• 7 مئی, 2025

حضرت راجہ عطا محمد خانؓ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت راجہ عطا محمد خان رضی اللہ عنہ۔ یاڑی پورہ کشمیر

حضرت راجہ عطا محمد خان رضی اللہ عنہ ولد راجہ شیر احمد خان صاحب یاڑی پورہ (Yaripora) ضلع کولگام (کشمیر) کے رئیس خاندان میں سے تھے اور کشمیر میں سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے والے بزرگ تھے۔ اندازاً 1895ء کے لگ بھگ بیعت کی۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ 1934ء میں کشمیر آپ کے علاقے میں دورے پر تشریف لے گئے تو وہاں سے آپ کے حالات معلوم کرکے اخبار الحکم میں شائع کرائے، حضرت مفتی صاحبؓ لکھتے ہیں:
’’….. راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم سابق سلطان شیر احمد خان صاحب سابق والیٔ کرناہ دراوہ کے جن کو 1868ء میں یاڑی پور وغیرہ کی جاگیر ملی تھی، فرزند تھے۔ قبول احمدیت سے پہلے آپ پکے اہل حدیث تھے۔ حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسیح الاول جب مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب والی ریاست جموں و کشمیر کے پاس شاہی طبیب تھے، اس وقت مولوی صاحب مرحوم مغفور کے جناب راجہ صاحب مرحوم کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات تھے اور وہی تعلق بالآخر آپ کے احمدی ہونے کا ذریعہ بنا۔

جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دعوے کا اشتہار راجہ صاحب مرحوم کی نظروں سے پہلے پہل گذرا تو دیکھتے ہی آپ پر بجلی کا سا اثر کر گیا اور دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ قادیان سے اس کے متعلق مزید حالات دریافت کیے جائیں۔ اُس وقت بوجہ موتیا بند آپ کی آنکھوں میں بہت تکلیف تھی، خود تو نہ جا سکتے تھے مگر آپ نے اپنے برادر اصغر راجہ محمد حیدر خان صاحب مرحوم کو جو نہایت نیک اور متقی آدمی تھے، ایک نوکر ہمراہ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں قادیان شریف روانہ کیا اور انہیں تاکید کی کہ میرا سلام پہنچائیں اورحضور کے دعاوی سے تفصیلًا واقف ہوکر آئیں۔ ان دنوں راستے بہت ہی کٹھن اور دشوار گذار تھے۔ راجہ محمد حیدر خان صاحب پا پیادہ پیر پنجال اور پہاڑ کے اوپر سے گذر کر براہ جموں سیالکوٹ قادیان پہنچے اور اکیس دن قادیان رہ کر حضور علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہوئے، گویا وہ اس سارے علاقہ کے پہلے احمدی تھے۔ بیعت کرنے کے بعد اُن کے دل میں یہ شوق موجزن ہوا کہ جلد کشمیر پہنچ کر راجہ عطا محمد خان صاحب کو اس نور ہدایت کی خبر پہنچائیں۔ پس حضور علیہ السلام سے اجازت لے کر اُسی راستہ سے پھر واپس یاڑی پور پہنچے اور تمام حالات راجہ صاحب کی خدمت میں عرض کیے۔

