• 5 مئی, 2024

معلمین وقفِ جدید کے لئے مشعلِ راہ (قسط چہارم۔ آخری)

معلمین وقفِ جدید کے لئے مشعلِ راہ
حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ
قسط چہارم۔ آخری

حضرت مسیح موعودؑ قبولیت دعا کے سلسلہ میں بابا غلام فرید کے بارے میں فرماتے ہیں۔
’’باوا غلام فرید ایک دفعہ بیمار ہوئے اور دعا کی مگر کچھ بھی فائدہ نظر نہ آیا۔ تب آپ نے اپنے شاگرد کو جو نہایت ہی نیک مرد اور پارسا تھے (شاید شیخ نظام الدین یا خواجہ قطب الدین) دعا کے لئے فرمایا۔ انہوں نے بہت دعا کی مگر پھر بھی کچھ اثر نہ پایا گیا۔ یہ دیکھ کر ایک رات انہوں نے بہت دعا مانگی کہ اے میرے خدا اس شاگرد کو وہ درجہ عطاء فرما کہ اس کی دعائیں قبولیت کا درجہ پائیں اور صبح کے وقت ان کو کہا کہ آج ہم نے تمہارے لئے یہ دعا مانگی ہے۔ یہ سن کر شاگرد کے دل میں بہت ہی رقت پیدا ہوئی اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ جب انہوں نے میرے لئے ایسی دعا کی ہے تو آؤ پہلے انہیں سے شروع کرو اور انہوں نے اس شور سے دعا مانگی کہ باوا غلام فرید کو شفاء ہو گئی۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ182)

نیز آ پؑ فرماتے ہیں:
جتنے بھی بزرگ اور اولیاء گزرے ہیں وہ سب مجاہدات اور ریاضیات میں اپنے اوقات گزارتے تھے۔ دیکھو باوا فرید صاحب اور جتنے بھی اولیاء اور ابدال گزرے ہیں یہ سب گروہ ایک وقت تک خاص ریاضات اور مجاہدات شاقہ کرنے کی وجہ سے ان مدارج پر پہنچے اور ان لوگوں نے بڑی سختی سے اور پورے طور پر اتباع سنت کی۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ509)

نام و نسب اور ولادت

حضرت بابا فریدؒ صاحب کا شجرہ نسب والد کی طرف سے سیدنا فاروق اعظم ؓ سے ملتا ہے آپ کے دادا شعیب چنگیز خان کے حملہ کے دوران کابل سے ہجرت کرکے قصور آئے تھے (اسلامی انسائیکلوپیڈیا صفحہ 1240 زیر لفظ فرید الدین گنج شکر) اپنے تین بیٹوں کے ہمراہ سامان لے کر شہاب الدین غوری کے زمانہ میں ترک وطن کر کے ہندوستان آئے۔ آپ کابل کے بادشاہ فرخ شاہ کے خاندان سے تھے آپ کے والد کا نام شیخ جمال الدین سلمان ہے آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی قرسم خاتون تھا۔ پہلے لاہور میں قیام کیا پھر قصور اور پھر ملتان چلے گئے اور بالآخر موضع کتھووال میں مقیم ہوگئے۔ آپ کی پیدائش موضع کتھوال ضلع ملتان جو اب ضلع وہاڑی میں شامل ہے 575ھ میں ہوئی۔ بعض کے نزدیک 569ھ میں والدین نے نام مسعود رکھا۔ فرید الدین کہنے کی وجہ یہ بیان کیا جاتی ہے کہ یہ لقب آپ کو فرید الدین عطار نے دیا تھا اور بعض کے نزدیک خدا تعالیٰ نے آپ کو فرید الدین کے لقب سے نوازا ہے لیکن عام طور پر بابا یا باوا فرید گنج شکر کے لقب سے مشہور ہیں۔ شیریں بیانی، مسحور کن انداز گفتگو اور فصاحت سے لوگوں پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اسی وجہ سے آپ کا لقب گنج شکر مشہور ہوا۔ آپ کے بچپن میں ہی والد بزرگوار دار فانی سے کوچ کر گئے۔

حالات زندگی

بابا صاحب کی ابتدائی تعلیم وتربیت والدین کی نگرانی میں ہوئی آپ کی والدہ بھی انتہائی نیک اور پارسا خاتون تھیں۔ آپ نے 12 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا اور عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ دینی کتب کا مطالعہ بھی کرتے رہے اور مزید تعلیم کے حصول کے لئے آپ 15سال کی عمر میں ملتان چلے گئے جہاں آپ نے مولانا منہاج الدین سے فقہ کی مشہور کتاب نافع پڑھی اور دیگر علوم دینہ کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں قندھار چلے گئے جہاں آپ نے پانچ سال قیام کیا اور علوم دینہ میں مزید پختگی حاصل کرنے کے بعد آپ دوبارہ ملتان تشریف لے آئے۔

