• 11 دسمبر, 2024

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 24؍دسمبر 2021ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍دسمبر 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

بخدا اے مکہ! تُو اللہ کی زمین میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تُو اللہ کی زمین میں سے اللہ کو بھی سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر تیرے باشندے مجھے زبردستی نہ نکالتے تو مَیں کبھی بھی نہ نکلتا (الحدیث)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکرؓ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے بے ساختہ عرض کیا
یا رسول اللہؐ! آپؐ کی رفاقت؟ یعنی مَیں بھی آپؐ کے ساتھ ہوں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔

بیعتِ عقبہ ثانیہ

کے ذکر میں لکھا ہے کہ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ تھے۔ حضرت عباسؓ جو کہ اس تقریب اور میٹنگ کے گویا منتظمِ اعلیٰ تھے انہوں نے حضرت علی ؓکو ایک گھاٹی پر بطور پہرے دار کھڑا کیا اور ایک دوسری گھاٹی پر حضرت ابوبکرؓ کو، انہوں نے پہرے اور حفاظت کے لیے کھڑا کیا تھا۔

(السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 21 باب عرض رسول اللّٰہﷺ نفسہ علی القبائل…… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی

ہجرتِ مدینہ جب ہوئی ہے اس میں حضرت ابوبکر صدیق کی مصاحبت کا ذکر ہے۔

لکھا ہے کہ کفارِ مکہ کا مکہ میں مقیم مسلمانوں پر ظلم و ستم مسلسل بڑھتا جا رہا تھا کہ اسی دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خواب دکھایا گیا جس میں دو مسلمانوں کو وہ جگہ دکھائی گئی جدھر آپؐ نے ہجرت کرنا تھی۔ وہ جگہ شور زمین والی کھجوروں میں گھری ہوئی تھی لیکن اس کا نام نہ دکھایا گیا تھا اور نہ بتایا گیا تھا۔ البتہ اس کا جغرافیہ اور نقشہ دیکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اجتہاد فرماتے ہوئے فرمایا کہ ھَجَر یا یَمَامہ ہو گی جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ذکر ملتا ہے جس کے مطابق آپؐ نے فرمایا فَذَهَبَ وَهَلِيْ اِلٰى أَنَّهَا الْيَمَامَةُ اَوِ الھَجَرُ، فَاِذَا ھِیَ الْمَدِیْنَۃُ یَثْرِبُ۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام روایت نمبر3622) کہ میرا خیال اس طرف گیا کہ یہ جگہ یَمَامہیا ھَجَر ہے مگر کیا دیکھتا ہوں کہ وہ تو یثرب شہر ہے۔ یمامہ بھی یمن کا ایک مشہور شہر ہے۔

(فرہنگ سیرت صفحہ321 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز اردو بازار کراچی 2003ء)

اور ھَجَر نام کی متعدد بستیاں عرب خطے میں پائی جاتی تھیں۔ بحرین کا ایک شہر اور بحرین کا ایک حصہ بھی ھَجَر کہلاتا تھا۔

(معجم البلدان جلد5 صفحہ452 زیر ’’ہجر‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

بہرحال کچھ ہی عرصہ بعد حالات ایک رخ پر ہونے لگے اور مدینہ کے سعادت مند انصار نے اسلام قبول کرنا شروع کیا تو القائے ربانی سے آپؐ پر منکشف ہوا کہ وہ سرزمین تو یثرب کی سرزمین تھی جو بعد میں مدینہ کے نام سے مشہور ہونے والی تھی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اجتہاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’وہ حدیث جس کے یہ الفاظ ہیں فَذَهَبَ وَهَلِيْ اِلٰى أَنَّهَا الْيَمَامَةُ أَوِ الْهَجَرُ، فَاِذَا ھِیَ الْمَدِیْنَۃُ یَثْرِبُ۔ صاف صاف ظاہر کر رہی ہے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے پیشگوئی کا محل ومصداق سمجھا تھا وہ غلط نکلا۔‘‘

(ازالۂ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ472)

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے مظلوم اور ستم رسیدہ صحابہ اور مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت اور رہنمائی فرما دی جس پر مکہ کے مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کر دی۔ دوسری طرف بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بعد اس ہجرت میں بھی تیزی آ گئی اور گھروں کے گھر اور محلوں کے محلے خالی ہونے لگے۔ اس صورتحال نے مکہ کے ظالم سرداروں کو مزید اشتعال دلا دیا اور وہ غصہ سے تلملانے لگے جس پر انہوں نے ایک اَور قدم اٹھایا کہ ان

مظلوموں کو ہجرت کرنے سے بھی روکا جانے لگا اور ظلم و ستم کے
نت نئے طریقے نکالے جانے لگے۔

کبھی شوہر کو توجانے دیا لیکن اس کی بیوی اور بچے کو اس سے چھین لیا گیا۔ کبھی کسی سے سرمایہ اور مال و دولت اس بہانے ہتھیا لی گئی کہ یہ تو تُو نے ہمارے شہر مکہ میں کمائی تھی۔ اگر یہاں سے جانا ہے تو یہ ساری دولت ہمیں دے کر جاؤ۔ کبھی ماں کی ممتا کا واسطہ دے کر روک لیا کہ اپنی ماں سے ملتے جاؤ اور پھر راستے میں ہی ان کو رسیوں سے باندھ کر کوٹھڑیوں میں ڈال دیا۔

(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد3 صفحہ224 تا 227، جماع ابواب الھجرۃ الی المدینۃ…. دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

لیکن دولتِ ایمان سے مالامال اور دینِ اسلام کی محبت میں سرشار صبر و شکر کرنے والے مومنوں کی جماعت دیوانہ وار مدینہ کی طرف مسلسل ہجرت کرتی چلی گئی۔ بہرحال مکہ کم و بیش ہر اس مسلمان سے خالی ہو گیا جو ہجرت کر سکتا تھا وہ ہجرت کر گیا۔ اب کچھ انتہائی کمزور اور بے بس مسلمان ہی پیچھے رہ گئے تھے جن کا ذکر قرآن کریم نے یوں کیا ہے کہ اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَةً وَّ لَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًا (النساء: 99) سوائے ان مردوں اور عورتوں اور بچوں کے جنہیں کمزور بنا دیا گیا تھا جن کو کوئی حیلہ میسر نہیں تھا اور نہ ہی وہ نکلنے کی کوئی راہ پاتے تھے۔

