• 20 اپریل, 2024

میرے پیارے ابو میر ثناء اللہ ناصر بٹ مرحوم

الفضل آئن لائن کے شمارہ مؤرخہ 6؍اکتوبر 2022ء ایڈیٹر مکرم ابو سعید صاحب کا ایک آرٹیکل شائع ہوا جس کا عنوان تھا ’’روحانی پروف ریڈنگ‘‘

(https://www.alfazlonline.org/06/10/2022/69793/)

اس میں موصوف لکھتے ہیں کہ انسان اپنی کتاب زندگی اپنے اعمال سے خود لکھتا ہے جسے اس کی وفات کے بعد پڑھتے اس کے لواحقین ہیں۔ اسی تحریر کے تناظر میں اور ہم سب کے حبیب آقا حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے ارشاد اُذْکُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ۔ (سنن ابو داؤد۔ حدیث نمبر 4900) یعنی اپنے وفات شدگان کی خوبیوں کا بیان کیا کرو، کی تعمیل میں آج یہ تحریر لکھنے کی جسارت کر رہا ہے۔ جو کہ میرے پیارے ابو جان مکرم میر ثناء اللہ ناصر بٹ صاحب کے بارے میں ہے۔

میرے والد محترم میر ثناء اللہ ناصر بٹ صاحب مؤرخہ 11؍ستمبر 2022ء کو 70 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

دوستوں سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ جنت الفردوس و اعلیٰ علیین میں جگہ عطاء فرمائے۔ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کو ان ستر ہزار امتیوں میں شامل فرمائے جن کے بارے میں آنحضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ بغیر حساب بخشے جائیں گے۔ (سنن ابن ماجہ۔ حدیث نمبر 4286) آمین

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہُ وَ ارْحَمْہُ وَ ارْفَعْ دَرَجَاتِہِ وَ نَوِّرْ مَرْقَدَہُ وَ اَدْخِلْہُ فِی جَنَّۃِ النَّعِیْمِ وَ اَعْلٰی عِلِّیِّیْنَ۔آمین

وفات

11؍ستمبر 2022ء کی صبح آپ کام کے سلسلہ میں باہر گئے۔ دوپہر کو واپس آئے۔ کھانا کھانے کے لئے بیٹھے۔ کھانا ابھی شروع ہی کیا تھا کہ چارپائی پر لیٹ گئے اور بے ہوش ہو گئے۔ فوری ہسپتال لے جایا گیا لیکن ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کی آدھا گھنٹہ پہلے وفات ہوچکی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

نماز جنازہ و تدفین

میرے بیٹے عزیزم مسرور احمد طاہر بعمر 11 سال کو ابو جی کی وفات سے کچھ روز قبل خواب آیا تھا کہ ابو جی باہر گھر آئے ہیں اور آکر لیٹ گئے ہیں اور کسی نے ان کے اوپر سفید کپڑا ڈال دیا ہے اور سب لوگ وہاں اکٹھے ہیں۔ شاید یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس معصوم بچے کو اشارہ تھا کہ تمہارے دادا جان اب جانے والے ہیں۔ گاؤں میں ابو جی کی نماز جنازہ وفات سے اگلے دن مؤرخہ 12؍ ستمبر کو ہوئی۔ جو بہت سے غیر احمدیوں نے بھی ادا کی۔ بہت سی تعداد ایسے لمبی لمبی داڑھیوں والے مولویوں کی تھی جو جماعت کے بہت خلاف اور کٹر قسم کے مولوی ہیں۔ گو کہ خاکسار میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے وفات کے تین دن بعد پہنچا تھا لیکن جن دوستوں نے رہائش والی جگہ پر نماز جنازہ میں شرکت کی تھی ان میں سے بہت سوں نے مجھ سے بیان کیا کہ اتنا بڑا جنازہ ہم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ میرے پیارے ابو جان آنحضرت محمد ﷺ کی اس حدیث کے مصداق بنیں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ
’’جس مسلمان کے جنازے پر ایسے چالیس آدمی کھڑے ہوتے ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں ان کی سفارش قبول فرما لیتا ہے۔‘‘

(صحیح مسلم حدیث نمبر 2199)

جب پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےتحریک فرمائی کہ پچاس فیصد کمانے والوں کو وصیت کرنی چاہئے۔ تب پیارے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے والد صاحب نے وصیت کی تھی۔ اللہ کے فضل سے مؤرخہ 14؍ستمبر 2022ء کو توسیع بہشتی مقبرہ ربوہ میں انکی تدفین عمل میں آئی۔

ہم دعا گو ہیں کہ آپ کے حق میں آنحضرت ﷺ کی وہ حدیث صادق آئے جس میں آپﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس متوفی کی اچھی صفت بیان کی۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ واجب ہو گئی۔ اس پر آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا واجب ہو گئی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جس کی تم لوگوں نے اچھی صفت بیان کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔

(صحیح مسلم حدیث نمبر 2200)

تعارف خاندان و تعلیم

میرے والدصاحب مکرم میر ثناء اللہ ناصرکے والد کا نام محمد دین تھا۔ آپ 8؍اپریل 1952ء کو ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں چندرکے منگولے میں پیدا ہوئے۔یہ گاؤں نارووال شہر سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ہے اور گھٹیالیاں جماعت سے تقریباًتین کلومیٹر دور ہے۔ والد صاحب نے ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سن 1970ء میں شعبہ تدریس سے منسلک ہو گئے۔ اس کے بعداردو میں ماسٹرز کیا اور پھر بی ایڈ کیا۔ آپ ساٹھ سال کی عمر تک شعبہ تدریس سے منسلک رہے اور اس دوران استاد، ہیڈ ماسٹر اور کالج میں لیکچرار رہے۔ دوران ملازمت آپ اے ای او (اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر) منتخب ہوئے لیکن احمدی ہونے کی وجہ سے آپ کی پروموشن روک دی گئی۔ اپنی سروس مکمل کرنےکے بعد 2012ء میں آپ ریٹائر ہوئے۔ وفات کے وقت آپ جماعت احمدیہ چوک داتہ زید کا ضلع سیالکوٹ میں رہائش پذیر تھے۔

خاندان میں احمدیت

والد صاحب کے خاندان میں احمدیت میرے دادا جان (والد صاحب کے والد) محمد دین صاحب کے ذریعہ آئی، جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیعت کی تھی۔ جبکہ میرے نانا ابوخالد احمد بٹ مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب خالد احمدیت کے بھانجے تھے۔

آپ نے اپنے پیچھے دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اہلیہ اور تین بیٹے سوگوار چھوڑے ہیں۔ بڑے بیٹے عزیزم منصور احمد دکاندار ہیں۔ چھوٹا بیٹا خاکسار مسعود احمد طاہر مربی سلسلہ اور سب سے چھوٹے بیٹے عزیزم دلاور بٹ ٹیچر ہیں۔

خدا تعالیٰ کا نشان

میرے والدین کی شادی کے بعد سولہ سال تک کوئی اولاد نہیں تھی۔ گو بچے پیدا ہوئے تھے لیکن بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ 4؍اپریل 1987ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جب وقف نو کی بابرکت تحریک کا اعلان فرمایا تو اس میں آپ نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ اس تحریک کی برکت سے اللہ تعالیٰ بے اولادوں کو اولاد عطاء فرما دے۔ چنانچہ آپؒ فرماتےہیں کہ:
’’اس نیت کی، اس نذر کی برکت سے بعض ایسے خاندان جن میں اولاد نہیں پیدا ہو رہی اور ایسے میاں بیوی جو کسی وجہ سے اولاد سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ اس قربانی کی روح کو قبول فرماتے ہوئے ان کو بھی اولاد دے دے۔‘‘