واقعات زندگی

آپ ملتان میں ہی تھے کہ حضرت خواجہ بختیار کاکی دہلی جاتے ہوئے ملتان میں رکے تو بابا صاحب کو آپ کی زیارت نصیب ہوئی اور خواجہ صاحب سے مختصر گفتگو کے بعد آپ کو بیعت کی سعادت نصیب ہوئی۔ جب خواجہ صاحب دہلی روانہ ہو نے لگے تو بابا صاحب نے بھی دہلی جانے کی خواہش کا اظہار کیا مگر خواجہ صاحب نے اجازت نہ دی اور بڑے پیار سے فرمایا کہ بیٹا اپنی تعلیم مکمل کر کے دہلی آجانا۔

آپ حضرت خواجہ معین الدینؒ چشتی سے فیض یافتہ تھے اور اور حضرت قطب الدینؒ بختیار کاکی کے مرید اور خلیفہ تھے۔

سیاحت

آپ نے غزنی، بخارا، شام، سیستان، بدخشان،قندھار، اور بغداد کی سیاحت کی اور ان مقامات کے مشائخ و عظام سے ملاقاتیں کیں۔ جن میں شیخ شہاب الدین سہر وردیؒ حضرت شیخ سیف الدین خضری ؒ حضرت شیخ سعید الدین جمونیؒ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ، حضرت شیخ اوحد الدین کرمانیؒ، حضرت شیخ فرید الدینؒ عطار شیخ الاسلام اجل شیرازی، شیخ شہاب الدینؒ کے علاوہ بھی بہت سے بزرگان ہیں۔

طویل سیاحت کے بعد جب وطن واپس لوٹے تو سیدھے دہلی میں اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ بختیار کاکی کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور پھر ان کی ہدایت کے مطابق ریاضتوں اور مجاہدات میں لگ گئے۔

کچھ مدت بعد حضرت بختیارؒ کاکی کے مرشد معین الدین چشتی اجمیریؒ دہلی تشریف لائے اور بابا صاحب کی ریاضت و عبادت سے بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ دونوں بزرگوں نے بابا صاحب کو اپنی باطنی فیوض و برکات سے نوازا۔ کہا جاتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں سلسلہ چشتیہ کی بنیاد معین الدین چشتیؒ نے رکھی اور اس کی تجدید میں شیخ فریدالدین ؒگنج شکر نے اہم کردار ادا کیا۔

(اسلامی انسائیکلو پیدیا صفحہ 1241 زیر لفظ فرید الدین گنج شکر)

ہانسی اور اجودھن

کچھ مدت دہلی میں قیام کے بعد آپ اپنے مرشد سے اجازت سے لے کر ہانسی چلے گئے روانگی کے وقت حضرت خواجہ بختیار ؒکاکی صاحب نے اپنا عصا اور اپنا جائے نماز ان کو عطاء کیا اور فرمایا: ’’تم میرے بعد میرے خلیفہ ہو گے۔‘‘ خواجہ صاحب کی وفات پر آپ دہلی گئے۔ آپ مرشد کی مسند کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن وہاں کی مصروفیات کی وجہ سے آپ کی ریاضت و عبادت میں کمی آگئی تھی اس لئے آپ نے دہلی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ دہلی سے آپ ہانسی چلے گئے مگر وہاں بھی آپ کو سکون میسر نہ آیا چنانچہ آپ نے گوشہ نشینی میں عبادت کرنے کے لئے اجودھن کا انتخاب کیا اور پھر تا دم مرگ وہیں قیام کیا۔ اجودھن آج پاکپتن کے نام سے مشہور ہے۔

بابا جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام پاک پتن میں گزارے آپ کے اثر صحبت سے نواحی علاقہ کے غیر مسلم جوق درجوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔ساندل بار کے متعدد جاٹ قبائل کا دعویٰ ہے کہ ان کے اجداد نے بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا… آپ کی شہرت ان کی زندگی میں ہی برصغیر پاک و ہند سے باہر دور دور کے ملکوں میں پہنچی تھی۔ چنانچہ مشہور مراکشی سیاح ابن بطوطہ جو شیخ صاحب کی وفات کے 65 سال بعد اجودھن آیا اپنے سفر نامے میں دو مقامات پر شیخ صاحب کا ذکر کرتا ہے۔

(بحوالہ دائرہ معارف اسلامیہ جلد15 صفحہ341 زیر لفظ فرید الدین گنج شکر)

