• 6 مئی, 2024

ناصرات الاحمدیہ کا سلو گن

ناصرات الاحمدیہ کا سلو گن
Modesty is Part of Faith

خاکسار لجنہ اماء اللہ کے سو سالہ جشن تشکر پر الفضل آن لائن کی خصوصی اشاعت کے لیے اداریہ کے عنوان کی تلاش میں تھا اور قارئین کرام سے بھی مشورہ کر رہا تھا کہ ہمارے ایک نمائندہ الفضل یو کے مکرم عامر محمود ملک نے موٴرخہ 2؍جنوری 2021ء کی ورچوئیل ملاقات کا احوال لکھ کر درخواست کی کہ حضور انور نے ناصرات الاحمدیہ کو Modesty is Part of Faith کا سلوگن دیا ہے۔ اس پر لکھنے کی ضرورت ہے تا دوسری صدی میں داخلے سے قبل ہر ناصرہ اس کی اہمیت سے آگاہ ہو۔

سو عرض ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے موٴرخہ 2؍جنوری 2021ء کو نیشنل عاملہ اماء اللہ برطانیہ کے ساتھ ایک ورچوئیل ملاقات میں ناصرات الاحمدیہ کو ایک Slogan سے نوازا۔ یہی سلوگن آج میرے اداریہ کا عنوان ہے۔ یعنی Modesty is part of Faith جو دراصل انگریزی ترجمہ ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کا یعنی

اَلْحَیَآءُ مِّنَ الْاِیْمَانِ کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ بعض روایات میں اَلْحَیَآءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ کے الفاظ بھی ملتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ حیا بھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے۔

(مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان )

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ناصرات الاحمدیہ کو یہ سلوگن دیتے ہوئے فرمایا:
’’یہ بہت سی چیزوں کا احاطہ کر لے گاجس سے آپ کو آپ کی ناصرات کی تر بیت کرنے میں مدد فراہم ہو سکے گی۔

اس مبارک نعرے کی مدد سے ناصرات ان شاء اللہ ایک دوسرے کے ساتھ ایک نئی دنیا دریافت کریں گی۔

ہم اپنے تجربات ایک دوسرے سے بانٹیں گی۔ اپنے سر فخر سے بلند رکھتے ہوئے اپنے اعمال، خیالات اور الفاظ کے ساتھ دنیا کی قیادت کریں گی۔‘‘

حضورِ انور نے ایک موقع پر فرمایا۔
’’ناصرات کے حوالے سے (اخلاقی تربیت) کا کام بہت ہی اہم ہے۔‘‘

حیا کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حیا کے مد مقابل لفظ بے حیائی کے لیے فحشاء اور فواحش کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ جیسے فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ

(الاعراف: 29)

یقیناً اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔

• ایک موقع پر یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ (النحل: 91) کہ بے حیائی سے منع فرماتا ہے۔

• پھر ایک مقام پر بہت واضح الفاظ میں فرمایا:

اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَمَا بَطَنَ

(الاعراف: 34)

میرے ربّ نے محض بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بھی جو اس میں سے ظاہر ہو اور وہ بھی جو پوشیدہ ہو۔

غض بصر کا حکم

حیا کے ضمن میں ایک واضح حکم غض بصر کا قرآن کریم میں ملتا ہے۔ مومنوں کو مومنٰت سے قبل یہ حکم دیا گیا۔ مردوں کو مخاطب ہو کر فرمایا:

یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ

(النور: 31)

کہ مومن اپنی آنکھیں نیچی رکھیں۔

جبکہ مومن عورتوں کو مخاطب ہو کر فرمایا:

یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَیَحۡفَظۡنَ

(النور: 32)

کہ وہ مومن عورتیں اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں۔

شرم گاہوں کی حفاظت

قرآن کا یہ حکم بھی حیا ہی کا حصہ ہے۔ جیسا کہ مردوں کے لیے یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ (النور: 31) اور عورتوں کے لیے یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ (النور: 32) کے الفاظ میں اپنی اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم ہے۔