راجہ عطا محمد صاحب ان حالات کو سُن کر زار و زار رونے لگے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائے کہ اُنہوں نے مسیح و مہدی کا زمانہ پایا اور آمنّا و صدقنا کہنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ گو انہیں آنکھوں کی تکلیف ایسی سخت تھی کہ وہ سفر کے قابل نہ تھے تاہم سچی عاشقانہ اور مومنانہ تڑپ کا نتیجہ تھا کہ وہ آنکھوں کی حد سے بڑھی ہوئی تکلیف اور راستہ کی خرابی اور دوری منزل کی کوئی پرواہ نہ کر کے چند مخلص وفادار ملازمان اور محبان اور اپنے پسر کلاں راجہ یار محمد خان صاحب مرحوم جن کی عمر اس وقت بیس سال کے قریب تھی، ساتھ لے کر قادیان کو روانہ ہوگئے …..جب قادیان پہنچے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور آپ سے مصافحہ کیا تو مصافحہ کرتے ہوئے فرط جذبات میں بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑے۔ حضور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے دست مبارک سے انہیں اُٹھایا اور شربت منگوا کر پلایا اور تسلی اور تشفی دی۔ اس کے بعد جناب راجہ صاحب نے مع رفقاء کے حضور کے ہاتھ پر بیعت توبہ کی اور کچھ مدت قادیان میں رہنے کے بعد حضور مسیح موعود علیہ السلام نے راجہ صاحب کو فرمایا کہ اب لاہور جاکر اپنی آنکھوں کا علاج کرائیں، ان شاء اللّٰہ آپ کی آنکھیں اچھی ہوجائیں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے راجہ صاحب کو ایک سعید اور پاکیزہ روح دیکھ کر انہیں اجازت دی کہ لوگوں سے بیعت لے کر انہیں داخل سلسلہ احمدیہ کریں۔

راجہ صاحب قادیان سے روانہ ہوکر لاہور پہنچے، وہاں اپنی آنکھوں کا علاج کرایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، آنکھیں بالکل تندرست ہوگئیں۔ لاہور سے آپ پھر واپس قادیان تشریف لے گئے اور کچھ مدت ٹھہر کر اور مزید فیوض روحانی حاصل کر کے براہ ایبٹ آباد و مظفر آباد واپس کشمیر کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں پہنچ کر لوگوں کو پیغام حق سنایا، کئی آپ کے اقربا اور ملازمین اور ملاقاتیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ پھر بمقام یاڑی پور ایک عام جلسہ منعقد کر کے پبلک کو حق کی دعوت دی اور عقائد احمدیت لوگوں کو سنائے، چونکہ راجہ صاحب کی دینداری اور حق گوئی مسلم تھی اس لیے بہت سی سعید روحوں نے جن میں راجہ صاحب کے برادران، برادر زادگان اور دیگر رشتہ دار و ملازمان اور محبان شامل تھے، آپ کے ہاتھ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت کی۔ آپ کے برادر اصغر راجہ محمد حیدر خان صاحب مرحوم حاجی عمر ڈار صاحب ساکن آسنور کو ملنے گئے اور انہیں پیغام حق سنایا۔ حاجی صاحب نے یاڑی پور آکر مزیدحالات راجہ صاحب مرحوم سے دریافت کیے اور پھر قادیان جاکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت کی۔ حضرت راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم پہلے ریاست میں تحصیلدار تھے اور پھر ڈپٹی کمشنر مقرر ہوکر گلگت بھی بھیجے گئے مگر آخر عمر انہوں نے اسی علاقے میں گزاری اور سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ ہی ان کا بڑا شغل رہا۔

(الحکم 14؍ستمبر 1934ء صفحہ 7،8)

جس جلسہ کے انعقاد کا مضمون میں ذکر ہوا ہے یہ جلسہ 12؍محرم بمطابق 3؍جون 1898ء یاڑی پورہ صحن خانقاہ میں بعد از نماز جمعہ منعقد ہوا۔ جلسہ کا احوال اخبار الحکم 20 تا 27 جون 1898ء صفحہ 6،7 پر درج ہے، جس میں عبداللہ صاحب سیکرٹری جلسہ لکھتے ہیں کہ ’’…. لوگ حسب اجازت راجہ صاحب سے بیعت حضرت میرزا صاحب لینے لگے یہاں تک کہ شام تک ہی قریب اسی آدمی داخل بیعت حضرت میرزا صاحب ہوگئے۔ اس جلسہ میں اسلامی عظمت بہت خوشنما نظر آتی تھی۔ لوگ راجہ صاحب کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے تھے اور یہ خاکسار بیعت کی تلقین کرتا تھا …. اور یہ بڑی خوشی ہوئی کہ میرزا صاحب کی کرامت سے فرقہ اہل حدیث اور حنفی متفق ہوگئے۔‘‘ ساتھ ہی قریبًا 80 افراد کے نام مبائعین میں درج کیے گئے ہیں۔ لیکن اس رپورٹ میں آپ کا نام راجہ عطاء اللہ خان صاحب بار بار درج ہوا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی اپنی جماعت کے احباب کی ایک فہرست تیارہ کردہ فروری 1898ء میں 153 نمبر پر ’’راجہ عطاء اللہ خان صاحب رئیس یاڑی پور کشمیر‘‘ درج فرمایا ہے۔

