• 18 اپریل, 2024

سورتوں کا تعارف

سورۃ النبا (78 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 41آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن( حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003ء)

وقت نزول اور سیاق و سباق

اس سورۃ کا نام النبا (یعنی اہم خبر) ہے کیونکہ یہ غیر معمولی اہمیت کے حامل مضامین کو بیان کرتی ہے جیسے قیامت پر یقین، قرآن کریم کی جملہ الٰہی صحف پر برتری اور اسلام کی جملہ مذاہب پر برتری۔ فیصلے کا دن یعنی جس دن قرآن کریم کا دعویٰ بر حق ثابت ہوگا، کا ذکر سابقہ سورۃ میں دو مرتبہ ہوا ہے اور موجودہ سورۃ میں بھی اس کا ذکر ہے۔ مسلمان مفسروں کے مطابق یہ سورۃ آپ ﷺ کی نبوت کے بالکل ابتداء میں مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ نوڈلکے نے بھی مسلمان علماء کی اس رائے سے اتفاق کیاہے۔

اس سورۃ کا آغاز انسان پر کی گئی بے شمار الٰہی نعمتوں سے ہوا ہے اور انسان کی توجہ اس امر پر مرکوز کروائی گئی ہے کہ انسان کو زمین پر ایک خاص مقصد کے تحت بھجوایا گیا ہے اور یہ عارضی زندگی دراصل ایک مستقل زندگی کے لئے بطور بیج کے ہے اور اس زندگی کا اختتام دراصل قیامت کے برپا ہونے والے دن ہوگا۔ پھر اس سورۃ میں مختصر مگر متاثر کن تصویرکشی کے ذریعہ قیامت کے دن کا حال بیان ہوا ہے اور الٰہی نعمتوں کی بھی نہایت دلکش منظر کشی کی گئی ہے جو متقیوں کے انتظار میں ہے اور اس ہیبت ناک سزا کا بھی ذکر ہے جو حق کے مخالفوں اور جھٹلانے والوں کو اس دنیا اور آخرت میں ملے گی۔

سورۃ النازعات (79 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 47آیات ہیں)

عمومی رائے

جملہ مستندراویوں بشمول حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن زبیرؓ کے سب متفق ہیں کہ اپنی سابقہ سورۃ (النبا) کی طرح یہ سورۃ بھی نہایت ابتدائی مکی دور کی ہے۔ سابقہ سورۃ میں مسلمانوں سے اس دنیا میں طاقت، کامیابی اور برتری کا وعدہ کیا گیا تھا۔ موجودہ سورۃ میں ایسے راستوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ایسے ذرائع کا جن پر چل کر مسلمان ان چیزوں کو حاصل کر سکتے ہیں اور ایسے نشانات اور ذرائع بھی جو اس وعدہ کے پورا ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس سورۃ کا آغاز آپ ﷺ کے صحابہ کے کردار کی چند صفات کے بیان سے ہوا ہے اور دوسرے نیک لوگوں کی صفات کا بھی کہ ان صفات کو اپنانے سے وہ شان و شوکت، طاقت اور فتح حاصل ہوگی۔ اس سورۃ میں مزید بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو طاقت کا حصول جنگوں کے بعد ہوگا جو اسلام کے دشمنوں کی کمر توڑ دیں گی۔ اس حوالہ سے فرعون کی مثال دی گئی ہے کہ حق کی مخالفت کبھی سزا کے بغیر نہیں رہتی۔

پھر مسلمانوں کی نہایت ابتدائی اور کمزوری کی حالت میں اسلام کے شاندار مستقبل کی بابت پیشگوئیاں کی گئی ہیں جو اس حالت میں بظاہر نا ممکن تھیں مگر وہ عالی مرتبہ خدا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور اس میں دریا اور پہاڑ اور سڑکیںبنائیں وہ غیر ممکن کو ممکن میں بدلنے کی قوت رکھتا ہے اوریہ بھی کہ خدا اگلے جہان میں مردہ کو نئی زندگی بخش سکتا ہے۔ اس سورۃکے اختتام پر یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ عظیم کارنامہ وقوع پذیر ہوگا یعنی اسلام کی فتح یا قیامت کا برپا ہونا، تو مجرموں کو آگ میں ڈالا جائے گا مگر وہ متقی جو تقویٰ سے زندگی بسر کرنے والے ہوں گے وہ جنت کی نعماء سے متمتع ہوں گے۔