پردہ کا حکم

حیا کے ضمن میں ایک بڑا حکم مومن عورتوں کو چہرہ کے پردہ کا حکم ہے۔ اس حوالہ سے تفصیلی حکم سورۃ الاحزاب آیت 60 اور سورۃ النور آیت32 میں ملتے ہیں۔ وہاں سے اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

حیا کا مفہوم احادیث میں

شرم و حیا کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کا خاص خلق قرار دیا ہے۔ اس کی اہمیت کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فقرہ کہہ کر مزید اجاگر کیا کہ ہر دین و مذہب کا ایک اپنا خاص خلق ہوا کرتا ہے۔ اسلام کا خاص خلق حیا ہے۔

(حدیقۃ الصالحین از ملک سیف الرحمٰن مرحوم صفحہ767-768)

• آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سابقہ تمام انبیاء کے حکیمانہ اقوال میں سے ایک یہ ہے کہ إذا لم تستحْيِ فاصنَعْ ما شئتَ

(بخاری کتاب الادب)

کہ جب حیا اٹھ جائے تو پھر انسان جو چاہے کرے۔ فارسی میں اس کا ترجمہ کسی نے یوں کیا ہے ’’بے حیا باش ہر چہ خواہی کن۔‘‘

پھر آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ:
حد سے بڑھی ہوئی بے حیائی ہر مرتکب کو بد نما بنا دیتی ہے اور شرم و حیا ہر حیا دار کو حسن سیرت بخشتا ہے اور اسے خوبصورت بنا دیتا ہے۔

(ترمذی کتاب البرو الصلۃ فی الفحش)

• حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپؐ کسی چیز کو ناپسند کرتے تو اس کا اثر ہم آپؐ کے چہرہ مبارک سے محسوس کرتے یعنی آپؐ کے چہرے کو دیکھ کر پتہ چل جاتا کہ یہ بات آپؐ کو پسند نہیں آئی۔ بالعموم آپؐ اس کا اظہار زبان سے نہ فرماتے۔

(مسلم کتاب الفضائل ترجمہ از حدیقۃ الصالحین صفحہ770)

حیا کے حوالہ سے مختصر اسلامی تعلیم دینے کے بعد اصل مضمون کی طرف آتے ہوئے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان ساٹھ(60) یا ستّر (70) سے بھی کچھ زائد حصوں میں منقسم ہے۔ ان میں سے افضل لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنا اور عام و آسان حصہ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو دور کرنا ہے۔ حیا بھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے۔

(مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ لجنہ سے اپنے خطابات، ورچوئیل ملاقاتوں میں احمدی ماؤں کو اپنی بچیوں کو حجاب پہننے اور حیا کے تمام پہلوؤں کو رکھنےکی طرف بار بار توجہ دلا رہے ہیں۔ اُدھر احمدی بچیوں، ناصرات اور واقفات نو کو براہ راست حیا کے بارے اسلامی تعلیم اپنانے کی نصیحت فرما رہے ہیں اور اسکولز میں حجاب پہننے کی تلقین فرماتے ہیں۔ ایڈیٹر الفضل آن لائن کے ناطے احمدی مائیں اپنی بچیوں کے اسکولز میں حجاب کے حوالے سے بچیوں کے وفا پر خطوط لکھتی رہتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے آزادی رائے و ضمیر کا نام لے کر اسکولز میں حجاب کو منوایا اور وہ اب اسکولز میں حجاب پہن کر جاتی ہیں۔

• حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس حوالہ سے فرمایا:
’’اس معاشرے میں جہاں ہر ننگ اور ہر بیہودہ بات کو اسکول میں پڑھایا جاتا ہے پہلے سے بڑھ کر احمدی ماؤں کو اسلام کی تعلیم کی روشنی میں، قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اپنے بچوں کو بتانا ہو گا۔ حیا کی اہمیت کا احساس شروع سے ہی اپنے بچوں میں پیدا کرنا ہو گا۔ پانچ چھ سات سال کی عمر سے ہی پیدا کرنا شروع کرنا چاہئے۔ پس یہاں تو ان ملکوں میں چوتھی اور پانچویں کلاس میں ہی ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں کہ بچے پریشان ہوتے ہیں جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ اسی عمر میں حیا کا مادہ بچیوں کے دماغوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بعض عورتوں کے اور لڑکیوں کے دل میں شاید خیال آئے کہ اسلام کے اور بھی تو حکم ہیں۔ کیا اسی سے اسلام پر عمل ہو گا اور اسی سے اسلام کی فتح ہونی ہے۔ یاد رکھیں کہ کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔‘‘

