• 10 جون, 2025

خدا پر یقین ہونا ہی جنت ہے

؎پناہ درکار ہے مجھ کو خدا کی
نہ شیطان الرجیم بے حیا کی
؎بھروسہ ہے فقط نام خدا کا
بڑا جو مہربان ہے رحم والا

(حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی)

خدا تعالیٰ کی ہستی کے تعلق سے ابتداء ہی سے شیطان نے انسان کے دل میں وساوس اور شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ موجودہ ٹیکنالوجی کے دور میں اس چیز میں شیطان نے اور تیزی پیدا کردی ہے جوں جوں انسان دنیاوی ترقیات حاصل کرتا چلا جاتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں سے مزید نوازتا ہے تو شیطان پہلے سے بڑھ کر اور زیادہ زور سے کمزور ایمان والوں اور آرام طلب افراد کو اس بارہ میں گمراہ کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ تاکہ انسان خدا پر یقین وتوکل کرنے سے دور بھاگے۔ہاں یہ حقیقت ہےکہ موجودہ دور میں بھی مسلمان اللہ تعالیٰ پر یقین کے معاملہ میں کمزور نظر آتا ہے یہ اسلئے ہے کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے فرمایا تھا کہ یَاتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اِسْمُہٗ۔ نیز ساتھ ہی یہ بھی خوشخبری دی کہ لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہُ رَجُلٌ اَوْ رِجَالٌ مِّنْ اَہْلِ فَارِس۔ ہاں اسلام پر وہ زمانہ آیا اور حضرت محمدﷺ کی پیشگوئی کے عین مطابق وہ موعود مسیح دنیا میں آیا اور اپنے مشن کو پائے تکمیل تک پہنچایا ۔ایک شخص نے آپؑ کی خدمت میں سوال کیا کہ آپؑ کی غرض دنیا میں آنے سے کیا ہے آپؑ نے فرمایا؛۔
’’میں اسلئے آیا ہوں تا لوگ قوت یقین میں ترقی کریں‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ1)

چنانچہ یقین،بھروسہ یا توکل دراصل علم،کیفیت اور عمل تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے؛۔

مَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہٗ

(الطلاق: 4)

جو اللہ تعالیٰ پرتوکل کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کو کافی ہو جاتاہے۔ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ فرماتے ہیں:
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا میری امت کے ستّر ہزار لوگ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دوسروں کے عیوب کی تلاش میں لگے نہیں رہتے اور نہ ہی فال لینے والے ہوں گے بلکہ اپنے ربّ پر توکل کرتے ہوں گے۔‘‘

(بخاری کتاب الرقاق باب یدخل الجنۃ سبعون الفاً…)

یقین ہی وہ چیز ہے جو انبیاء ومومن بندے کو اس دنیا میں کامیاب وکامرانی عطاء فرماتی ہے ،یقین ہی وہ بہترین سواری ہے جس پر سوار ہو کرانبیاء ومومن بندے دنیا کےاُبڑ کھبڑ اور مشکل راستے کو طے کرتےہیں،یقین ہی وہ چیز ہے جسکو حاصل کرنے کے بعد خدا کے فرستادے اس دنیا میں جنت کو حاصل کر لیتے ہیں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ:
’’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب میں کسی کتاب کا مضمون لکھنے بیٹھتا ہوں اور قلم اٹھاتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی اندر سے بول رہا ہے اور میں لکھتا جاتا ہوں ۔ اصل یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سلسلہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو سمجھا بھی نہیں سکتے ۔ خدا تعالی کا چہرہ نظر آجاتا ہے اور میرا ایمان تو یہ ہے کہ جنت ہو یا نہ ہو ۔ خدا تعالی پر پورا یقین ہونا ہی جنت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ270 ایڈیشن 1988ء)