ان کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک مدینہ میں ہی اذنِ خداوندی کا انتظار فرما رہے تھے۔ حضرت علیؓ بھی مکہ میں ہی تھے۔ البتہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہجرت کی اجازت طلب کرنے حاضر خدمت ہوئے تو ارشاد ہوا کہ ٹھہر جاؤ۔ مجھے امید ہے کہ مجھے بھی اجازت دی جائے گی یا ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا کہ

تم جلدی نہ کرو۔ ممکن ہے اللہ تمہارے لیے ایک ساتھی کا انتظام فرما دے۔

اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، کیا آپؐ کو بھی ہجرت کی اجازت مل جائے گی؟ گویا ہجرت کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کا غم جاتا رہا۔ حضرت ابوبکرؓ یہ نویدِ مسرت سن کر واپس لوٹ کر آئے اور ہجرت کا ارادہ ملتوی کر دیا البتہ انہوں نے حکیمانہ انداز میں دو اونٹنیاں خریدیں جنہیں خاص طور پر کھلا کھلا کر ہجرت کے انجانے سفر کے لیے تیار کرنے لگے۔

(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب الکفالۃ باب جوار ابی بکر فی عھد النبیﷺ و عقدہ حدیث 2297)
(الخلیفۃ الاول ابوبکر الصدیق از صلابی صفحہ45 دار المعرفۃ بیروت 2006ء)

ان باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے ہجرت کی تیاری شروع کی۔ ایک کے بعد ایک خاندان مکہ سے غائب ہونا شروع ہوا۔ اب وہ لوگ بھی جو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا انتظار کر رہے تھے دلیر ہو گئے۔ بعض دفعہ ایک ہی رات میں مکہ کی ایک پوری گلی کے مکانوں کو تالے لگ جاتے تھے اور صبح کے وقت جب شہر کے لوگ گلی کو خاموش پاتے تو دریافت کرنے پر انہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس گلی کے تمام رہنے والے مدینہ کو ہجرت کر گئے ہیں اور اسلام کے اس گہرے اثر کو دیکھ کر جو اندر ہی اندر مکہ کے لوگوں میں پھیل رہا تھا وہ حیران رہ جاتے تھے۔ آخر مکہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا صرف چند غلام، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ مکہ میں رہ گئے۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن انوارالعلوم جلد20 صفحہ222)

پھر آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’کفار مکہ کو دوسرے لوگوں کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فطرتاً زیادہ بغض وعداوت تھی کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ آپؐ ہی کی تعلیم کی وجہ سے لوگوں میں شرک کی مخالفت پھیلتی جاتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ آپؐ کو قتل کر دیں تو باقی جماعت خود بخود پراگندہ ہو جائے گی۔ اس لئے بہ نسبت دوسروں کے وہ آنحضرتﷺ کو زیادہ دکھ دیتے اور چاہتے کہ کسی طرح آپؐ اپنے دعاوی سے باز آ جائیں لیکن باوجود ان مشکلات کے آپؐ نے صحابہؓ کو تو ہجرت کا حکم دے دیا مگر خود ان دکھوں اور تکلیفوں کے باوجود مکہ سے ہجرت نہ کی کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی اذن نہ ہوا تھا۔ چنانچہ جب حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کہ میں ہجرت کر جاؤں تو آپؐ نے جواب دیا۔ عَلٰى رِسْلِكَ فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُّؤْذَنَ لِيْ۔ آپ ابھی ٹھہریں امید ہے کہ مجھے بھی اجازت مل جائے۔‘‘

(سیرة النبیﷺ، انوارالعلوم جلد1 صفحہ489)

دارالندوہ میں کفار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف
خفیہ مشورہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔

اس کے بارے میں لکھا ہے کہ رؤسائے مکہ اب اس بات پر سخت غصہ میں تھے اور پیچ و تاب کھا رہے تھے کہ مسلمان ان کے ہاتھ سے بچ کر نکل گئے ہیں اس پر اب وہ دارالندوہ میں جمع ہوئے۔ علامہ ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ جب قریش نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گروہ اور کچھ اصحاب مل گئے ہیں جو نہ مکہ کے مسلمانوں میں سے ہیں اور نہ ہی ان کے علاقے کے ہیں۔ نیز قریش نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ان لوگوں کی طرف ہجرت کر کے نکل رہے ہیں تو قریش نے جان لیا کہ وہ ایک امن کی جگہ پڑاؤ کر رہے ہیں اور انہیں ان لوگوں یعنی اہلِ مدینہ کی جانب سے مکمل تحفظ فراہم ہو گیا ہے تو انہیں خدشہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے ان کی طرف نہ چلے جائیں اور قریش نے جان لیا کہ وہ لوگ قریش سے جنگ کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ چنانچہ وہ آپ کے لیے دارالندوہ میں جمع ہوئے۔ یہ قُصَیّ بن کِلَاب کا وہ گھر تھا کہ قریش کا جو بھی فیصلہ ہوتا تھا وہ اسی میں ہوتا تھا۔ جب بھی انہیں آپ کے بارے میں خدشہ محسوس ہوتا تو وہ لوگ یہاں مشورہ کے لیے آیا کرتے تھے۔ ایک اَور روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بیان کیا کہ جب وہ لوگ اس کے لیے جمع ہوئے اور انہوں نے عہد و پیمان کیا کہ وہ دارالندوہ میں داخل ہوں گے تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مشاورت کریں۔ جس روز کا انہوں نے عہد و پیمان کیا تھا اس دن وہ لوگ گئے اور وہ دن