(خطبات طاہر جلد6 صفحہ248)

میرے والد صاحب نے اسی وقت حضورؒ کی خدمت میں لکھ دیا کہ اس وقت میری کوئی اولاد نہیں ہے۔ لیکن اگر میری اولاد ہوئی تو میں اسے وقف کرنے کا عہد کرتا ہوں۔ اس پر تقریباً گیارہ ماہ کے بعد یکم مارچ 1988ء کو میری پیدائش ہوئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں سے میرے والد صاحب کو اپنے پیار کا نشان دکھایا۔

عبادات

آپ بظاہر نظر دنیا دار نظر آتے تھے، لیکن جو آپ کے قریب تھے ان کو علم تھا کہ آپ خدا تعالیٰ کی توحید میں فنا تھے۔ آپ کی زبان ہر وقت خدائے پا ک کی حمد سے تر رہتی۔ پانچ وقت نماز اور مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کرنے میں ایک مثال تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ مجھ سے فون پر بہت اہم بات کر رہے ہوتے، لیکن نماز کا وقت ہو جاتا تو وہیں کہہ دیتے کہ میں اب نماز کے لئے جا رہا ہوں۔ باقی بات بعد میں ہوگی۔(پاکستان اور گیمبیا میں وقت کا فرق ہے)۔ میں کہتاکہ ابو جی! ابھی تو نماز میں بیس پچیس منٹ ہیں۔ تو کہتے کہ بیٹا تسلی سے وضو کر کے جا کر نفل پڑھ کر نماز کے انتظار میں بیٹھنا چاہئے نہ کہ بھاگ کر نماز میں شامل ہوا جائے۔ تمام افرادِ جماعت گواہی دیتے ہیں کہ فجر کی نماز پر سب سے پہلے آتے۔ مسجد کا دروازہ کھولتے۔ صفیں بچھاتے اور باقی نمازیوں کا ا نتظار کرتے۔ کم ہی ایسا ہوتا کہ فجر پہ کوئی ان سے پہلے مسجد آیا ہو۔

آپ نماز تہجد بڑی باقاعدگی سے بلا ناغہ اور لمبی، خشوع و خضوع والی، دعاؤں سے بھرپور پڑھتے۔ رات کو ایک بجے کے قریب اٹھ جاتے اور گھنٹوں نوافل ادا کرتے۔ ایک دوست مکرم فیاض احمد نے ایک بار کہا کہ آپ دن بھر بھی سفر میں رہتے ہیں اور رات کو بھی جاگتے رہتے ہیں۔ آرام بھی کیا کریں۔ تو جواب دیا کہ اگلے جہان جاکر آرام ہی کرنا ہے۔ اس جہان تو جاگ کر اگلے جہان کے لئے کچھ کر لیں۔ میرے افریقہ آنے کے بعد میرے بیوی بچے کچھ عرصہ گھر میں ان کے ساتھ رہے تھے۔ میری اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ رات کو جس وقت بھی میری آنکھ کھلی میں نے ابو جی کو جاگتے ہوئے پایا۔ یا آپ نوافل ادا کر رہے ہوتے یا پھر صحن میں ٹہل رہے ہوتے اور کہتے کہ بیٹا بے فکر ہوکر سو جاؤ۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ میں جاگ رہا ہوں۔

جماعت سے تعلق

میرے پیارے ابو جان جماعت کے ساتھ ابتداء سے بہت منسلک تھے اور جماعت کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ دن ہو یا رات ہر وقت جماعتی کام اور خدمت کے لئے تیار رہتے۔ جماعت کی طرف سے آدھی رات کو بھی بلایا جاتا تو آپ فوراً حاضر ہو جاتے۔ آپ تقریباً عرصہ پچیس سال تک سیکرٹری مال رہے اور باحسن اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ سیکرٹری تحریک جدیدبھی رہے۔ حلقہ کی سطح پر آپ کو سیکرٹری تعلیم حلقہ کے طور پر بھی بھرپور خدمت کا موقع ملا۔

جماعتی لحاظ سے بہت مضبوط ایمان کے مالک تھے۔ سچے اور حقیقی احمدی تھے۔ بہت بہادر اور نڈر۔ مخالفت کی ذرہ پرواہ نہ کرتے اور نہ گھبراتے۔ اس قدر وسیع تعلقات ہونے کے باوجود کبھی کسی سے نہیں چھپایا کہ احمدی ہیں۔ ہر ایک کو معلوم تھا کہ آپ بڑے پکے احمدی ہیں۔علاقہ میں جماعت کی اس قدر مخالفت کے باوجود آپ نے جس سکول میں بھی نوکری کی، اس سکول کے اپنے نام سے لیٹر پیڈ بنوائے اور اوپر ہیڈنگ پر حضرت مسیح موعودؑ کی کوئی نہ کوئی تحریر لکھوائی اور مخالفت کی بالکل پرواہ نہ کی۔ جیسے ’’حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولی ہیں۔باقی سب اس کے ظل ہیں۔‘‘ اور ’’ قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں۔‘‘

حلقہ کی جماعتوں میں جہاں بھی کوئی جماعتی پروگرام ہوتا وہاں لازمی جاتے اور شامل ہوتے۔ علاقے بھر میں کسی احمدی دوست کی وفات ہوتی تو نماز جنازہ میں نہ صرف خود لازمی شامل ہوتے بلکہ فوری طور پر حلقہ کے افراد کو اطلاع کرتے اور انکو بھی شامل ہونے کی تاکید کرتے۔ جماعت کی طرف سے ملنے والی ذمہ داری اس قدر فکر سے ادا کرتے تھے کہ جس دن وفات ہوئی اس دن بھی باہر سے واپس گھر آتے ہوئے راستے میں ایک دوست کو فون کر کے چندہ تحریک جدید کی ادائیگی کی توجہ دلائی اور پھر اس کے گھر جا کر چندہ لے کر آئے۔ یوں وفات کے وقت سے کچھ دیر پہلے بھی جماعتی خدمت میں مصروف تھے۔

خلافت سے تعلق

خلافت سے آپ کو حد درجہ محبت بلکہ عشق تھا۔ پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات جمعہ بڑی باقاعدگی سے اور بڑے انہماک سے سنتے۔ بچوں سے بے انتہاء پیار کرتے تھے۔ ان کو نہ خود ڈانتے اور نہ کسی کو مارنے دیتے، لیکن خطبہ کے دوران کسی قسم کی بھی شرارت یا شور برداشت نہ کرتے۔ ہمیں ہمیشہ خلافت سے زندہ تعلق رکھنے، اطاعت کرنے اور باقاعدہ خط لکھنے کی تلقین کرتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے خطبات، تقاریر اور مجالس سوال وجواب کے تو دیوانے تھے۔ موبائل پر فارغ اوقات میں ان کے خطبات سنتے رہتے۔ رات کے وقت جب بھی میری فون پر بات ہوتی تو ہمیشہ بتاتے کہ میں حضرت خلیفہ رابعؒ کی ایک تقریر یا پھر مجلس سوال و جواب سن رہا تھا۔ خطبات طاہر کی کوئی نہ کوئی جلد ہمیشہ ان کے زیر مطالعہ ہوتی تھی۔ وفات کے وقت بھی جلد نمبر 3 زیر مطالعہ تھی۔