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس یقین کو ہم کس طرح حاصل کریں۔ وہ طریق کیا ہیں جسکے بدولت ہم خدا تعالیٰ کے یقین یاتوکل کوحاصل کرتے ہوئے اسکے جنت کے وارث بن سکتے ہیں؟ اسکے جواب کے لئے ایک نظر حضرت مسیح موعودؑ کے اس فقرے کی طرف دوڑاتے ہیں جس میں آپؑ فرماتے ہیں:
’’اے پاکیزگی کے ڈھونڈنے والو ! اگر تم چاہتے ہو کہ پاک دل بن کر زمین پر چلو اور فرشتے تم سے مصافہ کریں تو تم یقین کی راہوں کو ڈھونڈو اور اگر تمہیں اس منزل تک بھی رسائی نہیں تو اس شخص کا دامن پکڑو جس نے یقین کی آنکھ سے اپنے خدا کو دیکھ لیا ہے۔‘‘

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد18 صفحہ: 474-475)

اب ہمیں علم ہوگیا کہ خداتعالیٰ پر یقین حاصل کر کے اسکی جنت کا وارث بننے کے لئے خود کوشش کرنی ہے اگر اس تک رسائی نہیں ہو پارہی تو اُس شخص کا دامن تھامنا پڑیگا جو یقین کی آنکھ سے اپنے خدا کو دیکھ لیا ہو۔ خدا تعالیٰ پر یقین کی اعلیٰ ترین مثالیں تو ہمیں انبیاء کرام کی زندگی میں نظر آتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ مثال حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہی رقم فرمائی ہیں اورکیوں نہ ہو،آپؐ ہی تو انسان کامل تھے۔ اور ساتھ ہی آپ ؐ نے امت کو بھی سبق دے دیا کہ میری پیروی کرو گے، خداسے دل لگاؤ گے، اس کی ذات پر ایمان اور یقین پیدا کرو گے تو تمہیں بھی ضائع نہیں کرے گا۔ اور اپنے پر توکّل کرنے کے نتیجہ میں وہ تمہیں بھی اپنے حصار عافیت میں لے لے گا اور جنت کا وارث بنائے گا۔آنحضرت ﷺ، صحابہ رسول اللہ ؐ، حضرت مسیح موعود ؑ وخلفاء احمدیت وبزرگان کے خدا تعلی پر یقین و توکل کے بارہ میں بچپن سے ہم بہت سے واقعات سنتے آرہے ہیں لیکن جب بھی پڑھتے ہیں ایمان وایقان میں ایک نئی تازگی و تقویت پیدا ہو جاتی ہے۔برکت کے طور پر اس ضمن میں ایک دو واقعات پیش کردیتا ہوں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں غیر معمولی توکل اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ کے واقعات اس طرح بھرے ہوئے ہیں جس طرح آسمان ستاروں سے بھرا ہوتا ہے۔ بعض واقعات میں تو یہ جلوہ اس شان سے نظر آتا ہے کہ اس کی مثال دوسری جگہ نظر نہیں آتی۔ اس طرح کا ایک ایمان افروز واقعہ حنین کے میدان میں رونما ہوا۔ ایک ایسا نازک موقع آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف چند صحابہ کے درمیان میدان جنگ میں کھڑے تھے۔ ہر طرف سے دشمن کا دباؤ تھا۔ دائیں اور بائیں اور سامنے تینوں طرف سے تیر پڑھ رہے تھے اور بچاؤ کے لیے صرف ایک تنگ راستہ تھا جس میں سے ایک وقت میں صرف چند آدمی گزر سکتے تھے اس راستے سے گزرے بغیر بچاؤ کی کوئی راہ نظر نہیں آتی تھی یہ مرحلہ اتنا نازک تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے خیال سے نہایت لجاجت سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ تھوڑی دیر کے لئے پیچھے ہٹ جائیں تاکہ اسلامی لشکر کو پھر سے جمع ہونے کا موقع مل جائے۔ وقت انتہائی نازک تھا لیکن ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی نصرت اور حفاظت پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے ایسا جرأت مندانہ اقدام فرمایا جو ساری تاریخ میں عدیم النظیر ہے آپ اس وقت ایک خچر پرسوار تھے اپنے خچر کو ایڑ لگائی اور اسی تنگ راستے پر آگے بڑھنا شروع کیا جس کے دائیں بائیں سے مسلسل تیر برسائے جا رہے تھے ایک طرف یہ جرات اور مردانگی اور دوسری طرف آپ کی زبان پر یہ نعرہ حق جاری تھا ۔ کہ لوگو سنو! اور خوب کان کھول کر سنو کہ میں خدا کا نبی ہوں اور بخدا میں اس دعوے میں جھوٹا نہیں۔ میں توکل اور خدائی حفاظت کے نتیجے میں محفوظ ہوں ورنہ میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں اور عبدالمطلب کا پوتا ہوں۔ انتہائی خطرناک موت ہر طرف سے سر پر منڈلا رہی تھی آپؐ کے جرات مندانہ اقدام آپؐ کے توکل علی اللہ کی ایک درخشندہ مثال ہے جسکی غیر بھی اعتراف کرتے ہیں۔ سفر طائف کے واقعہ کا ذکر میں مشہور معرف مصنف سر ویلیم میور نے اپنی کتاب ’’لائف آف محمدؐ‘‘ میں لکھا:

