• 16 جولائی, 2025

ابھی وہ نامِ خدا ہے غنچہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جہاں دینی علوم ومعارف کے بیش بہا خزانے عطا کیے وہاں علومِ ظاہری پر بھی قدرت اور دسترس عطا فرمائی۔ جن میں منطق، فلسفہ، تاریخ، جغرافیہ، سائنس، السنہ، لغت، شعروادب وغیرہ شامل ہیں۔ آپ نے ان سب علوم کو دین کی خدمت اور حقیتِ اسلام کے اثبات کے لیے استعمال فرمایا۔ آپ نے اپنی تحریرات میں بہت سے فارسی، اردو اور عربی اشعار کو درج فرما کر ہمیشہ کے لیے زندۂ جاوید کر دیا۔ گزشتہ دنوں سرمہ چشم آریہ میں ایک مصرع نظر سے گزرا جو درج ذیل ہے:

ابھی تو نام خدا ہے غنچہ! صبا تو چھو بھی نہیں گئی ہے

یہ مصرع پڑھ کر یہ سوالات پیدا ہوئے کہ یہ مصرع کس کا ہے؟ اس کا دوسرا مصرع کیا ہے؟ اگر کسی نظم یا غزل سے لیا گیا ہے تو اس کے باقی اشعار کیا ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کی تلاش کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک اردو شاعر کرامت علی شہیدی کی غزل کا ایک مصرع ہے۔

قبل اس کے کہ شاعر کا تعارف اور اس کی یہ غزل پیش کی جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ اقتباس پیش کیا جائے جس میں آپ نے یہ مصرع استعمال فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’غرض علومِ جدیدہ کا سلسلہ منقطع ہونا نظرنہیں آتا۔ شق القمر کے ایک تاریخی واقعہ سے کیوں اتنا نفرت یا تعجب کرو۔ گزشتہ دنوں میں تو جس کو کچھ تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے ایک یورپین فلاسفر کو سورج کے ٹوٹنے کی ہی فکر پڑگئی تھی۔ پھر شاید شگاف ہوکر مل گیا۔ فلاسفروں کو ابھی بہت کچھ سمجھنا اور معلوم کرنا باقی ہے۔ کے آمدی کے پیر شدی۔(یعنی ابھی تو آئے ہو، ابھی پیر بن بیٹھے ہو۔ناقل)

ابھی تو نام خدا ہے غنچہ! صبا تو چھو بھی نہیں گئی ہے

یہ نہایت محقق صداقت ہے کہ ہریک چیز اپنے اندر ایک ایسی خاصیت رکھتی ہے جس سے وہ خدائے تعالیٰ کی غیرمتناہی قدرتوں سے اثر پذیر ہوتی رہی۔ سو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خواصِ اشیاء ختم نہیں ہوسکتیں گو ہم ان پر اطلاع پائیں یا نہ پائیں۔ اگر ایک دانہ خشخاش کے خواص تحقیق کرنے کے لیے تمام فلاسفر اولین و آخرین قیامت تک اپنی دماغی قوتیں خرچ کریں تو کوئی عقلمند ہرگز باور نہیں کرسکتا کہ وہ ان خواص پر احاطۂ تام کرلیں۔ سو یہ خیال کہ اجرامِ علوی یا اجسامِ سفلی کے خواص جس قدر بذریعہ علم ہیئت یا طبعی دریافت ہوچکے ہیں اسی قدر پر ختم ہیں اس سے زیادہ کوئی بے سمجھی کی بات نہیں۔

(سرمۂ چشم آریہ ،روحانی خزائن جلد2 صفحہ93)

اس تحریر میں حضور نے اس مصرع کا کیا ہی برمحل استعمال فرمایا ہے کہ پڑھ کر طبیعت وجد میں آ جاتی ہے۔ اس مصرعے کا مفہوم یہ ہے کہ چشمِ بددور، ابھی تو تُو غنچہ ہے، ابھی تجھے کھلنا ہے اور کلی سے پھول بننا ہے، ابھی تو تیری حالت یہ ہے کہ صبا بھی تجھے چھو کر نہیں گئی۔ یعنی بہت ابتدائی مرحلے میں ہے۔ سیاق میں یہ اس بات کو واضح کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ علمِ طبیعات اور علم فلکیات کی بنیاد پر شق القمر کے معجزے کا انکار کرنا درست نہیں کیونکہ ابھی تویہ علوم اپنے ابتدائی مرحلے میں ہیں اور ابھی بہت کچھ منکشف ہونا باقی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سفر کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ خدا کی پیدا کردہ اشیاء کے لامتناہی خواص کی دریافت ہمیشہ جاری رہے گی اور یوں علومِ جدیدہ کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔

کرامت علی شہیدی کی غزل، جس سے یہ مصرع لیا گیا ہے، درج ذیل ہے:

مشامِ بلبل میں رشکِ گل کی ہنوز بُو بھی نہیں گئی ہے
ابھی وہ، نامِ خدا، ہے غنچہ، نسیم چھو بھی نہیں گئی ہے

نہ عشق سرمے کا، نَے مسی کا؛ نہ شوق غمزے کا، نَے ہنسی کا
گماں ہو گر تم کو آرسی کا سو رُو بہ رُو بھی نہیں گئی ہے

بلا کو اس کی خبر ہے، کہتے ہیں کس کو معشوق، کیا ہے عاشق؟
ہنوز کانوں میں اس پری کے یہ گفتگو بھی نہیں گئی ہے

یقیں نہیں مجھ کو قیس گریاں کے حال سے اس کو آگہی ہو
نکل کے مطلب سے اپنے لیلیٰ کنارِ جُو بھی نہیں گئی ہے

شہیؔدی! اتنی گماں پرستی، نشہ میں سب بھول بیٹھے ہستی
ہوئی ہے اس سے ہی تم کو مستی جو تا گلُو بھی نہیں گئی ہے

کرامت علی خان شہیدی موضع ہڑیا پور ضلع اُناؤ کے رہنے والے تھے۔ لکھنو میں ملازم رہے اور عمر کا آخری حصہ بریلی میں گزارا، اس لیے بریلی کی طرف بھی منسوب کیے جاتے ہیں۔

شہیدی کے والد کا نام عبدالرسول تھا۔ وہ بھی شاعر اور علمِ عروض کے ماہر تھے اور ان کا پیشہ درس و تدریس تھا ۔ شہیدی کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں قدیم تذکرے خاموش ہیں، تاہم شہیدی کے فنِ شاعری پر عبور اور اُن کی شعر گوئی کے انداز سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ شہیدی نے ابتدائی تعلیم حسبِ دستور حاصل کی ہوگی۔ ان کے والد چونکہ استاد اور شاعرتھے اس لیے یقیناً انہوں نے شہیدی کی شعر گوئی کے مادے کو جِلا بخشی ہوگی۔

شاعری میں کرامت علی شہیدی، مصحفی اور شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔ پہلے مصحفی سے مشق سخن کی۔ جب ان کا انتقال ہوگیا تو شاہ نصیر کو کلام دکھانے لگے۔ کچھ عرصہ نواب مصطفی خان شیفتہ کی صحبت میں بھی رہے۔ زبان و بیاں کی صفات کے لحاظ سے ان کی شاعری لکھنوی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یار باش، زندہ دل آدمی تھے۔سرکار انگریزی میں ملازمت اختیار کی۔ بہت بڑی رقم یارباشی میں اُڑا دی۔ سرکاری ملازمت جانے کے بعد سیروسیاحت میں زندگی بسر کرتے رہے۔آخری عمر میں حج کے لیے روانہ ہوئے۔ حج کرکے مدینہ جارہے تھے کہ راستے میں بیمار پڑ گئے۔ جب روضۂ رسول ؐ سامنے نظر آیا تو 7؍اپریل 1860ء کو روح پرواز کر گئی۔

اگرچہ شہیدی نے ہر مقبول صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے خصوصاًغزلیات کا نہایت معقول سرمایہ انہوں نے چھوڑا ہے مگر اُن کی اصل وجہ شہرت اُن کا نعتیہ کلام ہے۔ شہیدی کے کلام میں ایک قصیدہ نما نعت، دو دو نعتیہ غزلیات، ایک نعتیہ رباعی اور مولوی جامی کی غزل پر ایک نعتیہ مخمس شامل ہے۔ اِس قلیل نعتیہ سرمایہ کے باوجود نعت گوئی میں اُن کی شہرت بقائے دوام کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک نعت کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ہے سورۂ والشمس اگر رُوئے محمدؐ
واللیل کی تفسیر ہوئی موئے محمدؐ