اخلاق فاضلہ

ہم سب کے حبیب آقا حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے فرمایا:

اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَاناً اَحْسَنُھُمْ خُلُقاً

(جامع ترمذی حدیث نمبر 1162)

مومنوں میں سے ایمان میں سب سے کامل وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے۔

اسی طرح کہتے ہیں کہ دنیا میں آپ کا حقیقی مقام وہی ہے جس کا اظہار لوگ آپ کی غیر موجودگی میں کرتے ہیں۔ میرے والد محترم ایسے اعترافات دنیا کا مجسمہ تھے۔ آپ کے افسوس کے لئے آنے والے ہر فرد بشر کے ہر بیان نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کی کہ وہ انتہائی درجہ کے نافع الناس وجود تھے۔ خدا کے ساتھ تعلق ہو یا اس کی مخلوق کے ساتھ پیار و شفقت کا تعلق، ہر میدان میں اپنی مثال آپ تھے۔ راتوں کو خدائے بزرگ و برتر کی عبادات میں مشغول رہتے تو دن کو مخلوق خدا کی مدد کے لئے کوشاں رہتے۔

سلام میں پہل

سامنے والا چھوٹا ہو یا بڑا، سلام میں ہمشہ پہل کرتے۔ ایک دوست مکرم ندیم احمد گل کہتے ہیں کہ میں بھی ہر نماز پر مسجد آتا تھا۔ میں نے بہت دفعہ کوشش کی کہ ان سے پہلے میں اُن کو سلام کروں۔ لیکن انہوں نے کبھی مجھے جیتنے کا موقع نہ دیا۔

تربیت اولاد اور نصیحت کا انداز

آپ کا اولاد کی تربیت کا انداز نہایت حکیمانہ اور مشفقانہ تھا۔ آپ نے کبھی کوئی بات ہمارے اوپر ٹھونسی نہیں۔ زبردستی نافذ نہیں کی بلکہ ہمیشہ پیار اور دلیل کے ساتھ سمجھاتے اور قائل کرتے۔ بچپن میں رات کے وقت ہمیں ساتھ لے کر بیٹھتے اور جماعت کے عقائد، خلافت کی برکات اور عمومی جماعتی تعلیم بتاتے اور دلائل سمجھاتے۔ پھر بعد میں پوچھ کر جائزہ بھی لیتے کہ ہم سمجھے بھی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے ہمیشہ نہ صرف نماز کی طرف بھرپور توجہ دلائی بلکہ نماز نہ پڑھنے پر سختی بھی کرتے۔ ہمیشہ کہتے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو جو نعمتیں دیں ہیں ان پر خدا کا بہت شکر ادا کیا کرو اور دعا کیا کرو۔ احمدیت کی محبت اور سچائی کو ہمارے دل میں بٹھاتے۔ ایم ٹی اے دیکھنے کی ہمیشہ نصیحت کرتے۔ وہ باپ سے زیادہ ہمارے دوست تھے اور ہم اپنی ہر بات ان کے ساتھ شیئر کرتے تھے۔ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ان کو بتاتے اور وہ ہم کو حوصلہ، تسلی اور قیمتی مشورے کے ساتھ ہمیشہ تیار کھڑے ملتے۔

میرے ساتھ ابو جی کا ایک خاص تعلق تھا جو دوسرے بھائیوں کے ساتھ بھی نہیں تھا۔ میرے وہ بہت قریبی اور بہترین دوست تھے۔ میں ان کے ساتھ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات بھی شیئر کرتا تھا اور بلا جھجک کرتا تھا۔ اگر فیلڈ میں مجھے اللہ تعالیٰ کوئی چھوٹی سی کامیابی بھی دیتا یا فیلڈ میں کوئی دوست میری ہلکی سی تعریف بھی کرتا تو آپ کو بے انتہاء خوشی ہوتی۔ اس دن چہرہ پر ایک عجیب سی چمک ہوتی۔ ہر ایک کو بتاتے پھرتے کہ فلاں نے میرے بیٹے کے بارے میں یہ کہا ہے۔ گھر آ کر کہا کرتے تھے کہ جو میرے بیٹے کی تعریف کرتے ہیں میرا دل کرتا ہے کہ جا کر ان کے پاس بیٹھا رہوں اور ان سے باتیں سنتا رہوں۔ جب وہ اس طرح میرے بیٹے کی تعریف کرتے ہیں تو میں خوشی سے جوان ہو جاتا ہوں۔ میرے لئے بھی ان کی خوشی بہت معنی رکھتی تھی۔ میں ان کی خوشی کے لئے ہر ممکن کوشش کر گزرتا تھا۔ مجھے ہمیشہ کہتے تھے کہ میری دعائیں سایہ کی طرح تمہارے ساتھ ہیں۔ میں اپنی بھرپور دعاؤں کے ساتھ تمہاری مدد کر رہا ہوں۔ اس لئے پریشان نہیں ہونا۔ خدا تمہیں ضائع نہیں کرے گا۔ تم بھی میرے لئے اور اپنے لئے دعا کیا کرو۔ ہمیں ہمیشہ نصیحت کرتے کہ جماعت کے ساتھ تعلق کبھی کمزور نہ پڑنے دینا اور خلافت کو کبھی مت چھوڑنا۔ ہمارے پاس سب کچھ خلافت کی برکت سے ہی ہے۔ جب پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے میری تقرری گیمبیا فرمائی تو ہم چونکہ تین مربیان ایک ساتھ گیمبیا آ رہے تھے اس لئے میرے والد صاحب نے مجھے الوداع کرتے وقت ملک گیمبیا کو مخاطب کرتے ہوئے ان الفاظ میں تحریر لکھی:
’’اے سرزمینِ گیمبیا! السلام علیکم۔ تجھے مبارک ہو کہ خلیفہ وقت کی امانتیں تمہارے سپرد کی جا رہی ہیں۔ انہیں سنبھال کے رکھنا ورنہ خدا تعالیٰ تمہارا کوئی عذر قبول نہیں کرے گا۔ اے سرزمینِ گیمبیا! خلیفہ وقت کی امانتیں سنبھال کے رکھنا ورنہ تیرا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘

مسجد میں اگر کوئی بچہ شرارت کرتا تو ڈانٹنے کی بجائے اس کوپیار سے بُلا کر اپنے ساتھ کھڑا کر لیتے۔ نماز ختم ہونے کے بعد اس کے شرارت نہ کرنے کی وجہ سے اس کی بہت حوصلہ افزائی کرتے جس سے بڑے پیار کے انداز میں اس کی تربیت ہوتی۔ گھر میں بھی بچوں سے بے حد پیار کرتے۔ سارا دن ان کے لاڈ اٹھاتے۔ اپنے بڑے بیٹے (منصور) کا نام لے کر کہا کرتے تھے کہ میں اس کا اور اس کے بچوں کا نوکر ہوں۔ بچوں میں آپ کی جان تھی۔ میں اصرار کرتا کہ آپ میرے پاس گیمبیا آ جائیں تو کہتے کہ بچوں کے بغیر میرا دل نہیں لگنا۔ میری چھوٹی بیٹی ھبۃ الباقی کہا کرتی تھی کہ میں پاپا کی (یعنی میری) جان ہوں اور میری جان میرے ابو جی (یعنی اس کے دادا، میرے والد) ہیں۔ بڑوں کے ساتھ بڑے، جوانوں کے ساتھ جوان اور بچوں کے ساتھ بچے ہوتے تھے اور ہر کسی کو اس کے معیار پر اتر کر سمجھاتے۔ کبھی اپنے عالم ہونے کا رعب نہ جماتے۔

