فخر موجودات، شافع روز محشر سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کی مبارک زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اس کا ہر ایک پہلو بے مثال اور ہر دور بے نظیر ہے۔ حضور ﷺ کی زندگی سے غریب بھی، امیر بھی، چھوٹا بھی، بڑا بھی، حاکم بھی، محکوم بھی، دوست بھی، دشمن بھی، تاجر بھی، مزدور بھی، مفتی بھی، سپہ سالار بھی اور سپاہی بھی، غرض ہر ایک یہ سبق حاصل کر سکتا ہے اس لیے کہ حضور ﷺ نے یہ سب کام کئے اور تمام منزلوں سے گزرے۔
ایک یتیم بچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی محنت کے ساتھ اعلیٰ درجہ کا کامیاب تاجر بنا۔ اپنی دیانت داری سے ’’الامین‘‘ اور سچائی سے ’’الصادق‘‘ کہلایا۔ جب اسلامی سلطنت پھیلی تو حضور ﷺ کے پاس بہت دولت آنے لگی آپ ﷺ نے ہمیشہ اسے عوام کی امانت سمجھا اور فوراً لوگوں میں تقسیم کر دیا اور خود فاقے کئے۔آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خود اپنے ہاتھوں سے چکی پیستی تھیں۔ چکی پیستے پیستے آپ رضی اللہ عنہا کے ہاتھوں میں گھٹے پڑ جاتے ایک دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہمراہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ جنگی اسیروں سے ہمیں ایک خادمہ عنایت فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان حالات میں جب کہ اہل صفہ پر خرچ کرنے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں اور ان کے پیٹ بھوک سے دوہرے ہوگئے ہیں۔ میں تمہیں کیسے دے سکتا ہوں اور ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ رات کو بستر پر جاتے ہوئے 33 دفعہ سبحان اللّٰہ، 33 با ر الحمد للّٰہ اور 34 بار اللّٰہ اکبر پڑھا کرو۔ اللہ تعالیٰ خود تمہارا کفیل ہو جائے گا۔
آپ ﷺ نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہ بولا۔ اور بعض لوگ ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا برا نہیں سمجھتے۔ لیکن آپ ﷺ کو ایسے جھوٹ سے بھی نفرت تھی۔ آپﷺ کا ارشاد ہے۔
’’جو شخص ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولے اس کے لیے ہلاکت ہے، ہلاکت ہے، ہلاکت ہے‘‘
اللہ کا ایک بندہ عزت سے اٹھا اور چند دنوں میں حاکم بن گیا۔ دنیا کی دولت اس کے قدموں میں آگئی مگر وہی سادگی، وہی فقیری، وہی پھٹے پرانے کپڑے، وہی چھوٹا موٹا کھانا، فخر نہ غرور۔ حضور ﷺ کی سادگی کا اس واقعہ سے بھی پتا چلتا ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ایک چٹائی پے لیٹے اٹھے تو چٹائی کے نشان بدن مبارک پر نظر آنے لگے ایک صحابی نے عرض کیا۔ آپ ﷺ ہمیں حکم کیوں نہیں دیتے کہ چٹائی پر کچھ بچھا دیا کریں۔ فرمایا مجھے دنیا سے کیا غرض؟ میرا تعلق دنیا سے اس طرح ہے کہ جیسے کوئی مسافر کسی درخت کے سائے میں آرام لے اور پھر اسے چھوڑ کر چل دے‘‘
