• 18 مئی, 2024

ممکنہ تیسری عالمی جنگ (قسط نمبر2)

ممکنہ تیسری عالمی جنگ
قسط نمبر2

چھ خونی جنگوں یا بغاوتوں کا ذکر

اول۔ لوشان کی بغاوت: یہ بغاوت چین کے تانگ خاندان کے خلاف 755ء سے لے کر763ء تک جاری رہی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ملکی آبادی کا دو تہائی حصہ اس بغاوت کے دوران مارا گیا۔ اور ان مرنے والوں کی تعداد چھتیس ملین بتائی جاتی ہے۔

دوم۔ چنگ خاندان: کی منگ خاندان کے اوپر فتح۔ یوں تو چنگ خاندان سے مِنگ خاندان کو جو اقتدار کی منتقلی تھی وہ پر امن طور پر ہو گئی تھی مگر شمال مشرقی علاقہ میں کچھ بغاوت کے آثار نمودار ہونے شروع ہو گئے تھے جو رفتہ رفتہ ایک ہولناک صورت اختیار کر گئے اور اس طرح 1618ء سے لے کر 1683ء تک یعنی پینسٹھ سال تک چلنے والی اس بغاوت میں اندازہ ہے کہ پچیس ملین انسانی جانیں تلف ہوئیں۔

سوم۔ تی پنگ بغاوت: یہ لڑائی چنگ خاندان اور عیسائی ملینارین تی پنگ آسمانی بادشاہت نامی تحریک کے درمیان چودہ سال تک جاری رہی۔ یہ عرصہ 1850ء سے 1864ء پر محیط ہے۔ اس لڑائی میں جانی نقصان کا اندازہ بیس سے تیس ملین لگایا جاتا ہے۔

چہارم۔ دونگان کی بغاوت: یہ لڑائی انیسویں صدی میں لڑی گئی اس کے متحارب گروپوں میں ہانز کے مسلمان اور مشرقی ایشیاء کا ایک نسل پرست گروپ تھا۔ چین میں اس وقت چنگ خاندان کی بادشاہت تھی۔ اس جنگ میں جنگ کے علاوہ قحط اور نقل مکانی کے ہاتھوں اندازہ ہے کہ بیس ملین افراد جان کی بازی ہار گئے۔

پنجم۔ روسی سول وار: 1917ء میں روسی انقلاب کے فوراً بعد یہ جنگ روسی اور مخالف گروپ جو وائٹ آرمی کہلاتا تھا کے درمیان ہوئی اور 1922ء تک جاری رہی۔ اس میں انسانی جانوں کا نقصان آٹھ سے 9ملین شمار کیا گیا تھا۔

ششم۔ چینی سول وار: یہ سول وار 1927ء سے شروع ہو کر 1950ء قریباً 23؍سال جاری رہی اس میں ایک طرف حکومت کے حمایت یافتہ اور دوسری طرف کامونسٹ پارٹی آف چین تھے۔ اس میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا اور ظلم اور بربریت اور انسانیت سوز مظالم بہت وسیع پیمانے پر دونوں طرف سے ڈھائے گئے۔ اس میں قریباً آٹھ ملین جانی نقصان ہوا۔

صلیبی جنگوں کا احوال

مسلمان ریاستوں میں عیسائیوں کو تمام مراعات حاصل تھیں اور مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔ لیکن عیسائیوں کو بیت المقدس میں مسلمانوں کی موجودگی کھٹکتی تھی۔ دسویں صدی عیسوی کے آخر پرعیسائیوں میں یہ خیال عام ہو گیا کہ قیامت قریب ہے۔ اس لئے مسیحی دنیا کے ہزاروں عیسائی دور دراز سے بیت المقدس آنا شروع ہو گئے۔ صلیبی جنگوں کے آغاز کی وجہ وہ اپیل ہے جو شہنشاہ الیکریس نے 1094ء میں پوپ اربن ثانی سے کی تھی۔

سقوطِ بیت المقدس: 1099ء میں صلیبی فوجوں نے بیت المقد س کا محاصرہ کر لیا 42 دن کے محاصرہ کے بعد بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گیا۔ اُس وقت جو حکومت تھی وہ کئی سلطنتوں میں تقسیم تھی اور مسلمانوں کی متحدہ قوت موجود نہ تھی۔ وہ کئی ہفتوں تک اس مقدس شہر میں مسلمانوں کو قتل کرتے رہے۔ صرف مسجد اقصیٰ میں سترہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔

فرانس کے مشہور مؤرخ میشو نے لکھا کہ تاریخ میں اس اندھے تعصب کی مثال نہیں ملتی۔ عربوں کو اونچے چھتوں اور برجوں سے گرایا جاتا۔ زندہ آگ میں جلایا جاتا۔ مسلمانوں کو جانوروں کی طرح سڑکوں پر گھسیٹا جاتا تھا۔ لاشوں کے انبار تھے جو راستوں پر لگے ہوئے تھے۔ ہیکلِ سلیمانی میں اس قدر خون بہا کہ لاشیں اس میں تیرتی پھرتی تھیں۔ سب لاشیں کٹی پھٹی ہوئی تھیں۔ صلیبی جنگجو ؤں نے بیت المقدس کی فتح اور غارت گری اور قتل عام کے بعد یورپ کو اس طرح سے مبارک باد دی اللہ ہمارے عجز و انکساری سے رام ہو گیا اور ہمارے عجزوانکساری سے آٹھویں روز اس نے بیت المقدس کو دشمنو ں سمیت ہمارے حوالے کر دیا، اگر آپ یہ معلوم کرنا چاہیں کہ جو وہاں موجود تھے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تو اس قدر لکھ دینا کافی ہے کہ جب ہمارے سپاہی ہیکلِ سلیمانی کے معبد میں داخل ہوئے تو ان کے گھوڑوں کے گھٹنوں تک مسلمانوں کا خون تھا۔

بیت المقدس کی فتح: سقوط بیت المقدس کے 91 برس بعد 1190ء میں تاریخ نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی بیت المقدس کے باہر اپنی فوجوں سمیت موجود تھا۔ یہ مقام مسلمانوں کے لئے جتنا مقدس ہے اتنا ہی عیسائیوں کےلئے بھی مقدس ہے۔ لہذا سلطان صلاح الدین ایوبی نے عیسایوں کو سب سے پہلے یہ پیشکش کی کہ تم پرامن طور پر شہر میرے حوالے کردو اور اس کے بدلے میں تم کو اتنا ہی رقبہ دینے کا وعدہ کرتا ہوں مگر عیسائیوں نے انکار کر دیا اور لڑائی شروع ہو گئی۔ کئی دن کی لڑائی کے بعد عیسائیوں نے صلح کی پیشکش کر دی۔ اس پر طے ہوا کہ ہر مرددس دینار فدیہ ادا کرے گا عورت پانچ دینار اورفی بچہ دودینار فدیہ چالیس دن کے اندر ادا کرنا ہوگا۔ جو یہ فدیہ ادا کردے گا وہ جا سکتا ہے باقی کو جنگی قیدی سمجھا جائے گا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی آج اس حیثیت میں تھا کہ مسلمانوں کے خون کا بدلہ لے سکتا تھا مگر اس نے خالص اسلامی شرافت اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا۔ پھر چالیس روز کے بعد بھی جو لوگ فدیہ نہ دے سکے تو سلطان نے اپنے اُمراء سے کہا کہ صدقہ کے طور پر وہ جتنا فدیہ ادا کر سکتے ہیں صدقہ کریں۔ سلطان نے عیسائی فوجیوں کی بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک کیا اور فوج میں ان کے مرتبہ کے مطابق مالی امداد کی اور جن کے شوہر جنگی قیدی تھے ان کو آزاد کر دیا۔

ملک شام میں صلیبی جنگ: 1148ء کو لُوئی ہفتم کی سربراہی میں کئی لاکھ فرانسیسی اور جرمن فوجیں ایشیائے کوچک سے ہوتے ہوئے شام پہنچ گئیں۔ یہاں معین الدین انز اور سیف الدین غازی نے ان کا مقابلہ کیا۔ آخر عیسائی فوجیں واپس جانے کو تیار ہوگئیں۔ لین پول، ایک عیسائی مؤرخ نے 1149ء میں لکھاکہ یہ بہادر سورما جو دوسری صلیبی جنگ لڑنے کے لئے آئے تھے اپنے اپنے مقامات کو واپس جاتے ہوئے نظر آئے۔