ہمارا بڑا بھائی مکرم منصور احمد ہمارے ماموں کا بیٹا ہے اور بچپن سے ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ میں علیٰ وجہ البصیرت خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابو جی ہم سے زیادہ اس سے پیار کرتے تھے اور کبھی اس کو احساس نہیں ہوا کہ وہ ہمارا سگا بھائی نہیں۔

سادگی

میرے والد محترم نہایت نیک، عاجز، منکسر المزاج اور تکبر سے کلیۃً پاک تھے۔ بہت خوش اخلاق، ہنس مکھ، خوش مزاج تھے۔ جو بھی ان سے ایک بار ملتا، ان کا گرویدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔ لباس میں انتہائی سادگی کے قائل تھے اور ہمیشہ اسی پر آپ کا عمل رہا۔ انتہائی سادہ لباس پہنتے۔ ساری زندگی آپ نے شلوار قمیض اور تہہ بند میں گزاری ہے۔ کوئی انجان آدمی آپ کو دیکھ کر پہچان نہیں سکتا تھا کہ آپ ہی ماسٹر ثناء اللہ صاحب ہیں۔ اپنی گلی کی نالی خود اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے اور کوڑا بھی خود پھینک کر آتے۔ میں کہتا کہ میں پھینک آتا ہوں تو کہتے کہ ابھی مجھے کرنے دو۔ میرے بعد تم لوگوں نے ہی کرنا ہے۔

پانچ بنیادی اخلاق

آپ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے بیان فرمودہ پانچ بنیادی اخلاق کا مجسمہ تھے۔ سچائی، نرم اور پاک زبان کا استعمال، دوسروں کی تکلیف کا احساس اور اسے دور کرنے کی کوشش کرنا، مضبوط عظم و ہمت، وسعت حوصلہ کے نہ صرف گھر والے بلکہ دوست احباب بھی گواہ تھے۔ سچائی پر سختی سے قائم تھے۔ جھوٹ سے شدید نفرت تھی۔ نہ خود جھوٹ بولتے اور نہ ہی کسی کا جھوٹ برداشت کرتے۔ آپ کی زبان پر ہمیشہ نرم الفاظ اور محبت بھرا مشفقانہ لہجہ رہتا تھا۔ آپ کا انداز ڈانٹنے کی بجائے ناصحانہ ہوتا تھا۔ ہر ایک کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے اور اسے دل سے محسوس کرتے۔ تب تک چین نہ آتا جب تک اسے دور نہ کر لیتے۔ امیر، غریب کے فرق کے بغیر ہر کسی کی ہر ممکن مدد کرتے۔ دوسروں کی تکلیف دیکھ کر آپ تڑپ جایا کرتے تھے اور اسے دور کرنے کے لئے آخری حد تک چلے جاتے تھے۔ تب تک آپ کو سکون نہ آتا جب تک اس کی تکلیف دور نہ ہو جاتی۔ کبھی بھی کسی کو کسی کام میں مدد کرنے سے منع نہ کرتے۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی ان کے منہ سے نہیں سنا کہ یہ کام ناممکن ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ جیسے بھی ہوتا، خود کو تکلیف میں ڈال کر دوسروں کی مدد کرتے۔ عظم و ہمت کے آپ پیکر تھے۔ آپ پر زندگی میں بے شمار ابتلاء آئے لیکن ہنس کر، بغیر خدا پر شکوہ کئے اور بغیر کسی کو بتائے، سب سہہ لیا۔ اپنی بیماری یا کسی بھی پریشانی کا ذکر کبھی ہمارے ساتھ نہ کرتے۔ ہمیشہ خوش اور مسکراتے رہتے۔ بہت سخت جان تھے۔ سارا دن کام کرتے۔ جتنا مرضی تھکے ہوتے لیکن کبھی ہم سے ٹانگیں نہ دبواتے اور مذاق سے کہتے کہ میں ابھی تم لوگوں سے زیادہ جوان ہوں۔ جس کام کو ٹھان لیتے پایہ تکمیل تک پہنچا کے دم لیتے۔ بڑے بڑے پہاڑوں جیسے مسائل بھی یوں آن کی آن میں حل کر دیتے۔ مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی آپ گھبراتے نہ تھے۔ کہا کرتے تھے کہ ہم یہ تحریر صرف پڑھتےہیں، مصیبت میں گھبرانا سب سے بڑی مصیبت ہے۔ لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ آپ عظیم حوصلگی کے مالک تھے۔ کبھی کبھار بتایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا حوصلہ اور ہمت عطاء فرمائی ہے کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی ماں باپ، چھوٹے بھائی، اپنی جان سے پیارے بڑے بھائی، اپنے بچوں، پوتے، پوتیوں کو لحد (قبر) میں اتارا ہے، لیکن گھبرایا نہیں۔ آپ کو اپنے اعصاب پر غضب کا کنٹرول تھا۔ بہت ہی مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ کوئی بھی دیکھنے والا کبھی نہیں پہچان سکتا تھا کہ انہوں نے زندگی میں کتنے مصائب برداشت کئے ہیں۔

آپ میں نظم و ضبط اور ڈسپلن بہت زیادہ تھا۔ کئی سالوں سے آپ کی یہ عادت تھی کہ نماز تہجد نہا کر ادا کرتے۔ صبح ناشتے سے پہلے دوبارہ نہاتے۔ روزانہ شیو بناتے اور اس عادت میں کبھی ناغہ نہ آیا۔ شدید سردی ہو، دھند ہو یا گرمی ہو، ہر حال میں یہی آپ کی روٹین تھی۔

آپ بہت زیرک، معاملہ فہم اور دور اندیش تھے۔ ہر ایک کے کام آنے والے بہت ہی نافع الناس وجود تھے۔ کہا کرتے تھے کہ میرے والدین اور دونوں بھائی جلدی اس دنیا سے چلے گئے۔ مجھے خدا نے زندہ ہی اس لئے رکھا ہے تاکہ لوگوں کے کام آؤں۔ آپ بڑے صائب الرائے تھے۔ بہت سے لوگ آپ سے مشورے لیتے اور اپنے گھروں کی اصلاحِ احوال و معاملات کے لئے آپ کو بلاتے اور آپ ہر ایک کو بلاتمیزِ تعلق و مذہب ہمیشہ مخلصانہ مشورہ دیتے۔ اہل علاقہ کے فیصلے کیا کرتے تھے۔

وکیل المال اول افسوس کے لئے ہمارے گھر تشریف لائے۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم ہمارے بہت پیارے اور جماعت کے لئے مفید وجود تھے۔ علاقہ میں جماعتی طور پر نامور اور مؤثر شخصیت تھے۔ میں نے کچھ دن قبل ان کو فون کیا کہ ہم تحریک جدید کے دورہ پر آپ کے پاس آئیں گے۔ تو مرحوم نے کہا کہ بسم اللہ۔ آپ ضرور آئیں۔ لیکن اگر آپ چندہ کے لئے آ رہے ہیں تو وہ میں نے تقریباً سو فیصد وصول کرلیا ہوا ہے۔

