پردہ ہی بنتِ حوّا کا فخر و وقار ہے
مستور جو نہیں ہے وہی اصل نار ہے
روح و بدن کا کرب ہے، دل پر یہ بار ہے
ہر اجنبی نگاہ جو تقوی پہ وار ہے
زیور حیا کا، حسن بڑھاتا ہے، یاد رکھ!
پاکیزگی، حجاب ہی تیرا سنگھار ہے
محرم کے واسطے ہو سبھی زینت و سنگھار
دیتا یہ حکم ہم کو خدا بار بار ہے
ہر اک بری نظر سے بچاتا ہے تجھ کو یہ
پردہ ہے اک فصیل، حیا اک حصار ہے
بے پردگی عذاب، حیا میں سکون ہے
القصہ، اک گلاب اور ایک خار ہے
(صدف علیم صدیقی۔ریجائنا ، کینیڈا)