خطبہ جمعہ حضور انور ایدہ الله مؤرخہ 31؍دسمبر2021ء
بصورت سوال و جواب
سوال: گزشتہ خطبہ میں حضرت ابوبکر صدّیقؓ کے واقعۂ غارِ ثورکا ذکرکس حوالہ سے چل رہا تھا؟
جواب: غارِ ثور میں دشمن کے پہنچ جانے کا۔
سوال: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کرتے ہوئے جب قریش مکّہ غارِثور کے قریب ہو گئے تو سُراغ رساں نے نیز غار کے دہانے پر کسی نے چاہا بھی کہ اندر جھانک کر دیکھا جائے تو اُمَیَّہ بِن خَلْف نے تلخ اور بے پرواہی کے سے انداز میں کیا کہا؟
جواب: الله کی قسم!جس کی تلاش میں تم لوگ آئے ہو وہ یہاں سے آگے نہیں گیا؛ یہ جالا اور درخت تو مَیں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی پیدائش سے پہلے یہاں دیکھ رہا ہوں۔ تم لوگوں کا دماغ چل گیا ہے وہ یہاں کہاں ہو سکتا ہے اور یہاں سے چلو کسی اور جگہ اِس کی تلاش کریں۔
سوال: کن لوگوں نے اعلانِ عام کیا کہ جو کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو زندہ یا مُردہ پکڑ کر لائے گا اُس کو ایک سَو اُونٹ انعام دیئے جاویں گے؟
جواب: قریشِ مکّہ
سوال: تعاقب کرتے ہوئےقریش اِس قدر قریب پہنچ گئے تھے کہ اُن کے پاؤں غار کے اندر سے نظر آتے تھے اور اُن کی آواز سُنائی دیتی تھی، اِس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر مگر آہستہ سے آنحضرتؐ سے کیاعرض کیا نیز اِس پر آپؐ نے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: یارسول اللهؐ! قریش اِتنے قریب ہیں کہ اُن کے پاؤں نظر آ رہے ہیں اور اگر وہ ذرا آگے ہو کر جھانکیں تو ہم کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا: لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا، ہرگز کوئی فکر نہ کر، یقیناً الله ہمارے ساتھ ہے۔ پھر فرمایا! وَ مَا ظَنُّكَ یَا اَبَا بَکْرٍ بِاِثْنَیْنِ اللّٰهُ ثَالِثُھُمَا یعنی اَے ابوبکر! تم اُن دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے۔
سوال: حضرت عیسیٰ ؑنے اپنی رفاقت کے لئے صرف کس ایک ہی شخص کو اختیار کیا تھا جیسا کہ ہمارے نبیؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے وقت صرف حضرت ابوبکرؓ کو اختیار کیا تھا؟
جواب: توما حواری
سوال: جب آنحضرتؐ کا محاصرہ کیا گیا گو بعض کفّار کی رائے اخراج کی بھی تھی مگر اصل مقصد اور کثرتِ رائے کس پر تھی نیز ایسی حالت میں کس نے اپنے صدق و وفا کا وہ نمونہ دکھایا جو ابدالآباد تک کے لئے نمونہ رہے گا؟
جواب: آپؐ کے قتل؛ حضرت ابوبکر صدّیقؓ
سوال: حضرت مسیحِ موعودؑ ارشاد فرماتے ہیں! اِس مصیبت کی گھڑی میں آنحضرتؐ کا یہ انتخاب ہی حضرت ابوبکر صدّیقؓ کی صداقت اور اعلیٰ وفاداری کی ایک زبردست دلیل ہے یہی حال آنحضرتؐ کے انتخاب کا تھا اُس وقت آپؐ کے پاس ستّر، اسّی صحابہؓ موجود تھے جن میں حضرت علیؓ بھی تھے مگر اُن سب میں سے آپؐ نے اپنی رفاقت کے لئے حضرت ابوبکرؓ کو ہی انتخاب کیا، اِس میں آپؑ نے کیا سِرّ بیان فرمایا ہے؟
جواب: بات یہ ہے کہ نبی خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اُس کا فہم الله تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے، اِس لئے الله تعالیٰ نے ہی آنحضرتؐ کو کشف اور اِلہام سے بتا دیا کہ اِس کام کے لئے سب سے بہتر اور موزوں حضرت ابوبکرؓ ہی ہیں۔
سوال: آنحضرتؐ کےفرمان! لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کی بابت حضرت مسیحِ موعودؑ مزید کیا بیان فرماتے ہیں؟