کس وضع اٹھائے ہوئے ہیں بارِ دو عالم
ظاہر میں تو نازک سے ہیں بازوئے محمدؐ

کعبہ کی طرف منہ ہے نمازوں میں ہمارا
کعبہ کا شب و روز ہے منہ سوئے محمدؐ

رضواں کے لیے لے چلوں سوغات شہیدی
گر ہاتھ لگے خارو خسِ کوئے محمدؐ

کلام شہیدی: شہیدی کا کلام دیوانِ شہیدی کے نام سے 1851ء میں طبع ہوا۔ اس کے بعد مختلف وقتوں میں اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوتے رہے۔ کلیاتِ شہیدی کے نام سے بھی ان کی شاعری مطبع آئینۂ سکندر میرٹھ سے طبع شدہ ہے۔ منشی نول کشور صاحب، جنھوں نے ہندوستان میں اردو کی بیشتر نایات کتابوں کو شائع کرکے امر کردیا، نے دیوانِ شہیدی کو بھی 1980 میں طبع کیا۔ اس دیوان کے آخر میں کرامت علی خان شہیدی کے بارے میں تحریر کہ ’’ان کے کلام بلاغت نظام سے اربابِ باطن کے دل میں ایک ولولہ پڑا ہوا ہے۔ یہ وہ کلام بلاغت انضمام ہے کہ اب تک اصحابِ فن سے اس کلام پر دادِ سخن ہے۔ اکثر محافلِ حال وقال میں غزلیں معرفت کی گائی جاتی ہیں، عشاق کے دل پر ایک چوٹ جاتی ہیں۔‘‘

(دیوانِ شہیدی صفحہ98)

ان کے کلام سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے۔

منزل سفرِ عشق کی زنہار نہ ٹوٹے
جب تک کمر‌ ِقافلہ سالار نہ ٹوٹے

اس پند سے دل، ناصحِ دیں دار! نہ ٹوٹے
بت توڑنے میں کعبے کی دیوار نہ ٹوٹے

بے فکر رہے بند نقابِ رخِ جاناں
ہم سے کبھی قفلِ درِ گلزار نہ ٹوٹے

جب تک نہ گوارہ ہو تجھے نزع کی تلخی
پرہیز ترا، اے دلِ بیمار! نہ ٹوٹے

ہر روز ہو جب سینکڑوں عشاق کا چورنگ
اے شوخ! کہاں تک تری تلوار نہ ٹوٹے


جی چاہے گا جس کو اسے چاہا نہ کریں گے
ہم عشق و ہوس کو کبھی یکجا نہ کریں گے

اے کاش! چھٹیں عہد شکن بن کے جہاں میں
باز آئے، وفاداری کا دعویٰ نہ کریں گے

گو حسن پرستی نہ ہو خاطر سے فراموش
خوش قامتوں کا یاد سراپا نہ کریں گے

نرگس کی شبِ تیرہ میں لوٹیں گے بہاریں
پر سُرمگیں آنکھوں کی تمنا نہ کریں گے

بہلائیں گے سیرِ گل و شبنم سے دل اپنا
اس عارضِ گل رنگ کی پروا نہ کریں گے

انگاروں پہ لوٹیں گے پر ان شعلہ رُخوں کے
نظارہ سے ہم آنکھ بھی سینکا نہ کریں گے

عصمت کا انہیں خوف ہے، تقویٰ کا ہمیں پاس
نَے کی ہے کبھی خواہش بے جا، نہ کریں گے

بکنے کے شہؔیدی کے بُرا مانیو مت، جان!
ہیں عاشقِ صادق کبھی ایسا نہ کریں گے


عمر بھر عشق کے آزار نے سونے نہ دیا
ہائے ہائے دلِ بیمار نے سونے نہ دیا

خواب میں شکل دکھاتا وہ مقرر مجھ کو
شوق کے طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا

عیش کی شب بھی مرے بخت کو آجاتی نیند
اُس کی پازیب کی جھنکار نے سونے نہ دیا

میرے مرقد پہ کہا کس نے: قیامت ہے قریب
یاد آکر تری رفتار نے سونے نہ دیا

رتجگے ہوتے رہے ہیں کہ بڑھے غم کی عمر
ایک شب دردِ دلِ زار نے سونے نہ دیا

نیشِ غم نے رگِ مژگاں سے نکالا یہ لہو
مجھ کو راتوں مرے غمخوار نے سونے نہ دیا

میکشو! سرخ ہیں آنکھیں جو تمھاری شاید
شب تمھیں ساقیِ سرشارنے سونے نہ دیا

خوف تھا اُس کو شہیؔدی! تِری بد مستی کا
شب جو ہم بِرہوں کو عیّار نے سونے نہ دیا


(عکس دیوانِ شہیدی مطبوعہ 1873ء)

(میر انجم پرویز۔ مربی سلسلہ عربی ڈیسک)

پچھلا پڑھیں

درخواستِ دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جنوری 2022