مالی قربانی

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ

(آل عمران: 93)

تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ اپنی سب سے پسندیدہ چیز (اس کی راہ میں) خرچ نہ کرو۔

میرے والد صاحب مالی قربانی میں بھی اللہ کے فضل سے بہت بڑھے ہوئے تھے۔ چندہ جات میں مثالی تھے۔ مسابقت کی روح بہت رکھتے تھے۔ لازمی چندہ جات شرح کے مطابق ادا کرتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ جس کا چندہ بشرح ایک سو روپے بنتا ہے، اگر وہ ننانوے روپے دیتا ہے اور ایک روپیہ جماعت سے چھپاتا ہے تو بھی وہ گناہگار ہے۔ طوعی چندہ جات میں آپ کے وعدہ جات بھی مثالی ہوتے تھے۔ جب ہم اپنے آبائی گاؤں چندرکے منگولے سے ہجرت کر کے چوک داتہ زیدکا کی جماعت میں آئے تو سیکرٹری وقف جدید ابو جی سے نئے سال کا وعدہ لینے آئے۔ آپ نے حسب سابق اچھا وعدہ کیا۔ سیکرٹری صاحب نے سمجھا کہ شاید دکھاوا کے لئے اتنا وعدہ کر دیا ہے۔ چنانچہ اگلے دن دوبارہ آئے اور کہنے لگے کہ بٹ صاحب آپ اپنے وعدہ پر نظر ثانی کر لیں۔ ابو جی ان کے اس سوال کا مطلب سمجھ گئے۔ آپ مسکرائے اور کہنے لگے کہ شاید آپ یہ بات اس لئے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو شک ہے کہ میں ادائیگی نہیں کروں گا۔ اس کے بعد آپ اٹھے اور اندر سے اپنے پچھلے سالوں کی رسیدیں لے کر آئے جو آپ ہمیشہ سنبھال کر رکھتے تھے اور آپ نے دکھایا کہ میں اللہ کے فضل سے پچھلی جماعت میں بھی اتنی ہی ادائیگی کرتا آیا ہوں۔ اس لئے آپ بے فکر رہیں۔

طوعی چندہ جات کے وعدہ جات کی ادائیگی کے علاوہ سال کے آخر پر جب چندہ کے جماعتی ٹارگٹ میں کمی ہوتی تب بھی اچھی رقم پیش کرتے۔ اس کے علاوہ خلیفہ وقت یا مرکز کی طرف سے آنے والی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اکثر ہم سب بھائیوں اور ہمارے بچوں کی طرف سے صدقات اور دوسری مدّات میں چندہ دیتے اور ہمیں کبھی بھی نہ بتاتے۔ گذشتہ دنوں میں ان کی رسید بک دیکھ رہا تھا۔ اس کی پہلی دو رسیدیں میری بچوں کے نام کی، جبکہ ان کے ہاتھ کی کاٹی ہوئی آخری رسید ہم تینوں بھائیوں کے نام کی ہے۔ اس کے علاوہ ہر جمعۃ المبارک کے روز آپ اپنی صدقہ کی رسید لازمی کاٹتے تھے۔

یہ تو جماعتی چندہ جات کا ذکر تھا۔ ان چندہ کے علاوہ بغیر کسی کو بتائے بہت سے غرباء کی مدد کیا کرتے تھے۔ کئی ایک کا مجھے ذاتی طور پر علم تھا۔ لیکن نہ کبھی ابو جی مجھے بتایا اور نہ ہی کبھی میں نے ان سے اس موضوع پر بات کی۔ اس کے علاوہ کئی ایسے غریب افراد تھے جن کی مدد چھپ کر کرتے اور مستقل کرتے تھے۔ جن کا علم ہمیں ان کی وفات کے بعد ان کے دوست احباب سے ہوا اور یقیناً کئی ایسے ہیں جن کا ہمیں ابھی تک علم نہیں۔ ایک دوست مکرم سجاد احمد بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنی موٹر سائیکل پرچاول اور آٹے کی دو بوریاں رکھی ہوئیں تھیں اور ایک قریبی گاؤں کی طرف جا رہے تھے۔جہاں پر نہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہے اور نہ ہی کوئی ہماری برادری کا گھر ہے۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ فلاں ایک شادی شدہ عورت کا نام لیا کو دینے جا رہا ہوں تو میں نے حیرانی سے پوچھا کہ اسے کیوں دے رہے ہیں۔ تو جواب دیا کہ بیٹیوں کا باپ پر حق ہوتا ہے اس لئے دینے جا رہا ہوں۔

مہمان نوازی

مہمان نوازی آپ کا ایک خاص اور نمایاں وصف تھا۔ چوبیس گھنٹے گھر کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے رہتے۔ جو بھی آتا، ناممکن تھا کہ وہ کچھ کھائے یا پئےبغیر چلا جائے۔ جماعتی مہمان ہمارے گھر کو زینت بخشتے اور اکثر کھانا ہماری طرف کھاتے۔ جتنے دن بھی انکا قیام ہوتا بلا تردد کھانا ہمارے گھر سے ہوتا۔ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ مسیح کے مہمان ہیں۔ خدا ہمیں انہی کے صدقے رزق دے رہا ہے۔

واقفین زندگی سے پیار

واقفین زندگی کے ساتھ ان کا بہت ہی خاص پیار، محبت اور عزت کا تعلق تھا۔ واقف زندگی سے اٹھ کر ملتے اور بیٹھنے کے لئے اپنی جگہ پیش کر دیتے۔ کوئی مربی یا معلم ان کے پاس آتا تو خاطر تواضع کے بغیر نہ جا سکتا۔ آپ کہتے کہ یہ مسیح کے سپاہی ہیں۔ اپنا گھر بار، ماں باپ چھوڑ کر پردیس میں خدا کی خاطر بیٹھے ہیں۔ ان کا ہر ممکن خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔ ہر خوشی کے موقع پر حلقہ کے تمام مربیان اور معلمین کو لازماً مدعو کرتے۔ واقف زندگی ہونے کی وجہ سے مجھے بھی اکثر آپ کہہ کر بُلاتے تھے۔ جب کسی مربی یا معلم سے ایسی بات سننے کو ملتی جس کا آپ کو پہلے سے علم نہ ہوتا تو بہت خوش ہوتے اور کہتے کہ ہمارے سپاہی بہت محنتی اور علمی تحقیق کرنے والے ہیں۔

بہوؤں سے تعلق

آپ کا اپنی بہوؤں سے بھی مثالی پیار کا تعلق تھا۔ کبھی ان کو نہ ڈانٹتے۔ اگر کوئی غلطی بھی ہو جاتی تو پاس بٹھا کر بڑی عزت اور پیار سے سمجھاتے۔ سختی بالکل نہ کرتے۔ ایک دفعہ ان کی بڑی بہو (میری بھابھی) بیمار تھیں۔ ابو جی ان کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے۔ ڈاکٹر سے کہا کہ یہ میری بیٹی ہے اور ہم چیک اپ کے لئے آئے ہیں۔ ڈاکٹر نے دیکھنے کے بعد کہا کہ بیماری کا حل صرف یہ ہے کہ ان کا وزن کم ہو۔ آپ اپنی بیٹی کو سسرال چھوڑ آئیں۔ سسرال والوں کی سختی سے انکا وزن خود بخود کم ہو جائے گا۔ ابو جی مسکرا کر کہنے لگے کہ یہ میری بہو ہی ہے۔ اس پر ڈاکٹر نے کہا کہ پھر ان کا وزن کم نہیں ہو سکتا۔