جواب: اِس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرتؐ، حضرت ابوبکر صدّیقؓ کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں چنانچہ فرمایا! اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا، مَعَنَا میں آپ دونوں شریک ہیں یعنی الله تعالیٰ تیرے اور میرے ساتھ ہے۔ الله تعالیٰ نے ایک پَلّہ پر آنحضرتؐ اور دوسرے پر حضرت صدّیقؓ کو رکھا ہے۔
سوال: حضرت مسیحِ موعودؑ نے کس تناظر میں ارشاد فرمایا کہ آنحضرتؐ کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے؟
جواب: آپؐ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سَر پر ہے اور آپؐ اپنے رفیقِ صادق صدّیق کو فرماتے ہیں۔ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا، یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپؐ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں، اِشارہ سے کام نہیں چلتا۔ باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم ومخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں، اِس اَمر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سُن لیں گے۔ یہ الله تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے، خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے۔
سوال: با ارشاد حضرت مسیحِ موعودؑ الله جلّ شانُہٗ نے اپنے نبیٔ معصومؐ کے محفوظ رکھنے کے لئے کیا اَمر خارق عادت دکھلایا؟
جواب: باوجودیکہ مخالفین اِس غار تک پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرتؐ مع اپنے رفیق کے مخفی تھے مگر وہ آنحضرتؐ کو دیکھ نہ سکے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے ایک کبوتر کا جوڑا بھیج دیا جس نے اُسی رات غار کے دروازہ پر آشیانہ بنا دیا اور انڈے بھی دے دیئے اور اِسی طرح اِذنِ اِلٰہی سے عنکبوت نے اُس غار پر اپنا گھر بنا دیا جس سے مخالف لوگ دھوکہ میں پڑ کر ناکام واپس چلے گئے۔
سوال: حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعض سیرت نگاروں کے اِس بیان کی کیا تصریح پیش فرمائی کہ غارِ ثور میں قیام کے دوران حضرت اسماء ؓ روزانہ کھانا لے کر آیا کرتی تھیں؟
جواب: یہ جو ہے بعید از قیاس بات ہے صحیح رائے ہے بعضوں کی کہ اِس خطرہ کے عالَم میں ایک خاتون کا روزانہ اِدھر آنا رَاز فاش کرنے کے مترادف ہے اور جبکہ عبداللهؓ بن ابوبکرؓ روزانہ آ رہے تھے تو پھر حضرت اسماءؓ کے کھانا لانے کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی، بہرحال الله بہتر جانتا ہے۔
سوال: کون بر روایاتِ روانگی تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسولِ کریمؐ مکّہ سے تو جمعرات کو نکلے تھے اور غار میں جمعہ، ہفتہ اور اِتوار تین راتیں قیام کرنے کے بعد پیر کی رات کو مدینہ کے لئے روانہ ہوئے؟
جواب: صحیح بخاری کے شارح علّامہ ابنِ حَجَر عَسْقِلَانیؓ
سوال: غارِ ثور سے مدینہ روانگی کے وقت آنحضرتؐ جس اُونٹنی پر سوار ہوئے اُس کا نام کیا ملتا ہے نیز آپؐ نے کس دعا سے سفر شروع کیا؟
جواب: اَلْقَصْوَاء؍ اَللّٰھُمَّ اصْحَبْنِي فِیْ سَفَرِیْ وَ اخْلُفْنِیْ فِیْ اَھْلِیْ؛ اَےالله! میرے سفر میں تُو میرا ساتھی ہوجا اور میرے اہل میں میرا قائمقام ہو جا۔
سوال: حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نِطاق سے کھانا باندھنے کے واقعہ کی بابت کیا تصریح پیش فرمائی؟
جواب: بخاری کی روایت کے مطابق یہ زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کہ کھانا باندھنے کا واقعہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے رخصت ہونے کا ہو گا نہ کہ غارِ ثور سے مدینہ کی طرف سفر کے آغاز کا، بہرحال والله اعلم!
