• 28 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کرنے کا واقعہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت چوہدری نظام الدین صاحبؓ ولد میاں نبی بخش صاحب فرماتے ہیں کہ تیسرا واقعہ طاعون کی پیشگوئی کے موقع پر موضع شکار ماچھیاں سے مولوی رولدو صاحب کی بیوی اور پانچ چھ اور عورتیں طاعون سے مرعوب ہو کر کمال سردی اور بارش کے موقع پر بیعت کی غرض کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ (جب طاعون ہو رہا تھا تو شکار ماچھیاں سے پانچ چھ عورتیں باوجود اس کے کہ سردی بہت تھی اور بارش ہو رہی تھی، طاعون کے خوف سے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ بیعت کر کے ہی جان بچائی جا سکتی ہے۔ تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بارش میں بھیگتی ہوئیں حاضر ہوئیں) حضرت صاحب نے اُن کی حالت ِ تکلیف سفر اور سردی وغیرہ دیکھ کر نہایت شفقت اور مہربانی سے عذرات مناسب فرمائے اور بھیگے کپڑے اتروا کر نئے کپڑے پہنوا دئیے، یعنی اُن کے کپڑوں کا انتظام کر دیا اور سردی دور کرنے کے لئے آگ سلگوا دی۔ جب آسودہ حال ہوئیں تو عرض کی حضور خاکساروں کی بیعت قبول فرمائی جائے۔ حضور نے مہربانی اور عنایت سے عرض منظور فرما کر بیعت کے زمرہ میں داخل فرما لیا۔ مولوی صاحب مذکور کی بیوی نے پیغام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ‘‘ پیش کیا۔ (مولوی صاحب کی جو بیوی تھی اُن میں سے کچھ پڑھی لکھی تھیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بیعت کرنے کے بعد حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد آتا ہے کہ میرے مسیح کو پیغام پہنچاؤ، وہ پیش کیا) تو حضور بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ یہ پیغام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آج تک کسی نے نہیں ادا کیا۔ لوگ آتے ہیں، بیعت کرتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ پھر بایعانِ مذکورہ نے عرض کی کہ حضور کاپس خوردہ بوجہ تبرک ہمیں ملنا چاہئے جو تبرک ملا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد6 صفحہ232-233)