سورۃعبس (80 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 43آیات ہیں)

سیاق و سباق اور مضامین کا خلاصہ

یہ سورۃ بھی اپنی سابقہ دو سورتوں (سورۃ النبا اور سورۃ النازعات) کی طرح ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی۔ نوڈلکے اور میور بھی دیگر مسلمان علماء کی طرح یہی رائے رکھتے ہیں۔

سابقہ سورۃ (النازعات) کے اختتام پر آپ ﷺ کو یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کا فرض ہے کہ اپنی قوم کو الٰہی پیغام کھول کھول کر سنا دیں۔ موجودہ سورۃ حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم کے واقعہ سے شروع ہوتی ہے اور یہ اخلاقی سبق سکھاتی ہے کہ دنیاوی مال و متاع اور عالی مرتبت سے کسی انسان کی حقیقی وقعت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا مگر اس کے دل کی نیکی سے اور حق کی بات کو سننے کی لگن سے ایسا اندازہ لگانا ممکن ہے۔ اس سورۃ میں آپ ﷺ کو خاص طور غریب اور مظلوم لوگوں کے جذبات کی حساسیت کا خیال رکھنے کےاحساسات کی توجہ دلائی گئی ہے۔ اس سورۃ میں مزید بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم جو جملہ انسانیت کے لئے آخری الٰہی کتاب ہے اس کی تعظیم ہمیشہ قائم رہے گی اور دنیا کے کناروں تک پڑھی جاتی رہے گی اور محفوظ رہے گی۔ اس سورۃ کے اختتام پر کفار کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اس الٰہی پیغام کو جھٹلایا اور آپ ﷺ کی مخالفت پر کمر بستہ رہے تو انہیں ایک ایسے دن کا سامنا کرنا ہوگا جب بے چارگی، شرمندگی اور رسوائی ان کا مقدرہوں گے۔ جبکہ نیک اعمال بجا لانے والے مومن نعمتوں والی جنت میں ہوں گے اور ان کے چہرے خدائی خوشنودی اور رضا کے باعث خوب منور ہوں گے۔

سورۃالتکویر (81 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 30آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ ابتدائی مکی دور کی ہے، ممکنہ طور پر نبوت کے چھٹے سال کی یا اس سے کچھ قبل کی ہے۔ سابقہ سورتوں میں قیامت کے برپا ہونے کا ذکر ہے اور ایک عظیم الشان انقلاب کا بھی جو آپ ﷺ کے ذریعہ آپ ﷺ کے صحابہ میں برپا ہوا اور جس انقلاب کو قرآن کریم نے قیامت کا نام دیاہے۔ اس قیامت (روحانی انقلاب) نے دو مرتبہ وقوع پذیر ہونا تھا، پہلے خود آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ اور دوسری مرتبہ آپ ﷺ کی آمد ثانی کے ساتھ جو آپ ﷺ کے نائب کے طور پر ظاہر ہونا تھا یعنی مسیح موعود اور امام مہدی کے ذریعہ۔ جس کی آمد کا بہت واضح اشارہ سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر چار میں ہے۔ یہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہے جو امام مہدی اور مسیح موعود کے ہاتھوں ہونا مقدر تھی اور ان عظیم الشان تبدیلیوں (مادی ترقیات) کا بھی جن کا اس سورۃ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس سورۃ کا آغاز ان حیرت انگیز تبدیلیوں سے کیا گیا ہے اور پھر اس عارضی اخلاقی پسماندگی کا ذکر ہے جو اس دور کے مسلمانوں میں راہ پا لے گی اور اس سورۃ کا اختتام اس امید اور خوشخبری کے ساتھ ہوا ہے کہ ایسے وقت میں مسلمانوں سے وعدہ کیا گیاہے کہ اچانک مسلمانوں کی تاریکی دن کے طلوع ہونے کی روشنی اور کامیابی سے بدل جائے گی کیونکہ اسلام خدا کا آخری پیغام ہے جو جملہ انسانیت کے لئے آیا ہے اور قیامت تک قائم رہے گا۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جون 2021

اگلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام ڈاک