یَوْمُ الزَّحْمَہ

کہلاتا ہے۔ ان کے سامنے ایک بوڑھے اور عمر رسیدہ شخص کی ہیئت میں ابلیس ظاہر ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا انسان تھا جو ابلیس صفت انسان تھا۔ بہرحال جس نے چادر اوڑھی ہوئی تھی اور دارالندوہ کے دروازے پر کھڑا ہوا۔ لوگ اسے جانتے نہیں تھے۔ جب ان لوگوں نے اسے دروازے پر کھڑا دیکھا تو انہوں نے کہا یہ بوڑھا شخص کون ہے؟ اس شخص نے کہا کہ میں اہلِ نجد میں سے ایک بوڑھا شخص ہوں اور اس نے کہا کہ مَیں نے وہ بات سن لی ہے جس کا تم نے عہد و پیمان کیا تھا۔ پس تمہارے پاس میں اس لیے آیا ہوں کہ تاکہ سن لوں کہ تم لوگ کیا کہتے ہو۔ امید ہے کہ تمہیں اس سے کوئی نہ کوئی رائے یا بھلائی مل جائے گی۔ اس نے اپنے بارے میں کہا۔ ان لوگوں نے کہا ٹھیک ہے اندر آ جاؤ ۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ اندر داخل ہو گیا۔ وہاں قریش کے سرداران کی ایک بڑی جماعت شریک تھی جن کے نمایاں ناموں میں عُتْبَہ بن رَبیعہ اور شَیْبَہ بن رَبِیعہ، ابوسفیان بن حَرْب، طُعَیْمَہ بن عَدِی اور بھی بعض لوگ تھے۔ ابوجہل بن ہِشَام، حجاج کے دو بیٹے اور بہت سارے لوگ تھے۔ اس کے علاوہ کچھ سردار بھی تھے جن کا شمار قریش سے نہیں ہوتا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے توتجاویز دینے کا وقت آیا تو ایک شخص نے تجویز پیش کی کہ اسے یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کر دو اور باہر سے دروازہ بند کرو۔ پھر اس پر اسی موت کے آنے کا انتظار کرو جو اس سے پہلے اس جیسے دو شعراء مثلاً زُہَیر اور نَابِغہ پر آ چکی ہے۔ اور دیگر شعراء پر جو پہلے گزر چکے ہیں۔ یعنی انجام کا انتظار کرو جس طرح اس سے پہلے دو شاعروں زُہیر اور نابغہ وغیرہ کا ہو چکا ہے یعنی موت ان کا خاتمہ کر دے تو جیسے ان کو موت آئی تھی آپ کے لیے بھی یہی plan کیا گیا۔ اس پر اس بوڑھے نجدی نے کہا نہیں۔ اللہ کی قسم! میرے نزدیک یہ رائے تمہارے لیے مناسب نہیں ہے۔ واللہ! اگر تم لوگوں نے اسے قید کر دیا تو اس کی خبر بند دروازے سے باہر نکل کر اس کے ساتھیوں تک ضرور پہنچ جائے گی۔ پھر کچھ بعید نہیں کہ وہ لوگ تم پر دھاوا بول کر اس شخص کو تمہارے قبضہ سے نکال لے جائیں۔ پھر اس کی مدد سے اپنی تعداد بڑھا کر تمہیں مغلوب کر لیں۔ لہٰذا کوئی اَور تجویز سوچو۔ اس پر ایک شخص نے یہ تجویز دی کہ ہم اس شخص کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور اپنے شہر سے جلا وطن کر دیں پھر ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جاتا ہے اور کہاں رہتا ہے۔ جب وہ ہم سے غائب ہو جائے گا اور ہم اس سے فارغ ہو جائیں گے تو ہمارا معاملہ ٹھیک ہو جائے گا اور ہم پہلے جیسی حالت میں رہنے لگیں گے۔ اس پر بوڑھے نجدی نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! یہ رائے بھی ٹھیک نہیں۔ تم دیکھتے نہیں کہ اس شخص کی بات کتنی عمدہ اور بول کتنے میٹھے ہیں اور جوکچھ لاتا ہے اس کے ذریعہ کس طرح لوگوں کے دلوں کو مغلوب کر لیتا ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے ایسا کیا تو تم لوگ امن میں نہیں رہو گے کہ وہ عرب کے کسی قبیلہ میں اترے اور اپنی باتوں سے ان پر غلبہ حاصل کر لے اور وہ لوگ اس کی پیروی کرنے لگیں۔ پھر ان کے ساتھ مل کر تمہاری طرف پیش قدمی کریں اور تمہیں تمہارے ہی شہر میں روند ڈالیں اور تمہارے معاملات تمہارے ہاتھوں سے لے لیں اور پھر جیسا چاہے تم سے سلوک کریں۔ لہٰذا اس کے علاوہ کوئی اَور تجویز سوچو۔ اس پر ابوجہل نے کہا کہ میری رائے تو یہ ہے کہ قریش کے ہر قبیلے سے ایک ایک نَوعمر، مضبوط اور حسب و نسب والا جوان چنا جائے اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں تیز کاٹنے والی تلوار دے دی جائے پھر وہ لوگ اس یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا قصد کریں اور ایک شخص کے حملہ کرنے کی طرح اس پر حملہ کیا جائے اور وہ اسے قتل کر دیں۔ یوں ہمیں اس شخص سے راحت مل جائے گی۔ اس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل میں منقسم ہو جائے گا اور بَنُو عَبدِ مَنَافْ سارے قبیلوں سے جنگ نہ کر سکیں گے۔ لہٰذا دیت لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم دیت ادا کر دیں گے۔ اس پر بوڑھے نجدی نے کہا۔ رائے ہے تو بس اس شخص کی، باقی سب فضول باتیں ہیں۔ غرض اس رائے پر سب اتفاق کرتے ہوئے چلے گئے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ340تا 342، ذکر ھجرۃ الرسول، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ساری صورت حال سے آگاہ فرما دیا جیساکہ وہ فرماتا ہے: وَ اِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ وَ يَمْكُرُوْنَ وَ يَمْكُرُ اللّٰهُ وَ اللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ (الانفال: 31) اور یاد کروجب وہ لوگ جو کافر ہوئے تیرے متعلق سازشیں کر رہے تھے تاکہ تجھے ایک ہی جگہ پابند کر دیں یا تجھے قتل کر دیں یا تجھے وطن سے نکال دیں۔ اور وہ مکر میں مصروف تھے اور اللہ بھی ان کے مکر کا توڑ کر رہا تھا اور اللہ مکر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ اور ساتھ ہی

جبریل کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دے دی۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد3 صفحہ232، فی سبب ہجرۃ النبی ﷺ………دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ کفارِ مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ جل شانہ نے اپنے اس پاک نبی کو اس بد ارادے کی خبر دے دی اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم فرمایا اور پھر بفتح و نصرت واپس آنے کی بشارت دی۔ بدھ کا روز اور دوپہر کا وقت اور سخت گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلا منجانب اللہ ظاہر ہوا۔

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ64 حاشیہ)

ہجرت کی اجازت ملنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پوری احتیاط کے ساتھ
حضرت ابوبکرؓ کے گھر عین دوپہر کے وقت یعنی اس وقت تشریف لے گئے کہ
جس وقت میں مکہ کے باشندے عموماً اپنے گھروں میں ہی رہتے ہیں

