ٹریفک سگنل
ایسا نظام جس نے بے شمار انسانی جانوں کے تحفظ کو ممکن بنایا
دوران سفر سرخ بتی دیکھ کر گاڑی کو بریک لگا کر سبز ہونے کا انتظار کرتے ہوئے کبھی آپ نے سوچا کہ ٹریفک سگنل کا یہ نظام کب، کیسے، کس نے اور کہاں سے شروع کیا؟ یقینا ً یہ ایک بہت ہی عمدہ اور اچھوتا خیال تھا۔ ٹریفک جام کا مسئلہ تب سے ہے جب موٹر گاڑیاں ابھی ایجاد بھی نہیں ہوئی تھیں۔ یہ اوائل 1800ء کی بات ہے گھوڑا گاڑیاں اور پیدل چلنے والے لندن کی مصروف شاہراہوں پر ٹریفک جام سے پریشان رہتے تھے اور اس مسئلہ کا حل چاہتے تھے لیکن کوئی کارگر نظام وضع نہ ہو سکا۔ اس پریشانی کا حل ایک برطانوی ریلوے انجینئر جے پی نائٹ نے پیش کیا۔ انہوں نے ریل روڈ کے طریقہ کار کو اپنانے کا مشورہ دیاجس کے نتیجے میں لندن شہر میں 1868ء میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دنیا کا پہلا ٹریفک سگنل نصب کیا گیا۔ ابتدائی سگنل گیس پر چلتے تھے جنہیں ہر بار ہاتھ سے شعلہ دیا جاتا تھا۔ یعنی کوئی خودکار نظام نہیں تھا اور اس طریقہ کار میں کئی مسائل تھے۔ گیس کے باعث اکثر سگنل بوتھ دھماکہ سے تباہ ہوجایا کرتے تھے۔ اسی لیے زیادہ مقبول نہ ہوسکےکیونکہ عملاً ان کا انتظام و انصرام مشقت طلب کام تھا۔ 1914ء تک یہی گیس سگنل ہی ٹریفک کی روانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ بالآخر الیکٹرک سگنل نے گیس سے چلنے والے ان ٹریفک سگنل کو چلتا کر دیا۔ بجلی سے چلنے والے ٹریفک سگنل پہلے پہل اوہائیو کے شہر کلیونڈ میں نصب کیے گئے۔ باوجود یکہ یہ سگنل بجلی سے چلتے تھے لیکن خود کار نہیں تھے،انہیں بھی ہاتھ سے ہی آپریٹ کرنا پڑتا تھا۔ کنٹرول بوتھ میں بیٹھا ایک آپریٹر مینوئلی یہ کام سرانجام دیتا تھا۔ ابتداء سے ہی سرخ رنگ رکنے اور سبز چلنے کے اشارہ کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا رہا ہےجس میں بعد ازاں تیسری بتی بھی شامل کر دی گئی جوسفید روشنی خارج کرتی تھی۔ بتی کی جگہ الارم بھی استعمال کیا گیا لیکن پھر اس کی جگہ پیلی بتی کا استعمال ہونے لگا۔ ابتداء میں ٹریفک سگنل کے لیے وہی رنگ استعمال کیے گئے جو ریلوے کے نظام میں استعمال کیے جاتے تھے۔ ریلوے میں سرخ خطرے اور سبز احتیاط سے چلنے کے اشارہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ روڈ ٹریفک میں سرخ کو رکنے اور سبز کو چلنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ ابتداء میں جیسے جیسے گاڑیوں کا استعمال عام ہوا ویسے ہی ٹریفک سگنل کی تنصیب بھی بڑے پیمانے پر ہونے لگی اور اس نظام میں وقت کے ساتھ اصلاحات ہوتی رہیں۔ اصلاحات کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ٹریفک سگنل کے ثمرات ابتداء میں ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کیونکہ ٹریفک حادثات سے ہونے والی اموات میں بہت تیزی سے کمی واقع ہوئی تھی۔ بنیادی طور پر ٹریفک سگنل تین رنگ کی بتیوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو خود کار نظام کے تحت اشارے دیتے ہیں کہ کس سمت والی گاڑیوں کو چلنا ہے اور کس سمت سے آنے والی ٹریفک کو رکنا ہے۔ کسی بھی انٹرسیکشن پر ٹریفک کی روانی کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے ٹریفک سگنل باہمی تعامل سے چلتے ہیں۔
