• 6 مئی, 2024

جنوبی ایشیاء کے پہلے نوبیل انعام یافتہ ادیب رویندر ناتھ ٹھاکر (ٹیگور)

جنوبی ایشیاء کے پہلے نوبیل انعام یافتہ ادیب
رویندر ناتھ ٹھاکر (ٹیگور)

رابندر ناتھ ٹیگور کا اصل نام رویندر ناتھ ٹھاکر تھا۔ جنوب ایشیائی لوگ ’’و‘‘ اور ’’ب‘‘ کو ادل بدل دیتے ہیں اور اسی ادلا بدلی کا نتیجہ تھا کہ رویندر کو ’’رابندر‘‘ بولا جانے لگا جبکہ ٹھاکر ان کی قومیت تھی۔ ٹھاکر کا ٹیگور میں بدل جانے کا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ ٹیگور کا زمانہ انگریز راج میں گزرا اور اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے اس خاندان کا انگریز حکمرانوں سے کافی ملنا جلنا تھا۔ کاروباری معاملات سے ورے ان کے آپس میں اچھے مراسم اور دوستیاں بھی تھیں۔ انگریز ٹھاکر لفظ ادا نہیں کر پاتے تھے اورر اپنے مخصوص لہجے میں ٹھاکر کو ’’ٹیگور‘‘ بلاتے تھے۔ ٹیگور اتنا زبان زد عام ہوا کہ اب دنیا رابندر ناتھ ٹھاکر کو ٹیگور نام سے ہی جانتی ہے۔

ان کے دادا ’’دوار کا ناتھ ٹیگور‘‘ ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت تھےجو بینکاری،انشورنس،کان کنی اور ریشم کی خریدو فروخت سے وابستہ تھے۔ لیکن رابندر ناتھ ٹیگور کے والد ’’دبیندرا ناتھ ٹیگور‘‘ کو اپنے والد کے کاروباری معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔دبیندراناتھ کے چودہ بچے تھے اور رابندرناتھ ٹیگور ان میں سب سے چھوٹے تھے۔والد کی عدم توجہی اور والدہ کی ناسازی طبع کے باعث ٹیگور کی پرورش ان کے ملازمین نے کی۔اپنی تحریروں میں ٹیگور نے اپنی زندگی کے اس دور کو Servocracy یعنی ملازمین کی حاکمیت سے تعبیر کیا ہے۔ٹیگور پڑھائی لکھائی پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کئی اسکول بدلے، بالآخر گھر میں ہی ان کے بھائی ہیمندر ناتھ ٹیگور نے ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا۔سائنس، ریاضی اور موسیقی کی تعلیم رابندرناتھ نے گھر پر ہی رہ کر حاصل کی۔اس کے ساتھ جوڈو کراٹے اور گنگاندی میں باقاعدہ تیراکی کرنا بھی سیکھا۔ جب رابندر ناتھ بارہ سال کے تھے تو ان کے والد انہیں کئی جگہوں پر لے کر گئے جن میں شانتی نکیتن اور امرتسر کا ایک ماہ تک کا قیام قابل ذکر ہیں۔ گولڈن ٹیمپل امرتسر میں ٹیگور کئی کئی گھنٹوں تک بیٹھ کر ’’گربانی‘‘ سنتے تھے۔وہاں سے وہ ڈلہوزی بھی گئے جہاں قیام کے دوران ان کے والد نے انہیں فلکیات،تاریخ اور جدید سائنس کے ساتھ ساتھ مذہبی کتب جیسا کہ اپنیشد اور والمیکیرامائن جیسی کتب سے روشناس کروایا۔ 1878ء میں ٹیگور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لندن چلےگئےجہاں UNIVERSITY COLLEGE LONDON سے انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد کی خواہش تھی کہ رابندر ایک وکیل بنیں لیکن رابندر کو اس میں قطعی دلچسپی نہیں تھی۔اسی عدم دلچسپی کی وجہ سے ٹیگور نے کالج بھی چھوڑ دیا۔ لیکن یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ اسی کالج میں آج بھی ایک ’’ٹیگور لیکچر سیریز‘‘ پڑھائی جاتی ہے۔کالج کی تعلیم کے دوران ٹیگور نے انگریزی ادب کا مطالع کیا۔

ٹیگور نے لڑکپن کی عمر سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ان کی عمرصرف تیرہ سال تھی جب انہوں نے اپنی پہلی نظم لکھی۔یہ نظم 1874ء میں ’’تتو بودھنی پتریکا‘‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی۔ انہوں نے نغمے بھی لکھے جس میں روایتی ہندوستانی، کرناٹک، گربانی،اور آئرش طرز کا امتزاج تھا۔ نیز ابتدائی عمر سے ہی انہوں نے کہانیاں بھی لکھنا شروع کر دی تھیں۔ ان کی مشہور کہانیوں میں ’’کابلی والا‘‘ قابل ذکر ہے۔ان کی پہلی کتاب 17 سال کی عمر میں شائع ہوئی جبکہ 22سال کی عمر میں پہلا ناول طبع ہوا تھا۔

ان کی نظموں کا مجموعہ ’’گیتانجلی‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔اس کے انگریزی میں تراجم ہوئے جنہوں نے یورپ اور امریکہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی۔لوگ انہیں ان کے نام سے پہچاننے لگے تھے اور انہیں کئی ملکوں میں لیکچر دینے کےلیے بھی مدعو کیا گیا۔ ان کی ایک منفرد اور دلچسپ نظم ہے۔؎

بچے کو سجا کر مہنگے کپڑوں سے
بنا دیا تم نے اسے راج کمار
اس کے گلے میں ڈال دی زنجیریں
جنہیں کہتے ہو تم موتی کے ہار
ان کپڑوں نے بگاڑا اس کا کھیل
کہیں پھٹیں ناں، یا میلے نا ہوجائیں
اس ڈر سے وے رہتا دور سبھی سے
ہلنے ڈلنے سے بھی رہے گھبرائے
ماں! یہ سج دھج کی بندش کیوں؟
جو روکے کسی کو دھول میں نہانے سے
سادھارن جیون کے مہان میلے میں
جو روکے اسے خوشیاں منانے سے

رابندر ناتھ کی نظمیں آزادی اور قومیت جیسے موضوعات کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کی ایک مشہور نظم ہے۔

Into that heaven of freedom, my Father let my country awake.