لیکن پیار کے ساتھ تربیت پر بھی پورا زور تھا۔ پردہ کی بڑی سختی کرتے تھے۔ حتٰی کہ گھرکے اندر بھی خواہ بڑی ہو یا بچی، کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کے سر سے دوپٹہ اتر جائے۔ پردہ کے حوالے سے خاندان بھر میں مشہور تھے۔ آپ کی آواز سن کر ہی تمام مستورات سر دوپٹہ سے ڈھانپ لیتی تھیں۔

آپ کی منجھلی بہو (میری اہلیہ) بیان کرتی ہیں: ’’میرے سسر میرے سسر نہیں بلکہ میرے حقیقی والد سے بڑھ کر تھے۔ ابو جان ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ چھوٹے بڑے سب اُن کے دوست تھے۔ ابو جان بہت ہی پیارا وجود تھے۔ بہت رحم دل اور احساس کرنے والے۔ میری شادی کو بارہ سال ہو رہے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران کبھی ایسا نہیں لگا کہ وہ میرے سسر ہیں۔ ہمیشہ ان کو بہت پیار کرنے والا باپ اور بہت اچھا دوست پایا۔ میں ہر بات ان سے کر لیتی تھی۔ پانچ وقت کے نمازی تھے۔ ہمیشہ مسجد میں نماز ادا کرتے۔ رات کے کسی بھی وقت میری آنکھ کھلتی تو ان کو نوافل ادا کرتے یا تلاوت کرتے دیکھا۔ بہت مہمان نواز تھے۔ واقفین زندگی سے ایک خاص تعلق تھا۔ کبھی کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اگر وہ کسی کی تکلیف دیکھ لیتے تو تب تک چین نہ لیتے جب تک اس کی تکلیف کو دور نہ کر لیتے۔ مالی مدد کے ساتھ ساتھ اس کے لئے دعا بھی کرتے۔ اگر کسی نے مدد کے لئے بلایا تو فوراً اٹھ کھڑے ہوتے۔ کبھی نہ دیکھتے کہ آدھی رات ہے یا پھر دوپہر کی تیز دھوپ۔

ایک دن جب میں مربی صاحب کے ساتھ فیلڈ میں جانے لگی تو بڑے پیار سے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور کہنے لگے کہ اب وہاں کسی نے نہیں کہنا کہ تم فلاں کی بیٹی یا فلاں کی بہو ہو۔ سب نے یہ ہی کہنا ہے کہ تم مربی کی بیوی ہو۔ اپنے لباس کا اور پردہ کا خاص خیال رکھنا۔ لباس حیاء دار ہو۔ اچھی طرح پردہ کرنا ہے۔ ہمیشہ خوش ہوکے لوگوں سے ملنا۔ مربی ہاؤس کو صاف رکھنا۔ جب بھی کوئی گھر آئے تو جو بھی گھر میں ہو ان کے آگے پیش کر دینا۔ خوش ہو کر سادہ پانی بھی دو گی تو وہ پی کر خوش ہو جائیں گے۔ لیکن منہ بنا کر گوشت بھی پیش کرو گی تو کوئی فائدہ نہیں۔ مربی صاحب سے کبھی ایسی چیز کی ڈیمانڈ نہ کرنا جو وہ پوری نہ کر سکیں۔ اگر بہت دل کرے تو مجھے بتانا۔

جب مربی صاحب گیمبیا آئے تومیں گھر میں والد صاحب کے ساتھ رہتی تھی۔ میری اور بچوں کی ہر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا خیال رکھتے۔ ہم گھر میں تین بہوئیں ہیں۔ روزانہ رات کو باری باری ہر ایک کےکمرے میں جاتے۔تھوڑی دیر بیٹھتے۔ باتیں کرتے۔ بچوں کے ساتھ کھیلتے اور پھر بچوں کو کھانے کی چیزیں دیتے۔ جب کبھی بیمار ہوتے تو سب کو سختی سے منع کرتے کہ مربی صاحب کو نہیں بتانا۔ وہ پردیس میں اکیلا ہے۔ پریشان ہو جائے گا۔ ابو جی کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی۔ اکثر جب گھر کے افراد بیٹھتے تو سب کو نصیحت کرتے کہ نماز پڑھا کرو اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کرو کیونکہ تمہارے پاس خدا کی ہر نعمت ہے۔

ہر کوئی ان سے اپنے دل کی بات کر لیتا تھا۔ ابو جی زندگی سے بھرپور انسان تھے۔ ہر دلعزیز تھے۔ انہوں نے بہت سارے لڑکوں، لڑکیوں کو تعلیم دلوائی۔ ابوجی ایسے انسان تھے کہ ان کی خوبیاں بیان کرنے لگوں توکئی صفحات بھی ناکافی ہوں گے۔ یہ ہی کہوں گی کہ ان جیسے بیٹے، بھائی، باپ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں جو ہر رشتہ کو دل سے نبھاتے اور بہت پیار سے رکھتے ہیں۔ ابو جی کی وفات پر مجھے ایک غیر احمدی فیملی جو ہمارے ہمسائے ہیں، ان کی ایک عورت کا فون آیا۔ وہ بولی کہ یہ صدمہ صرف تم لوگوں کے لئے نہیں۔ بہت سارے لوگوں کے لئے ہے۔ آج ہزاروں لوگ یتیم ہو گئے ہیں۔ کہتی ہیں کہ میں نے سنا تھا کہ جن کی بیٹیاں نہیں ہوتیں ان کو وفات کے بعد رونے والا کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن تمہارے ابو کے لئے ہر ایک کی بیٹی روئی ہے۔

پیارے حضور سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے اور ہمیں ان کی نیکیاں قائم رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین۔ ابوجان کی قیمتی باتیں ہمیشہ ہمارے لئےمشعل راہ رہیں گی۔‘‘

علمی پیاس

آپ بہت علم دوست شخصیت تھے۔ جماعتی کتب ہمیشہ زیر مطالعہ رہتیں۔ خصوصاً خطبات طاہر بڑے شوق سے پڑھتے۔ ہر رات سونے سے پہلےروحانی خزائن، تفسیر کبیر یا پھر خطبات طاہر کی جلد کے کچھ صفحات ضرور مطالعہ کرتے۔ دوران مطالعہ ہر اہم مضمون کے نوٹس بناتے۔ چنانچہ روحانی خزائن، تفسیر کبیر اور خطبات طاہر کے بہت زیادہ نوٹس لکھ کر چھوڑ گئے ہیں۔ جن میں چند مضامین کے عناوین یہ ہیں؛ سیرت النبیﷺ۔ سیرت حضرت مسیح موعودؑ ۔ سیرت صحابہ رضی اللہ عنہم۔ تردید حیات مسیح۔ وفات مسیح۔ اجرائے نبوت۔ صداقت حضرت مسیح موعودؑ ۔ تعارف خلفائے احمدیت۔اطاعت و برکات خلافت۔

شاعری سے آپ کو بے حد شغف تھا۔ درثمین اور کلام طاہر شوق سے پڑھتے اور دوران گفتگو اشعار کے حوالے بھی دیتے۔ علامہ اقبال کو بہت پڑھتے اور پسند کرتے تھے۔ تشریح کے لحاظ سے مشکل اشعار کی تشریحات مختلف پہلوؤں سے لکھتے اور پھر سنبھال کر رکھتے۔

