سورۃ الجن، المزمل، المدثر، القیامۃ اور الدھر کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
سورۃ الجن
یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی انتیس آیات ہیں۔
اس سورت کا ایک تعلق تو سورت نوح سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی قوم کو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اگر تم اس پیغام کو قبول کر لو گے تو آسمان سے تم پر بکثرت رحمت کا پانی نازل ہو گا اور اگر نہیں کرو گے تو تمہیں ایک ہمیشہ بڑھتے رہنے والے عذاب میں مبتلا کر دیا جائے گا۔ سورت نوح میں جس تباہی کے سیلاب کا ذکر ہے وہ بھی ایک مسلسل بڑھتا رہنے والا سیلاب تھا۔
اب ہم اس سورت کے مضامین پر عمومی نظر ڈالتے ہیں کہ اس میں جِنّات کے حوالہ سے بعض بہت اہم مضامین چھیڑے گئے ہیں۔ عام علماء کا خیال ہے کہ یہاں جِنّات سے مراد آگ سے بنی ہو ئی کوئی غیر مرئی مخلوق تھی حالانکہ مستند حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آنے والے وفد سے، جو اِن معنوں میں جِنّات تھے کہ اپنی قوم کے بڑے لوگ تھے، جب ملاقات فرمائی تو باقاعدہ انہوں نے اپنے کھانے پکانے کا سامان کرنے کے لئے وہاں آگیں روشن کیں۔ پس یہاں ہر گز کسی فرضی جِن کا ذکر نہیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے جن اہم امور کا تذکرہ چھیڑا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم میں سے بعض احمق لوگ عجیب جاہلانہ باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا کرتے تھے۔ نیز ہم میں یہ عقیدہ بھی رائج ہو گیا تھا کہ اب اللہ تعالیٰ کبھی کسی نبی کو مبعوث نہیں کرے گا۔ انہوں نے اس عقیدہ کو اس لئے غلط قرار دیا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے ایک عظیم نبی کی زیارت کی تھی۔
اس کے بعد مساجد کے متعلق فرمایا کہ وہ خالصةً اللہ کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ ان میں کسی اَور کی عبادت جائز نہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا ذکر ہے کہ عبادت کے دوران آپؐ کو کئی طرح کے غم و حزن اور تفکرات گھیر لیا کرتے تھے اور بار بار توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے تھے مگر آپ ؐ کی توجہ اس کے باوجود کلیۃ ً اللہ ہی کے لئے خالص ہوا کرتی تھی جبکہ انسان روز مرہ یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ اس کی خوشیاں، اس کے غم، اس کی توجہ کو عبادت سے ہٹانے میں اکثر کامیاب ہو جایا کرتے ہیں۔
یہاں ایک دفعہ پھر اس بات کا اعادہ فرمایا گیا ہے کہ جس عذاب کو تم بہت دُور دیکھ رہے ہو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ قریب ہے کہ دور ہے۔ جب عذاب آجائے تو پھر خواہ اسے انسان کتنا ہی دُور سمجھے اسے لازماً قریب دیکھتا ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بکثرت غیب عطا ہوا۔ آپؐ خود عالم الغیب نہیں تھے بلکہ اللہ تعالیٰ یہ غیب ہمیشہ اپنے رسولوں ہی کو عطا کیا کرتا ہے جو اپنی ذات میں غیب کا کوئی علم نہیں رکھتے مگر جو غیب ان کو بتایا جاتا ہے وہ لازماً پورا ہو کر رہتا ہے۔ اسی طرح وہ فرشتے جو رسالت کی وحی لے کر آتے ہیں وہ آگے اور پیچھے حفاظت کرتے ہوئے چلتے ہیں تاکہ شیاطین اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کر سکیں۔ پس اللہ کے عظیم رسولوں کے بعد بھی بہت سے ان کے تابع رسول آیا کرتے ہیں جو اس وحی کی معنوی حفاظت پر معمور ہوتے ہیں۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1083-1084)
سورۃ المزمل
یہ سورت ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی تھی اور بسم اللہ سمیت اس کی اکیس آیات ہیں۔
اس سے پہلی سورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی جو کیفیت بیان کی گئی تھی اس کی تفصیل اس سورت کے آغاز ہی میں ملتی ہے جو مختصراً یہ ہے کہ آپؐ راتوں کو اٹھتے تھے۔ اس کا اکثر حصہ گریہ و زاری میں صرف کیا کرتے تھے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو روندنے کا اس سے بہتر اور کوئی طریق نہیں کہ انسان رات کو اُٹھ کر عبادت کے ذریعہ اپنی ان خواہشات کو کچل ڈالے۔