‘‘There is something lofty and heroic in this Journey of Muhammad to At-Ta’if; a solitary man, despised and rejected by his own people, going boldly forth in the name of God, like Jonah to Nineveh, and summoning an idolatrous city to repent and support his mission. It sheds a strong light on the intensity of his belief in the divine origin of his calling.’’

(Life of Muhammad by Sir William Muir, 1923 edtition, pp.112-113)

یعنی محمد(ﷺ) کے سفر طائف میں ایک شاندار شجاعت کا رنگ پایا جاتا ہے۔اکیلا آدمی جس کی اپنی قوم نے اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور دھتکار دیا خدا کے نام پر کس بہادری کے ساتھ نینوا کے یونس نبی کی طرح ایک بت پرست شہر کو توبہ کی اور اپنے مشن کی دعوت دینے کو نکل کھڑا ہوتا ہے۔یہ بات اس کے پختہ ایمان کو خوب آشکار کرنے والی ہے کہ وہ اپنے آپ کو قطعی طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یقین کرتا تھا۔

(لائف آف محمد از سر ویلیم میورمطبوعہ 1923ء صفحہ112۔ 113)

تو یہ ہے وہ توکل ویقین کا اعلیٰ معیار جسکی غیر بھی معترف ہیں۔خدا پر یقین کا یہی رنگ ہمیں آپﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔

’’ایک دفعہ کسی بحث کے دوران میں حضرت مسیح موعود ؑسے کسی مخالف نے کوئی حوالہ طلب کیا۔ اس وقت وہ حوالہ حضرت کو یاد نہیں تھا اور نہ آپ کے خادموں میں سے کسی اور کو یاد تھا لہذا شماتت کا اندیشہ پیدا ہوا۔ مگر حضرت صاحب نے بخاری کا ایک نسخہ منگوایا اور یونہی اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور جلد جلد ایک ایک ورق الٹا نے لگ گئے اور آخر ایک جگہ پہنچ کر آپ ٹھہر گئے اور کہا کہ لو یہ لکھ لو۔ دیکھنے والے سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجرہ ہے اور کسی نے حضرت صاحب سے دریافت بھی کیا جس پر حضرت نے فرمایا کہ جب میں کتاب ہاتھ میں لےکر ورق الٹانے شروع کیے تو مجھے کتاب کے صفحات ایسے نظر آتے تھے کہ گویا وہ خالی ہیں اور ان پر کچھ نہیں لکھا ہوا۔ اسی لیے میں ان کو جلد جلد الٹاتا گیا۔ آخر مجھے ایک صفحہ ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ اور مجھے یقین ہوا کہ یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ سوائے اس جگہ کے کہ جس پر حوالہ درج تھا باقی تمام جگہ آپکو خالی نظر آئی۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ دوم مطبوعہ 1935 صفحہ2-3)

