چہرہ شناسی ایک علم ہے جسے اصطلاح میں قیافہ شناسی کہا جاتا ہے۔یہ علم قدیم سے چلا آتا ہے جس میں کسی کے چہرے کو دیکھ کر اس کے کردار و افکار کا پتہ لگایا جاتا ہے۔گویا چہرہ انسانی اعمال و افعال کی منہ بولتی تصویرہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے مامورین کی شناخت کا ایک ذریعہ ان کی ظاہری شباہت ہوتی ہے جس کو دیکھ کر حق کے متلاشی اسے پہچان لیتے ہیں۔انسانی چہرےروحانی میدان میں کیا اثرات رکھتے ہیں اس سے متعلق چند دلچسپ واقعات پیش ہیں۔
یہ جھوٹوں کا چہرہ نہیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن سلامؓ جو کہ اسلام لانے سے قبل ایک یہودی عالم تھے اور اسلام لانے سے قبل آپؓ کا نام حصین بن سلام تھا۔ آپؓ کا کہنا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور لوگ آپؐ کی مبارک مجلس میں سب سے پہلے پہنچنے کی کوشش کرنے لگے تو میں نے بھی ان کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل کیا۔ جب میں نے آپؐ کے مبارک اور روحانی و نورانی چہرے کی زیارت کی تو میں سمجھ گیا کہ یہ جھوٹوں کا چہرہ نہیں ہے اور ایمان لے آیا۔
(مدارج النبوۃ جلد دوم باب چہارم از شیخ عبدالحق محدث دہلوی)
’’حجت اللہ القادر و سلطان احمد مختار‘‘
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’آج اس موقع کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور اُن پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ بجے۔ پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو! کیا کہتی ہے تصویر تمہاری۔ جب اس عاجز نے دیکھا تو وہ اسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی مگر نہایت رعبناک جیسے سپہ سالار مسلح فتح یاب ہوتے ہیں اور تصویر کے یمین و یسار میں حجت اللہ القادر و سلطان احمد مختار لکھا تھا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم ،روحانی خزائن جلد اول صفحہ615)
موجودہ زمانہ جس میں تصو یر کشی کے جدید ذرائع پیدا ہو چکے تھے،حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسے اسلام کی تبلیغ اور اس کی اشاعت کے لیے ایک کارگر ہتھیار پایا۔
فوٹو گرافی کا مقصد
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں نے دیکھا ہے کہ آج کل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اوّل خواہشمند ہوتے ہیں جواُس کی تصویر دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے۔ اور اکثر اُن کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب۔ اور وہ لوگ بباعث ہزار ہا کوس کے فاصلہ کے مجھ تک پہنچ نہیں سکتے اور نہ میرا چہرہ دیکھ سکتے ہیں لہٰذا اُس ملک کے اہلِ فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علمِ فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جس کی یہ تصویر ہے وہ کاذب نہیں ہے۔ اور ایک امریکہ کی عورت نے میری تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ یسوع یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ،روحانی خزائن جلد21 صفحہ366)
پھر ایک دوسری جگہ فرمایا:
’’ہم نے اپنی تصویر محض اس لحاظ سے اتروائی تھی کہ یورپ کو تبلیغ کرتے وقت ساتھ تصویریں بھیج دیں، کیونکہ ان لوگوں کا عام مزاج اس قسم کا ہوگیا ہے کہ وہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی اس کی تصویر دیتے ہیں جس سے وہ قیافہ کی مدد سے بہت سے صحیح نتائج نکال لیتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ18-19)
نیز فرمایا:
’’ہم نے جو تصویر فوٹو لینے کی اجازت دی تھی وہ اس واسطے تھی کہ یورپ امریکہ کے لوگ جو ہم سے بہت دور ہیں اور فوٹو سے قیافہ شناسی کا علم رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اُن کے لیے ایک روحانی فائدہ کا موجب ہو۔ کیونکہ جیسا تصویر کی حرمت ہے۔ اس قسم کی حرمت عموم نہیں رکھتی بلکہ بعض اوقات مجتہد اگر دیکھے کہ کوئی فائدہ ہے اور نقصان نہیں تو وہ حسب ضرورت اس کو استعمال کرسکتا ہے۔خاص اس وقت یورپ کی ضرورت کے واسطے اجازت دی گئی۔چنانچہ بعض خطوط یورپ امریکہ سے آئے ہیں جن میں لکھاتھا کہ تصویر کے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل وہی مسیح ہے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ474)