عسقلان پر صلیبی فوجوں کا قبضہ: 548ھ میں عسقلان پر صلیبی فوجوں نے قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد دمشق میں جو حکمران تھا مجیرالدین آبق، وہ برائے نام ہی تھا۔ فرنگی وہاں پر من مانیاں کرتے پھرتے تھے۔ نورالدین زنگی کو عسقلان پر حملہ کرنے میں دمشق راہ میں حائل تھا۔ خطرہ یہ تھا کہ مجیرالدین حملہ کی صورت میں صلیبی فوجوں کے ساتھ مل کر جنگ کرے گا اس لئے نورالدین زنگی نے امیر نجم الدین ایوبی کی مدد سے دمشق کے لوگوں کے دلوں میں جو پہلے سے ہی متنفر تھے اپنے ساتھ ملایا اور اس کے بعد نورالدین زنگی نے دمشق پر چڑھائی کردی اور اس سے قبل کہ صلیبی، مجیرالدین آبق کی مدد کرتے، دمشق کو فتح کر لیا۔

حارم اور بانیاس کی فتح: حلب کے مغرب میں انطاکیہ کا قلعہ حارم مسلمانوں کے لئے بڑا خطرناک ہو سکتا تھا اس لئے 551ھ کو نورالدین زنگی نے حملہ کردیا اور فرنگی اس کا مقابلہ نہ کر سکے اورحارم کا آدھا علاقہ دے کر صلح کر لی۔ اس کے بعد نورالدین زنگی واپس حلب چلا گیا۔ جبکہ اس اثنا میں یورپ سے تازہ دم فوجیں آ گئیں اب نورالدین واپس پلٹا اور اس نے بانیاس کا محاصرہ کر لیا۔ 552ھ میں زنگی کو فتح نصیب ہوئی۔ یہاں سے بہت سا مالِ غنیمت بھی ہاتھ آیا۔ اس کے علاوہ دوسری طرف عیسائیوں کی قوت کو اس شکست سے شدید صدمہ لا حق ہوا۔ یہ فتح نورالدین زنگی کی بڑی فتوحات میں شمار ہوتی ہے۔

سپین کی فتح: 27؍رمضان 92ھ بمطابق 19؍جولائی 711ء کی صبح کو طبل جنگ میں ایک طرف راڈرک کی فوج تھی دوسری طرف طارق بن زیاد مسلمانوں کے سپہ سالار تھے۔ راڈرک دو گھوڑوں پر نصب اپنے تخت رواں پر بہت زرو جواہر اور موتی اور قیمتی لعل و جواہر سے مرصع و مزین لباس میں متمکن تھا۔ دونوں فوجوں میں لڑائی شروع ہوئی۔ بادشاہ کی فوج کا ایک بڑا حصہ بادشاہ کے ساتھ خوش نہیں تھا۔ اس طرح ایک لاکھ کی فوج کے مقابلہ پر بارہ ہزار مجاہدین تھے۔ فوج میں شامل گاتھ شہزادے طارق بن زیاد سے آملے اور فوج میں بددلی پھیل گئی مگر راڈرک نے ان شہزادوں کی بے وفائی کا اثر نہ لیا۔ 27؍رمضان سے 5؍شوال تک جنگ جاری رہی۔ آخر ی روز طارق بن زیاد خود آگے بڑھ کر سیدھا راڈرک پر حملہ آور ہوا، بادشاہ بھاگ نکلا اور کسی کے ہاتھ نہ آیا البتہ دریا کے کنارے مرصع گھوڑا اور جوتا مل گیا، اس سے زیادہ کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ اس جنگ میں تین ہزار مسلمان شہید ہوئے اور عیسائی مقتولین کی تعداد بے شمار تھی۔ عیسائی فوج بھاگ کر مختلف قلعوں میں چلی گئی، اب طارق بن زیاد کو ایک ایک کرکے اُن سارے قلعوں کو فتح کرنا تھا۔

سپین میں مسلمانوں کی گرفت کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی اس کے لئے اشبیلیہ کے حکمران معتمد نے یوسف بن تاشفین سے مدد کی درخواست کی۔ سلطان اپنی بیس ہزار فوج کو افریقہ سے لے کر اشبیلیہ آگئے۔ الفانسو کی فوجی طاقت دوسرے قریبی حمایتی ملا کر ساٹھ ہزار تھی۔ معائدہ ہوا کہ جنگ سوموار کے دن ہو گی۔ مگر الفانسو نے معائدہ کے برخلاف جمعہ کے دن حملہ کر دیا۔ مسلمان فوج کو معتمد نے پہلے ہی بتایا تھا کہ الفانسو اپنے قول سے کسی وقت بھی پھر سکتا ہے اس لئے تیار رہنا۔ جنگ شروع ہوگئی یوسف بن تاشفین نے اپنی فوج کا ایک حصہ لے کر لمبا چکر کاٹ کر عیسائی فوج پر عقب سے حملہ کر دیا، اس سے عیسائی فوج کا بہت ہی زیادہ جانی نقصان ہوا، اور الفانسو میدان سے بھاگ نکلا۔ اب یوسف بن تاشفین اگلی پیش قدمی کی تیاری کر رہے تھے کہ ان کو اطلاع ملی کہ ان کا بیٹا فوت ہوگیا ہے۔ تاشفین نے تین ہزار فوجی معتمد کی مدد کے لئے چھوڑے اور خود افریقہ روانہ ہو گئے۔ اس طرح مزید علاقے تو قبضہ میں نہ آ سکے مگر مسلمانوں کی حکومت کو اگلے 400سال تک دوام حاصل ہو گیا۔