1905ء میں جب انگریز حکومت نے بنگال کی تقسیم کی اس وقت انہوں نے ایک گیت لکھا تھا ’’امر شونار بنگلہ‘‘ جو آج بنگلہ دیش کا قومی ترانہ بھی ہے۔اس طرح انہیں یہ انفرادیت حاصل ہوئی کہ وہ دو ملکوں یعنی بھارت اور بنگلہ دیش کا قومی ترانہ لکھنے والے ادیب بنے۔ نا انصافی پر مبنی سامراجی نظام کے خلاف ان کا ایک گیت ’’ایکلا چولورے‘‘ بہت مقبول ہوا تھا جس کا تھیم تھا کہ ہمیشہ آگےچلتے رہو، آگے بڑھتے رہو خواہ تم اکیلے ہی کیوں نا ہو۔ 1911ء میں کلکتہ کے کانگریس سیشن میں ان کا لکھا ترانہ ’’جن، گن، من ادھی نائیک جایا ہئے‘‘ پہلی بار گایا گیا جسے تقسیم ہندوستان کے بعد ہندوستان کے قومی ترانے کے طور پر اختیار کر لیا گیا۔

ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 1913ء میں انہیں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ اس طرح یہ پہلے غیر یورپین ادیب بنے جس نے ادب کانوبل انعام جیتا۔ حکومت برطانیہ ٹیگور کو کافی مان سمان دیتی تھی۔1915ء میں انہیں Knighthood کا خطاب دیا گیا۔یہ خطاب اپنے ملک کے لیے قابل قدر کام کرنے والوں کو ان کی خدمات کے اعتراف میں برطانوی شہنشاہ کی طرف سے دیا جاتا تھا۔ اس کے صرف چار سال بعد 1919ء میں جلیانوالہ باغ قتل عام ہوا جس کے احتجاج کے طور برطانوی حکومت کی طرف سے دیا گیا نائٹ ہڈکا خطاب ٹیگور نے واپس کر دیا۔

گو کہ مہاتما گاندھی اور ٹیگور اچھے دوست تھے جو ایک دوسرے کے نظریات سے متفق نظر آتے ہیں۔لیکن گاندھی جی کا نظریاتی جھکاؤ نیشنل ازم کی طرف زیادہ تھا جبکہ ٹیگور نیشنل ازم کی بجائے انٹرنیشنل ازم پر یقین رکھتے تھے۔ان کا ماننا تھا کہ پوری دنیا ایک گھر ہے، ہمیں دوسرے ممالک سے بنا سبب دشمنیاں مول نہیں لینی چاہئیں۔ ٹیگور باقی دنیا کی نسبت ایشیاء کی حالت زار کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’ہمیں بتایا گیا ہےکہ ایشیاء ایک عالی شان مقبرے کی طرح ہے۔ جو اپنے مردوں میں ہی اپنا ویبھؤ (شان، عظمت) ڈھونڈتا ہے۔ کہا گیا کہ ایشاء کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا کیونکہ اس کا چہرہ ہی پیچھے کی طرف مڑا ہوا ہے۔ ہم نے اس الزام کو سوئیکار (تسلیم) کر لیا۔اس لیے وشواس (یقین) کرنے لگے۔ ہم بھول گئے کہ ایشیاء میں فلاسفی، وگیان (سائنس)، کلاء (آرٹ،ہنر)، ساہتے (ادب) اور دھرم (مذہب) کا وکاس (ارتقاء) ہوا۔اس لیے ایسا نہیں ہے کہ یہاں کی ہوا اور مٹی میں ہی کچھ ایسا ہوجو آلس (سستی، کاہلی) دیتا ہو،جو آگے بڑھنے سے روکتا ہو۔جب پشچم (مغرب) اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اس سمے (وقت) پورب (مشرق) نے صدیوں تک سبھیتا (تہذیب) کی مشال (شمع) کو جلائے رکھا۔پھر پورب میں اندھیری رات آئی، ایشیاء نے نیا کھانا بند کر دیا، کیول (صرف) اپنے بھت کال (ماضی) پر زندہ رہنے لگا۔ یہ نشکریتا (غیر فعال) مرتیو (موت) کی طرح ہے۔

(ہندی سے ترجمہ۔ راقم)

ٹیگور ایک غیر متنازعہ اور ہمہ جہت شخصیت تھے جن کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جدید دنیا بالخصوص ایشیاء پر ایک مثبت اثر چھوڑا ہے۔ ان کے نامہٴ اعمال میں نہ صرف بے شمار گیت، نظمیں، خطابات، کہانیاں اور افسانے شامل ہیں بلکہ وہ ایک اچھے ادیب کے ساتھ اچھے مصور بھی تھے۔ انہوں نے کئی ممالک میں اپنی بنائی ہوئی پینٹنگ کی نمائش بھی کی۔7؍اگست 1941ء کو 80 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

فرینڈز تھیالوجیکل کالج کسومو کے طلباء اور اساتذہ کی احمدیہ مشن ہاؤس کسومو آمد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 نومبر 2022