• 16 جون, 2025

میری پیاری امی جان کی کچھ یادیں

میری امّی جان مکرمہ امۃ القیوم زوجہ ملک مظفر احمد 1944ء میں ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں ٹھروہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام چوہدری عبدالعزیز تھا۔ آپ مذہبی لحاظ سے ایک بہت مخلص گھرانے میں پیدا ہوئیں یہی اخلاص و وفا آپ نے آخری دم تک نبھایا ۔آپ کے دادا جان حضرت چوہدری مولا داد نے 1904ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لائے تو اُن کے ہاتھ پہ شرفِ بیعت حاصل کیا اور پھر میرے نانا جان نے اپنے علاقہ کے رہنے والے اِردگرد کے بہت سے لوگوں کو تبلیغ کرکے احمدیت میں شامل کیا ۔آپ خدا کے فضل سے بہت بڑے داعی الیٰ اللہ تھے۔ میری امّی جان نے اسی دینی ماحول میں آنکھ کھولی۔ آپ ہمیشہ نماز ،روزے کی پابندی رہیں۔ قرآن مجید سے بے انتہا محبت تھی اور تمام جماعتی چندے باقاعدگی سے ادا کرنے والی تھی۔

روزانہ بڑے اہتمام سے قرآن مجید کی تلاوت کرتیں اور رمضان کے مہینے میں قرآن مجید کے تین یا چار دَور مکمل کر تیں۔ اپنی وفات سے ایک گھنٹہ قبل بھی عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد قرآن مجید پڑھ رہی تھیں کہ اچانک انہیں سینے میں دَرد شروع ہوئی،قرآن مجید کو الماری میں رکھ کر لیٹ گئیں ، آنکھیں بند کرلیں اور اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئیں۔ گو کہ ایک لمبے عرصہ سے انہیں شوگر اور بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق تھا۔ لیکن اپنی وفات والے دن وہ بالکل ٹھیک تھیں۔ انہوں نے اپنے سارے کام خود کئے، اپنے ہاتھوں سے دوپہر کا کھانا بنایا، خود کھایا اور میرے والد صاحب کو بھی دیا ۔کھانا کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کر کے اُٹھیں اور اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پی اور پھر باوضو ہوکر عصر کی نماز پڑھی اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگیں تو طبیعت خراب ہوگئی۔

5 نومبر 2018 ء کا دن ہم سب بہن بھائیوں کے لئے بہت دُکھ بھرا دن تھا ۔ کیونکہ ہم سب دیارِغیرمیں تھے اور امّی جان کی اچانک وفات کی اطلاع ہمارے لئے بہت بڑا صدمہ تھا ۔لیکن ہمارے لَبوں پہ بس یہی الفاظ تھے کہ ؎

’’راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہو‘‘

آپ نے اپنے 6 بچوں کی پرورش انتہائی سمجھداری سے کی۔ انہیں دینی اور دُنیاوی تعلیم سے آراستہ کیا ۔آپ تربیتِ اولاد کے گُر بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کو جو چیز سب سے پہلے سکھائی، وہ جھوٹ سے نفرت اور سچ سے پیار تھا ۔ہمیشہ کہا کہ جھوٹ تمام بُرائیوں کی جڑ ہے اور کہا کہ کبھی مشکل کے وقت بھی جھوٹ کا سہارا نہ لینا۔ اگر ایک دفعہ یہ عادت پڑ جائے تو پھر اس بد عادت سے چھٹکارا نہیں ملتا۔ پیاری امّی جان میں ایک اور نمایاں خوبی آپ کی ایمانداری تھی۔ آپ کے اِردگرد رہنے والے سبھی لوگ آپ کی اس عادت سے واقف تھے، محلّے کے لوگ اپنی امانتیں بےفکر ہوکر آپ کے پاس رکھواتے۔ میرے والد صاحب کی ایک چچی تھیں جو کہ بوڑھی ہونے کے ساتھ ساتھ اَن پڑھ بھی تھیں اور پیسوں کا حساب نہ کر پاتیں تو امّی جان کے پاس آتیں اور باہر صحن میں بیٹھ کر اُونچی اُونچی آوازیں دیتیں کہ باہر آؤ ۔سب کام چھوڑ کر پہلے میرے پیسوں کا حساب کر دو۔ جب مَیں کہتی کہ لائیں مَیں کر دیتی ہوں تو کہتیں کہ نہیں مجھے صرف اُسی پہ اعتبار ہے اُس کو بلاؤ۔

