• 17 مئی, 2024

خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میرا دامن پکڑ لیا اور مجھ کو غرق ہونے سے بچا لیا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ڈاکٹر عبد الغنی صاحب کڑکؓ انجامِ آتھم پڑھ لینے کے بعد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مَیں نے اب کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا اور نماز بھی پڑھنی شروع کر دی جس کی مجھے اس سے قبل عادت نہ تھی۔ مَیں نے اس اثنا میں ایک رؤیا دیکھی کہ مَیں ایک ایسی جگہ پر ہوں کہ میرے سامنے ایک مینار ہے اور مینار کے ساتھ ایک دروازہ ہے جو پرانے فیشن کا موقع تختوں کا (پرانے فیشن کا تختوں کا دروازہ ہے) کارکڈ (Carked) دروازہ ہے۔ (میرا خیال ہے یہ کاروڈ، Carved ہو گا) اس دروازے کو مَیں کھول کر اندر جانا چاہتا ہوں، مگر وہ کھلتا نہیں۔ مَیں نے زور سے جو اُسے دھکا دیا تو ایسا معلوم ہوا کہ مَیں دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی اندر جا پڑا ہوں مگر گرا نہیں۔ پھرمَیں دیکھتا ہوں کہ وہاں پر پارک ہی پارک ہیں۔ (بہت بڑے بڑے پارک ہیں) جہاں پر روشیں ہیں، پھولوں کے پودے لگے ہوئے ہیں۔ اُن میں سے گزرتے ہوئے میں ایسا خیال کرتا ہوں کہ گاڑی لاہور جانے کے لئے تیار ہے، مگر میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔ (خواب بیان کر رہے ہیں)۔ اس اثناء میں ایک شخص جو سانولے رنگ کا ہے اور مجھے وہ ڈرائیور معلوم ہوتا ہے مجھے کہتا ہے کہ کچھ حرج نہیں اگر تمہارے پاس ٹکٹ نہیں تو ٹرین کی سلاخوں کو پکڑ لو اور لٹک جاؤ مگر دیکھنا سو نہ جانا۔ چنانچہ مَیں نے ان سلاخوں کو پکڑ لیا اور مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیند سی آ رہی ہے، اُس وقت میں نے سلاخوں کو بھی پکڑا ہوا ہے اور مٹھیوں سے آنکھوں کو بھی ملتا جاتا ہوں تاکہ سو نہ جاؤں۔ اس اثناء میں میری آنکھ کھل گئی۔ (خواب میں یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے) کہتے ہیں مَیں نے یہ رؤیا محمد امین صاحب سے بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ اب آپ پر سچائی کھل گئی ہے۔ بیعت کر لیں۔ (وہ احمدی تھے۔) مَیں نے کہا کہ قادیان جا کر بیعت کر لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ ایک کارڈ جو انہوں نے اپنی جیب سے نکال کر مجھے دیا۔ (جوابی کارڈ تھا) انہوں نے کہا کہ ابھی اسے لکھ دو۔ چنانچہ مَیں نے بیعت کا خط لکھ دیا اور محمد امین صاحب اُسے پوسٹ کرنے کے لئے گئے۔ یہ 1907ء کا واقعہ ہے۔ اس کے دو یا تین دن بعد مجھے جواب ملا کہ بیعت حضرت اقدس نے منظور فرما لی ہے اور لکھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ استقامت بخشے اور ساتھ یہ لکھا ہوا تھا کہ نماز بالالتزام پڑھا کرو اور درود شریف بھی پڑھا کرو۔

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 214 تا 215۔ از روایات حضرت ڈاکٹر عبد الغنی صاحب کڑکؓ)