بابا جی کی جب شہرت دور دور تک پھیل گئی تو لوگ دور دور سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے تھے لیکن یہاں کے حاکم اور لوگ آپ کو تنگ کرنے لگے اور اس کے علاوہ تنگ خیال مولوی صاحبان بھی آپ کے مخالف ہو گئے تھے اور وہاں کا قاضی بھی حاسد تھا۔ الغرض تمام لوگوں نے بابا جی کو تنگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ان تمام حالات کو بابا جی نے کمال صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ مگر جب مخالفین اپنی کوششوں میں ناکام رہے تو انہوں نے بابا جی کے قتل کا منصوبہ بھی بنایا۔

(اولیائے پاکستان صفحہ 301)

بابا جی کے ساتھ سلطان بلبن کی خاص عقیدت تھی وہ کئی بار اجودھن آیا اور بابا صاحب سے فیض حاصل کیا۔ ایک مرتبہ وہ آیا اور اس نے عرض کی کہ بیگمات بھی آپ کی زیارت کی شدید خواہش مند ہیں اگر آپ زحمت فرما کر دہلی چلیں تو نوازش ہو گی۔بابا جی کہیں جاتے نہ تھے مگر سلطان بلبن کی محبت کے باعث دہلی گئےبابا جی کا سلطان بلبن کی طرف سے بھرپور استقبال کیا گیا اور کچھ دن وہاں قیام کیا اور قیام کے دوران ہی سلطان بلبن نے اپنی بیٹی کا رشتہ بابا صاحب کو قبول کرنے کی درخواست کی جسے بابا صاحب نے قبول فرما لیا اور شہزادی سے شادی ہو گئی۔ شہزادی نے بھی شاہی زندگی ترک کر کے سادہ زندگی اختیار کرلی اس کے بطن سے پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں بابا جی کی تمام اولاد اسی زوجہ سے تھی اس کے علاوہ بھی بابا جی نے دو شادیاں اور کی تھیں۔

گنج شکر کی وجہ تسمیہ

آپ گنج شکر کے نام سے بھی معروف ہیں اس کی مختلف وجوہات مختلف کتب میں بیان ہوئی ہیں۔

ابھی آپ بچے ہی تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا والدہ محترمہ نے اپنے بچے کی تربیت کی۔ نماز کی پابندی کرانے کے لئے حضرت کی والدہ جائے نماز کے نیچے شکر کی پڑیاں رکھ دیا کرتی تھیں اور اپنے بچے مسعود سے فرمایا کرتی تھیں جو بچے نماز پڑھتے ہیں ان کی جائے نماز کے نیچے سے روزانہ ان کو شکر مل جاتی ہے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ والدی شکر کی پڑیاں رکھنا بھول گئیں اور انہوں نے گھبرا کر حضرت سے کہا مسعود تم نے نماز پڑھی یا نہیں حضرت نے جواب دیا ہاں اماں نماز پڑھ لی اور شکر کی پڑیاں بھی مل گئیں یہ جواب سن کر والدہ کو بہت تعجب ہوا اور وہ سمجھیں کہ اس بچے کی غیب سے مدد ہوتی ہے اور اس وقت سے انہوں نے اپنے بچے مسعود کو شکر بار اور شکر گنج کہنا شروع کیا…

(ملخص از اولیائے پاکستان صفحہ 289)

سیر العارفین کے مؤلف کا بیان ہے کہ آپ اپنے مرشد حضرت قطب الدین بختیار کاکی سے تربیت حاصل کرنے کے دوران ایک مرتبہ ان کی خدمت میں جاتے ہوئے کیچڑ سے پھسل کر گر پڑے اور کچھ مٹی منہ میں چلی گئی اور قدرت خدا وندی سے وہی مٹی شکر بن گئی آپ کے مرشد نے یہ واقعہ سن کر فرمایا کہ اگر مٹی تمہارے منہ میں شکر بن گئی تو تم ہمیشہ شیریں رہو گے اس کے بعد گنج شکر مشہور ہوگئے۔

سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ ایک بار آپ نے متواتر روزے رکھے تھے اور افطاری کے وقت کوئی چیز نہ ملی اور اسی حالت میں سنگ ریزے منہ میں رکھ لئے تو وہ خدا کی قدرت سے شکر ہوگئے جب اس کی اطلاع حضرت خواجہ بختیار کاکی تک پہنچی تو آپ نے فرمایا فرید الدین گنج شکر ہے۔

(ملخص از مجلس صوفیاء صفحہ 330)