( پردہ، احمدی ماؤں کی ذمہ داریاں، alislam.org جلسہ سالانہ کینیڈا مستورات 8؍اکتوبر 2016ء)

• پھر فرمایا:
’’جو مائیں بچپن سے ہی اپنے بچوں کے لباس کا خیال نہیں رکھیں گی وہ بڑے ہو کر بھی ان کو سنبھال نہیں سکیں گی۔ بعض بچیوں کی اُٹھان ایسی ہوتی ہے کہ دس گیارہ سال کی عمر کی بچی بھی چودہ پندرہ سال کی لگ رہی ہوتی ہے۔ ان کو اگر حیا اور لباس کا تقدّس نہیں سکھائیں گی تو پھر بڑے ہو کر بھی ان میں یہ تقدّس کبھی پیدا نہیں ہوگا۔ بلکہ چاہے بچی بڑی نہ بھی نظر آرہی ہو، چھوٹی عمر سے ہی اگر بچیوں میں حیا کا یہ مادہ پیدا نہیں کریں گی اور اس طرح نہیں سمجھائیں گی کہ دیکھو! تم احمدی ہو، تم یہاں کے لوگوں کے ننگے لباس کی طرف نہ جاؤ تم نے دنیا کی رہنمائی کرنی ہے، تم نے اس تعلیم پر عمل کرنا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اس لئے تنگ جینز اور اس کے اوپر چھوٹے بلاؤز جو ہیں ایک احمدی بچی کو زیب نہیں دیتے۔ تو آہستہ آہستہ بچپن سے ذہنوں میں ڈالی ہوئی بات اثر کرتی جائے گی اور بلوغت کو پہنچ کر حجاب یا سکارف اور لمبا کوٹ پہننے کی طرف خود بخود توجہ پیدا ہو جائے گی۔ ورنہ پھر ان کی یہی حالت ہوگی جس طرح بعض بچیوں کی ہوتی ہے۔ مجھے شکایتیں ملتی رہتی ہیں دنیا سے اور یہاں سے بھی کہ مسجد میں آتے ہوئے، جماعتی فنکشن پر آتے ہوئے تو سر ڈھکا ہواہوتا ہے، لباس بڑا اچھا پہنا ہواہوتا ہے اور باہر پھرتے ہوئے سر پر دوپٹہ بھی نہیں ہوتا بلکہ دوپٹہ سرے سے غائب ہوتا ہے، سکارف کا تو سوال ہی نہیں۔ پس مائیں اگر اپنے عمل سے بھی اور نصائح سے بھی بچیوں کو توجہ دلاتی رہیں گی، یہ احساس دلاتی رہیں گی کہ ہمارے لباس حیا دار ہونے چاہئیں اور ہمارا ایک تقدّس ہے تو بہت سی قباحتوں سے وہ خود بھی بچ جائیں گی اور ان کی بچیاں بھی بچ جائیں گی۔ اگر ہم اپنے جذبات کی چھوٹی چھوٹی قربانیوں کے لئے تیار نہیں ہوں گے تو بڑی بڑی قربانیاں کس طرح دے سکتے ہیں۔‘‘

( خطاب مستورات جلسہ سالانہ 28؍جون 2008ء)