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 354)

حضرت راجہ مدد خان صاحبؓ (وفات: 12؍ستمبر 1944ء) بیان کرتے ہیں: ’’…… ایک مرتبہ یہ سب ہی چکر لگانے کے واسطے چلے گئے، صرف میں ہی اُس گلی میں کھڑا تھا۔ حضور تشریف لے آئے …. حضور علیہ السلام نے پہلے ہی اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ کہہ دیا تھا، جب میں نے سلام کیا تو حضور نے دریافت فرمایا یہ کون صاحب ہیں، اکیلے ہی وہ پہرہ دے رہے ہیں۔‘‘ اتنا مجھ کو یاد ہے حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے کہا کہ حضور اس کا نام مدد خان ہے، تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے یہ کشمیر سے آئے ہیں۔ راجہ عطا محمد خان صاحب کے رشتہ داروں میں سے ہیں۔ حضور نے فرمایا: اچھااچھا! جزاک اللّٰہ! جزاک اللّٰہ! حضور اوپر تشریف لے گئے ….‘‘

(الحکم 28؍مارچ 1938ء صفحہ 6)

آپ نے 1904ء میں وفات پائی، اخبار بدر نے لکھا:
’’ہمارے مکرم مخدوم جناب راجہ عطا محمد صاحب رئیس یاڑی پور کشمیر فوت ہوگئے ہیں اس لیے سب بھائیوں سے درخواست ہے کہ براہ مہربانی ان کا جنازہ پڑھا جاوے اور کوشش کے ساتھ ان کے لیے دعائے خیر کریں۔ راجہ صاحب موصوف کی خوش اخلاقی اور تقویٰ داری اور صحبت امام الزمان ان کی غذا تھی۔ جماعت کشمیر میں سب سے پہلے راجہ صاحب ممدوح ہیں جو اس سلسلے میں شامل ہوئے اور انہی کی ہمت سے کشمیر میں سلسلہ احمدیہ کی جماعت قائم ہوئی….‘‘

(بدر 16؍اپریل 1904ء صفحہ 2 کالم 3)