نورانی چہرے کا اثر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس پاکیزہ مقصد کی شیر یں ثمرات کا تذکرہ کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’اور ایک عورت امریکہ سے میری نسبت اپنے خط میں لکھتی ہے کہ ’’میں ہر وقت ان کی تصویر کو دیکھتی رہنا پسند کرتی ہوں۔ یہ تصویر بالکل مسیح کی تصویر معلوم ہوتی ہے ’’اور اسی طرح ہمارے ایک دوست کی بیوی جس کا پہلا نام ایلزی بتھ تھا جو انگلینڈ کی باشندہ ہے اس جماعت میں داخل ہوچکی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ106-107)
ایک چینی قیافہ شناس کی گواہی
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’عرب صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک چینی آدمی کے روبرو میں نے آپ کی تصویر کوپیش کیا وہ بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ آخر بولا کہ یہ شخص کبھی جھوٹ بولنے والا نہیں ہے پھر میں نے اور تصاویر بعض سلاطین کی پیش کیں مگر ان کی نسبت اس نے کوئی مدح کا کلمہ نہ نکالا اور بار بار آپ کی تصویر کو دیکھ کر کہتا رہا کہ یہ شخص ہر گز جھوٹ بولنے والا نہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم579-580)
حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ نے اس ضمن میں چند ایمان افروز واقعات اپنی کتاب ذکر حبیب میں درج فرمائے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
He is a Great Thinker
’’مکرمی شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر یورپ کے بعض بڑے آدمیوں کو دکھائی تو انہوں نے کہا کہ: ’’He is a Great Thinker‘‘
یعنی بہت سوچنے والا آدمی ہے۔‘‘
کسی اسرائیلی پیغمبر کی تصویر ہے
’’ڈاکٹر قاضی کرم الٰہی صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ جب وہ لاہور کے پاگل خانہ کے ڈاکٹر تھے ،ان ایام میں ایک انگریز وہاں آیا جو تصویر دیکھ کر قیافہ شناسی کا مدعی تھا ۔کئی ایک لوگ بطور تماشہ بعض تصاویر اس کے پاس لے گئے ۔وہ بتلاتا رہا کہ یہ کیسا آدمی ہے۔میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اسکے آگے رکھی اور اس سے پوچھا کہ اس شخص کے متعلق آپکی کیا رائے ہے ۔وہ بہت دیر تک اس تصویر کو دیکھتا رہا اور آخر اس نے کہا کہ کسی اسرائیلی پیغمبر کی تصویر ہے۔‘‘

یہ وہ بزرگ ہیں
حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
’’جب میں امریکہ میں تھا تو ایک لیڈی کا ایک دوسرے شہر سے مجھے خط آیا کہ مجھے کشف میں ایک ہندوستانی بزرگ مِلاکرتے ہیں اور میری مشکلات میں میری رہنمائی کیا کرتے ہیں ۔کیا آپ مجھے یہ بتلا سکتے ہیں کہ وہ کون صاحب ہو سکتے ہیں۔میں نے اسے چند ایک فوٹو بھیجے جن میں ایک فوٹو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی تھا اُسی پر نشان کرکے اس لیڈی نے مجھے لکھ بھیجا کہ یہ وہ بزرگ ہیں۔‘‘
یہ خدا کے کسی نبی کی تصویر ہے
اسی طرح آپ ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’1907ء میں جبکہ عاجز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمرکاب شملہ میں تھا تو ایک دن مہاراجہ صاحب الور کی ملاقات کے واسطے میں انکی کوٹھی پر گیا اور ان کو تبلیغ کے لیے چند کتابیں بھی ساتھ لے گیا۔ان کے ویٹنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں دیوان عبدالحمید صاحب وزیر اعظم ریاست کپورتھلہ اور چند دیگر معززین بھی آگئے اور ایک انگریز بھی وہاں پہنچے۔ جنہوں نے بیان کیا کہ میں مہاراجہ کا مُنجّم ہوں۔ اس بات کو سن کر دیوان صاحب اور دوسرے لوگ اس انگریز مُنجم سے باتیں دریافت کرتے رہے۔ میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر ایک کتاب میں سے نکال کر اس کے آگے رکھی ۔جس کو بہت غور سے دیکھ کر اس نے کہا۔یہ خدا کے کسی نبی کی تصویر ہے۔
(ذکر حبیب صفحہ373-374)
بے تاب ہو کر حضورؑ کے آگے آ گرا
حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور جماعت احمدیہ کے ایک جید عالم تھے بیان فرماتے ہیں کہ