سوال: مدینہ روانگی سے قبل رسولِ کریمؐ نے مکّہ کی طرف آخری نظر ڈالتے ہوئے حسرت بھرے الفاظ میں کیا ارشاد فرمایا نیز حضرت ابوبکرؓ نے بھی اُس وقت نہایت افسوس کے ساتھ کیا کہا؟
جواب: ا َے مکّہ کی بستی! تُو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے؛ اِن لوگوں نے اپنے نبیؐ کو نکالا ہےاب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔
سوال: جُحْفَہ مقام پہنچنے پر کس آیتِ قُرآنی کا نزول ہؤا؟
جواب: اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰی مَعَادٍ (القصص: 86)؛ یقینًا وہ جس نے تجھ پر قُرآن کو فرض کیا ہے تجھے ضرور ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔
سوال: بحوالۂ سفرِ ہجرت کس کےواقعۂ تعاقب کا تفصیلی تذکرہ ہؤا؟
جواب: سُراقہ بن مالک
سوال: نیا سال شروع ہو نے کی بابت حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: کَل ان شاء اللّٰه نیا سال بھی شروع ہو رہا ہے۔ الله تعالیٰ آنے والے سال کو افرادِ جماعت کے لئے، جماعت کے لئے من حیث الجماعت ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ہر قسم کے شرّ سے جماعت کو محفوظ رکھے اور دشمن کے جو جماعت کے خلاف منصوبے ہیں، ہر منصوبہ کو خاک میں ملا دے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے جو الله تعالیٰ نے وعدے کئے ہیں، اُن وعدوں کو ہم بھی اپنی زندگیوں میں کثرت سے پورا ہوتا ہؤا دیکھیں۔ ہمیں الله تعالیٰ یہ نظارے بھی دکھائے۔
سوال: حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نئے سال میں دعاؤں سے داخل ہونے کے تناظر میں کیا تلقین و تاکید فرمائی؟
جواب: پس بہت دعائیں کرتے رہیں، نئے سال میں دعاؤں کے ساتھ داخل ہوں۔ تہجّد کا بھی خاص اہتمام کریں، بعض مساجد میں ہو بھی رہا ہے۔ باقی جہاں نہیں ہے وہاں بھی کرنا چاہئے انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر نہیں تو انفرادی طور پہ بھی اور گھروں میں بھی تہجّد کی نماز ضرور خاص طور پر ادا کرنی چاہئے، دعا کرنی چاہئے۔ اوّل تو یہ مستقل عادت ہونی چاہئے لیکن کل سے جب پڑھیں یا آج رات سے تو اِس کو بھی کوشش کریں مستقل حصّہ زندگیوں کا بن جائے، الله تعالیٰ اِس کی توفیق بھی دے سب کو۔
سوال: حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دُرود شریف اور اِستغفار کے علاوہ بھی کثرت سے کونسی دعائیں پڑھنے کی تحریک کی نیز ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ اِس کی توفیق دے ہر اَحمدی کو؟
جواب: رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ھَدَیۡتَنَا وَ ھَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَھَّابُ (اٰل عمران: 9) اَے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اِس کے تُو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اَور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطاء کر اَور یقینًا تُو ہی بہت عطاء کرنے والاہے نیز رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ اِسۡرَافَنَا فِیۡۤ اَمۡرِنَا وَ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ (اٰل عمرٰن: 148)؛ اَے ہمارے ربّ! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملہ میں ہماری زیادتی بھی اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کافر قوم کے خلاف نصرت عطاء کر۔
(قمر احمد ظفر۔نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)