فرنگیوں کا مصر پر قبضہ: اہلِ مصر کی بیداری کو یورپین قومیں کسی طور برداشت نہ کر سکتی تھیں۔ جس طرح فرانس نے تیونس پر قبضہ کیا تھا اسی طرح انگریزوں نے مصر پر قبضہ کا منصوبہ بنایا۔ 1876ء میں برطانیہ نے نہر سویز کی تعمیر کے بعد اس پر قبضہ کے خواب دیکھنے شروع کر دیے، اور اپنے قرضوں کی واپسی کا مطالبہ کیا جو بہت شدید تھا۔ برطانیہ نے مالی ماہرین کو مصر بھیجا ان کی رپورٹ کے مطابق مصر کے مالی حالات بہت مخدوش ہیں اور یورپین امداد کے بغیر اس کے دیوالیہ ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں ہے۔ اس وقت مصری وزیر توفیق پاشاانگریزوں کے ساتھ ملا ہوا تھا جبکہ دوسری طرف وہ ملکی سلامتی کے احکامات بھی جاری کر رہا تھا۔ جب برطانوی بحری بیڑہ مصر پہنچا تو اس نے خود کو انگریزوں کی امان میں دے دیا۔ عرابی پاشا وزیر جنگ اور وزیرِ بحریہ تھے۔ مصری فوجوں کی تعداد 14 ہزار تھی جو انگریزوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔انگریزوں نے نہر سویز جو غیر جانبدار علاقہ تھا اس میں سے اپنی فوجیں گزار کر اسماعیلیہ لاکر وہاں سے حملہ کی تیاری شروع کر دی۔ دوسری طرف اندرونی ساز بازوں پر تھی۔ مزیدبرآں ایک پروفیسر جو عربی اور ایشیائی زبانوں کا استاد تھا، ایک اخباری نمائندہ کے روپ میں مصر میں داخل کر دیا گیا۔ 31؍ستمبر کو انگریزی فوج نے جب رات کو حملہ کیا تو دفاعی مورچوں پر موجود دستوں کو طے شدہ سازش کے تحت پیچھے ہٹا لیا گیا تھا۔ اس طرح حملہ آور فوج نے مصری فوج کو غفلت میں جا لیا اور جب تک وہ سنبھلے بہت قتل و غارت ہو چکی تھی۔ انگریزوں نے عرابی پاشا کو گرفتار کرکے جنگی مقدمہ چلایا اور جنگی مجرم کے طور پر سیلون بھیج دیا۔ اس کے بعد انگریزوں نے مصر پر 72 سال تک راج کیا۔

انطاکیہ کی فتح: سلطان ملک شاہ سلجوقی ابن سلطان الپ ارسلان سلجوقی 437ھ کو پیدا ہوا سلطان نے انطاکیہ کے عیسائی بادشاہ فردوروس کو شکست دے کر انطاکیہ فتح کیا۔ یہ عیسائیوں کا مقدس شہر تھا۔ اس میں سب سے پہلے عیسائی کلیسا کی تشکیل ہوئی تھی لہٰذا یہ عیسائیت کا گہوارہ بھی سمجھا جاتا تھا۔ یہاں بہت سے عالیشان گرجے موجود تھے۔