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مردان کا کوئی آدمی میاں محمد یوسف صاحب مردانی کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کے علاج کے واسطے یہاں قادیان آیا۔ یہ شخص سلسلہ کا سخت دشمن تھا اور بصد مشکل قادیان آنے پر رضا مند ہوا تھا۔ مگر اس نے میاں محمد یوسف صاحب سے یہ شرط لی تھی کہ قادیان میں مجھے احمدیوں کے محلہ سے باہر کوئی مکان لے دینا اور میں کبھی اس محلہ میں داخل نہیں ہوں گا۔ خیر وہ آیا اور احمدی محلہ سے باہر ٹھہرا اور حضرت مولوی صاحب کا علاج ہوتارہا۔جب کچھ دنوں کے بعد اسے کچھ افاقہ ہوا تو وہ واپس جانے لگا۔ میاں محمد یوسف صاحب نے اس سے کہا کہ تم قادیان آئے اور اب جاتے ہوئے ہماری مسجدتو دیکھتے جاؤ۔ اس نے انکار کیا، میاں صاحب نے اصرار سے اسے منایاتو اس نے اس شرط پر ماناکہ ایسےوقت میں مجھے وہاں لے جاؤکہ وہاں کوئی احمدی نہ ہواور نہ مرزا صاحب ہوں۔ چنانچہ میاں محمد یوسف صاحب ایسا وقت دیکھ کر اسے مسجد مبارک میں لائے مگر قدرت خدا کہ اِدھر اس نے مسجدمیں قدم رکھا اور اُدھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مکان کی کھڑکی کھلی اور حضور علیہ السلام کسی کام کے لئے مسجد میں تشریف لے آئے۔ اس شخص کی نظر حضورعلیہ السلام کی طرف اٹھی اور وہ بے تاب ہو کرحضور علیہ السلام کے سامنے آگرا اورا سی وقت بیعت کر لی۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ54)
وہ جھوٹے نہیں ہوسکتے
منشی اروڑے خان صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ
’’مجھے بعض غیر احمدی دوستوں نے کہا تم ہمیشہ ہمیں تبلیغ کرتے رہتے ہو، فلاں جگہ مولوی ثناء اللہ صاحب آئے ہوئے ہیں۔ تم بھی چلو اور ان کی باتوں کا جواب دو۔ منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ دوران ملازمت میں ہی انہیں پڑھنے لکھنے کی جو مشق ہوئی وہی انہیں حاصل تھی۔ وہ کہنے لگے جب ان دوستوں نے اصرار کیا تو میں نے کہا اچھا چلو۔ چنانچہ وہ انہیں جلسہ میں لے گئے۔ مولوی ثناء اللہ صاحب نے احمدیت کے خلاف تقریر کی اور اپنی طرف سے خوب دلائل دئیے۔ جب تقریر کر کے وہ بیٹھ گئے تو منشی اروڑے خان صاحب سے ان کے دوست کہنے لگے کہ بتائیں ان دلائل کا کیا جواب ہے؟ منشی اروڑے خان صاحب فرماتے تھے میں نے ان سے کہا یہ مولوی ہیں اور میں اَن پڑھ آدمی ہوں۔ ان کی دلیلوں کا جواب تو کوئی مولوی ہی دے گا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں نے حضرت مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہوئی ہے وہ جھوٹے نہیں ہوسکتے۔‘‘
(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 113)
انہیں دیکھ کر کوئی شخص
یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے
جب 1916ء میں مسٹر والٹر آنجہانی جو آل انڈیا وائی، ایم، سی، اے کے سیکرٹری تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق تحقیق کرنے کے لیے قادیان آئے تھے۔ انہوں نے قادیان میں یہ خواہش کی کہ مجھے بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے صحابی سے ملایا جائے۔ اس وقت منشی اروڑا صاحب مرحوم قادیان میں تھے۔ مسٹر والٹر کو منشی صاحب مرحوم کے ساتھ مسجد مبارک میں ملایا گیا۔ مسٹر والٹر نے منشی صاحب مرحوم سے رسمی گفتگو کے بعد یہ دریافت کیا کہ آپ پر جناب مرزا صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا۔ منشی صاحب نے جواب دیا کہ میں زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہیں ہوں اور زیادہ علمی دلیلیں نہیں جانتا۔ مگر مجھ پر جس بات نے سب سے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی۔ جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانتدار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ باقی میں تو ان کے منہ کا بھوکا تھا۔ مجھے زیادہ دلیلوں کا علم نہیں ہے۔ یہ کہہ کر منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادمیں اس قدر بےچین ہوگئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ان کے چہرے کا رنگ ایک دُھلی ہوئی چادر کی طرح سفید پڑگیا تھا اور بعد میں انہوں نے اپنی کتاب ’’احمدیہ موومنٹ‘‘ میں اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر بھی کیا اور لکھا کہ جس شخص نے اپنی صحبت میں اس قسم کے لوگ پیدا کیے ہیں۔ اسے ہم کم از کم دھوکے باز نہیں کہہ سکتے۔
(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ94-95)
غرض تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں خدا تعالیٰ کے مامور اور مقدس وجودوں کے چہرہ کی ایک جھلک نے مخالفت کے جذبات سے پُر دلوں کو بھی محبت میں تبدیل کردیا اور اللہ تعالیٰ کے مرسل کی پہلی نظر سے گھائل ہو گئے۔

(ابو عثمان)