اسی طرح خاکسار کے بڑے بھائی ملک مطہر احمد جو کہ اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں، اُن کے بچپن کا ایک واقعہ ہے اور حقیقت میں ہر ماں کے لئے قابلِ تقلید ہے کہ میرے بھائی جان جن کی عمر اُس وقت 10 سال تھی، تو اُس وقت بچے پاکستان میں عیدمبارک والے کرنسی نوٹوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ تو میرے بھائی کو بھی کہیں سے 100 روپے کا جعلی نوٹ ملا اور امّی جان کو دکھا کر کہنے لگے کہ امّی یہ دیکھیں یہ نوٹ تو اصلی لگتا ہےمگر امّی جان نے کہا کہ یہ جعلی ہے اور کہیں استعمال مت کرنا، کیونکہ ایسا کرنا دھوکا ہے۔لیکن بھائی کا ذہن بچوں والا ہی تھا، اس لئے انہوں نے وہ نوٹ اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر گھر کے سامنے والی کریانہ کی دُکان پہ دیا تو اُس نے اصلی سمجھ کر رکھ لیا۔ 10 روپے کے بسکٹ دیئے اور باقی90 روپے واپس کردیئے۔ بھائی جب گھر آئے اور امّی جان کو بتایا کہ دیکھیں میں نے جعلی نوٹ چلا لیا ہے۔ تو امّی جان سخت ناراض ہوئیں اور اسی وقت بھائی کو ساتھ لیا اور جا کر دُکاندارکو بتایا کہ تمہیں پتا نہیں چلا لیکن وہ نوٹ جعلی تھا ،تم یہ اپنے بِسکٹ بھی رکھو اور پیسے بھی۔ تو یہ تھا تربیتِ اولاد کا وہ خوبصورت انداز کے جسے ہر ماں کو اپنانا چاہئے۔ کیونکہ اُس وقت اگر وہ اپنے بیٹے کو نہ بتاتیں تو بچہ یہی سمجھتا کہ میں نے کوئی بُرا کام نہیں کیا۔اور اس کو آئندہ بھی ایسا کرنے کا رحجان مل جاتا۔ آپ نے ہمیشہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ادا کئے۔ اپنے سے جُڑے ہوئے ہر رشتے کو بہت عزت اور احترام دیا۔خاص طور پر اپنے سسرالی رشتوں کو بہت عزت دی اور اُن کی بہت خدمت کی ۔

خاکسار کے والد صاحب خدا کے فضل سے 12 بھائی تھے لیکن میرے دادا جان اور دادی جان کی تمام بہوؤں میں سے صرف میری امّی جان کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ انہوں نے اپنے ساس، سُسر کی خدمت کی اور ساری زندگی اُن کے ساتھ رہیں۔ ہمیشہ ہر کسی کی بات کو صبر اور حوصلے سے سنا ۔آپ صبر و وفا کا پیکر تھیں۔ اگر ہم بہن بھائیوں میں سے کچھ کہنے کی کوشش کرتا تو ہمیشہ منع کر دیتیں کہ نہیں آپ نے غلط بات کے جواب میں ویسا نہیں کرنا ۔خدا تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور وہ خود فیصلہ کرے گا۔

