• 26 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے شدید مخالف

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے شدید مخالف
اور معاند رشتے داروں سے حسن ِسلوک

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اسکا شریک نہ ٹھہرائو اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسائیوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسائیوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بھگارنے والا ہو۔’’

(سورۃ النساء آیت 37 ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
‘‘حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جب تک ایک منظم رنگ میں ادا نہ کیا جائے اس وقت تک انسان نیکی کا اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ ’’

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 356)

حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہےکہ جسے پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراخی دی جائے یا اسکی عمر لمبی کی جائے تو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے ’’

(صحیح مسلم جلد سیز دہم کتاب البر و الصلۃ ولاداب حدیث نمبر4742 ازنور فائونڈیشن قادیان2012ء)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ تو اپنے سچے معشوق حضرت محمد مصطفیٰؐ احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی عملی تصویر تھے اور جس قدر محبت اور عشق کا تعلق آپؐ کی ذات با برکات کے ساتھ تھا اُسی قدر آپ ؐ کے ہر قول پر عمل پیرا ہو نیکی کوشش بھی ہوتی تھی۔ غرض اُس پاک نبی ؐ کے اسوہ کا بہترین نمونہ تو حضرت ِاقدس کی ذات ِ مبارک میں پنہاں تھا اسی لئے آپ علیہ السلام اپنے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہواور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جائو ۔۔۔نادانوں کو نصیحت کرو نہ کہ خود نمائی سے ان کی تذلیل اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو نہ خود پسندی سے ان پر تکبر ہلاکت کی راہوں سے ڈرو ۔۔۔ تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو باہم ایسے ایک ہو جائو جیسے ایک پیٹ میں دو بھائی تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے۔ ’’

(کشتی ٔنوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ11تا13)

اور اسی بات کا اظہار آپ اقدسؑ اپنے اس شعر مبارک میں فرماتے ہیں :

؎ گالیاں سن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دیکھائو انکسار

(روحانی خزائن جلد21 براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ144)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
‘‘قرآن شریف نے جسقدر والدین اور اولاداور دیگر اقرباء اور مساکین کے حقوق بیان کیے ہیں ۔میں نہیں خیال کرتا کہ وہ حقوق کسی اور کتاب میں لکھے گئے ہوں ۔’’

(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد نمبر23 صفحہ208تا209)

اس لیے ہمیشہ اپنے مخالفین اور اقارب کی بد زبانی کے جواب میں آپؑ نے خدا تعالیٰ کے آستانہ پر سر جھکا کر یہ دعا کی :
‘‘اے قادر و ذوالجلال خدا ،اے ہادی ورہنما !ان لوگوں کی آنکھیں کھول اورآپ ان کو بصیرت بخش اور آپ ان کے دلوں کو سچائی اور راستی کا الہام بخش اور یقین رکھتا ہوں کہ میری دعائیں خطا نہیں جائیں گی۔ ’’

(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ324)

یہ تھا آپؑ کا پاک نمونہ کہ اپنے مخالفین کے لئے بھی کوئی تعزیزی کارروائی پسند نہیں کی۔ فقط ایک دعا کا سہارا لیا اور تمام تر دنیاوی اسباب کو خدا پر چھوڑ دیا جوکہ ایک نبی کی شان کو ظاہر کرتا ہے ۔آپؑ کی تمام تر حیاتِ طیبہ کا جائزہ لیں تو یہ بات ظاہر و ثابت ہے کہ تمام تر مصائب اور مشکلات کے باوجود آپؑ نے اپنا تعلق فقط ایک خدائے واحدو یگانہ سے رکھا اور اس نے بھی اپنے بندے کی دلداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہاں تک کہ آپ ؑ کے والدِ محترم کی وفات کی خبر پاکر جہاں آپؑ پریشان ہوئے تو اُس نے اپنے پیار کا اظہار کرتے ہوئے ‘‘ اَلَیْسَ اللّٰہ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ’’کا الہام کیا اور پھر مزید محبت کا اظہار ‘‘مولابس ’’کی صورت میں ظاہر ہوا۔آپؑ کے والدِ محترم ہمیشہ اس خیال سے کہ آپؑ اپنے بڑے بھائی کے دستگیر نہ رہیں آپؑ کو اپنی زندگی میں حکماً مقدمات کی پیروی کا ارشاد فرما دیتے تھے لیکن بار طبع آپؑ کو اس شغل سے سخت نفرت تھی اس لئے جب مقدمہ میں آپؑ ہار گئے اور مقدمہ خارج ہو گیا تو آپؑ نے خوشی کا اظہار فرمایا کہ شُکر ہے کہ مقدمہ سے خلاصی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کی فرصت مِل گئی ۔