آپ کو فلسفہ سے بھی لگاؤ تھا۔ اکثر مختلف روز مرہ کے موضوعات پر مضامین لکھتے اور پھر عقلی دلائل سے ان کو ثابت کرتے۔ آپ کی اردو کی تحریر بہت مضبوط اور سلاست سے بھری تھی۔ اردو محاورات پر آپ کو عبور حاصل تھا۔ آپ دینی و دنیاوی علم کا خوبصورت مرقع تھے۔

انگلش ان کا پسندیدہ مضمون تھا۔ چنانچہ سکول میں باوجود ہیڈ ماسٹر ہونے کے سالہا سال تک انگلش پڑھاتے رہے۔ انہوں نے انگلش اور اردو کی گرائمر کے بہت سے عناوین پر آسان زبان میں مضامین لکھ چھوڑے ہیں۔

حلقہ احباب

آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور ان میں اکثریت غرباء کی تھی اور یہ دوست احباب ہر قسم کی ذات برادری، مذہبی فرقہ اور مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ کیا مسلمان اور کیا عیسائی، سب ہی آپ کے دوستوں میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ ضلع بھر میں اور ساتھ والے ضلع میں شاید کو ئی ایسا سرکاری دفتر ہو جس میں آپ کی واقفیت نہ ہو۔ اللہ کے فضل سے آپ کے شاگرد بھی بہت سی جگہوں پر خدمت ملک و انسانیت میں مشغول آپ کے نام کو چار چاند لگا رہے ہیں۔

دوستوں کے آپ کے بارے میں تاثرات

پیارے آقا حضرت اقدس محمدﷺ نے فرمایا:

اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللہِ فَاَحَبُۤ الْخَلْقِ اِلَی اللہِ مَنْ اَحْسَن اِلٰی عِیَالِہِ

(مشکٰوۃ المصابیح حدیث نمر 4998)

یعنی تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اور مخلوق میں سے اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ شخص سے جو اس کی عیال سے اچھا سلوک کرتا ہے۔

آپ کی وفات پر سارا علاقہ سوگوار ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ احمدی و غیر احمدی یکساں غمگین ہیں کہ آج ہم ایک غمخوار ہستی سے محروم ہوگئےہیں۔ دوست احباب جو افسوس کے لئے آرہے ہیں وہ میرے والد صاحب کے ساتھ اپنے اپنے تعلق کو بیان کر رہے ہیں۔ اس دوران جو مشترک باتیں ہر ایک نے بیان کیں وہ یہ ہیں کہ میرے والد صاحب ہر شخص کے کام آنے والے، سب کی مدد کرنے والے تھے۔ نہایت عظیم وجود تھے۔ آج ہمارا علاقہ ایک عظیم انسان اور سکالر سے خالی ہو گیا ہے۔ آپ نہایت غریب پرور تھے۔ بغیر کسی کو بتائے مستحقین کی مدد کرتے تھے۔ بیسیوں افراد ایسے ہیں جنہوں نے کہا کہ آج ہم یتیم ہو گئے ہیں اور بہت سوں نے کہا کہ تم لوگوں کے وہ باپ تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں تم سے زیادہ دکھ ہے۔ بہت سی بیوگان ہیں جن کے خاوند کی وفات کے بعد میرے والد صاحب نے اپنی جیب سے خرچ کر کے ان کے خاوندوں کی پنشن ان کے نام جاری کروائی۔ سینکڑوں افراد کو اپنے تعلقات کی بناء پر نوکری دلوائی۔ آپ ہر کسی کے لئے مشکل وقت میں کھڑے ہونے والے تھے۔ ایک دوست مکرم عبد المجید خاں نے کہا کہ آج آپ ایک عظیم دعا گو ہستی سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہرایک کو لگتا تھا کہ وہ اس کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ آپ سے بات کر کے ہر شخص تسلی پاتا اور دل کی ڈھارس بندھاتا تھا۔

علاقہ کے ایک انٹر سکول کے پرنسپل ابو جی کے بارے میں ایک سرکاری بیان دینے اور تصدیق کرنے کے لئے ہمارے گھر آئے۔ انہوں نے اپنے سکول پیڈ پر نیچے مہر لگائی، دستخط کئے اور خالی کاغذ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں نے کہا کہ مجھے شعبہ تدریس کی اصطلاحی زبان نہیں آتی۔ اس لئے آپ ہی اپنے طریقے سے لکھ دیں اور کبھی بھی کسی کو اس طرح مہر لگا کر خالی کاغذ نہ دیں۔ یہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ سامنے والا اس پر کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔ پرنسپل صاحب نے جواب میں کہا کہ ثناء اللہ بٹ صاحب کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ میری یہ اوقات نہیں کہ ان کے بارے میں کچھ بھی لکھ سکوں اور رہی بات خطرے کی تو جو نیکیاں انہوں نے میرے ساتھ کیں ہیں ان کے بدلے آپ جو بھی لکھ لیں مجھے قبول ہے۔ میں ہر قسم کا رسک لینے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کل رات میں اپنے بستر پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ بٹ صاحب کے جانے کے بعد اس پورے علاقے میں دور دور تک کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو ان کی جگہ لے سکے۔

نیشنل بنک کی قریبی برانچ کے مینیجر صاحب نے مجھے بتایا کہ میرا ثناء اللہ صاحب کے ساتھ چند ماہ کا ساتھ رہا۔ کیونکہ میں تقریباً ایک سال پہلے ٹرانسفر ہو کر یہاں آیا تھا۔ بٹ صاحب میرے اتنے قریب ہو گئے تھے کہ کبھی نہیں لگتا تھا کہ میں ان کی بیٹوں کی عمر کا ہوں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر ہمیشہ اس طرح لطف اندوز ہوتا تھا کہ جیسے میرے ہم عمر دوست ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک دن میرے پاس ایک شخص آیا اور میرے نام کا وزٹنگ کارڈز کا ایک بڑا بنڈل دے کر چلا گیا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں نے تو کارڈز بنوانے کا کوئی آرڈر نہیں دیا تھا۔ ایک ہفتے کے بعد بٹ صاحب کا فون آیا کہ میں نے آپ کے وزٹنگ کارڈز بنوا کر بھجوائے تھے۔ کیا آپ کو مل گئے ہیں؟ آپ مینیجر ہیں۔ آپ کو بہت سے لوگ ملنے آتے ہیں۔ اس لئے آپ کے پاس کارڈ ہونے چاہئے۔

ابو جی کے ایک دوست بتاتے ہیں کہ میں بہت دفعہ محکمہ تعلیم کے سلسلہ میں غریب لوگوں کو لے کر بٹ صاحب کے پاس جاتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ آدمی غریب ہے۔ خرچہ نہیں کر سکتا۔ اگر ہو سکے تو اس کی مدد کر دیں۔ تو وہ ہمیشہ یہ کہتے کہ آپ فکر نہ کریں۔ اس کا کام ہو جائے گا اور پھر اپنی جیب سے خرچ کر کے اپنی ذاتی موٹر سائیکل پر کئی کئی دفعہ نارووال، سیالکوٹ یا گوجرانوالہ کے چکر لگاتے اور کام مکمل کر کے دیتے۔

