثار اور حالات سے پہچان ہی جاتے ہیں۔ عاشق پر وحشت کی حالت نازل ہو جاتی ہے۔ اُداسی اس کے سارے وجود پر چھا جاتی ہے۔ الگ قسم کے خیالات اور حالات اس کے ظاہر ہو جاتے ہیں۔ وہ اگر ہزاروں پردوں میں چھُپے اور اپنے آپ کو چھُپا لے مگر چھُپا نہیں رہتا۔ سچ کہا ہے :؎

عشق و مشک را نتواں نہفتن

جن لوگوں کو محبت الٰہی ہوتی ہے وہ اس محبت کو چھپاتے ہیں جس سے اُن کے دل لبریز ہوتے ہیں بلکہ اس کے افشاء پر وہ شرمندہ ہوتے ہیں کیونکہ محبت اورعشق ایک راز ہے جو خدا اور اس کے بندے کے درمیان ہوتا ہے اور ہمیشہ راز کا فاش ہونا شرمندگی کا موجب ہوتا ہے۔ کوئی رُسول نہیں آیا جس کا راز خدا تعالیٰ سے نہیں ہوتا۔اسی راز کے چھپانے کی خواہش اس کے اندر ہوتی ہے مگر معشوق خود اس کو فاش کرنے پر جبر کرتا ہے اور جس بات کو وہ نہیں چاہتے وہی اُن کو ملتی ہے جو چاہتے ہیں ان کو ملتا نہیں اور جو نہیں چاہتے ان کو جبراً ملتا ہے۔

جب تک انسان ادنیٰ حالت میں ہوتا ہے اس کے خیالات بھی ادنیٰ ہی ہوتے ہیں اور جس قدر معرفت میں گِرا ہوا ہوتا ہے اِسی قدر محبت میں کمی ہوتی ہے۔ معرفت سے حسن ظن پیدا ہوتا ہے۔ ہر شخص میں محبت اپنے ظن کی نسبت سے ہوتی ہے۔ اَنَاعِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ سے یہی تعلیم ملتی ہے۔ صادق عاشق جو ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ پر حسنِ ظن رکھتا ہے کہ وہ اس کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔ خدا تعالیٰ تو وفاداری کرنا پسند کرتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان صدق دکھلاوے اور اس پر ظن نیک رکھے تا وہ بھی وفا دکھلاوے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ46۔45 ایڈیشن 1986ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

محترم ڈاکٹرا حتشام الحق صاحب مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2021