رحیم و رحماں کا ہے یہ احساں جلال دیکھو جمال دیکھو
ہوا ہے الفضل پھر سے جاری خوشی سے سب ہیں نہال دیکھو
بچھڑ گئے تھے ہم اور الفضل ہوا ہے پھر سے وصال دیکھو
انوکھی سج دھج نکھار دیکھو اب اس کا حسن و جمال دیکھو
وہ چھ دسمبر تھا بیس سو سولہ اس پہ بندش لگی تھی بھاری
جو نہر عرفاں بند کی تھی اب اس کا پھر سے اچھال دیکھو
بہت تھیں پھیکی سی میری صبحیں نظر نہ آتا تھا جب یہ پرچہ
میں اس کی بندش سے مضطرب تھی بہت تھا حزن و ملال دیکھو
چھڑا دئیے ہیں فضول دنیا کے جھوٹے اخبار اور رسالے
ہر ایک دل میں ہے اس کی چاہت یہی ہے اس کا کمال دیکھو
یہ دور کہف و رقیم جیسا ہمیں فلک پر اڑا رہا ہے
جہاں میں ہرگز نہیں ملے گی کوئی بھی ایسی مثال دیکھو
ہمارا مولا بہت توانا قدیر و قادر ہے مقتدر ہے
ہمیں بچاتا ہے دشمنوں سے بنا ہوا ہے وہ ڈھال دیکھو
شرارے شر کے پڑے پلٹ کر انہی پہ جو ہیں ہمارے بد خواہ
نہیں مناسب تکبر اتنا اب اس کا قہر و جلال دیکھو
ہوئے ہیں ظلمت کے ایسے رسیا کہ آنکھیں اپنی ہی پھوڑ لی ہیں
خود اپنی پستی سے بے خبر ہیں ہوا ہے کیسا زوال دیکھو
دلوں کے ایماں پہ فیصلے اب ہوا کریں گے زمین پر ہی
خدا کے بندے خدا بنے ہیں یہ ان کی جرات مجال دیکھو
وطن سے لگتا ہے خط ہے آیا مرے پیاروں کی خیر لے کر
بہت مبارک ہو اس کی آمد ہوئے ہیں سب ہی نہال دیکھو
(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)