خاکسار کے ایک بھائیوں جیسے دوست ہیں جو مربی سلسلہ ہیں۔ ان کا نام ہے مکرم شیخ عبد الوکیل۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’آپ کے والد محترم سے خاکسار کا ایک ذاتی تعلق بھی تھا اور وہ نہایت ہی ہر دلعزیز اور صائب الرائے شخصیت کے مالک تھے اور دوسروں کے درد کا نہ صرف احساس کرتے تھے بلکہ مشکل وقت میں نہایت ہی موزوں مشوروں سے بھی نوازتے تھے۔ یقیناً انہیں ایک لمبا زندگی کا تجربہ تھا جو غم و خوشی مصائب و آسائش کے بعد انہیں عطاء ہوا تھا۔ ہمیشہ خاکسار نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور یقیناً آئندہ زندگی میں بھی ان کی قیمتی باتیں ہمارے لئے مشعل راہ رہیں گی۔‘‘

اسی طرح پیارے آقا کو خط میں موصوف نے میرے والد صاحب کے بارے میں لکھا کہ ’’پیارے حضور انور! مرحوم نہایت ہی ہر دلعزیز شخصیت تھے اور واقفین سے نہایت ہی محبت اور احترام کا سلوک فرماتے۔ خاکسار کا گھر چونکہ کوئٹہ میں تھا اور مرحوم کو یہ بات معلوم تھی کہ جامعہ میں جب مختصر دنوں کے لئے چھٹیاں ہوتی ہیں تو ہمیشہ اپنے بیٹے سے کہتے کہ جب کم چھٹیاں ہوں اور عبد الوکیل یعنی خاکسار کوئٹہ نہ جا سکے تو اپنے ساتھ اپنے گھر لے آنا اور جب بھی خاکسار ان کے گھر جاتا تو نہایت ہی محبت سے پیش آتے اور مہمان نوازی کا ہر ممکن حق ادا کرتے اور واپسی پر اگر اپنے بیٹے کو کچھ دیتے تو خاکسار کو ازراہ شفقت کچھ نہ کچھ ضرور دیتے اور کہتے کہ جیسا یہ میرا بیٹا ہے آپ بھی میرے بیٹے ہو۔۔۔ مرحوم کے بیٹے افریقہ سے آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سفر میں ان کا حامی و ناصر ہو اور ان کے بیوی بچوں کی اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے اور انہیں بھی ہمت و حوصلہ عطاء فرمائے اور جن مسلسل قربانیوں سے ان کا واقف زندگی بیٹا، بہو، پوتے اور پوتی گزر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کے حقیقی ثمرات عطاء فرماتے ہوئے ان سب کو اپنی رضائے عظیم کی نعمت سے نوازے۔ آمین۔‘‘

تقریباً بیس کلومیٹر دور ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کہتی ہیں کہ میں نے ایک شخص سے پانچ لاکھ روپے لینے تھے۔ جو دے نہیں رہا تھا اور مجھے لمبے عرصے سے تنگ کر رہا تھا۔ مجھے کسی نے کہا کہ تمہارا کام ماسٹر ثناء اللہ کر سکتا ہے۔ میں آپ سے پہلے کبھی نہ ملی تھی۔ میں لوگوں سے گھر کا پتہ پوچھتی ہوئی آپ کے گھر پہنچی اور آپ سے مل کر اپنا مسئلہ بیان کیا۔ ماسٹر صاحب نے کہا کہ آپ جائیں۔ آپ کا کام ہو جائے گا۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے انہوں نے فون کیا کہ میں بدوملہی فلاں دکان پر بیٹھا ہوں۔ کسی کو بھیج کر اپنے پیسے لےجائیں۔ میں نے کہا کہ اس وقت گھر میں کوئی نہیں ہے جس کو بھیج سکوں۔ اس پر میرے گھر کا ایڈریس پوچھا اور میرے گھر آکر مجھے پیسے دے کر گئے اور میرے کہنے کے باوجود بھی کوئی رقم اس میں سے نہ لی۔

ہمارے ایک عزیز مکرم فیاض احمد صاحب جو کہ غیر احمدی ہیں، کہتے ہیں کہ میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جتنا پیار مجھے ان سے ملا ہے اتنا اپنے سگے باپ سے بھی نہیں ملا۔ بالکل یہی الفاظ ایک اور دوست مکرم شعیب حسین کے تھے۔

ہماری گلی کی ایک غیر احمدی عورت ہے جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اس کا خاوند کافی عرصہ سے بیمار اور صاحبِ فراش ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جس طرح انکل مجھے مشکل کی اس گھڑی میں تسلی اور حوصلہ دیتے ہیں ویسا کبھی میرے اپنے باپ یا سسر نے بھی نہیں دیا۔ انکل ہر دوسرے تیسرے دن آ جاتے تھے اور دو دو گھنٹے میرے اور میرے خاوند کے پاس بیٹھتے اور مسلسل ہمت بڑھاتے رہتے تھے۔ میں جب کبھی دکان) میرے بھائی کی دکان ہے جس پر زیادہ تر ابو جان بیٹھا کرتے تھے (پر کوئی چیز لینے جاتی تو مجھ سے پیسے نہ لیتے اور کہتے کہ رہنے دو۔ اپنے پاس رکھو۔ تمہارا شوہر بیمار ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ضرورت پڑ جاتی ہے۔

دعا کی درخواست

معزز قارئین! میرے والد محترم محض ایک والد نہیں تھے۔ آپ ایک عظیم انسان، اعلیٰ استاد، دوست، ہمدرد، انسانیت کے غمگسار اور ہمارے لئے دعاؤں کا خزانہ تھے۔ ایسے نافع الناس و نافع الدین وجود تھے جو روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ ہم اپنے خدا کی رضا پر راضی ہیں اور اس بات سے پناہ مانگتے ہیں کہ کوئی شکوہ شکایت کا کلمہ ہمارے منہ سے نکلے۔ ہم اپنے پیارے آقا ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ

اِنَۤ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَ الْقَلْبُ یَحْزَنُ وَ لَا نَقُوْلُ اِلَۤا مَا یَرْضَی رَبُۤنَا، وَ اِنَۤا بِفَرَاقِکَ۔۔۔لَمَحْزُوْنُوْنَ۔‘‘

(صحیح بخاری حدیث نمبر 1303)

یقیناً آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم زبان سے صرف وہی کہیں گے جو ہمارے رب کو پسند ہے اور ہم (اے ابو جان) آپ کی جدائی سے غمزدہ ہیں۔

خاکسار تمام قارئین سے درخواست گزار ہے کہ میرے والد محترم کی مغفرت کی دعا کریں اور یہ بھی دعا کریں کہ اس بہت ہی مشکل گھڑی میں اللہ تعالیٰ ہمارا ہاتھ تھامے رکھے۔ کبھی ہمیں مت چھوڑے۔ کبھی ہم سے ناراض نہ ہو اور اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپے رکھے۔ ہمیں صبر عطاء فرمائے۔ اسلام احمدیت اور خلافت سے جوڑے رکھے۔ خاص طور پر ہماری والدہ محترمہ کو ان حالات میں اللہ تعالیٰ سنبھالے۔ ہمت دے۔ سوچوں اور فکروں سے محفوظ رکھے۔ ہر کام کے اپنی جناب سے سامان کرتا رہے۔ ہمیں حاسدوں، منافقوں اور دشمنوں کے شر سے بھی بچائے۔ والد مرحوم کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

(مسعود احمد طاہر۔ نمائندہ الفضل آئن لائن گیمبیا)

پچھلا پڑھیں

فقہی کارنر (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