اور ایک دوسرے کی طرف آنا جانا نہیں ہوتا اور مزید احتیاط یہ بھی کی کہ شدید گرمی جو تھی چنانچہ اپنا چہرہ اور سر وغیرہ بھی کپڑے سے ڈھانپے رکھا۔ جب آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے گھر کے قریب پہنچے تو کسی نے بتایا اور طبرانی اور فتح الباری کی روایت کے مطابق حضرت اسماء نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ابوبکرؓ کہنے لگے کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، اللہ کی قسم !نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اس گھڑی میں ہمارے پاس تشریف لائے ہیں اس کی وجہ کوئی خاص بات ہے جو پیش آئی ہے اور ساتھ ہی حضرت ابوبکرؓ گھبرا کر تیزی سے فدایانہ انداز میں باہر نکلے اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے تو کمرے میں حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماءؓ تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر ؓسے فرمایا کہ تمہارے پاس جو لوگ ہیں ان کو باہر بھیج دو جس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ حضور صرف یہی میری دو بیٹیاں اس وقت یہاں ہیں، اَور کوئی نہیں ہے یا ایک روایت کے مطابق عرض کیا یا رسول اللہؐ! صرف آپؐ کے گھر کے لوگ ہی یہاں ہیں اور کوئی نہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکرؓ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔

حضرت ابوبکرؓ نے بے ساختہ عرض کیا یا رسول اللہؐ! آپؐ کی رفاقت؟

یعنی میں بھی آپؐ کے ساتھ ہوں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔

(صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ إِذَا اشْتَرَى مَتَاعًا أَوْ دَابَّةً، فَوَضَعَهُ عِنْدَ البَائِعِ ….روایت نمبر2138)
(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّﷺ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ، روایت نمبر 3905)
(فتح الباری بشرح صحیح البخاری جلد7 صفحہ277 دار الریان للتراث القاھرۃ 1986ء)

اس پر حضرت ابوبکرؓ خوشی سے رو پڑے۔ حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ اس دن پہلی بار مجھے معلوم ہوا کہ خوشی سے بھی کوئی روتا ہے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 343، ذکر ہجرۃ الرسول، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

اس کے بعد وہاں

ہجرت کی ساری منصوبہ بندی اور لائحہ عمل

تیار کیا گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! اسی غرض کے لیے میں نے دو اونٹنیاں خریدی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک آپؐ لے لیں۔ آپؐ نے فرمایا قیمت دے کر لوں گا اور آپؐ نے جب قیمت دینے پر اصرار کیا تو حضرت ابوبکرؓ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ دو اونٹنیاں حضرت ابوبکرؓ نے آٹھ سو درہم میں خریدی تھیں اور چار سو درہم میں ایک اونٹنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدی یا ایک روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اونٹنی آٹھ سو درہم میں خریدی تھی۔

(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّﷺ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ، روایت نمبر 3905)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1 صفحہ 382، ذکر ابل رسول اللّٰہﷺ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جزء 2 صفحہ 105،106۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

پھر یہ طے کیا گیا کہ پہلی منزل غارِ ثور ہو گی اور تین دن وہیں قیام کرنا ہو گا اور یہ بھی طَے ہوا کہ کسی ایسے ماہر کو لیا جائے جو مکہ کے چاروں طرف کے تمام معروف اور غیر معروف صحرائی راستوں سے واقف ہو۔ اس کے لیے عبداللہ بن اُرَیْقِطْ سے بات ہوئی۔ یہ اگرچہ مشرک تھا لیکن شریف النفس اور ذمہ دار اور دیانت دار شخص تھا۔ سیرت نگار اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مسلمان نہیں ہوا تھا تاہم ایک روایت کے مطابق اس نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ بہرحال اس کے حوالے تین اونٹنیاں کی گئیں اور طے کیا گیا کہ وہ ٹھیک تین دن بعد غار ثور پر علی الصبح چلا آئے۔ حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ جو ایک ہوشیار نوجوان تھے ان کے سپرد یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ روزانہ مکہ کی مجالس میں گھوم پھر کر جائزہ لیں گے کہ کیا کچھ ہو رہا ہے اور پھر رات کو وہ غارِ ثور پہنچ کر ساری رپورٹیں کریں گے۔ حضرت ابوبکرؓ کے ایک دانا اور ذمہ دار غلام عامر بن فُہَیرہ کے سپرد یہ ڈیوٹی ہوئی کہ وہ اپنی بکریاں غارِثور کے گرد ہی چرائے گا اور رات کے وقت وہ دودھ دینے والی بکریوں کا تازہ دودھ فراہم کرے گا اور پھر مکہ سے نکلنے کا وقت طے کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جلد ہی حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے واپس اپنے گھر تشریف لے آئے۔

(ماخوذ تاریخ الخمیس جلد2 صفحہ7 ذکر خروجہﷺ مع ابی بکر من مکۃ…مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2009ء)
(الرحیق المختوم از صفی الرحمٰن المبارکفوری صفحہ165مطبوعہ دارالغد الجدید 2018ء)
(شرح الزرقانی جلد2 صفحہ129 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

یہاں آ کر آپؐ نے حضرت علیؓ کو اپنے ہجرت کے پروگرام سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے سپرد ایک جاںنثارانہ کام یہ کیا کہ آج رات وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر وہی سبز یا ایک روایت کے مطابق سرخ رنگ کی حضرمی چادر اوڑھ کر سوئیں گے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود لے کر سویا کرتے تھے اور اپنے اس جاں نثار فدائی خادم کو خدائی تائید و نصرت کی یقین دہانی کراتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ

فکر نہ کرنا اور بڑے آرام سے میرے بستر پر سوئے رہنا دشمن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔

