• 18 مئی, 2024

اسلامی کلچر کیا ہے؟

سوال: پیارے حضور! آج کل رشتوں کے موقع پر اسلامی تعلیمات کے بر عکس فریقین کی طرف سے بہت سی ڈیمانڈ رکھی جاتی ہیں۔ جو رشتوں کے تقدس کو پامال کرتی ہیں۔ پیارے حضور! ہم اس چیز سے کس طرح بچ سکتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’یہ آج کل کی بات نہیں۔ یہ تو بہت پرانی باتیں ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں بھی اسی طرح تھا۔ ہر زمانے میں وہاں کے لحاظ سے اپنی اپنی ڈیمانڈ ہوتی تھی۔ ایک زمانہ ہوتا تھا کہ لڑکی سے کہا جاتا تھا کہ اتنا جہیز لے کر آؤ، اتنا زیور لے کر آؤ، یا اتنی چیزیں لے کر آؤ، اتنا پیسہ، کیش لے کر آؤ۔ یا لڑکے سے ڈیمانڈ کی جاتی تھی کہ لڑکا کیا کرتا ہے؟ اس کا گھر ہے یا نہیں؟اس کی اچھی جاب ہے یا نہیں؟ اس طرح کی ڈیمانڈ تو آج کل بھی ہیں، پہلے بھی تھیں۔‘‘

حضور نے استفسار فرمایا کہ ’’کس طرح کی ڈیمانڈ رکھی جاتی ہیں؟‘‘

جس پر خادم نے جواب دیا کہ: ’’حضور بعض اوقات اگر آپ ملک سے باہر رشتہ کرتے ہیں، تو لڑکے والوں کی طرف سے یا لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے یا لڑکی کواس بات پر force کیا جاتا ہے کہ، جب آپ ادھر آئیں گے آپ کو اس کلچر کے مطابق رہنا پڑے گا بعض اوقات لڑکے جو ہیں اس چیز کو ناپسند کرتے ہیں۔‘‘

حضور نے فرمایا: ’’بات یہ ہے کہ کہو کہ ہم کلچر کے مطابق رہ لیں گے، لیکن وہ کلچر، جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا وہ کلچر جو اسلامی تعلیم سے clash نہ کرتا ہو۔ اسلام کہتا ہے کہ پانچ نمازیں پڑھو اور تم کہہ دو کہ کوئی نہیں نماز نہ بھی پڑھی تو کچھ نہیں ہوتا، تو یہ کلچر نہیں ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ روزے رکھو اور تم کہو روزے نہ بھی رکھو تو کچھ نہیں ہوتا، یہ کلچر نہیں ہے۔ قرآن کریم نے عورتوں کو پردے کا حکم دیا ہے کہ حجاب اوڑھو، تو اگر وہ حجاب نہیں لیتی اور بغیر دوپٹہ کے کھلے گلے کے ساتھ بازاروں میں پھرتی ہے، تو یہ کلچر نہیں ہے۔ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اس لیے پہلے ہی بتانا ہو گا۔ لڑکیاں جو باہر سے آتی ہیں وہ کہہ کر آئیں کہ جو اسلامی تعلیم ہے اس کے مطابق زندگیاں گزاریں گی اور لڑکوں کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اس لیے آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ جب تم لوگ رشتے کرتے ہو تو دنیا کو دیکھتے ہو، خوبصورتی کو دیکھتے ہو، دولت کو دیکھتے ہو، لیکن رشتہ کرنے کے لیے تم دین کو دیکھو۔ اگر لڑکے میں دین ہو گا تو وہ دین دار لڑکی کو تلاش کرے گا۔ اگر لڑکی دیندار ہو گی تو وہ دیندار لڑکے کو تلاش گی۔ اگر یہ ماحول پیدا ہو جائے تو پھر ہی صحیح اسلامی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ان ممالک میں جو so-called ترقی یافتہ ملک ہیں۔ ان میں پردہ نہیں ہوسکتا یا half-sleeved پہن کر لڑکیاں بازاروں میں پھرتی رہیں، دوپٹہ بھی گلے میں نہ ہو، کجا یہ کہ اسکارف۔ تو یہ چیزیں اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں اور پھر جو ایسی لڑ کیاں ہیں۔ وہ جب مسجد میں آتی ہیں تو دوپٹہ اوڑھ کر آ جاتی ہیں۔ چلیں ٹھیک ہے کچھ نہ کچھ تو مسجد کا احترام ہے۔ لیکن پھر ان میں منافقت ہوتی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ لجنہ ان کی صحیح طرح تربیت کریں، ضرورت ہے کہ والدین ان کی صحیح طرح تربیت کریں، اسلام کی تعلیم کو اگر مانا ہے۔ لڑکا اور لڑکی مسلمان کہلاتے ہیں تو پھر ان کو چاہئے کہ اسلامی تعلیم پر عمل بھی کریں۔ اگر اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے تو پھر وہ مسلمان کہلانے کا بھی حق دار نہیں ہے۔یہ جماعت احمدیہ کی تعلیم نہیں ہے یہ اسلام کی تعلیم ہے۔جماعت احمدیہ کی کوئی تعلیم ایسی نہیں ہے جو قرآن کے خلاف ہو یا قرآن سے زائد ہو۔ جو بھی ہم کہتے ہیں، وہی کہتے ہیں جو قرآن کریم میں لکھا ہو اہے۔ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ بڑے سخت ہیں۔ مسلمان تو یہ کرتے ہیں۔ مسلمان اگر نہ بگڑے ہوتے تو مسیح موعودؑ کے آنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس لیے تو آئے، ہم نے اسی لئے تو حضرت مسیح موعودؑ کو مانا ہے اس لیےہم نے مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت کو ٹھیک کرنا ہے۔ یہ تو گھروں میں لڑکیوں کی تربیت کرتے ہوئے ماں باپ کو بھی خیال رکھنا چاہئے۔ لڑکیوں کو خود دینی تعلیم حاصل کرنی چاہئے تا کہ ان کو پتہ لگے کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ لڑکوں کو خود احساس ہونا چاہئے۔ جب تک یہ احساس خود نہیں ہوگا۔کوئی باہر سے آکر تو نہیں ڈالے گا۔عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے۔ اگر صرف عہد کر کے چلے جاتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ؟ منافقت ہے۔جب عہد دوہرایا ہے تو پھر اس پر عمل کرو اور جب عمل کرو گے تو پھر نہ یہ رشتوں میں ڈیمانڈز ہوں گی، نہ تقدس کو پامال کیا جائے گا اور نہ کچھ اور بات ہو گی۔‘‘

(روزنامہ الفضل آن لائن 15؍ستمبر 2022ء)

پچھلا پڑھیں

فرینڈز تھیالوجیکل کالج کسومو کے طلباء اور اساتذہ کی احمدیہ مشن ہاؤس کسومو آمد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 نومبر 2022