شاہ ہنگری کی بد عہدی: سلطان مراد خان نے جب گوشہ نشینی اختیار کی اور اپنے بیٹے سلطان محمد فاتح کو تخت نشین کیا تو اس کی عمر 14 سال تھی یہ دیکھ کر عیسائی تیاری کرنے لگ گئے کہ اس وقت ایک بچہ حکمران ہے اس لئے بڑا مناسب وقت ہے کہ سلطنت عثمانیہ پر قبضہ کر لیا جائے۔ چنانچہ شاہ ہنگری نے پوپ کے اس اشارے پر کہ مسلمانوں کے ساتھ بد عہدی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے تمام عہدو پیمان کا لحاظ کئے بغیر بلغاریہ (جو سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھی) پرحملہ کر دیا۔ یہ وہ شاہ ہنگری تھا جس نے انجیل پر قسمیں کھائی تھیں اوراس نے دس برس کے لئے صلح کی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کی پابندی ایک مذہبی فریضہ کے طور پرکرے گا۔ اب ان حالات میں سلطان مراد کو گوشہ نشینی چھوڑ کرمیدانِ جنگ میں آنا پڑگیا۔ لہذا دونوں فوجیں آمنے سامنے آ گئیں اور جنگ شروع ہو گئی۔ دورانِ جنگ مسلمانوں نے شاہ ہنگری کاسر کاٹ کر نیزے پر بلند کر دیا، لشکر میں کہرام مچ گیا اور عیسائی فوج بھا گ نکلی۔ سلطان مراد نے ایک مرتبہ پھر اپنے بیٹے سلطان محمد فاتح کے حوالہ تخت کیا اور گوشہ نشین ہو گیا مگر ایک با پھر ہنگری کے ایک جرنیل ہونیا ر نے کئی مغربی امراء کو ساتھ ملا کر علم بغاوت بلند کر دیا، سلطان مراد کو پھر ایک دفعہ میدان جنگ میں اترنا پڑ گیا۔ تین دن زبردست جنگ ہوتی رہی چوتھے روز جنرل ہونیار میدان چھوڑ کر فرار ہو گیا اور جنگ ختم ہو گئی۔

قسطنطنیہ کی فتح: سلطان محمد فاتح کے دامن میں بہت سی فتوحات ہیں مگر ان سب میں خاص طور قابلِ ذکر قسطنطنیہ کی فتح ہے جس کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا، تم ضرور قسطنطنیہ فتح کروگے، وہ فاتح بھی خوب ہے اور اس کا امیر بھی خوب ہے۔ اور یہ سعادت سلطان محمدفاتح کے حصہ آئی۔ محاصرہ قسطنطنیہ 19؍اپریل 1453ء کو شروع ہوا۔ مسلمان فوج نے قلعہ کی دیوار میں شگاف ڈالا اور قلعہ میں داخلہ کا راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئے اس وقت سلطان محمد فاتح اپنے تازہ دم دستہ کے ساتھ حملہ آور ہوا اور قیصر کی فوج اس اچانک حملہ کا مقابلہ نہ کر سکی اور قلعہ فتح ہو گیا۔ سلطان جب سینٹ صوفیہ کے گرجا کے سامنے پہنچا تو اپنے گھوڑے سے اتر کر اور اس گرجا میں داخل ہوا جس میں پچھلے 1100 سال سے تین خداؤں کی عبادت ہو رہی تھی، سلطان نے حکم دیا کہ ایک خدا کی واحدانیت کا اعلان کیا جائے اور نماز کی تیاری اور اذان دینے کا حکم دیا اور اس گرجا کو مسجد ابا صوفیہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس فتح کے وقت سلطان محمد فاتح کی عمر 26 (چھبیس) سال تھی اور وہ اس فتح کے موقع پرتین سال بڑا تھا اسکندر اعظم سے جب سکندر نے کرانیکولس فتح کیا تھا۔ اسی طرح سلطان تین سال چھوٹا تھا نپولین بونا پارٹ سے جب نپولین نے معرکہ لودی میں کامیابی حاصل کی تھی۔

بوسنیا کی فتح: 1484ء میں عیسائی حکومتیں مل کر ترکوں کے مقابل پر آئیں، سلطان محمد فاتح ڈیڑھ لاکھ فوج کے ساتھ اور دو سو بحری جنگی جہازوں کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کے دفاع کے لئے نکلا۔ اُس نے سربیا کے تمام مقبو ضات فتح کر لئے ماسوائے ایک شہر بلغراد کے۔ 1461ء میں شاہ بوسنیا نے پوپ کو ترکوں کے خطرے سے آگاہ کیا اور اس پر پاپائے روم نے شاہ بوسنیاکی مدد کا وعدہ کر لیا۔ چنانچہ شاہ بوسنیا نے مسلمانوں کو خراج دینے سے انکار کر دیا۔ اس صورتحال کے پیش نظرسلطان محمد فاتح نے فوری طور پر بوسنیا پر حملہ کر دیا اور بوسنیا فتح کر لیا۔ سلطان نے شاہ راڈرک کو اس کی بغاوت کی سزا میں پہاڑی سے گرا کر مار دینے کا حکم دیا۔ یہ پہاڑ ی راڈرک کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بوسنیا کی فتح اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہاں کے سرداروں نے دیگر بلقانی سرداروں کے بر عکس اسلام میں دلچسپی لی اور اسلام قبول کیا۔ حکومت نے ان کو بک کا خطاب دے کر ان کے علاقوں کا حکمران بنا دیا۔ سلطان محمد فاتح نے بوسنیا کے بعد ہرزیگوینیا اور البانیہ کو بھی فتح کیا۔