• اسکولز و کالجز میں حجاب لینے کے حوالہ سے حضور ایدہ اللہ نے فرمایا:
’’اسکولوں اور کالجوں میں بھی لڑکیاں جاتی ہیں اگر کلاس روم میں پردہ، سکارف لینے کی اجازت نہیں بھی ہے تو کلاس روم سے باہر نکل کر فوراً لینا چاہئے۔ یہ دو عملی نہیں ہے اور نہ ہی یہ منافقت ہے۔ اس سے آپ کے ذہن میں یہ احساس رہے گا کہ مَیں نے پردہ کرنا ہے اور آئندہ زندگی میں پھر آپ کو یہ عادت ہو جائے گی اور اگر چھوڑ دیا تو پھر چھوٹ بڑھتی چلی جائے گی اور پھر کسی بھی وقت پابندی نہیں ہو گی۔ پھر وہ جو حیا ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔

پھر اپنے عزیز رشتہ داروں کے درمیان بھی جب کسی فنکشن میں یا شادی بیاہ وغیرہ میں آئیں تو ایسا لباس نہ ہو جس میں جسم اٹریکٹ (attract) کرتا ہو یا اچھا لگتا ہو یا جسم نظر آتا ہو۔ آپ کا تقدّس اسی میں ہے کہ اسلامی روایات کی پابندی کریں اور دنیا کی نظروں سے بچیں۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا۔ یعنی اِدھر اُدھر ہونے کی کوشش کی اور فرمایا: اے اسماء! عورت جب بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کے منہ اور ہاتھ کے علاوہ کچھ نظر آئے اور آپؐ نے اپنے منہ اور ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے یہ بتایا۔‘‘

(ابوداؤد کتاب اللباس)

(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 3جولائی 2004ء چہرے کا پردہ کیوں ضروری ہے Alislam.org)