نیز صادق و امین رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ اہالیانِ مکہ کی دی ہوئی امانتوں کا بھی فکر اور ذمہ داری کا احساس تھا اس لیے فرمایا کہ وہ لوگوں کو امانتیں واپس کرتے ہوئے میرے پیچھے آ جائیں۔ یعنی حضرت علی ؓ کو فرمایا کہ امانتیں واپس کر کے پھر مدینہ آ جانا۔ چنانچہ حضرت علیؓ تین دن مکہ میں ٹھہرے یہاں تک کہ آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لوگوں کو امانتیں واپس کر دیں۔ جب آپؓ اس سے فارغ ہو گئے تو آپ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبُا میں جاملے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے باہر تشریف لائے جبکہ کفار مکہ کے چنیدہ بہادر جن کی آنکھوں میں گویا خون اترا ہوا تھا وہ تلواریں ہاتھ میں لیے عین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے باہر چاق و چوبند پہرہ دے رہے تھے کہ کب رات گہری ہو اور ہم دھاوا بول کر ایک ہی وار میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گویا کام تمام کر دیں اور ابوجہل جو کہ گویا ان کا سرغنہ تھا بڑے تکبر اور تمسخر سے یہ کہہ رہا تھا کہ محمد یہ کہتا ہے کہ اگر تم اس کے معاملہ میں اس کی پیروی کرو گے تو تم عرب و عجم کے بادشاہ بن جاؤ گے پھر تم اپنی موت کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو تمہارے لیے اردن کے باغات کی مانند باغات بنائے جائیں گے اور اگر تم ایسا نہیں کروگے تو تمہارے درمیان قتل و غارت گری ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور فرمایا ہاں ایسے ہی میں کہتا ہوں اور سورة یٰسین کی یہ آیات پڑھتے ہوئے کہ یٰسٓ ۚ﴿۲﴾وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۳﴾اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۴﴾عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ؕ﴿۵﴾تَنۡزِیۡلَ الۡعَزِیۡزِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۶﴾لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ فَہُمۡ غٰفِلُوۡنَ ﴿۷﴾لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰۤی اَکۡثَرِہِمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۸﴾اِنَّا جَعَلۡنَا فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ اَغۡلٰلًا فَہِیَ اِلَی الۡاَذۡقَانِ فَہُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ ﴿۹﴾وَ جَعَلۡنَا مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ سَدًّا وَّ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَیۡنٰہُمۡ فَہُمۡ لَا یُبۡصِرُوۡنَ ﴿۱۰﴾ (یس: 10-2) يٰس۔ یا سید! اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے سردار! حکمتوں والے قرآن کی قسم ہے تُو یقیناً مرسلین میں سے ہے۔ صراط مستقیم پر گامزن ہے۔ یہ کامل غلبہ والے اور بار بار رحم کرنے والے کی تنزیل ہے تاکہ تُو ایک ایسی قوم کو ڈرائے جن کے آباؤ اجداد نہیں ڈرائے گئے۔ پس وہ غافل پڑے ہیں۔ یقیناً ان میں سے اکثر پر قول صادق آگیا ہے۔ پس وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ یقینا ًہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں اور وہ اب ٹھوڑیوں تک پہنچے ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ سر اونچا اٹھائے ہوئے ہیں اور ہم نے ان کے سامنے بھی ایک روک بنا دی ہے اور ان کے پیچھے بھی ایک روک بنا دی ہے اور ان پر پردہ ڈال دیا ہے اس لیے وہ دیکھ نہیں سکتے۔

آپؐ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے سامنے سے نکل گئے

لیکن خدا کی قدرت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاتے ہوئے کسی کو بھی دکھائی نہ دیے بلکہ وہ لوگ گاہے گاہے اندر جھانک کر دیکھ لیتے اور اطمینان کر لیتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر ہی ہیں۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ342، 348، باب ھجرۃ الرسول ﷺ، دار الکتب العلمیۃ 2001ء)
(محمد رسول اللّٰہ والذین معہ جلد3 صفحہ74 باب الہجرۃ، مطبوعہ مکتبہ مصر)
(الطبقات الکبری لابن سعد جلد1 صفحہ176 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

اس واقعہ کا ذکر سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں کیا ہے کہ ’’رات کا تاریک وقت تھا اور ظالم قریش جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اپنے خونی ارادے کے ساتھ آپؐ کے مکان کے گرد جمع ہو کر آپؐ کے مکان کا محاصرہ کر چکے تھے اور انتظار تھا کہ صبح ہو یا آپؐ اپنے گھر سے نکلیں تو آپؐ پر ایک دم حملہ کر کے قتل کر دیا جاوے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بعض کفار کی امانتیں پڑی تھیں کیونکہ باوجود شدید مخالفت کے اکثر لوگ اپنی امانتیں آپؐ کے صِدق و امانت کی وجہ سے آپؐ کے پاس رکھوا دیا کرتے تھے۔ لہٰذا آپؐ نے حضرت علیؓ کو ان امانتوں کا حساب کتاب سمجھا دیا اور تاکید کی کہ بغیر امانتیں واپس کئے مکہ سے نہ نکلنا۔ اس کے بعد آپؐ نے ان سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور تسلی دی کہ انہیں خدا کے فضل سے کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ وہ لیٹ گئے اور آپؐ نے اپنی چادر جو سرخ رنگ کی تھی ان کے اوپر اُڑھا دی۔ اس کے بعد آپؐ اللہ کا نام لے کر اپنے گھر سے نکلے۔ اس وقت محاصرین آپؐ کے دروازے کے سامنے موجود تھے مگر چونکہ انہیں یہ خیال نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر اول شب میں ہی گھر سے نِکل آئیں گے وہ اس وقت اس قدر غفلت میں تھے کہ آپؐ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نِکل گئے اور ان کو خبر تک نہ ہوئی۔…… وہ قریش جو آپؐ کے گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آپؐ کے گھر کے اندر جھانک کر دیکھتے تھے تو حضرت علیؓ کو آپؐ کی جگہ پر لیٹا دیکھ کر مطمئن ہو جاتے تھے لیکن صبح ہوئی تو انہیں علم ہوا کہ ان کا شکار ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اس پر وہ اِدھر ادھر بھاگے۔ مکہ کی گلیوں میں صحابہ کے مکانات پر تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ اس غصہ میں انہوں نے حضرت علیؓ کو پکڑا اور کچھ مارا پیٹا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ236-237)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ناگہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیر لیا تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا جانبازی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر باشارہ نبوی اس غرض سے مونہہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر قتل کرنے کے لئے ٹھہرے رہیں۔

کس بہرِ کَسے سر نَدِہَد جان نَفَشَانَد
عِشق است کہ اِیں کار بَصَدْ صِدق کُنَانَد‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ64-65حاشیہ)

یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کے لیے سر نہیں دیتا نہ ہی جان چھڑکتا ہے۔ یہ عشق ہے جو یہ کام انسان سے بصد صدق کرواتا ہے۔

بہرحال یہ وقت کے بارے میں روایات ہیں۔ اس میں اختلاف ہے۔ کچھ کہتے ہیں پہلے وقت، کچھ کہتے ہیں درمیانی رات، کچھ کہتے ہیں آخری وقت۔ بہرحال

کس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے
اس بارے میں جو روایات میں اختلاف ہے اس کا ذکر کرتا ہوں۔