مسلمان افواج اٹلی کے دروازے تک: سلطان محمد فاتح نے 1480ء میں ٹارنٹو کو فتح کیا، اس شہر کی اپنی اہمیت اس طرح سے ہے کہ یہ اپنے محلِ وقوع کے لحاظ سے اٹلی کا دروازہ ہے۔ 1510ء کو جب سلطان محمد فاتح اٹلی پر حملہ کی تیاریاں مکمل کر چکا تھا، اس نے داعی اجل کے بلاوے پر لبیک کہا اور دار فانی سے رخصت ہو گیا۔ اس کی وفات پر جہاں عالم اسلام سوگوار تھا وہیں یورپ میں بہت جشن منایا گیا۔

شام کی شکست۔ گیارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں مسیحی دنیا کے کئی عیسائی لشکر شام میں داخل ہو گئے۔ وہاں اس وقت کوئی طاقتور اسلامی حکومت موجود نہ تھی اور اس طرح شام پر ان کا قبضہ ہو گیا۔

اسلام سے قبل کی جنگوں کا احوال

ذیل میں چند حوالہ جات دیے جا رہے ہیں جو اس امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ قبل از اسلام جو قوانین حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں جاری تھے اور جو رحمۃاللعالمین آنحضرتﷺ نے جاری فرمائے ان دونوں کا موازنہ ہو سکے۔

شریعت موسوی اور شریعت محمدی کا قانون جہاد

تورات میں آتا ہے کہ جب تو اپنے دشمن کے گھر میں گھسے تو تُو تمام بالغ مردوں کو قتل کر دے۔ اور عورتوں کو اور بچوں کو قید کر لے، بلکہ بعض حالات میں تو یہاں تک حکم ہے کہ ان کے جانوروں بھی ذبح کر دیئے جائیں۔ یعنی اس حد تک تشدد کی تعلیم دی گئی ہے۔

اس کے مقابل اسلام نے منصفانہ تعلیم دی ہے جو شخص تمہارے خلاف تلوار نہیں اٹھاتا تم بھی اس سے مت لڑو۔ اسی طرح کسی عورت پر وار کرنے سے منع فرمایا ہے ماسوائے انتہائی اہم استثنائی صورتحال کے، خواہ وہ عورت جنگ میں تمہارے خلاف شامل ہی کیوں نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ جب بھی کوئی لشکر روانہ فرماتے تو ہدایت کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جنگ کرو اور بددیانتی نہ کرو۔ دھوکہ بازی سے کام نہ لو اور کسی دشمن کے اعضاء نہ کاٹو اور نہ کسی نابالغ کو قتل کرو، نہ کسی بوڑھے کمزور کو قتل کرو، نہ چھوٹے بچوں کو نہ کسی عورت کو قتل کرو۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ جب جنگ کے لئے جاتے تو وہاں پہنچ کر ٹھہر جاتے تا دشمن کو خبر ہو جائے۔ اور رات کو حملہ نہ کرتے بلکہ اگلے دن صبح کو اگر دشمن کی طرف سے اذان کی آواز آ جاتی تو حملہ نہ کرتے اور اگر اذان کی آواز نہ آتی تو صبح دم حملہ کرتے تھے۔ اسی طرح اسلام میں حکم ہے کہ جب دشمن ہتھیار ڈال دے تو جنگ بند کردو اور جب دشمن صلح کے لئے اعلان یا درخواست کردے تو بھی جنگ بند کردو۔اسلام نے جنگوں کے آداب و اخلاق عطا کئے۔

جنگوں کے بارے میں اسلامی اخلاق کا ذکر

قرآن کریم خداتعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو رہتی دنیا تک ہدایت کا سر چشمہ ہے۔