اسی سورت میں ایک دفعہ پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ آپ ؐ کی مماثلت بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ ؐ بھی ایک شارع رسول ہیں اور ایک صاحب ِ جلال رسول ہیں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر صاحب ِ جلال رسول ظاہر ہو چکا ہے۔ اس کی مخالفت کے نتیجہ میں سوائے اس کے کہ تم ہلاکتوں میں غرق کر دئیے جاؤ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گاا جیسا کہ موسیٰؑ کے مقابل پر ایک بہت بڑے جابر نے آپ ؑ کے پیغام کو ردّ کرنے کی جرأت کی تھی اور ہلاک کر دیا گیا تھا۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف ازحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1089)
سورۃ المدثر
یہ سورت مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی ستاون آیات ہیں۔
جس طرح پہلی سورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مُزَّمِّل قرار دیا گیا، گویا اپنے آپ کو مضبوطی سے ایک کمبل میں لپیٹ لیا ہو، اس سورت میں بھی یہی مضمون ہے اور اس امر کی تشریح ہے کہ وہ کون سے کپڑے ہیں جن کو نبی مضبوطی کے ساتھ اپنے ساتھ لگا لیتا ہے اور جن کو پاک کرتا رہتا ہے۔ یہاں کو ئی ظاہری کپڑے ہر گز مراد نہیں ہیں بلکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کا ذکر ہے کہ وہ صحابہ ؓ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے ہیں آپ ؐ کی مُطَھِّر صحبت کے نتیجہ میں مسلسل پاک کئے جاتے ہیں اور وہ رُجْز کو چھوڑتے چلے جاتے ہیں حالانکہ اس سے پہلے بہت سے ان میں سے ایسے تھے کہ ان کے لئے رُجْز سے اجتناب ممکن نہ تھا۔
علاوہ ازیں رُجْز سے مراد مشرکین مکّہ بھی ہو سکتے ہیں اور ان سے مکمل قطع تعلقی کا ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اس سورت میں ایسے اُنیس ملائک کا ذکر ہے جو مجرموں کو سزا دینے میں کوئی نرمی نہیں دکھائیں گے۔
یہاں اُنیس کا عدد بعض ایسی انسانی استعدادوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے جن کے غلط استعمال کے نتیجہ میں ان پر جہنم واجب ہو سکتی ہے۔ سر سے پاؤں تک اللہ تعالیٰ نے جو اعضا ء انسان کو بخشے ہیں جن سے اگر کما حقّہ کام لیا جائے تو انسان گناہوں اور لغزشوں سے بچ سکتا ہے، ان اعضا کی تعداد غالباً اُنیس ہے۔ لیکن جو بھی تعداد ہو، یہ سورت اس بات پر روشنی ڈال رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جنود بے انتہا ہیں اور اُنیس کے عدد پر ٹھہر کر یہ نہ سمجھنا کہ صرف اُنیس فرشتے ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے فرشتے بھی بے شمار ہیں جو حسب حال انسان کی تعذیب پر مقرر کئے جاتے ہیں۔
اس سورت میں ایک قمر کی پیشگوئی فرمائی گئی ہے جو سورج کے بعد اس کی پیروی میں نمودار ہو گا۔ یہ بھی بہت معنی خیز کلام ہے۔ یہی مضمون سورۃ الشمس میں بھی مذکور ہے۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1094)
سورۃ القیامۃ
یہ سورت ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی اکتالیس آیات ہیں۔
پچھلی سورت میں اہل جہنم کا اقرار ہے کہ ان کو جہنم کی سزا اس لئے ملی کہ وہ آخرت کا انکار کیا کرتے تھے۔ آخرت کے انکار کے نتیجہ میں بے انتہا جرائم پیدا ہوتے ہیں اور ساری دنیا فساد سے بھر جاتی ہے۔ پس اس سورت کے آغاز میں یومِ قیامت کو ہی گواہ ٹھہرایا گیا ہے اور اس نفس کو بھی جو بار بار اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے اور اگر انسان اس ملامت سے فائدہ اٹھا لے تو ہزار قسم کے گناہوں سے بچ سکتا ہے۔
قیامت کے متعلق منکرین کے انکار کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ جب ظاہری طور پر اُن کے تمام اعضاء بکھر جائیں گے تو کس طرح اُن کو اللہ تعالیٰ اکٹھا کرے گا۔ یہ محض ان کی کم فہمی تھی کیونکہ قرآن کریم بڑی وضاحت سے یہ بات بار ہا پیش کر چکا ہے کہ تمہارے ظاہری بدن اکٹھے نہیں کئے جائیں گے بلکہ روحانی بدن جمع کئے جائیں گے۔ مگر دشمن اپنے اس اصرار پر قائم رہا تاکہ وقت کے رسول سے تمسخر کر سکے اور آخرت کے انکار کی اپنی دانست میں معقول وجہ پیش کر سکے۔
فَاِ ذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَ خَسَفَ الْقَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ میں جن امور کا ذکر ہے انہیں قیامت پر چسپاں کرنا درست نہیں۔ یہ امور قربِ قیامت کی علامات میں سے ہیں نہ کہ قیامت کے واقعات میں سے۔ کیونکہ قیامت کے دن تو یہ نظام عالم کلیۃً فنا ہو جائے گا۔ نہ یہ سورج ہو گا۔ نہ یہ چاند، نہ ان کا محوری نظام، نہ ان کا کسوف، نہ اسے کوئی دیکھنے والا۔