آپ خدا تعالیٰ پر بہت زیادہ توکل رکھنے والی خاتون تھیں۔خدا تعالیٰ نے اُنہیں اپنے بےانتہا فضلوں سے نوازا۔اِس دُنیا میں ہی خدا تعالیٰ نے اُنہیں بہت سکون دے رکھا تھا۔ اپنے بچوں کی طرف سے بہت خوش اور مطمئن تھیں کہ سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ اگر امّی جان کو دُعا پر یقین تھا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کی دُعائیں بہت سنیں۔ آپ کا خدا تعالیٰ پر ایمان اس قدر مضبوط تھا کہ اگر کوئی عورت ایسی شرک والی بات کرتی تو اُسے فوراًمنع کر دیتیں اور سمجھاتیں کہ ہر چیز پر قادر خدا ہے۔ آپ کے توکل علیٰ اللہ کے ضمن میں ہی ایک واقعہ ہے کہ غیراحمدیوں میں شاید یہ کوئی بدعت تھی کہ جب کسی عورت کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا تو ایسی عورت کو گھر میں آنے سے منع کردیا جاتا جس کا کوئی بیٹا نہ ہوتا ۔ جب ہمارے چھوٹے بھائی کی پیدائش ہوئی تو ہمارے محلّے میں ایک عورت رہتی تھی جس کی تین بیٹیاں تھیں بیٹا نہیں تھا۔ وہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھیں لیکن میرے بھائی کی پیدائش کے بعد اُس نے آنا بند کر دیا ۔ایک دن وہ گلی سے گزر رہی تھی توامّی جان نےاُس عورت کو آواز دے کر بُلایا اور کہا کہ گھر کے اندر آؤ ، کیا بات ہے، اب تم کیوں نہیں آتی ۔تو اُس نے جواب دیا کہ میرا دل تو بہت کرتا تھا کہ آپ کے گھر آؤں اور بچے کو دیکھو لیکن مجھے ڈر تھا کہ اگر میرے جانے سے بچے کو کچھ ہوگیا اور جب بھی کسی کے گھر میں بچے کی ولادت ہوتی ہے تو وہ یہی چاہتا ہے کہ مَیں اُن کے گھر نہ جاؤں۔ جب امّی جان نے اُس کی بات سُن لی تو اُسے اپنے پاس بٹھایا اورسمجھایا کہ دیکھو صرف خدا کی ذات باقی رہنے والی ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کوئی چیز اپنے بندے کو دیتا ہے تو پھر کوئی کیسے لے سکتا ہے اور یہ کہہ کر میرے بھائی کو اُس عورت کی گود میں دے دیا ۔وہ بہت خوش ہوئی اور اُس نے کہا کہ میں نے آج تک کسی عورت کا اللہ تعالیٰ پر اس قدر یقین نہیں دیکھا ۔

امّی جان کی طبیعت میں عاجزی اس قدر تھی کہ اپنے آپ کو کبھی کچھ نہیں سمجھا ۔کوئی بھی گھر میں آجاتا تو اُسے عزت سے بٹھاتیں اور بڑے تحمل سے اُس کی بات کو سنتیں۔ ہمیشہ اپنی تکلیف کو بھول کر دوسروں کے لئے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتیں۔ دوران بیماری امّی جان دو تین بار ہسپتال میں داخل ہوئیں تو خاکسار کو امّی جان کی دیکھ بھال کے لئے ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ اس دوران مَیں نے محسوس کیا کہ آپ اپنی تکلیف کو بھول کر میرا خیال رکھتیں اور مجھے کہتی رہتیں کہ آرام کر لو تم تھک گئی ہوگی اور جب مَیں کہتی کہ نہیں امّی جان مجھے تو آپ کی فکر ہے تو کہتیں کہ مَیں اب ٹھیک ہوں ،میری فکر مت کرو۔ بہت حساس طبیعت کی مالک تھیں۔

جماعتی لٹریچر اور کتب کا مطالعہ بہت شوق سے کرتیں۔ خاکسار کے پاس سیرت وسوانح حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگمؓ تھی ،تو ایک دن پوچھنے لگیں کہ آپ نے وہ کتاب پڑھ لی ہے۔ مَیں نے جواباً کہا کہ جی میں نے پڑھ لی ہے تو کہنے لگیں کہ اب مجھے دے دو ،مَیں نے بھی پڑھنی ہے۔ مَیں نے وہ کتاب امّی جان کو دے دی۔ جس کا انہوں نے ایک ایک صفحہ غور سے پڑھا اور بعد میں مجھے اس کتاب میں لکھے گئے واقعات کے بارے میں بتاتی رہیں۔ اکثر نظمیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے اشعار زبانی یاد تھے۔