1۔ جنگ صرف دفاعی جائز ہے: اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ آیت 191 تا 192 میں ارشاد فرمایا، و قاتلوا فی سبیل اللّٰہ۔۔۔ ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔اور دورانِ قتال انہیں قتل کرو جہاں کہیں بھی تم انہیں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا۔ اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ اور ان سے مسجدِحرام کے پاس قتال نہ کرویہاں تک کہ وہ تم سے وہاں قتال کریں۔ پس اگر وہ تم سے قتال کریں تو پھر تم ان کو قتل کرو۔ کافروں کی ایسی ہی جزا ہوتی ہے۔ اسی طرح پھر سورۃ الحج آیت 40میں فرمایا، ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے (قتال کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے۔ اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

2۔ جنگ کا مقصد مذہبی آزادی کاقیام ہے: اس سلسلہ میں سورۃ البقرۃ آیت 194میں ارشادِ خداوندی ہے، ’’اور ان سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اختیار کرنا) اللہ کی خاطر ہو جائے۔ پس اگر وہ باز آجائیں تو (زیادتی کرنے والے) ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی۔‘‘

3۔ جنگ میں کسی قسم کی زیادتی جائز نہیں: اس کی بابت قرآنِ کریم کی سورۃ البقرۃ آیت 191 اور سورۃ النحل آیت 127میں فرمایا گیا ہے ترجمہ: اور اگر تم سزا دو تو اتنی ہی سزا دو جتنی تم پر زیادتی کی گئی تھی اور اگر تم صبر کرو تو یقیناً صبر کرنے والوں کے لئے یہ بہتر ہے۔

4۔ جنگ میں معاہدات کی پابندی لازمی ہے: اس سلسلہ میں سورۃ توبہ کی آیت 4 میں ارشاد فرمایاسوائے مشرکین میں سے ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا پھر انہوں نے تم سے کوئی عہد شکنی نہیں کی اور تمہارے خلاف کسی اور کی مدد بھی نہیں کی۔ پس تم ان کے ساتھ معاہدہ کوطے کردہ مدت تک پورا کرو۔ یقیناً اللہ متقیوں سے محبت کرتا ہے۔

5۔ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ جنگ میں دشمن سے بھی انصاف کرنا ضروری ہے: اس سلسلہ میں سورۃ المائدہ آیت 9 میں حکم دیا گیا کہ ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے رہو انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

6۔ اسی طرح اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ اگر دشمن صلح پر مائل ہے تو صلح کر لینی چاہیے: سورۃالانفال آیت 62 میں ارشاد فرمایا گیا ہے، ’’اور اگر وہ صلح کے لئے جھک جائیں تو تُو بھی ان کے لئے جھک جا اور اللہ پر توکل کر۔ یقیناً وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔‘‘

7۔ صلح کی بابت حکم ہے کہ ڈر کر صلح نہیں کرنی: اس سلسلہ میں سورۃ محمدﷺ کی آیت 36 میں ارشاد فرمایا گیا۔
’’پس کمزوری نہ دکھاؤ کہ صلح کی طرف بلانے لگو جبکہ تم غالب آنے والے ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہر گز تمہیں تمہارے اعمال (کا بدلہ) کم نہیں دے گا۔‘‘

8۔ دو قوموں کی جنگ روکنے کی مشترکہ مساعی کی ہدایت: اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات آیت 10میں ارشاد فرمایا: اور اگر مومنین میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسرے کے خلاف سر کشی کرے تو جوز یادتی کر رہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کراؤ اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

9۔ جنگی قیدی کس صورت میں بن سکتے ہیں: اسلام نوع انسان کو مکمل آزاد دیکھنا چاہتا ہے اس لئے نہ صرف یہ کہ جنگی قیدیوں کی آزادی کے بہت سے آسان سے آسان تر طریق بیان کردئیے بلکہ یہ بھی کھول کر بیان فرمایا کہ یہ کسی طور جائز نہیں کہ کوئی ایک طاقتور گروہ اُٹھے اور کمزوروں کو اپنا قیدی یا غلام بنا لے۔ اس بابت حکم سورۃ الانفال آیت 68 میں نازل ہوا، فرمایا گیا۔‘‘ کسی نبی کے لئے یہ جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کے بغیر قیدی بنائے۔ تم دنیا کی متاع چاہتے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ آخرت پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کامل غلبہ والا اور بہت حکمت والا ہے۔