(ماخوذ از حیات طیبہ مؤلفہ شیخ عبد القادر مرحوم سوداگر مل صفحہ14تا 15 ایڈیشن2001ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)

آپؑ کے بڑے بیٹے مکرم مرزا سلطان احمدصاحب فرمایا کرتے تھے کہ والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں بلکہ فقیر کے طور پر گذاری ۔

(ماخوذ از حیات طیبہ مؤلفہ شیخ عبد القادر مرحوم سوداگر مل صفحہ14، 15۔ ایڈیشن2001ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)

آپؑ کےوالدِ محترم کی وفات کے بعد خاندانی جائیداد کے منتظم آپؑ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب تھے۔ آپؑ اگر چاہتے تو جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ کر کے اپنا حصہ لے سکتے تھے مگر آپؑ نے اس طرف قطعاً توجہ نہیں فرمائی بلکہ جو کچھ بھی کھانے پینے کو مِل جاتا اُسے بڑے بھائی کا احسان سمجھ کر قبول فرماتے اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لاتے ۔ آپؑ کی بھاوج کا سلوک آپؑ کے ساتھ بے پناہ سخت تھا لیکن آپؑ نے صبر و تحمل کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھایا جس کی مثال انبیائے اکرام کی پاکیزہ زندگیوں سے ہی مِل سکتی ہے۔ مذکورہ بالا ایّام آپ کے لئے انتہائی حوصلہ شکن تھے ۔ ایک دفعہ آپؑ نے اپنی کسی ضرورت کے لئے بھائی سے نہایت قلیل رقم منگوانی چاہی تو انہوں نے اسراف قرار دے کر رقم دینے سے انکار کر دیا لیکن خدا کی قدرت کہ آپکی بھاوج جن کے ہاتھوں آپکو بے پناہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا وہ آپکے ایک الہام کے تحت 1921ء میں بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئیں۔

(ماخوذ از حیات طیبہ مؤلفہ شیخ عبد القادر مرحوم سوداگر مل صفحہ39، 40 ایڈیشن2001ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)

آپکے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب نے جناب نواب سردار حیات خانصاحب کی بطور جج ملازمت سے معّطلی پر آپؑ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی جس کے نتیجہ میں وہ دوبارہ ملازمت پر بحال ہو گئے۔

(ماخوذ از حیات طیبہ مؤلفہ شیخ عبد القادر مرحوم سوداگر مل صفحہ44 ایڈیشن 2001ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)

اسی طرح مرزا احمدبیگ صاحب جو کہ آپؑ کے رشتہ داروں میں سے تھے وہ بھی آپؑ سے نشان کے طالب رہتے تھے آخر انجام کار اپنی بد زبانی سے تائب ہوئے اور آپؑ کی خدمتِ اقدس میں دعا کے لئے خطوط وغیرہ بھی لکھے جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے آپؑ کی دعائوں کو قبول فرمایا

(ماخوذ از حیات طیبہ مولفہ شیخ عبد القادر مرحوم سوداگر مل صفحہ68 ایڈیشن2001 نظارت نشرو اشاعت قادیان)

حضرت اقدس ؑکے زمانہ ٔنبوت میں آپ ؑ کے مخالف آپ سے مخالفت میں اتنے بڑھ گئے کہ کنوئیں کا پانی آپ ؑ کے لئے بند کر دیا ۔اُس وقت دو کنویں تھے۔ ایک مرزا سلطان صاحب جنہیں آپؑ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب نے اپنا منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا انکے مکان میں تھا اور دوسرا مرزا نظام الدین کے مکان میں۔ ایک دفعہ شدید مخالفت اور بد زبانی کا سامنا کرنا پڑا اور پانی کی بڑی دِقّت ہو گئی تو احباب کے مشورہ سے آپؑ نے ‘‘الدار’’ میں کنواں کھدوایا۔اسی طرح مرزا امام الدین صاحب اور مرزا نظام الدین صاحب جو کہ آپ کے چچا ذاد بھائی تھے، ہر وقت آپؑ کو دُکھ اور تکلیف دینے کے لئے نئے نئے حربے سوچتے تھے اس لئے ایک بار انہوں نے مسجدِ مبارک کا راستہ جو گَلی کی صورت میں ہے، دیوار کھینچ کر بند کر دیا ۔آپؑ نے چند دوستوں کو بات چیت کے لئے بھیجا کہ اُن سے بات کریں اور نرمی سے سمجھائیں کہ راستہ بند نہ کریں اس سے میرے مہمانوں کو شدید تکلیف ہو گی اگر چاہیں تو میری کسی اور جگہ پر قبضہ کر لیں مگر وہ لوگ اپنی عداوت اور دشمنی میں مزید بڑھ گئے اورآخر ایک طویل مقدمے کے بعد آپؑ کے حق میں فیصلہ ہوا۔آپؑ تک یہ خبر پہنچی تو آپؑ نے فرمایا:
‘‘ گویا ایک سال آٹھ ماہ کا رمضان تھا جس کی آج عید ہو گئی ’’