فَاِ ذَا بَرِقَ الْبَصَرُ یعنی جب آنکھیں پتھرا جائیں گی، سے یہ مراد ہے کہ اُن دنوں میں دنیا پر ہولناک عذاب نازل ہوں گے۔
آگے جو یہ فرمایا کہ اُس وقت مکّذب کے لئے فرار کی جگہ نہیں رہے گی تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسوف و خسوف وغیرہ کے نشانات خدا کے ایک موعود کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے ظاہر ہوں گے تا منکرین پر حجت تمام ہو جائے۔
سورج اور چاند کا کسوف و خسوف کب جمع ہو گا؟ اس کی تفصیل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ ہے کہ معین تاریخوں میں ایک ہی مہینہ میں جس کا نام رمضان ہے، چاند اور سورج کا خسوف ا ور کسوف ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ واقعہ آپؐ کے مہدی کے سچا ہونے کی علامت ہے۔ پس یہ واقعہ رونما ہو چکا ہے۔ اسی مضمون کی ایک پیشگوئی حضرت مسیح ناصری علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمائی تھی۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور معجزہ کا ذکر ہے۔ اتنی بڑی کتاب قرآن کریم تئیس برسوں میں نازل ہوئی اور نزول کے وقت آپؐ اس فکر میں کہ میَں اسے فراموش نہ کر دوں، اپنی زبان کو تیزی سے حرکت دیتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو یقین دلایا کہ ہم ہی نے یہ قرآن نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کو جمع کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ پس ایک اُمّی پر تئیس سال میں نازل ہونے والا قرآن بحفاظت جمع کیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس امر کو ایک عظیم الشان معجزہ قرار دیتے ہیں کہ اس تئیس سالہ عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دشمن نے ہر طرح سے حملے کئے اور آپؐ کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ اگر کچھ قرآن نازل ہونے کے بعد ہی نعوذ باللہ آپؐ کو دشمن ہلاک کر نے میں کامیاب ہو جاتا تو قرآن کے ایک کامل کتاب ہونے کا دعویٰ، نعوذ باللہ، باطل اور بالکل بے معنی ہو جاتا۔
اس کے آخر پر انسانی پیدائش کے مراحل بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ وہ مسلسل ترقی پذیر ہے۔ پس کیسے ممکن ہے کہ وہ بالآخر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر نہ ہو اور اپنے اعمال کا جوابدہ نہ ٹھہرایا جائے۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ،صفحہ 1101-1102)
سورۃ الدھر
یہ سورت ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی بتیس آیات ہیں۔
اس سورت میں انسان کو اس کے آغاز کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک ایسا بھی دَور اس پر گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا۔ حالانکہ انسان جب سے وجود میں آیا ہے تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ قابل ذکر وہی تھا۔ پس یہاں انسان کی ابتدائی حالتوں کا ذکر ہے کہ انسان ایسے ابتدائی، ارتقائی دور میں سے بھی گزرا ہے جب وہ ہر گز کسی ذکر کے لائق نہیں تھا۔ یہ وہ دَور معلوم ہوتا ہے جب ابھی پرندوں کو بھی قوت ِ گویائی عطا نہیں ہوئی تھی اور ایک کامل خاموشی نے زمین کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اس سے انسان کو پیدا کیا گیا اور پھر وہ سمیعاً بصیراً بنا دیا گیا۔ سننے والا بھی اور دیکھنے والا بھی۔ پس جس اللہ نے مٹی کو سننے اور دیکھنے کی توفیق بخشی وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اسے دوبارہ پیدا فرمائے اور اس کی سمع اور بصر کا حساب لیا جائے۔
اس کے بعد اہلِ جنت کی خصوصی صفات کا ذکر ملتا ہے کہ وہ کسی پر اس لئے احسان نہیں کرتے کہ اس کے بدلے میں ان کے اموال بڑھیں۔ جب بھی وہ کسی سے حسن سلوک کرتے ہیں تو یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم تو محض اللہ کی رضا کی خاطر یہ کر رہے ہیں۔ اس کے بدلہ میں ہم تم سے کسی جزا یا شکریہ کی ہر گز تمنا نہیں رکھتے۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1106)
(عائشہ چودہری۔جرمنی)