اللہ اللہ کیا ہی اعلیٰ مثال خدا پر یقین کے بارہ میں ہے کہ خدا کبھی ضائع نہیں کریگا ۔چنانچہ یہی رنگ ہمیں خلفاء راشدین وخلفاء احمدیت کے اندر بھی نظر آتا ہے اس موقعہ پرخاکسار صرف حضرت مرزا مسرور خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک دور میں رو نما ہونے والے بے شمار واقعات میں سے خدا تعالیٰ پر یقین وتوکل کے حوالے سے صرف دو واقعات کا ذکر کرتاہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب 2004 میں غانا تشریف لے گئے تو ایک موقع پر سفر کے دوران حضور نے اہل گھانا کو بشارت دی کہ غانا کی زمین میں تیل نکلے گا۔ چنانچہ جب 2008ء میں حضور انور خلافت جوبلی کے موقع پر دوبارہ غانا تشریف لے گئے تو غانا کے صدر مملکت نے ملاقات کے دوران حضور سے کہا کہ حضور انور کی ہمارے ملک کے لیے دعائیں قبول ہو رہی ہیں حضور انور نے اپنے گزشتہ دورہ کے دوران فرمایا تھا کہ گھانا کی زمین میں تیل ہے اور یہاں سے تیل نکلے گا۔ حضور کی یہ دعا بڑی شان سے قبول ہوئی اور گزشتہ سال گھانا سے تیل نکل آیا۔

چنانچہ اس حوالے سے غانا کے مشہور نیشنل اخبار Daily Graphic نے اپنے 17 اپریل 2008ء کے شمارے میں پہلے صفحہ پر حضور انور اور صدر غانا کی ملاقات کی رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھا کہ ’’خلیفۃ المسیح نے اپنے دورہ گھانا 2004ء کے دوران گھانا میں تیل کی دریافت پر بڑے پر زور طریق سے اپنے یقین کا اظہار کیا تھا یہی یقین گزشتہ سال حقیقت میں بدل گیا۔ اور گھانا کی سر زمین سے تیل نکل آیا۔‘‘

(الفضل انٹر نیشنل 25 ستمبر 2015 تا 1اکتوبر 2015 صفحہ17)

اسی طرح یقین وتوکل کے تعلق سے ایک واقعہ کا مشاہدہ ہم نے ماریشس میں کیا۔

’’ماریشس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ العزیز کی آمد کے پہلے روز جب آپ نماز ظہر اور عصر کی ادائیگی کے لیے اپنی رہائش گاہ سے بیت الذکر جانے کے لیے باہر تشریف لائے اور قافلہ روانگی کے لئے تیار ہوگیا تو ڈیوٹی پر موجود خدام نے الیکٹرونک مین گیٹ کو ریموٹ کی مدد سے کھولنا چاہا لیکن ہر طرح کی کوشش کرنے کے باوجود گیٹ نہ کھلا۔ آخرکار خدام گیٹ کو توڑنے کے لئے کوشش کرنے لگے لیکن اس میں بھی ناکام رہے۔ حضور انور گاڑی سے باہر تشریف لائے اور فرمایا ریموٹ مجھے دیں۔ اور جیسے ہی آپ نے ریموٹ کا بٹن دبایا گیٹ کھل گیا اس موقع پر موجود ایک ہندو پولیس سکواڈ بلا اختیار بول اٹھا کہ معجزوں کے بارے میں سنا تو تھا لیکن آج اپنی آنکھوں کے سامنے پہلی مرتبہ Live دیکھا ہے۔‘‘

(تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور ایدہ اللہ تعالیٰ نمبر، صفحہ282)