ایک روایت میں ذکر ہے کہ آپؐ رات کی آخری تہائی میں گھر سے باہر تشریف لائے تھے۔ چنانچہ محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ رات کی آخری تہائی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان مشرکین کی غفلت کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کے گھر کی طرف نکلے اور وہاں سے دونوں گھر کے پچھلے دروازے سے نکل کر جنوب میں غار ثور کی طرف چل پڑے۔

(حیاۃ محمداز محمد حسین ہیکل صفحہ223-224 الفصل العاشر ’ھجرۃ الرسول‘ الطبعۃ الرابع عشرۃ دارالمعارف)

پھر ایک روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپؐ آدھی رات کے وقت نکلے۔ چنانچہ دلائل النبوہ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ آدھی رات کے وقت غار ثور کی طرف روانہ ہوئے تھے۔

(دلائل النبوۃ للبیھقی جلد2 صفحہ466،465 باب مکر المشرکین برسول اللّٰہﷺ۔۔۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

مَدَارِجُ النُّبُوَّة میں لکھا ہے کہ ’’جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ صبح کے وقت ہجرت کر جائیں تو شام ہی کو حضرت علی مرتضی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ سے فرمایا کہ آج رات تم یہیں سونا تا کہ مشرکین شک و شبہ میں مبتلا ہو کر حقیقت حال سے باخبر نہ ہوں۔‘‘

(مدارج النبوۃ از شیخ عبدالحق محدث دہلوی اردو ترجمہ غلام معین الدین نعیمی جلد2 صفحہ83 مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو لکھا ہے، وہ یہ ہے کہ نبی کریم اول شب اپنے گھر سے نکلے تھے۔ چنانچہ اس کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ ’’محاصرین آپؐ کے دروازے کے سامنے موجود تھے مگر چونکہ انہیں یہ خیال نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر اول شب میں ہی گھر سے نِکل آئیں گے وہ اس وقت اس قدر غفلت میں تھے کہ آپؐ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر تک نہ ہوئی۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی کے ساتھ مگر جلد جلد مکہ کی گلیوں میں سے گذر رہے تھے اور تھوڑی ہی دیرمیں آبادی سے باہر نکل گئے اور غارِ ثور کی راہ لی۔ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ پہلے سے تمام بات طے ہو چکی تھی وہ بھی راستہ میں مل گئے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ237)

حضرت مصلح موعودؓ نے جو روایات سے لے کے فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ’’جب مکہ کے لوگ آپؐ کے گھر کے سامنے آپؐ کے قتل کے لئے جمع ہو رہے تھے آپؐ رات کی تاریکی میں ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر سے باہر نکل رہے تھے۔ مکہ کے لوگ ضرور شبہ کرتے ہوں گے کہ ان کے ارادہ کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مل چکی ہو گی مگر پھر بھی جب آپؐ ان کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی اور شخص ہے اور بجائے آپؐ پر حملہ کرنے کے سمٹ سمٹا کر آپؐ سے چھپنے لگ گئے تا کہ ان کے ارادوں کی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خبر نہ ہو جائے۔ اس رات سے پہلے دن ہی آپؐ کے ساتھ ہجرت کرنے کے لئے ابوبکرؓ کو بھی اطلاع دے دی گئی تھی۔ پس وہ بھی آپؐ کو مل گئے اور دونوں مل کر تھوڑی دیر میں مکہ سے روانہ ہو گئے۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20 صفحہ222-223)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت گھر سے نکلے تھے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جاتے وقت کسی مخالف نے نہیں دیکھا حالانکہ صبح کا وقت تھا اور تمام مخالفین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر رہے تھے۔ سو خدائے تعالیٰ نے جیسا کہ سورۂ یٰسین میں اس کا ذکر کیا ہے ان سب اشقیا کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آنحضرت ان کے سروں پر خاک ڈال کر چلے گئے۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ66 حاشیہ)

بہرحال مختلف روایتیں ہیں لیکن نتیجہ یہی ہے کہ کفار کو پتہ نہیں لگا۔

پھر یہ بھی مختلف روایات ہیں کہ

اپنے گھر سے نکل کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرف تشریف لے گئے۔

ایک روایت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے ہوں گے اور حضرت ابوبکرؓ اپنے گھر سے اور راستے میں کسی ایک جگہ پر دونوں اکٹھے ہو کر غارِ ثور کی طرف چل پڑے۔

(ماخوذ از تاریخ طبری جلد اول صفحہ568، تاریخ ما قبل الھجرۃ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)

ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے غارِ ثور کی طرف نکلے اور کچھ دیر بعد ابوبکرؓ آپؐ کے گھر پہنچے تو حضرت علیؓ نے انہیں فرمایا کہ وہ تو جا چکے ہیں اور غارِ ثور کی طرف تشریف لے جا رہے ہیں اس لیے آپ بھی ان کے پیچھے پیچھے چلے جائیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلے گئے۔

(السیرۃ الحلبیہ جزء2 صفحہ47 باب عرض رسول اللّٰہﷺ نفسہ۔۔۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت2008ء)

بہرحال یہ روایت تو بہت کمزور لگتی ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گویانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کا انتظار فرماتے رہے اور وہ لیٹ ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ کو یہ بھی علم نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کدھر گئے ہوں گے اور سب کچھ حضرت علیؓ اب انہیں بتا رہے ہیں۔ ہجرت جیسا اہم ترین رازدارانہ سفر اور حضرت ابوبکرؓ جیسا فہیم اور ذمہ دار شخص اس طرح کی لاپروائی کا مرتکب ہو یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اس روایت کی نسبت دوسری روایت جو زیادہ تر کتب میں موجود ہے وہ زیادہ درست اور قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکل کر سیدھے حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں سے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ غارِ ثور کی طرف روانہ ہوئے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ343، ھجرۃ الرسولؐ، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ کی دو باوفا بہادر بیٹیوں حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماءؓ نے سفر کے لیے کھانا بھی جلدی جلدی تیار کر دیا تھا جس میں بھنی ہوئی بکری کا گوشت بھی تھا۔ حالات کی نزاکت اور جلدی میں کھانے کا برتن جو چمڑے کا تھا باندھنے کو کچھ نہ ملا تو حضرت اسماءؓ نے اپنا نطاق یعنی کمر بند کھولا اور اس کے دو حصے کیے اور کھانا باندھا۔ ایک سے توشہ دان اور دوسرے سے مشکیزے کا منہ باندھ دیا۔

