جو بنجر موسموں میں بارشوں کے گیت گاتے ہیں
جو کر کے ہاتھ زخمی راہ سے کانٹے اُٹھاتے ہیں
وہ جن کے ہاتھ میں دیپک دعا کے جِھلملاتے ہیں
جو تتلی پھول اور خُوشبو کے موسم ساتھ لاتے ہیں
ابھی وہ لوگ باقی ہیں
جو اپنی ذات کی پرچھائیں سے آگے نکل جائیں
کسی کی آنکھ کے آنسُو ستاروں سے بدل جائیں
وہ جن کی مُسکراہٹ دیکھ کر دِیپک سے جل جائیں
وہ جن کا نام سن کر خواب آنکھوں میں مچل جائیں
وہ جن کو دیکھ کر سب درد کے سورج پگھل جائیں
ابھی وہ لوگ باقی ہیں
جو اپنے نام سے انسانیت کو معتبَر کر دیں
کسی کی شب گَزیدہ زندگی مثلِ سَحر کر دیں
محبت سے نگاہ ڈالیں تو ذرّوں کو گہر کر دیں
مِلائیں ہاتھ وہ ایسے کہ خوشبُو ہم سفر کر دیں
جو پتھر کھائیں، دیکھیں، مسکرائیں، درگزر کردیں
ابھی وہ لوگ باقی ہیں
جو شہرِ بے وفا میں بھی کیا وعدہ نِبھاتے ہیں
جو خود ناکام ہو کر بھی، کسی کے کام آتے ہیں
جو بچھڑی کُونج کو پھر ڈار سے واپس مِلاتے ہیں
جو زخمی فاختہ کو گھونسلے تک چھوڑ آتے ہیں
اُسے تنہائیوں میں موت کے دُکھ سے بچاتے ہیں
ابھی وہ لوگ باقی ہیں
وہ جن کی آنکھ کے اندر چھپے سیلاب ہوتے ہیں
مگر اُن کی دعا میں سو ادب آداب ہوتے ہیں
وہ جن کے اپنے پاؤں میں کئی گرداب ہوتے ہیں
مگر وہ روح کی پاتال تک شاداب ہوتے ہیں
وہ ایسے لوگ جو ہر دور میں نایاب ہوتے ہیں
ابھی وہ لوگ باقی ہیں
(مبارک صدیقی۔لندن)