وفات اور اولاد

وصال سے قبل آپ کی صحت کچھ خراب ہو گئی تھی آپ کو انتڑیوں کا مرض لاحق ہوگیا تھا۔

(اولیائے پاکستان صفحہ 303)

5؍محرم الحرام کی شب کو آپ پر مرض کی شدت طاری ہوگئی عشاء کی نماز باجماعت پڑھنے کے بعد بے ہوش ہو گئے پھر جب ہوش آیا تو پوچھا میں نے نمازِ عشاء پڑھ لی ہے؟ حاضرین نے کہا جی پڑھ لی ہے آپ نے فرمایا ایک مرتبہ پھر پڑھ لوں پھر نا جانے کیا ہو گا۔ پھر بے ہوش ہو گئے جب ہوش آیا تو پوچھا میں نے نماز عشاء پڑھ لی ہے؟ حاضرین نے جواب دیا دو بار پڑھ لی ہے آپ نے فرمایا ایک مرتبہ پھر پڑھ لوں پھر نا جانے کیا ہو گا۔ غرض تیسری بار نماز پڑھنے کے بعد یَا حَیٌّ یَا قَیُّوْمٌ کہتے ہوئے اس دنیائے فانی سے 5؍محرم الحرام 670ھ کو کوچ کر گئے۔ آپ کا وصال پاک پتن میں ہوا اور پاکپتن میں ہر سال محرم کی پانچ تاریخ کو آپ کا عرس منایا جاتا ہے۔ آپ نے چار شادیاں کیں جن سے خدا تعالیٰ نے آپ کو پانچ لڑکوں اور تین لڑکیوں سے نوازا۔ پہلی شادی سلطان غیاث الدین بلبن کی بیٹی سے ہوئی آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے بدر الدین سلیمان آپ کے جانشین بنے آپ کے دوسرے بیٹوں کے نام شیخ نصیر الدین نصر اللہ، شیخ شہاب الدین، شیخ نظام الدین، شیخ یعقوب ہیں۔

سیرت

آپ شہرت کو پسند نہیں کرتے تھے، تحمل، بردباری، قناعت، توکل اور تقوی میں بلند مقام رکھتے تھے آپ کی کرامات اور خارق عادت واقعات کو کثرت سے آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے۔

آپ کے گھر میں فقر و فاقہ رہتا تھا جب آپ کا وصال ہوا گھر میں کفن کے لئے پیسہ نہ تھا مکان کا دروازہ توڑ کر اس کی اینٹیں قبر پر لگائی گئیں۔

(فوائد الفوائد صفحہ173 بحوالہ آئینہ تصوف صفحہ62)

آپ کے پاس ایک کمبل تھا جو اتنا چھوٹا تھا کہ پیروں پر ڈالتے تو سر کھل جاتا اور سر پر ڈالتے تو پاؤں کھل جاتے۔ توکل کا یہ حال تھا جو بھی آتا اسے تقسیم کردیتے تھے۔

(آئینہ تصوف صفحہ 62)

باوجود اس کے کہ آپ کے مریدین میں بہت سے مال و دولت والے لوگ شامل تھے مگر آپ نے کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور مال و دولت کی بجائے رضائے الٰہی اور فقر کا انتخاب کیا۔حالانکہ آپ کے سسر سلطان بلبن بادشاہ وقت تھے مگر کوئی منفعت ان سے حاصل نہ کی۔بابا فرید الدین مسعود ؒگنج شکر کی طبیعت میں بہت زیادہ نرمی، شفقت، تواضع اور انکسار تھا۔

شاگرد و تصانیف

آپ نے فوائد السالکین کے نام سے اپنے پیرو مرشد کے ملفوظات جمع کئے ہیں۔ رسالہ ’’موجودہ وجود‘‘ رسالہ گفتار اور الٰہی نامہ بھی آپ کی ہی تصانیف بتائی جاتی ہیں۔

شاعری

باوا جی کی شاعری بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے جب آپ کا قیام دہلی میں تھا تو اس دوران آپ فارسی زبان میں شاعری کرتے تھے اور جب آپ اجودھن (پاک پتن) تشریف لے گئے تو آپ نے فارسی زبان میں شاعری کی اور آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ لوگوں کو اپنے دین کا پیغام دین اور خدا کی طرف بلائیں مگر بد قسمتی سے آپ کا کلام محفوظ نہ رہ سکا۔ ہانسی میں قیام کے دورن میں اردو زبان میں کہا گیا ایک شعر ہے کہ؎