ثابت قدمی اور استقلال کا یہ عالم ہے کہ ہزار مخالفتیں ہوئیں۔ دشمن نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ طرح طرح سے ستایا۔ گھر سے بے گھر کر دیا مگر حوصلہ پست نہ ہوا۔ صحیح راستہ سے اِدھر اُدھر نہ ہوئے نہ کوئی لالچ اثر کر سکا نہ کوئی دھمکی متاثر کر سکی۔ جب مشرکین کا وفد حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس حاضر ہوا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ آپ اپنے بھتیجے سے کہہ دیں کہ ہمارے بتوں کے خلاف کچھ نہ کہیں ورنہ ہمارے اور آپ کے درمیان خون ریزی ہوگی۔ جب حضور ﷺ گھر تشریف لائے۔ا ور چچا نے حالات کی نزاکت سے آگاہ کیا۔ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تو بھی میں حق کی تبلیغ سے نہ ہٹوں گا حتی کہ اللہ تعالیٰ دین کو غالب کر دے یا میری جان چلی جائے۔
حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بہادری کا جوہر عطا فرمایا تھا بعثت کے بعد دشمن آپ ﷺ پر بہت زیادتیاں کرتے تھے آپ ﷺ نے تبلیغ اسلام کی خاطر ہمیشہ صبرو تحمل سے کام لیا۔ کفار آپ ﷺ کو حلیم دیکھ کر اور بھی جری ہوتے تھے ورنہ وہ آپ ﷺ کی شجاعت سے بے خبر نہ تھے۔ حنین کی جنگ چھڑی تو اسلامی فوج ابتداء میں بھاگ نکلی حضور ﷺ اس وقت ایک سفید خچر پر سوار تھے سوائے چند جاں نثار وں کے آپ ﷺ کے ساتھ کوئی نہ رہا۔ لیکن آپ ﷺ نے ہمت نہ ہاری خچر کو دشمن کے رخ بڑھانا شروع کیا۔ اتنے میں چند اور جاں نثار آپہنچے آپ ﷺ سواری کو بدستور دشمن کی طرف بڑھاتے گئے آپ ﷺ کی زبان پر یہ شعر تھا۔
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ کہ میں نبی ہوں اس میں جھوٹ نہیں۔
حضور ﷺ نہایت بلند اور پختہ اخلاق کے مالک تھے آپ ﷺ کی اخلاقی شان میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی کمی یا نقص پیدا نہیں ہوا۔ تمام عمر آپ ﷺ کو کسی گناہ کا خیال تک نہ آیا۔ کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ خیانت نہ کی، کوئی وعدہ نہیں توڑا، کسی پر زیادتی نہیں، کسی کا حق نہیں دبایا، کسی کا دل نہیں دکھایا۔ جب بھی موقع ملا آپ ﷺ نے دشمن دوست سب سے بھلائی کی۔ اگر کسی نے برا سلوک کیا تو اس کا بدلہ ہمیشہ بھلائی سے دیا۔ آنحضرت ﷺ کی اخلاقی پختگی ایک بے نظیر معجزہ تھی۔ اس کے آگے دین کے بڑے بڑے دشمن بھی دم بخود رہتے تھے وہ دین اسلام کے اصولوں کے خلاف تو نا حق زبان کھولتے رہتے تھے لیکن آپ ﷺ کے اخلاق کے خلاف وہ کوئی جھوٹی بات کہنے کی بھی جرات نہیں کر سکتے تھی۔ کثیر تعداد آنحضرت ﷺ کی آپ کے اخلاق دیکھ کر متاثر ہوئی حضور ﷺ نے عبادات کا جو معمول بنا لیا تھا اس کی آخر تک پابندی فرمائی۔ آپ ﷺ کو یہ بات پسند نہ تھی کہ کوئی آدمی کسی نیک معمول کی ابتداء کرے اور پھر اسے چھوڑ دے آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ عمل سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے جس پر آدمی پختگی سے قائم رہے خواہ یہ کوئی بڑا عمل نہ ہو۔
محبت کا یہ عالم ہے کہ ہر بچہ آپ ﷺ کا شیدائی ہے ہر بڑا آپ کا جاں نثار ہے اپنے پرائے آپ ﷺ پر جان چھڑکتے ہیں۔ اس لیے کہ آپ ہر کسی کو اپنا سمجھتے ہیں ہر کمزور کو آپ ﷺ کی مدد حاصل ہے۔ ہرغریب آپ ﷺ کی حمایت میں ہے حضور ﷺ کی شخصیت اس قدر دل آویز تھی کہ جس آدمی کو آپ ﷺ سے ملاقات کا موقع ملتا آپ ﷺ کے سلوک کا مداح خواں ہو جاتا تھا۔ آپ ﷺ نہ امیروں سے حسد نہ غریبوں سے تکبر کرتے تھے۔ سب کے ساتھ مساوات اور ہمدردی کےساتھ پیش آتے۔ حضور ﷺ کے مزاج اقدس میں نہایت نرمی اور شیرینی تھی۔ اگر چہ عموماً سنجیدگی کو ترجیح دیتے تھے لیکن یہ سنجیدگی خشک مزاجی کی حد تک نہ تھی کبھی کبھار نہایت لطیف اور خوشگوار مزاح فرماتے تھے۔ ایک دن ایک بوڑھی عورت آئی اور عرض کیا کہ میرے لیے جنت کی دعا فرمایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی وہ روتی ہوئی واپس لوٹی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم جنت میں جانے سے پہلے جوان ہو جاؤگی۔