(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب حمل الزاد فی السفر۔۔۔ روایت نمبر2979)
(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جزء2 صفحہ107 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو عشق و وفا کے ان لمحات کو بغور دیکھ رہے تھے فرمانے لگے کہ اے اَسماء! اللہ تمہارے اس نطاق کے بدلے میں تمہیں جنت میں دو نطاق عطا کرے گا۔ یعنی کہ کمر بند جو کپڑا کمر پہ باندھا ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے بعد میں

حضرت اسماءؓ کو ذات النِّطَاقَین کہا جانے لگا۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد3 صفحہ239 ،جماع ابواب الھجرۃ الی المدینۃ…. دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

ہجرت کے اس سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیر لب اس آیت کا ورد فرماتے ہوئے چلے جا رہے تھے: وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا (بنی اسرائیل: 81) اور تُو کہہ اے میرے رب! مجھے اس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اور مجھے اس طرح نکال کہ میرا نکلنا سچائی کے ساتھ ہو اور اپنی جناب سے میرے لیے طاقتور مددگار عطا کر۔

(الخلیفۃ الاول ابوبکر الصدیق للدکتور علی محمد الصلابی صفحہ47 دار المعرفہ بیروت2006ء)

اور ایسا ہی اس دعا کا بھی ذکرملتا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَنِيْ وَلَمْ أَكُ شَيْئًا، اَللّٰهُمَّ أَعِنِّيْ عَلٰى هَوْلِ الدُّنْيَا، وَبَوَائِقِ الدَّهْرِ، وَمَصَائِبِ اللَّيَالِي وَالْأَيَّامِ۔ اَللّٰهُمَّ اصْحَبْنِيْ فِيْ سَفَرِيْ، وَاخْلُفْنِيْ فِيْ أَهْلِيْ، وَبَارِكْ لِيْ فِيْمَا رَزَقْتَنِيْ، وَلَكَ فَذَلِّلْنِيْ، وَعَلٰى صَالِحِ خَلْقِيْ فَقَوِّمْنِيْ، وَإِلٰی رَبِّیْ فَحَبِّبْنِيْ، وَإِلَى النَّاسِ فَلَا تَكِلْنِيْ۔ أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِيْنَ وَأَنْتَ رَبِّيْ، أَعُوْذُ بِوَجْهِكَ الْكَرِيْمِ الَّذِيْ أَشْرَقَتْ لَهُ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ، وَكُشِفَتْ بِهِ الظُّلُمَاتُ، وَصَلُحَ عَلَيْهِ أَمْرُالاَوَّلِيْن وَالآخَرِيْنَ، أَنْ یَّحِلَّ بِیْ غَضَبُكَ، أَوْ یَنْزِلَ عَلَیَّ سُخْطُكَ، أَعُوْذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَاقِبَتِكَ وَجَمِيْعِ سُخْطِكَ۔ لَكَ الْعُتْبٰى خَيْرَ مَا اسْتَطَعْتُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے جس نے مجھے پیدا کیا اور مَیں کچھ بھی نہیں تھا۔ اے اللہ! دنیا کے خوف پر اور زمانے کے مصائب پر اور رات اور دن کے مصائب پر میری مدد فرما۔ اے اللہ! میرے سفر میں تُو میرا ساتھی ہو جا اور میرے اہل میں میرا قائمقام ہو جا اور جو تُو نے مجھے دیا ہے اس میں میرے لیے برکت رکھ دے اور مجھے اپنے ہی تابع کر دے اور میری عمدہ تخلیق پر مجھے مضبوط کر دے اور میرے رب کا مجھے محبوب بنا دے اور مجھے لوگوں کے سپرد نہ کرنا۔ تُو کمزوروں کا رب ہے اور تُو میرا بھی رب ہے۔ تیرا وجہِ کریم جس سے آسمان و زمین روشن ہوئے اور جس سے اندھیرے چَھٹ گئے اور جس سے پہلوں اور بعد میں آنے والوں کا معاملہ درست ہو گیا میں اس کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ مجھ پر تیرا غضب اترے یا مجھ پر تیری ناراضگی نازل ہو۔ میں تیری پناہ میں آتا ہوں تیری نعمت کے زائل ہونے سے اور تیرے انتقام کے اچانک آنے سے اور میرے بارے میں تیرے آخری فیصلے کے بدل جانے سے۔

شرح زرقانی میں تَحَوُّلِ عَاقِبَتِكَ کی جگہ تَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تیری عطا کردہ عافیت کے جاتے رہنے سے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے۔ تیری ہی رضا مندی ہے ہر اُس بھلائی میں جو میں کر سکا۔ نہ گناہ سے بچنے کا کوئی حیلہ ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی کوئی طاقت ہے مگر تیرے ہی ذریعہ۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد3 صفحہ 243 ، فی ہجرۃ رسول اللّٰہ ﷺ …… دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
(شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 110 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

خانہ کعبہ کے پیچھے سے گزرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی طرف اپنا رخ مبارک فرمایا اور اس بستی سے یوں مخاطب ہوئے کہ

بخدا اے مکہ !تُو اللہ کی زمین میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور
تُو اللہ کی زمین میں سے اللہ کو بھی سب سے زیادہ محبوب ہے اور
اگر تیرے باشندے مجھے زبردستی نہ نکالتے تو مَیں کبھی بھی نہ نکلتا۔

(محمد رسول اللّٰہ والذین معہ لعبدالحمید جودۃ السحار جلد3 صفحۃ59، الھجرۃ، مکتبۃ مصر)

امام بیہقی نے لکھا ہے کہ غارِ ثور کے سفر کے دوران حضرت ابوبکرؓ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلتے کبھی پیچھے اور کبھی آپؐ کے دائیں ہو جاتے اور کبھی بائیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہؐ! مجھے خیال آتا ہے کوئی سامنے سے نہ آ رہا ہو تو مَیں آپؐ کے آگے ہو جاتا ہوں اور جب اندیشہ ہوتا ہے کوئی پیچھے سے حملہ نہ کر دے تو آپؐ کے پیچھے ہو جاتا ہوں اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں کہ آپؐ ہر طرف سے محفوظ و مامون رہیں۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد3 صفحہ 240 ، الباب الرابع فی ہجرۃ رسول اللّٰہ ﷺ …… دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

ایک روایت کے مطابق غارِ ثور تک پہنچتے پہنچتے اس پہاڑی سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک زخمی بھی ہو گئے۔

(محمد رسول اللّٰہ والذین معہ لعبدالحمید جودۃ السحار جلد3 صفحہ59،الھجرۃ، مکتبۃ مصر)

اور ایک روایت کے مطابق راستے میں ایک پتھر سے ٹھوکر لگنے سے پاؤں مبارک زخمی ہو گیا تھا۔