پس خدا تعالی کی ذات پر جن کو یقین وتوکل ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ انکے ساتھ ایک منفرد سلوک کرتے ہوئے اسکو اپنا محبوب و ولی بناتا ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی ہے ؛۔
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے یہ چیز سب سے زیادہ پسند ہے کہ میر ابندہ فرض کی ہوئی چیزوں کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرے ۔۔۔۔ جب مَیں اسے پیار کرنے لگ جاتا ہوں تو مَیں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو مَیں اسے ضرور عطا کروں گا اور اگر وہ میری پناہ چاہے گا تو مَیں ضرور اسے پناہ دوں گا۔ کسی چیز کے کرنے میں مجھے کبھی تردّدنہیں ہوا (جیسا) ایک مومن کی جان نکالتے ہوئے تردد ہوتا ہے وہ موت کو ناپسند کرتا ہے۔ اور اسے تکلیف دینا مجھے ناپسند ہے۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع۔ حدیث نمبر 6502)

گو کہ جسکا خدا دوست بن جائے ولی بن جائے اسکے لئے تو یہ دنیا بھی جنت اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی جنت۔تو یہ ثابت ہوا کہ اگر خدا پر ہمیں پورا یقین ہے تو وہ ہمارے لئے ہر امر کو آسان کر تے ہوئے اس دنیا میں ہمیں جنت کا وارث بناسکتا ہے۔اِن حقائق کو اور بہتر رنگ میں سمجھنے کے لئے بعض اقتباسات پیش ہے ۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’اعلیٰ درجے کی خوشی خدا میں ملتی ہے۔ جس سے پرے کوئی خوشی نہیں ہے۔ جنت پوشیدہ کو کہتے ہیں … ‘‘ (یعنی چھپی ہوئی چیز کو جنت کہتے ہیں) ’’… اور جنّت کو جنّت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ نعمتوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ اصل جنت خدا ہے جس کی طرف تردّد منسوب ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے بہشت کے اعظم ترین انعامات میں رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ (التوبۃ: 72) ہی رکھا ہے۔ انسان انسان کی حیثیت سے کسی نہ کسی دکھ اور تردّد میں ہوتا ہے، مگر جس قدر قرب الٰہی حاصل کرتا جاتا ہے اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ سے رنگین ہوتا جاتا ہے، اسی قدر اصل سکھ اور آرام پاتا ہے جس قدر قرب الٰہی ہو گا لازمی طور پر اسی قدر خدا کی نعمتوں سے حصہ لے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ396۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ، ماخوذ خطبہ جمعہ 2؍مئی 2014ء)

نیز آپؑ فرماتے ہیں:
’’جیسے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل متبتل تھے ویسے ہی کامل متوکل بھی تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اتنے وجاہت والے اور قوم اور قبائل والے سرداروں کی ذرا بھی پروا نہیں کی اور ان کی مخالفت سے کچھ بھی متاثر نہ ہوئے۔ آپؐ میں ایک فوق العادت یقین خدا تعالی کی ذات پر تھا۔ اسی لیے اس قدر عظیم الشان بوجھ کو آپؐ نے اٹھا لیا اور ساری دنیا کی مخالفت کی اور ان کی کچھ بھی ہستی نہ سمجھی۔یہ بڑا نمونہ ہے تو کل کا جس کی نظیر اس دنیا میں نہیں ملتی۔‘‘

(الحکم جلد5 نمبر37 صفحہ1 تا 3 پرچہ 10 اکتوبر 1901)

نیز آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’تو عبادت کرتارہ جب تک کہ تجھے یقین کامل کا مرتبہ حاصل نہ ہو اور تمام حجاب اور ظلماتی پر دے دور ہوکر یہ سمجھ میں نہ آجاوے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو پہلے تھا ، بلکہ اب تو نیا ملک نئی زمین ، نیا آسان ہے اور میں بھی کوئی نئی مخلوق ہوں ۔ یہ حیات ثانی وہی ہے جس کو صوفی بقاء کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ جب انسان اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی روح کا نفخ اس میں ہوتا ہے ۔ ملائکہ کا اس پر نزول ہوتا ہے ۔ یہی وہ راز ہے جس پر پیغمبر خدا صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت فرمایا کہ اگر کوئی چاہے کہ مردہ میت کو زمین پر چلتاہوا دیکھے تو وہ ابو بکرؓ کو دیکھے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 500)

حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفتہ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’جنت کیا ہے؟ آدمی کی آنکھ ہے، کان ہیں، زبان ہے، مزہ ہے، ٹٹولناہے۔۔۔۔ اللہ تعالی کے لئے جو ان باتوں کو ترک کرتا ہے اسے جنت ملتا ہے۔۔۔۔۔ اللہ تعالی کے لیے جو ہم قربان کریں اس کا نعم البدل جنت ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ120)

اسی طرح خداتعالی پر یقین کے تعلق سےحضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’آدم کی اولاد میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی طرف بلاتے رہیں گے اور ایسے لوگ جو ہدایت کو مان لیں گے وہ اسی دنیا میں جنت میں آ جائیں گے یعنی ایسی ایمانی قوت پیدا ہوجائے گی کہ ہر حالت میں ان کے دل مطمئن رہیں گے اور خوف یعنی آئندہ نقصانات کا ڈر اور حزن یعنی پچھلے نقصانات پر افسوس ان کو غمگین نہ کر سکے گا بلکہ ان کا دل جنت کا قائم مقام ہو جائے گا اور مابعدالموت الہی انعامات کے وارث ہوں گے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ347-348)

نیز آپ ؓ فرماتے ہیں:
’’قرآن کریم میں آتا ہے وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿ۚ۴۷﴾ جو شخص خدا تعالیٰ کے مقام کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے اسے دو جنتیں ملتی ہیں۔ ایک دنیا میں اور ایک اگلے جہاں میں۔ اب یہ واضح بات ہے کہ یہاں جنت ملنے سے مراد دنیوی اموال نہیں ہوسکتے۔ اگر دنیوی اموال مراد لیے جائیں تو خدا تعالیٰ کے کئی نیک بندے ایسے گزرے ہیں جن کے دنیوی حالات کفار سے بہت ہی ادنٰی تھے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی لے لو۔ آج یورپ کا مزدور آپؐ سے زیادہ اچھا کھانا کھاتا اور زیادہ اچھے کپڑے پہنتا ہے۔ پس اگر اس جگہ جنت سے دنیوی نعما مراد لی جائیں تو یقینا یورپ کا مزدور جنت میں ہےاور بڑے بڑے صلحاء اور اولیاء نعوذ باللہ جنت میں نہیں تھے۔ پس اس جگہ جنت سے مراد روحانی امن ہی ہوسکتا ہے اور جنت ملنے سے مراد خدا کے قرب کاحصول ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ39)

اور خدا کے قرب کو پانے کے لئے اسکے لئے سب کچھ چھوڑنا پڑیگا جیساکہ ہمارے پیارے سیدی فرماتے ہیں:
’’جو خدا تعالیٰ کے لئے سب کچھ چھوڑنے اور کھونے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف آمادہ بلکہ چھوڑ دیتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے واسطے کھونے والوں کو سب کچھ دیا جاتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 9؍ مارچ 2018ء)

اب یہ ناچیز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اس دعا کے ساتھ اپنے مضمون کو ختم کرتا ہے آپ ایدہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’اللہ کرے ہم میں سے ہر احمدی توکّل سے پُر ہو، اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین سے پر ہو، اور اس کی مغفرت اور رحمت کی چادر میں لپٹا ہوا ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ 15؍ اگست 2003ء)

اللہ تعا لیٰ ہمیں ان خزائن کے ذریعہ خدا تعالیٰ پر حقیقی یقین حاصل کرتے ہوئے اس دنیا میں بھی جنت کا حقدار بنائے اور آخرت میں بھی جنت کا وارث بنائے ۔آمین

مجھے اس یار سے پیوند جاں ہے
وہی جنت وہی دار الاماں ہے
بیاں اسکا کروں طاقت کہاں ہے
محبت کا تو اک دریا رواں ہے
یہ کیا احساس ہیں تیرے میرے ہادی
فسبحان الذی اخز الاعادی

(حلیم خان شاہدؔ۔ مربی سلسلہ کٹک،اڈیشہ،انڈیا)

پچھلا پڑھیں

ریجن ممباسہ کینیا میں تربیتی کلاس کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 دسمبر 2021