10۔ حسب استطاعت جنگ کی تیاری رکھنے کا حکم اور اس کی حکمت: اللہ تعالیٰ نے سورۃالانفال آیت 61 میں ارشاد فرمایا اور جہاں تک تمہیں توفیق ہو ان کے لئے تیاری رکھو، کچھ قوت جمع کرکے اور کچھ سرحدوں پر گھوڑے باندھ کر۔ اس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی مرعوب کرو گے۔ تم انہیں نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کروگے تمہیں بھرپور طور پر واپس کیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی نہیں کی جائے گی۔

11۔ ملکی سرحدوں پر چھاؤنیاں بنانے کی ہدایت: اس بابت سورۃ آلِ عمران کی آخری آیت میں ارشاد خداوندی ہے ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر کرو اور صبر کی تلقین کرو اور سرحدوں کی حفاظت پر مستعد رہو (مطلب یہ کہ کبھی بھی دشمن کے حملوں سے بے خوف نہ رہو) اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

12۔ مقابلہ پوری شدت اور دلیری سے کرنا چاہئے: سورۃ الانفال کی آیت 58 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا پس اگر تو لڑائی میں متصادم ہو تو (ان کے حشر سے) ان کے پچھلوں کو بھی تتر بتر کر دے تا کہ شاید وہ نصیحت پکڑیں۔ اور پھر سورۃ الانفال کی ہی آیت 16 اور 17 میں فرمایا کہ ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، جب ان کے کسی بھاری لشکر سے جنہوں نے کفر کیا تمہاری مڈبھیڑ ہو تو انہیں پیٹھ نہ دکھاؤ۔ اور جو اس دن انہیں پیٹھ دکھائے گا، سوائے اس کے کہ کوئی جنگی چال کے طور پر پہلو بدل رہا ہو یا (اپنے ہی) کسی گروہ سے ملنے کی کوشش کر رہا ہو، تو یقینا ًوہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

13۔ اللہ کی راہ میں قتال کرنے اور شہید ہونے والوں کا مقام: اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت 155میں ارشاد فرمایا، اور جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو مردے نہ کہو بلکہ (وہ تو) زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔ اسی طرح سورۃ آلِ عمران کی آیت 170 اور 171 آیت میں یہ فرمایا، وَ لَا تحسبن الذین۔۔۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اُن کو ہرگز مردے گمان نہ کر بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور انہیں ان کے رب کے ہاں رزق عطا کیا جا رہا ہے۔ بہت خوش ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا اور وہ خوشخبریاں پاتے ہیں اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق جو ابھی ان سے نہیں ملے کہ اُن پر بھی کوئی خوف نہیں ہو گا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے۔

14۔ دشمن کے ساتھ ہولناک جنگیں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کا حل: اللہ تعالیٰ نے سورۃ آلِ عمران کے اختتام پر صبر کی تعلیم کے علاوہ یہ تعلیم دی تھی کہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین بھی کرتے رہو اور اپنی سرحدوں کی بھی حفاظت کرو۔ سورۃ آلِ عمران کے بعد سورۃ النساء ہے، جس میں دشمن کے ساتھ ہولناک جنگوں کا ذکر ہے۔ جس کے نتیجہ میں کثرت سے عورتیں بیوہ اور بچے یتیم رہ جائیں گے۔ لہٰذا اپنے معاشرہ میں جنگوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مشکلات اور ایک بہت بڑی تعداد شہداء کی بیواؤں اور اُن کے یتیم بچوں کی صورت میں اُس وقت ایک غیر متوقع طور سامنے موجود ہو گی جس کا احسن طور پر حل نکالنا ازبس ضروری ہو جائے گا۔ دنیا کے مختلف مذاہب ایک وقت میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کو ممنوع اور معیوب سمجھتے ہیں جبکہ اسلام نے اُن بیواؤں اور یتیم بچوں کے حقوق کے تعلق میں اس کا ایک حل مردوں کے لئے دو دو، تین تین اور چارچار شادیاں کرنے کی صورت میں پیش فرمایا گیا ہے اور اس میں ایک بہت ضروری اور لازمی شرط یہ ہے کہ ایسا شخص اپنی دو یا تین یا چار بیویوں کے درمیان ایک احسن انصاف پر قائم رہ سکے۔ اگر انصاف پر قائم نہیں رہ سکتا تو صرف ایک شادی پر ہی اکتفا کرنی ہو گی۔

(سید انور احمد شاہ۔بُرکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

آئرلینڈ میں چودھویں نیشنل بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جنوری 2023