بچپن میں جب سونے کے لئے ہمیں اپنے پاس لِٹاتیں، تو اُونچی آواز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار اور نظمیں پڑھا کرتیں۔ سب سے پہلے جو نظم امّی جان نے ہم سب بہن بھائیوں کو سکھائی، وہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ کی یہ نظم تھی۔ ؎

’’قرآن سب سے اچھا، قرآن سب سے پیارا‘‘

جب بھی کبھی پریشان ہوتیں تو بہت دُعائیں کرتیں اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتیں۔

بارگاہِ اِیزدی سے تُو نہ یوں مایوس ہو
مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کُشا کے سامنے

قرآن مجید کی تلاوت بہت ذوق و شوق سے اور اُونچی آواز میں کرتیں۔ اسی وجہ سے ایک دن ہمارے ہمسائے میں ایک عورت تھی جس نے کہیں سے سن لیا تھا کہ احمدی کافر ہیں ۔وہ نماز اور قرآن نہیں پڑھتے ۔ایک دن جب امّی جان صحن میں بیٹھ کر تلاوت کر رہی تھیں تو اُس عورت نے اپنی چھت پر کھڑے ہو کر امّی جان کی تلاوت سُن لی۔ تو کہنے لگی کہ آپ کو کون کہتا ہے کہ آپ لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ آپ تو اتنی اچھی تلاوت کرتی ہیں۔

جب میں امّی جان کے لئے یہ مضمون لکھ رہی تھی تو میرے والد صاحب جوکہ اس وقت کینیڈا میں ہیں۔

میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ امّی جان کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔ تو انہوں نے جواباً کہا کہ بیٹی !مَیں کیا بتاؤں ،آپ کو تو سب پتا ہے۔ لیکن اگر بحیثیت خاوند میں اُس کی گواہی دوں تو مَیں تو یہی کہوں گا کہ آپ کی ماں ایک انتہائی صابر وشاکر اور نرم دل خاتون تھیں اور بحیثیت بیوی بہت ہی وفا شعار اور اطاعت گزار تھیں۔ ہمیشہ میری خوشی کا احترام کرتیں، میرے گھر کو سنبھالا۔ زندگی کے ہر دُکھ اور سُکھ میں میرا ساتھ دیا ۔دُعاؤں پر یقین رکھتے ہوئے ہمیشہ مجھے حوصلہ دیا اور اپنا ہر معاملہ خدا کے سپرد کرنے کا کہتیں کہ خدا تعالیٰ بہتر کرے گا اور اگر کوئی پریشانی ہوتی تو یہ الفاظ آپ کے منہ سے نکلتے۔

’’اچھا جو میرے اللہ کو منظور ہے‘‘

جون 2017ء میں خاکسار دَوران وقف اپنی چھٹی پر پاکستان گئی تو تین ماہ اپنی امّی جان کے ساتھ گزارے۔ میرے اور میرے بچوں کے ساتھ بہت خوش رہیں اور واپس افریقہ آنے سے ایک دن پہلے مجھے کہنے لگیں کہ بہت اچھا کیا جو تم ملنے آ گئی کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور پھر تم تو بہت دُوررہتی ہو۔ وہاں سے آنا بھی اتنی جلدی ممکن نہیں لیکن اگر مجھے کچھ ہوگیا اور ایسے حالات ہوگئے کہ تم نہ آسکو تو صبر کر لینا اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنا۔ یہی وہ باتیں ہیں جو بہت یاد آتی ہیں۔آپ موصیہ تھیں اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئیں۔ یہ دُنیا عارضی ہے اور ہر چیز کو فنا ہے ۔ہمیں بھی وہیں جانا ہے۔

اللہ تعالیٰ میری پیاری امّی جان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور اُن کی اولاد کو ہمیشہ اُن کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین

بُلانے والا ہے سب سے پیارا
اُسی پہ اے دل! تُو جاں فدا کر

(تہمینہ مظفر۔ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

اک اسیر راہ مولا آج رخصت ہو گیا

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