• حیا ایمان کا حصہ ہے کے حوالہ سے احمدی بچیوں سے مخاطب ہو کر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ دین کو اوّلیت ہے۔ لباس چاہے کوئی بھی ہو۔کسی بھی قسم کا ہو لیکن حیا دار لباس ہونا چاہیے۔ قرآن کریم میں یہ نہیں لکھا کہ تم نے شلوار قمیض پہننی ہےیا لمبا چوغہ پہننا ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ تمہارا حیا دار لباس ہونا چاہیے۔ تمہاری زینت نظر نہیں آنی چاہیئے۔تو یہ لڑکیوں میں تربیت کے شعبے کا کام ہے۔ ناصرات کے شعبے کا کام ہے اور ماں باپ کا بھی کام ہے کہ وہ بچپن سے ہی (یہ چیز) پیدا کریں۔ تربیت کا شعبہ یہ کام ماں باپ کے ذریعہ سے کرے۔ناصرات کا شعبہ اپنی تنظیم کے لحاظ سے کام کرے۔ماں باپ اپنے طور پر تربیت کریں کہ ہم احمدی مسلمان ہیں۔ اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حیا دار لباس پہنو۔ بعض مسلمان ہیں بلکہ بعض غیر احمدی عرب مسلمان بھی میں نے دیکھے ہیں جو Jeans اور Blouse پہن کر حجاب لے لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ہم نے بڑا پردہ کر لیا ہے۔تو اُس پردے کا تو کوئی فائدہ نہیں جب کہ اس کا لباس ننگا ہے۔اور لباس سے ساری زینت ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔یا باہر جاتے ہوئے چوغہ پہن لیا اور گھر میں اپنے رشتہ داروں کےسامنے ایسا لباس ہوتا ہے جو صحیح نہیں ہوتا تو وہ بھی غلط ہے۔ حدیث ہے ’’حیا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ اس لیے بچپن سے ہی بچیوں کے ذہنوں میں یہ ڈالنا ہو گا کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور ہم احمدی مسلمان ہیں۔ ہمیں اپنے نمونے بھی دکھانے چاہیے۔ہماری دو عملی نہیں ہونی چاہیے۔اگر ہمارا لباس حیا دار ہو گا توہماری حیا بھی قائم رہے گی اور پھر وہ بڑے ہو کر بھی اس حیا دار لباس کے مطابق اپنے لباسوں کو ڈھالیں گی اور پھر پردہ بھی کریں گی،اور حجاب (سے) بھی نہیں شرمائیں گی،اور کمپلیکس بھی نہیں ہو گا۔اپنے آپ میں یہ احساس پیدا کریں کہ ہم نے دنیا کی اصلاح کرنی ہے دنیا کو اپنے پیچھے چلانا ہے نا کہ ہم نے دنیا کے پیچھے چلنا ہے۔ جب یہ احساس اور confidence پیدا ہو جائے گاتو پھر (سب) ٹھیک ہو جائے گا۔اور اگر مائیں ہی بے حوصلہ ہو جائیں گی،ان میں اعتماد نہیں ہو گا،باہر نکلیں گی تو ان مغربی لوگوں کو دیکھ کے ڈر جائیں گی۔جس نے انگریزی کے دو لفظ بول دئیے یا مقامی زبان کے لفظ بول دئیے تو ڈر کے چپ کر گئیں۔ایسی بات نہیں ہے۔ان کو بتائیں کہ ہم باہر آئے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی وجہ سے ہم باہر نکلے ہیں ورنہ ہم نہیں نکل سکتے تھے۔ اللہ کے فضل کا اور شکر گزاری ادا کرنے کا ہی یہ ذریعہ ہے کہ ہم اسلام کی تبلیغ اور تعلیم کو لوگوں تک پہنچائیں۔اور اس کے لیے اپنے نمونے قائم کریں اور صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالیں۔ جب آپ لوگ شعبہ تربیت بھی،شعبہ ناصرات بھی، اور ماں باپ بھی مل کے یہ اعتماد پیدا کریں گے تو کوئی کمپلیکس نہیں ہوگا۔اور جو یہاں رہنے والی لڑکیاں ہیں، اگر ان کاجماعت سے باقاعدہ رابطہ ہو،تعلق ہو، اور باقاعدہ میرے خطبات بھی سنتی ہوں۔یا میری لجنہ سے تقریریں بھی سنتی ہوں۔یا آپ لوگوں سے ان کا رابطہ ہو تو ان میں کوئی کمپلیکس نہیں ہوگا۔ وہ لوگ جوجماعت سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں انہی میں کمپلیکس پیدا ہو جاتا ہے۔یا پھر ایسے لوگ جن کے ماں باپ بالکل ہی ان پڑھ ہیں اور لڑکیوں کی باتوں کی طرف، ان کے جواب دینے میں توجہ نہیں دیتے تو پھر ایسی لڑکیاں جن کے ماں باپ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں، چاہیے کہ لجنہ میں سے پڑھی لکھی لڑکیاں ان سے دوستی پیدا کریں۔16 سے 20 سال کی نو جوان لجنہ بھی تو ہیں۔ ان کو احساس دلائیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ ہر ایک اپنے ساتھ ایک ایک لڑکی کو لگا لے تو کمپلیکس دور ہو جائے گا۔ تھوڑی سی تو (آپ کی) تعداد ہے۔‘‘

(This Week with Huzoor 24 September 2021
مطبوعہ الفضل آن لائن موٴرخہ 23؍اکتوبر 2021ء)

آج جب ہماری بہنیں اور پیاری بچیاں صد سالہ جوبلی منا کر اپنی دوسری صدی میں قدم رکھ رہی ہیں اس موقع پر احمدی ماؤں، بہنوں اور بچیوں سے یہ التجاء یا درخواست کہہ لیں کرنی ضروری معلوم ہوتی ہے آپ نے ایک صدی تک حیا کی اسلامی تعلیم کو ساری دنیا میں بلند رکھ کر دربار الٰہی اور خلافت احمدیہ کی چوکھٹ پر سر خرو ہوئی ہیں۔ وہاں آئندہ آنے والی نسلوں کی راہنمائی کے لیے اس عملی نمونہ کو جاری و ساری رکھنے کا عہد کرتے ہوئے اپنے قدموں کو آگے بڑھائیں اور حضور انور ایدہ اللہ کے دئیے گئے سلوگن Modesty is part of Faith کو حرز جان بناتے ہوئے پوری جماعت میں عام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کما حقہ عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازتا رہے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

مسلم خواتین کی میراث

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 دسمبر 2022