مکرم میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ والد صاحب سے احمدیت سے پہلے بھی الہامات کا سلسلہ جاری تھا اور قبولِ احمدیت کے بعد یہ سلسلہ بہت ترقی کر گیا۔ احمدیت کی بدولت آپ کو رؤیت باری تعالیٰ بھی ہوئی۔ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کافی دفعہ ہوئی۔ حضرت عمرؓ اور دوسرے بزرگوں کی زیارت وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی تھی۔ پھر یہ اپنے والد صاحب کے بارے میں ہی لکھتے ہیں کہ ایک دن مسجد محلہ دارالرحمت میں کسی بات میں چند دوستوں کو رؤیا سنائی جن میں سے ایک دوست تو جناب ماسٹر اللہ دتہ صاحب مرحوم گجراتی تھے۔ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک صحابی تھا، اُس کو روزانہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری ہوتی تھی۔ وہ صبح کو وہ کشف حضرت کے حضور پیش کرتے، (یعنی روزانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ کشف یا رؤیا جو تھے وہ پیش کرتے تھے) اور حضور اُس پر اپنی قلم سے درست ہے یا ٹھیک ہے، لکھ دیتے تھے۔ والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ یہ غلط باتیں ہیں۔ (یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ روز روز حضوری ہو رہی ہے اور روز ہی دیدار ہو رہا ہے۔ تو کہتے ہیں) قریب تھا کہ یہ وسوسہ زیادہ شدید ہو جائے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میرا دامن پکڑ لیا اور مجھ کو غرق ہونے سے بچا لیا۔ (وہ کس طرح بچایا؟) کہتے ہیں رات کو مَیں بھی خواب میں اپنے آپ کو حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پاتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی وہاں پر تشریف فرما ہیں۔ حاضرینِ مجلس میں سے کسی نے سوال کیا کہ حضور! مکہ کی نسبت تو یہ آیا ہے کہ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۔ کہ اس میں جو داخل ہو گیا امن میں ہو گیا۔ پھر یہ مکّہ جناب کے لئے تو جائے امن نہ بنا۔ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو امن کی جگہ نہیں بنا۔) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں جا کر پناہ لینی پڑی۔ (یہ خواب اپنی بیان کر رہے ہیں) کہتے ہیں اس کے جواب میں حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تو ہے کہ مکّہ کو کوئی فتح نہیں کر سکتا۔ مَیں نے اس کو فتح بھی تو کر لیا۔ کیونکہ یہ میرے نکالے جانے کی وجہ سے میرے لئے حلّ ہو گیا کہ مَیں اس کو فتح کروں۔ اور بھی کچھ خواب کا حصہ بیان کیا۔ لیکن کہتے ہیں کہ مَیں کم علمی کی وجہ سے پورے طور پر اُس کو یادنہیں رکھ سکا، بھول گیا ہوں۔ پھر کہتے ہیں اُس کے بعد والد صاحب نے کہا کہ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کے بعد تہجد کا وقت تھا۔ تہجد ادا کی اور مسجد میں چلا گیا۔ صبح کو وہی دوست پھر تشریف لائے اور انہوں نے رات کی سرگذشت کاپی پر لکھی ہوئی حضور کے سامنے رکھ دی۔ حضور نے پھر اس پر اپنی قلم سے تصدیق فرما دی۔ مَیں نے وہ پڑھا تو وہی خواب جو کہ مَیں عرض کر چکا ہوں یعنی وہی سوال اور وہی جواب ہے جو مَیں نے عرض کیا ہے۔ (یعنی ان کو بھی جو خواب آئی تھی، وہی اُس دوست نے بھی سنائی۔) اس طرح کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے اُس وقت میری دستگیری فرمائی اور مجھے ہلاکت سے بچا لیا کہ یہ خوابیں جو بیان کرتے ہیں وہ سچی خوابیں ہیں۔

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 272 تا 274۔ ازروایات حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ)

اس طرح حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ (1892ء کی ان کی بیعت ہے) بیان کرتے ہیں کہ بندہ کو امرتسر جناب قاضی سید امیر حسین صاحب مرحوم کے پاس آنے سے احمدیت کا علم ہوا۔ بندہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کے ایام میں بہت دعا استخارہ کی اور دعا میں یہ درخواست تھی کہ مولیٰ کریم! مجھے اطلاع فرما کہ جس حالت میں اب ہوں یہ درست ہے یا جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے وہ درست ہے؟ اس پر مجھے دکھلایا گیا کہ مَیں نماز پڑھ رہا ہوں لیکن رُخ قبلہ کی طرف نہیں ہے اور سورج کی روشنی بوجہ کسوف کے بہت کم ہے۔ جس سے تفہیم ہوئی کہ تمہاری موجودہ حالت کا نقشہ ہے۔ دوسرے روز نماز عشاء کے بعد پھر رو رو کر بہت دعا کی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں فرمایا کہ اصل دعا کا وقت جوف اللّیل کے بعد کا ہوتا ہے۔ (یعنی آدھی رات کے بعد کا ہوتا ہے۔) جس طرح بچے کے رونے پر والدہ کے پستان میں دودھ آ جاتا ہے، اسی طرح پچھلی رات گریہ و زاری خدا کے حضور کرنے سے خدا کا رحم قریب آ جاتا ہے۔ اس کے بعد بندے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی اختیار کر لی۔ کہتے ہیں اُس کے بعد حضور کی پاک صحبت کی برکت سے یہ فائدہ ہوا کہ ایک روز نماز تہجد کے بعد خاکسار سجدہ میں دعائیں کر رہا تھا کہ غنودگی کی حالت ہو گی جو ایک کشفی رنگ تھا، ایک پاکیزہ شکل فرشتہ میرے پاس آیا جس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت سفید کوزہ پانی کا بھرا ہوا تھا اور ایک ہاتھ میں ایک خوبصورت چُھری تھی۔ مجھے کہنے لگا کہ تمہاری اندرونی صفائی کے لئے میں آیا ہوں۔ اس پر مَیں نے کہا بہت اچھا۔ آپ جس طرح چاہیں صفائی کریں۔ چنانچہ اُس نے پہلے چھری سے میرے سینے کو چاک کیا اور اس کوزہ کے مصفّٰی پانی سے خوب صاف کیا لیکن مجھے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی خوف کی حالت پیدا ہوئی۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے خیال کیا کہ اب میں نے صبح کی نماز ادا کرنی ہے اور یہ تمام بدن چرا ہوا ہے۔ نماز کس طرح ادا کر سکوں گا۔ اس لئے ہاتھ پاؤں کو ہلانا شروع کیا تو کوئی تکلیف نہ معلوم ہوئی اور حالتِ بیداری پیدا ہو گئی۔ اس کے بعدنماز فجر ادا کی۔

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 322 تا 323۔ از روایات حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 11؍جنوری 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

یوم والدین

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 فروری 2022