وقت سحر وقت مناجات ہے
خیز درآں وقت کہ برکات ہے

نجابی زبان میں کہے گئے اشعار کا مکمل کلام تو جمع نہ ہو سکا البتہ گرو ارجن دیو نے آپ کے ایک سو تیس کے قریب اشعار گرو گرنتھ میں محفوظ کر کے ایک محدود کلام کو محفوظ کرلیا ہے۔ گرو گرنتھ سے اور لوگوں کو جو جو اشعار یاد ہوا کرتےتھے ان اشعار کو جمع کر کے فیروز زسنز نے ’’کلام بابا فرید گنج شکر‘‘ کے نام سے آپ کا کلام شائع کیا ہے۔؎

فریدا خاک نا نندیے! خاک جبئید نا کوءِ
جیوندیاں پیرا تلے سویا اُپر ہوءِ
روکھی سکھی کھا کے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی
صبر منجھ کمان اے صبر کانیہنو
صبر سندا بان خالق خطا نہ کری

صبر ہی کمان ہے صبر ہی کمان کا چلا ہے صبر ہی تیر ہے جسے خدا خطا نہیں جانے دیتا۔ صبر کا تیر نشانہ پر ضرور لگتا ہے۔

سمجھا من مانک ٹھاہن مول مچانگوا
جے توپریادی سک ہیاؤ ٹھاہیں کہیں دا

سب کا دل موتی ہوتا ہے اس کا توڑنا اچھا نہیں اگر تو محبوب سے ملنے کی خواہش رکھتا ہے تو کسی کا دل نا توڑ۔

تعلیمات

  • کلام پاک کی تلاوت سے بہتر اور افضل کوئی عبادت نہیں۔
  • طمانیت قلب چاہتے ہو تو حسد سے دور رہو۔
  • خودی کی تکمیل اس عبادت سے ہوتی ہے جس میں ظاہر و باطن دونوں سر بسجود ہوں۔
  • وہی دل حکمت و دانش کا مخزن بن سکتا ہے جو دنیا کی محبت سے خالی ہو۔
  • انسان کی تکمیل تین چیزوں سے ہوتی ہے۔خوف، امید اور محبت۔
  • خوف گناہ سے بچاتا ہے۔ امید اطاعت پر آمادہ کرتی ہے اور محبت میں محبوب کی رضا کو دیکھنا پڑتا ہے۔
  • درویش وہ ہے جو زبان، آنکھ اور کان بند رکھے یعنی بری بات نا سنے نا کہے اور نا دیکھے۔
  • مصیبت کو محبوب (اللہ) کی طرف سے عطیہ سمجھو محبت کا تقاضا یہی ہے۔
  • محبت کے سات سو مقام ہیں پہلا مقام یہ ہے کہ جو بلا دوست کی طرف سے اُس پر نازل ہو اس پر صبر کرے۔
  • زندہ دل وہ ہے جس میں محبت خدا ہو۔
  • اگر زندگی ہے تو علم میں، اگر راحت ہے تو معرفت میں، اگر شوق ہے تو محبت میں، اگر ذوق ہے تو ذکر میں۔
  • توبہ کی چھ قسمیں ہیں اول دل اور زبان سے توبہ کرنا، دوسری آنکھ کی، تیسری کان کی، چوتھی ہاتھ کی، پانچویں پاؤں کی، چھٹی نفس کی۔
  • آپ نے فرمایا ہے کہ درویش کو چار باتیں اختیار کرلینی ضروری ہیں۔ آنکھیں بند کرلینا کہ لوگوں کے عیوب نہ دیکھ سکیں۔ کانوں کو بند کر لینا کہ بری باتیں نہ سن سکیں۔زبان کو گنگ کرلینا کہ ناقابل ذکر باتیں نہ بول سکے۔ پاؤں کو لنگڑا کر کے کہ جب اس کا نفس برے کام کے لئے جانا چاہے تو نہ جائے اگر کسی درویش میں یہ چار باتیں نہیں تو وہ جھوٹا ہے۔
  • درویش کو اتنا متحمل (تحمل کا اظہار کرنے والا) ہونا چاہئے کہ اگر کوئی شخص اس کی گردن پر تلوار بھی رکھے تو وہ اس کے لئے بددعا نہ کرے۔
  • درویش کا زہد تین چیزوں میں ہے۔ دنیا کا جاننا اور اس سے کنارہ کش ہو جانا۔ اپنے مالک حقیقی کی بندگی کرنا اور اس کے آداب کا لحاظ رکھنا۔ آخرت کی آرزو اور اس کی طلب کرنا۔

(ندیم احمد فرخ)

پچھلا پڑھیں

فرینڈز تھیالوجیکل کالج کسومو کے طلباء اور اساتذہ کی احمدیہ مشن ہاؤس کسومو آمد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 نومبر 2022