ٹریفک سگنل کی بتیوں کے جلنے بجھنے کا دورانیہ ہر جگہ شہر، ہائی وے کے ہر فیز کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔ روڈ کی لمبائی چوڑائی کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ٹریفک سگنل کے دورانیہ میں کمی بیشی کی جاتی ہے۔ ٹریفک سگنل کے جدید نظام میں کمپیوٹرائیز سسٹم ٹریفک کے بہاؤ پر نظر رکھ کر خود کار طریقہ سے بھی ٹریفک سگنل کے دورانیہ کو کم یا زیادہ کرتا رہتا ہے۔ اگر ٹریفک کا بہاؤ کم ہو تو سگنل جلدی جلدی سگنل کو پراسس کرتا ہےاور زیادہ دیر تک گاڑیاں روکنی نہیں پڑتیں۔ نیز یہ سسٹم گاڑیوں کی رفتا پر نظر رکھ کربھی ٹریفک سگنل کے دورانیہ کو کم زیادہ کرتا ہے۔ مثلاً اگر گاڑیوں کی رفتار زیادہ ہو تو سگنل میں پیلی بتی کا دورانیہ بڑہا دیتا ہے۔ اس طرح ڈرائیورز کو ردعمل دکھانے کا اضافی وقت مل جاتا ہے۔ اگر ایسی صورتحال میں پیلی بتی کا دورانیہ کم ہو تو عین ممکن ہے کہ لوگ سرخ بتی پر بھی رفتار کم نہ کرپائیں اور حادثہ کا شکار ہوجائیں۔ سمارٹ سگنل سسٹم شہر کے تمام ٹریفک سگنل سے منسلک ہوتے ہیں جو ہر طرف سے آرہی ٹریفک پر نظر رکھ کر سگنل کے کھلنے اور بند ہونے کے دورانیہ کو کم یا زیادہ کرتے رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہر سگنل کے اوپر کیمرے،ریڈار اور سڑک پر گاڑیوں کا وزن چیک کرنے والے سینسرز بھی نصب کیے جاتےہیں جو ٹریفک کے بہاؤ پر نظر رکھنے میں معاونت کرتے ہیں۔ وزن محسوس کرنے والے سنسر سے سسٹم جان لیتا ہے کہ کس طرف سے زیادہ بڑی گاڑیاں آرہی ہیں۔ تمام سنسر سے آنے والے ڈیٹا کو کمپیوٹر پراسس کرکے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ٹریفک سگنل کی بتیوں کا دورانیہ کیا ہو۔
نیز جدید نظام میں ایسے سینسر ز بھی نصب ہیں جو ایمرجنسی والی گاڑیوں مثلاً ایمبولینس،فائر برگیڈ اور پولیس کی گاڑیوں کو شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور شناخت ہونے پر سگنل باقی گاڑیوں کو روک کر ایسی گاڑیوں کو انٹر سیکشن پر سے گزرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ٹریفک سگنل پر بتیوں کے جلنے بجھنے کا یہ تعامل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ٹریفک جام نہ ہونے پائے۔
جس طرح آج گاڑیوں میں جدت آرہی ہے اور ڈرائیور کے بغیر خود کار نظام کے تحت چلنے والی گاڑیاں بھی اب عام ہو رہی ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹریفک سگنل کا مستقبل کیا ہوگا؟ عین ممکن ہے کہ چند عشروں بعد جب ہر گاڑی بغیر ڈرائیور کے سڑک پر چلنے لگے گی تو ٹریفک سگنل کا موجودہ نظام بالکل ختم ہو جائے اور بغیر ڈرائیور کی ان گاڑیوں کی سڑک پر روانی برقرار رکھنے کے لیے کوئی اور نظام وضع ہو چکا ہو۔
(مدثر ظفر)