• 2 مئی, 2024

اولاد کا ابتلا

اولاد کا ابتلا بھی بہت بڑا ابتلا ہے۔ اگر اولاد صالح ہو تو پھر کس بات کی پروا ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف: 197) یعنی اللہ تعالیٰ آپ صالحین کا متولّی اور متکفّل ہو تا ہے۔ اگر بدبخت ہے تو خواہ لاکھوں روپیہ اس کے لئے چھوڑ جاؤوہ بدکاریوں میں تباہ کر کے پھر قلّاش ہو جائے گی اور ان مصائب اور مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لئے لازمی ہیں۔ جو شخص اپنی رائے کو خدا تعالیٰ کی رائے اور منشاء سے متفق کرتا ہے وہ اولاد کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ اور وہ اسی طرح پر ہے کہ اس کی صلاحیت کے لئے کوشش کرے اور دعائیں کرے۔ اس صورت میں خود اللہ تعالیٰ اس کا تکفّل کرے گا اور اگر بدچلن ہے تو جائے جہنم میں۔ اس کی پرواہ تک نہ کرے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ میں بچہ تھا جوان ہوا۔ اب بوڑھا ہو گیا، میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے۔

پس خودنیک بنو اور اور اپنی اولاد کے لئے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لئے سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لئے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ109 ایڈیشن 1984ء)

وہ کام کرو جو اولاد کے لئے بہترین نمونہ اور سبق ہو۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے اوّل خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیز گار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا۔ قرآن شریف میں خضر اور موسیٰ علیہما السلام کا قصہ درج ہے کہ ان دونو نے مل کر ایک دیوار کو بنا دیا جو یتیم بچوں کی تھی۔ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا (الکہف: 83) ان کا والد صالح تھا۔ یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ آپ کیسے تھے۔ پس اس مقصد کو حاصل کرو۔ اولاد کے لئے ہمیشہ اس کی نیکی کی خواہش کرو۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ110 ایڈیشن 1984ء)

پچھلا پڑھیں

آئرلینڈ میں چودھویں نیشنل بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جنوری 2023