ایک شخص نے حضور ﷺ سے سواری کی درخواست کی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا اس نے کہا میں اونٹنی کے بچہ کو کیا کروں گا؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا کیا اونٹنیوں کے بچے اونٹ نہیں ہوتے۔
حسن سلوک کا یہ حال ہے کہ جس نے کبھی کوئی نیکی کی تھی ہمیشہ اسے یاد رکھا اجرت پر جن کا دودھ پیا تھا ان کو بھی ماں سمجھا۔ اپنوں کا ذکر کیا دشمن بھی حسن سلوک سے فائدہ اٹھاتے رہے اگر جانی دشمن آگیا تو اس کو بھی معاف کر دیا۔بدر کی جنگ میں کفار کے ستر بڑے بڑے سردار مارے گئے تھے چند روز بعد مکہ کے ایک مشرک رئیس صفوان نامی نے ایک شخص عمیر بن وھب سے کہا کہ تم مدنیہ جاؤ اور چپکے سے حضور ﷺ کو (نعوذ باللہ) قتل کرو۔ میں تمہارا قرض اتار دوں گا اور تمہارے بال بچوں کا خرچ اٹھاؤں گا عمیر نے تلوار زہر میں بجھائی اور اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ پہنچا وہاں اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر پڑ گئی چنانچہ انہوں نے اسے پکڑ کر اسے حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ عمیر سے پوچھا کیسے آنا ہوا؟ اس نے جواب دیا قیدی چھڑانے کے لیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر یہ تلوار کس لئے لائے ہو۔ عمیر نے کہا تلوار نے پہلے ہمارا کون سا کام کیا ہو جو اب کرے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا سچ کہتے ہو؟ بولا ہاں سچ کہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا صفوان نے تیرے قرض اور تیرے بال بچوں کے خرچ کا ذمہ اٹھا کر میرے قتل کے لیے نہیں بھیجا عمیر نے تسلیم کیا اور کہا کہ اس کا علم میرے اور صفوان کے سوا کسی کو نہ تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بے شک نہیں تھا۔ اس پر اس نے کہا کہ میں اسلام لاتا ہوں آپ ﷺ نے اسے معاف کر دیا۔
تدبیر کا یہ عالم ہے کہ ہر کٹھن منزل میں کامیاب ہیں ہر مشکل امر کا حل موجود ہے۔ ہر الجھن کا جواب تیار ہے۔ کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہے اور نبوت کا نور راستہ روشن کر رہا ہے
حضور ﷺ نے دنیا کے تمام ضروری کاروبار کئے شادیاں کیں، اولاد ہوئی، بیٹیاں بیاہیں، غربت دیکھی، تجارت کی، دیس پردیس میں رہے، مخالفتوں کا مقابلہ کیا، جنگیں لڑیں۔ صلح کی حکومت کی مگر ہر حال میں خدا کو یاد رکھتے۔ دن کو روزے رکھتے،نمازیں پڑھتے اور راتیں یاد خدا میں جاگ کر کاٹ دیتے۔
حضور ﷺ کا اسوہ حسنہ ہماری کامیابی کی ضمانت ہے آپ ﷺ کے نقش قدم پر چل کر ہی ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّد وَّ عَلٰی آلِ سَیِّدِنَا وَ بَارِکْ وَ سَلِّمْ۔
(ابو سعید)