آپ کی وفات پر حضرت سید سرور شاہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے متعلق ایک مضمون میں لکھا:
’’….. راجہ صاحب مرحوم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ایک سچے عاشق تھے۔ راجہ صاحب مرحوم باوجود ضعف پیرانہ سالی کے ہمیشہ ایک بجے بلکہ اس سے بھی پہلے رات کو اٹھ کر عبادت الٰہی میں صبح تک مصروف رہتے تھے نیز چونکہ مرحوم علم طب میں بھی اچھی طرح واقف تھے، اپنی جیب سے ادویات خرید کر للہ بیماروں کا علاج کیا کرتے تھے۔ ان کی اس فیاضی کی وجہ سے دور دور سے بیمار ان کے پاس آیا کرتے تھے اور دن کو جب کوئی جس وقت ان کے پاس آتا تھا تو بڑی نرمی اور توجہ سے علاج کیا کرتے تھے۔ ایک بڑی صفت راجہ صاحب مرحوم میں یہ تھی کہ اپنے ماتحت اور ملازمین سے خواہ کیسا ہی قصور ہو جاتا تھا تو معاف کر دیتے تھے۔ الغرض مرحوم کے اخلاق حمیدہ کی تفصیل کے لیے ایک بڑا دفتر درکار ہے۔ انہی اخلاق کی وجہ سے صاحب ممدوح پر اللہ تعالیٰ کی ایک خاص عنایت تھی اور بہ طفیل حضرت امام الزمان علیہ السلام مرحوم کو رؤیا صادقہ اور کشوف میں بھی پورا حصہ ملا ہوا تھا چنانچہ پایا جاتا ہے کہ مرحوم پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے ظاہر فرمادیا تھا کہ اب اس دار فانی سے تجھے رخصت ہونا ہے چنانچہ مرحوم نے مرض موت سے پہلے جبکہ بالکل تندرست تھے تو اپنے کئی خطوط میں جو اپنے دوستوں کو لکھے تھے، کسی میں صریحًا کسی میں اشارتًا اپنی وفات کا ذکر بھی کر دیا تھا ….. اور اسی طرح اپنے گھر میں اہل عیال کو نصیحت کرتے وقت اپنی وفات کا تذکرہ بھی کر دیا تھا، قبر کھودنے اور کفن لانے کا بھی حکم دے دیا۔ پھر تھوڑے دنوں بعد بیمار ہوگئے تو اس مرض موت میں شیر دل خان نامی ایک شخص کو جو مرحوم کے والد راجہ شیر احمد خان کا ملازم تھا اور بسبب قدامت ملازمت کے مرحوم کو اس شخص سے محبت تھی مگر چونکہ یہ شخص حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کا منکر ہے۔ مرحوم نے اس بیماری میں آخیر کے دن شیر دل خان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ مجھے اس بات کا بڑا افسوس ہے کہ میں اپنی آنکھوں سے تم کو سلسلہ احمدیہ میں داخل نہ دیکھا اور پھر تکرار کیا کہ دیکھ میری بات کو مان لے ورنہ تو پھر حسرت کرے گا۔ اس پر اُس نے جواب دیا کہ اگر آپ کو اس بیماری سے شفا ہوئی تو مان لوں گا اور آپ کے ساتھ دار الامان قادیان جاؤں گا۔ اس پر مرحوم نے فرمایا کہ زنہار یہ خیال دل میں نہ لاؤ۔ یہ شرط آپ کی ناجائز ہے کہ میری صحت کو حضرت اقدس کی صداقت کی دلیل ٹھہراتے ہو۔ پھر اُس کے ساتھ اس بارہ میں بہت تذکرہ کرتے رہے اور اُس کے ایک جواب میں یوں کہنے لگے کہ و اللّٰہ باللّٰہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وہی مسیح ہے جس کا وعدہ ہم کو دیا گیا۔ اس کے بعد مرحوم نے اپنے منشی کو بلا کر کہا رجسٹر چندہ قادیان لے آؤ اور حساب کر کے مفصل سناؤ کہ کتنی رقم وصول ہوئی اور کتنی اور کس کس کی طرف باقی ہے مگر منشی نے بدیں غرض ٹالنا چاہا کہ میرے آقا اس وقت بیمار اور ضعیف ہوگئے ہیں تو بات چیت میں اُن کو تکلیف ہوگی مگر خاتم الخلفاء کا عاشق اور اُس کی خدمات کو تا دم مرگ بجا لانے والا کب صبر کرے، فورًا خدا کی امداد سے بستر مرگ پر اُٹھ بیٹھے اور اپنے ہاتھ سے عمامہ باندھ کر عینک لگائی اور کہا کہ رجسٹر مجھے دے دو ….. جب منشی نے دیکھا کہ میرے ٹالنے سے میرے آقا اپنے فرض منصبی سے باز نہیں آئے گا تو فورًا رجسٹر چندہ قادیان لے کر سب حساب صاف کر دیا ….. راجہ صاحب مرحوم اپنے فرائض دنیاوی کو عمومًا اور حق تبلیغ کو خصوصًا اچھی طرح ادا کیا اور بڑے آرام سے جماعت احمدیہ کشمیر کو اپنی جدائی کا داغ دے کر چل بسے…..‘‘

(بدر 24؍اپریل و یکم مئی 1904ء صفحہ13)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

ریجنل ریفریشر کورسز مجلس خدام الاحمدیہ سیرالیون

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2022