چوہدری حاجی ایاز خان صاحب جو ہنگری وغیرہ کے مبلغ بھی رہے ہیں۔ وہ اپنے والد صاحب حضرت چوہدری کرم دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے اُن کو جو بتایا، بیٹے نے اُس کی آگے روایت کی ہے۔ حضرت چوہدری کرم دین صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ جب حضرت صاحب کے جہلم آنے کے متعلق افواہ تھی اُس وقت تمہاری والدہ حسین بی بی کو خواب میں اللہ تعالیٰ سے معلوم ہوا کہ یہ شخص جو جہلم آنے والا ہے اور لوگ اُس کی مخالفت کرتے ہیں، وہ سچا ہے۔ چنانچہ صبح کو تمہاری والدہ نے مجھے کہا کہ یہ بڑی خوش قسمتی ہو گی اگر تم اس پاک مرد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کرو اور بیعت کرو۔ چنانچہ جس دن حضرت صاحب جہلم پہنچے، اُس دن کھاریاں اور دوسرے سٹیشنوں پر اس قدر ہجوم ایک دن پہلے سے جمع ہو رہا تھا کہ حضور کو دیکھنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ اس لئے مقدمے کی تاریخ کے دن، (یہ حاجی ایاز خان صاحب کے والد ان کو کہہ رہے تھے کہ مقدمے کی تاریخ کے دن) تمہاری والدہ نے سحری کے وقت مجھے تازہ روٹی پکا کر دی اور میں کھا کرپیدل جہلم چلا گیا اور کچہری کے احاطے میں مشکل سے پہنچا کیونکہ لوگ کئی کئی حیلے کر کے حضرت صاحب کی شکل مبارک دیکھنے کے لئے ترس رہے تھے۔ ڈپٹی صاحب کی کوٹھی کے پرے بہت خوبصورت داڑھیوں والے مولوی لوگ وعظ کرتے تھے اور کہہ رہے تھے، (یعنی کچھ احمدی لوگ تھے پنجابی میں کہہ رہے تھے کہ) ’’او خلقنے خدا دی اے، اوہ سچا مہدی، اوہ سچا مسیح، اوہ بڑیاں اُڈیکاں والا مسیح، اوہ آگیا اے، من لو تے ویلا جے‘‘ یعنی اے مخلوق خدا! وہ سچا مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کی مدتوں سے انتظار تھی، وہ آ گیا ہے۔ اب وقت ہے اُس پر ایمان لے آؤ۔ ہمارے کھاریاں کے احمدی کچھ دن پہلے جہلم چلے گئے ہوئے تھے کیونکہ وہاں لنگر اور پہرے کا انتظام کرنا تھا۔ حضرت صاحب جب ڈپٹی کی کچہری میں داخل ہوئے تو ایک دو منٹ بعد ہی کمرے سے باہر آ گئے اور دھوم مچ گئی کہ آپ بَری ہو گئے ہیں اور بگھی میں بیٹھ کر سٹیشن کی طرف چلے گئے۔ مَیں حیران تھا کہ حضور تک کس طرح رسائی ہو اور بیعت کس طرح کروں۔ چنانچہ معلوم نہیں حضور شہر کی جانب سے ہو کر سٹیشن گئے یا دوسرے راستے کی سڑک سے، لیکن میں دوڑ کر سیدھا سٹیشن پہنچا۔ حضور گاڑی میں بیٹھ گئے اور پولیس نے سب آدمیوں کو سٹیشن کے باہر کر دیا۔ جنگلے کے پار جدھر دیکھو، جہاں تک نظر جاتی تھی، آدم ہی آدم نظر آتا تھا۔ جب پولیس نے ہمیں پلیٹ فارم سے باہر نکالنا چاہا تو میری نظر ایک کانٹے والے یعنی ریلوے پوائنٹس مَین پر جا پڑی۔ ریلوے کا ملازم تھا، اُس کا نام عبداللہ تھا اور وہ موضع بوڑے جنگل میں رہنے والا تھا اور کبڈی اور کشتی لڑنے میں مشہور تھا۔ میرا واقف تھا۔ اُس کو مَیں نے کہا کہ کوئی صورت کرو کہ اب پولیس مجھے باہر نہ نکالے۔ میں نے قریب ہو کر مرزا صاحب کی زیارت کرنی ہے۔ چنانچہ عبداللہ کانٹے والے نے میرے ہاتھ میں ایک ریلوے جھنڈی دے دی۔ ایک اُس کے ہاتھ میں تھی اور ایک دوسری میرے ہاتھ میں اور ہم دونوں اس طرح ٹہلنے لگے جیسے کہ مَیں بھی ریلوے ملازم ہوں۔ اب صرف چند آدمی تھے اور باقی مخلوق جنگلے کے باہر۔ مَیں نے جھنڈی وہیں پھینکی اور جس ڈبے میں حضرت صاحب تھے اُس کی طرف بڑھا۔ حضرت صاحب نے جیب سے گھڑی نکالی اور فرمایا، ابھی تو دس منٹ باقی ہیں۔ آواز دو جس نے بیعت کرنی ہے کر لو۔ بیعت کا لفظ حضور کے منہ میں تھا کہ کھڑکی کے سامنے پائیدان پر موجود اور آگے بڑھا۔ ایک مولوی صاحب نے باہر نکل کر بیعت کے لئے لوگوں کو آواز دی اور ابھی آواز کے لئے باہر نکلے تھے کہ میں نے ذرا اور آگے سر جھکایا تو حضرت صاحب نے میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا۔ بیعت کرنی ہے؟ مَیں نے عرض کی۔ جی ہاں۔ جی صاحب میرے۔ چنانچہ حضور نے میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیا اور کلمہ شہادت پڑھایا اور کئی باتیں جیسے شرک نہیں کروں گا اور سچ بولوں گا وغیرہ جو اب مجھ یادنہیں ……مگر جب حضور نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اُدھر سے ایک مولوی صاحب کی آواز بیعت کے لئے نکلی تو جو لوگ سٹیشن کے برآمدے میں تھے یا جنگلے کے باہر، وہ سب ٹوٹ پڑے اور جنگلہ پھلانگ کے ایک آن میں پلیٹ فارم پُر کر دیا۔ حضور نے فرمایا کہ اس کے بازو پر ہاتھ رکھ لو۔ (یعنی ان کا ہاتھ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ باقی جو بیعت کرنے والے ہیں اس کے بازو پر اپنا ہاتھ رکھ لیں۔) مگر یہ تو پہلے چار پانچ آدمیوں نے ہی میری کہنی اور بازو پر ہاتھ رکھے تھے اور اب تو ہجوم تھا۔ حضور نے فرمایا کہ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ لو اور جو اس کے پیچھے ہیں وہ اس طرح ایک دوسرے کے کندھوں اور بازوؤں پر۔ پس میرا ہاتھ حضرت صاحب کے ہاتھ میں تھا اور باقی نامعلوم کہاں تک پیچھے کو کندھوں پر ہاتھ رکھنے کا سلسلہ تھا۔ حضرت صاحب نے میرا ہاتھ خوب مضبوط پکڑا ہوا تھا اور آنکھیں قریباً بند تھیں۔ حضور کی پگڑی برف کی طرح سفید تھی اور پگڑی کے نیچے کلاہ نہیں تھا بلکہ رومی ٹوپی کی طرح کچھ تھا اور پُھندنابھی سیاہ رنگ کا پگڑی سے اوپر کو نکل کر لٹک رہا تھا جو بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتا تھا۔ جب بیعت لے چکے تو حضور نے گھڑی نکال کر دیکھتے ہوئے فرمایا کہ ایک منٹ باقی ہے۔ دوستوں کو گاڑی سے علیحدہ کرنا چاہئے۔ کوئی حادثہ نہ ہو۔ (یہ حضرت اقدس کے اصل الفاظ نہیں مگر مفہوم یہی تھا۔) چنانچہ لوگ تھوڑے سے گاڑی سے ہٹ گئے لیکن میں نے دروازے کا ڈنڈا پکڑے رکھا اور گاڑی نہایت آہستہ سے حرکت میں آئی اور مَیں نے حسرت بھری نگاہوں سے حضور کو دیکھا تو حضور نے ذرا آگے جھک کر میری پشت پر تھپکی دی اور فرمایا: اچھاخدا نگہبان۔ چنانچہ حضور کے اتنا فرمانے پر میں پائیدان سے نیچے اتر آیا۔ اور بس کیا سناؤں۔ عجب ہی رنگ اور عجب ہی سماں تھا۔ اس قدر مخلوق قیامت کو ہی نظر آئے تو آئے ورنہ کیا درخت اور کیا زمین، مخلوق سے لدے ہوئے تھے۔ فقط بیعت کے وقت والد صاحب کی عمر 52سال تھی۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد2 صفحہ80-83)

(خطبہ جمعہ 2؍نومبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

درخواستِ دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جنوری 2022