(تاریخ طبری جلد اول صفحہ 568 ، تاریخ ما قبل الھجرۃ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)

جب غارِ ثور تک پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپؐ ابھی یہاں ٹھہریں پہلے مجھے اندر جانے دیں تا کہ میں اچھی طرح غار کو صاف کر لوں اور کوئی خطرے کی چیز ہو تو میرا اس سے سامنا ہو۔ چنانچہ وہ اندر گئے اور غار کو صاف کیا، جو بھی سوراخ اور بِل وغیرہ تھے ان کو اپنے کپڑے سے بند کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر آنے کی دعوت دی۔ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کی ران پر سر رکھ کر لیٹ گئے اور ایک سوراخ جس کے لیے کپڑا نہ تھا یا شاید اس وقت نظر نہ آیا ہو اس پر حضرت ابوبکرؓ نے اپنا پاؤں رکھ دیا۔

روایت میں ہے کہ اسی سوراخ سے کوئی بچھو یا سانپ وغیرہ ڈستا رہا لیکن
حضرت ابوبکرؓ اس ڈر سے کہ اگر کوئی حرکت کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
آرام میں خلل واقع ہوگا جنبش نہ فرماتے۔

یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آنکھ کھولی تو حضرت ابوبکرؓ کے چہرے کی بدلی ہوئی رنگت کو دیکھ کر پوچھا کہ کیا ماجرا ہے تو انہوں نے ساری بات بتائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب مبارک وہاں لگایا اور اس کے بعد پاؤں ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

(شرح الزرقانی جلد2 صفحہ121باب ھجرۃ المصطفیٰ و اصحابہ الی المدینۃ۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1996ء )

دوسری طرف قریشِ مکہ جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر ایک شخص نے گزرتے ہوئے پوچھاکہ یہاں کیوں کھڑے ہو؟ انہوں نے بتایا تو وہ آدمی کہنے لگا کہ مَیں نے تو محمد کو گلیوں سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے تو انہوں نے اس شخص کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ وہ تو اندر اپنے بستر پر ہیں اور ہم مسلسل ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پھر رات گئے اپنے پہلے سے طے کیے منصوبے کے مطابق جب وہ ایک دم سے اندر گئے اور چادر کھینچ کر سوئے ہوئے کو دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ تو حضرت علی ؓہیں۔ ان سے پوچھا کہ محمد کہاں ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ اس پر مشرکین نے آپؓ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور زدوکوب کیا اور کچھ دیر محبوس رکھنے کے بعد آپؓ کو چھوڑ دیا۔

بہرحال اس روایت کے مطابق وہ لوگ حضرت علی ؓکو ڈانٹ ڈپٹ کر کے مار پیٹ کر وہاں سے غیض و غضب کی حالت میں واپس چلے آئے اور مکہ کی گلی گلی اور گھر گھرآپؐ کو تلاش کرنے لگے۔

(تاریخ الخمیس جلد2 صفحہ10 ذکر خروجہﷺ مع ابی بکر من مکۃ۔۔۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2009ء)

اسی دوران وہ لوگ حضرت ابوبکرؓ کے گھر بھی آئے۔ حضرت اسماءؓ کا سامنا ہوا۔ ابوجہل آگے بڑھا اور پوچھا کہ تمہارا باپ ابوبکر کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ مَیں نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہے؟ اس پر اس بدباطن ابوجہل نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اس زور سے حضرت اسماءؓ کے منہ پر طمانچہ مارا کہ ان کے کان کی بالی ٹوٹ کر گر گئی اور غصہ کی حالت میں وہ سب لوگ واپس چلے گئے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ344، ذکر ھجرۃ الرسول، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

مکّہ کی چھان بین سے ناکام فارغ ہوئے تو ماہر کھوجی مکہ کے چاروں طرف روانہ کر دیے۔ رئیس ِمکہ اُمَیَّہ بن خَلَف وہ خود ایک ماہر کھوجی کو لے کر اپنے ساتھیوں سمیت ایک طرف نکلا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کھوجی، سراغ رساں واقعی ماہر تھا۔ جتنی بھی اس کی مہارت کی داد دی جائے وہ کم ہے کیونکہ یہ واحد کھوجی تھا کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے ایک ایک نشان کو کھوج کر عین غار ثور کے دہانے تک جا پہنچا اورکہنے لگا کہ محمد کے قدموں کے نشان بس یہاں تک ہیں۔ اس کے آگے نہیں جاتے۔ علامہ بَلَاذَرِی نے اس کھوجی کا نام عَلْقَمَہ بن کُرْز بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر اس نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ غارِ ثورکے منہ پر یہ لوگ کھڑے باتیں کر رہے تھے اور دو ہجرت کرنے والے عین اسی غار میں نہ صرف اندر چھپے ہوئے تھے ان لوگوں کی باتیں سن رہے تھے بلکہ حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ان کے پاؤں بھی دیکھ رہا تھا اور خدا کی قَسم! اگر ان میں سے کوئی ایک بھی اندر جھانک کر دیکھ لیتا تو ہم پکڑے جاتے لیکن

خطرے اور مصیبت کی اس گھڑی میں یہ دو اکیلے نہیں تھے بلکہ تیسرا ان کے ساتھ وہ خدا تھا کہ جس کے قبضہ قدرت میں زمین و آسمان ہیں اور جو قادر مطلق تھا۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جلد3 صفحہ241 فی ہجرۃ رسول اللّٰہ ……… دارلکتب العلمیۃ 1993)
(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب المھاجرین و فضلھم روایت نمبر3653)

اس نے ایک طرف تو ان سراغ رسانوںکے آنے سے قبل ہی وہاں اپنی معجزانہ قدرت سے ایک درخت اُگا دیا، مکڑے کو بھیج کر غار کے منہ پر ایک جالہ بُن دیا اور کبوتروں کے ایک جوڑے کو بھیجا کہ وہاں اپنا گھونسلا بنا کر انڈے بھی دے دیں۔ یہ روایت میں ہے۔

(المواھب اللدنیہ لعلامہ قسطلانی جلد1 صفحہ292-293 مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت 2004ء)

بہرحال اس کے بعد خدا تعالیٰ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی فرماتا ہے یا یہ ساری باتیں دیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے حضرت ابوبکر ؓکو کس طرح تسلی دی۔ اس کا ذکر ان شاء اللہ آئندہ ہو گا۔

پچھلا پڑھیں

درخواستِ دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جنوری 2022