اور اس پر ہی بس نہیں بلکہ امام الدین اور نظام الدین نے ڈھٹائی کے ساتھ درخواست کی کہ ہرجانہ اور خرچ مقدمہ معاف کیا جائے تو آپؑ نے نہایت دریا دِلی اور سیر چشمی کے ساتھ انہیں معاف کر دیا ۔

(ماخوذ از حیات طیبہ مؤلفہ شیخ عبد القادر مرحوم سوداگر مل صفحہ203 تا 205 ایڈیشن2001ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)

ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑکو اطلاع ملی کہ مرزا نظام الدین صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے اشد ترین مخالف تھے بیمار ہیں اس پر حضور نے ان کی عیادت کے لئے بلا توقف ان کے گھر تشریف لے گئے۔ اس وقت ان پر بیماری کا اتنا شدید حملہ تھا کہ ان کا دماغ بھی اس سے متاثر ہو گیا تھا۔ آپؑ نے ان کے مکان پر جا کر ان کے لئے مناسب علاج تجویز کیا جس سے وہ خدا کے فضل سے صحت یاب ہوگئے۔ حضرت اماں جان ام المومنین رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ باوجود اس کے کہ مرزا نظام الدین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف بلکہ معاند تھے آپ علیہ السلام ان کی تکلیف کی اطلاع پاکر فوراً ہی ان کے گھر تشریف لے گئے اور ان کا علاج کیا اور ان سے ہمدردی فرمائی۔ یہ وہی مرزا نظام الدین صاحب ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود ؑکے خلاف جھوٹے مقدمات کھڑے کئے اور اپنی مخالفت کو یہاں تک پہنچایا کہ حضرت مسیح موعود ؑ اور حضورؑ کے دوستوں اور ہمسائیوں کو دکھ دینے کے لئے حضور ؑ کی مسجد یعنی خدا کے گھر کا رستہ بند کر دیا اور بعض غریب احمدیوں کو اذیتیں پہنچائیں کہ جن کے ذکر تک سے شریف انسان کی طبیعت حجاب محسوس کرتی ہے مگر حضور ؑ کی رحمت اور شفقت کا یہ عالم تھا کہ مرزا نطام الدین صاحب جیسے معاند کی بیماری کا علم پاکر بھی حضور ؑ کی طبیعت بے چین ہوگئی ۔

(سیرت طیبہ مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ290.291 بحوالہ خطبہ جمعہ 23جنوری 2004ء شائع کردہ الفضل انٹرنیشنل 26مارچ تا یکم اپریل 2004ء صفحہ12)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایک ذاتی واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے اس حجرہ میں کھڑے تھے جو عزیزم میاں شریف احمد کے مکان کے ساتھ ملحق ہے۔ والدہ صاحبہ بھی غالباً پاس تھیں۔ میں نے کوئی بات کرتے ہوئے مرزا نظام الدین صاحب کا نام لیا تو صرف نظام الدین کہا۔اس پر حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا:
‘‘میاں ! آخر وہ تمہارا چچا ہے اس طرح نام نہیں لیا کرتے۔’’

(سیرت المہدی جلد اول حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ28)

یہ تھی اس مہدی دوراں کی پاکیزہ زندگی کہ تمام تر عمر آپؑ نے مختلف قسم کی مشکلات کا ، مخالفتوں کا سامنا کرتے ہوئے گزارا ۔غیروں سے ہی نہیں بلکہ اپنوں نے بھی آپؑ کے ساتھ ایذا رسائی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی مگر آپؑ نے اپنے پاک نمونہ سے نہ صرف ان سے در گزر سے کام لیا بلکہ انہیں معاف بھی فرما دیا ۔آپؑ کی پاکیزہ زندگی اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ آپؑ خود فرماتے ہیں:
‘‘ میں سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دینا یہ بہت مشکل اور فقط جواں مردوں کا کام ہے اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں مگر ان کے حقوق دبا لیتے ہیں ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور محبت کے پردے میں دھوکا دیکر اس کے حقوق دبا لیتا ہے ۔۔۔جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے درگز ر نہیں کرے گا وہی ہے سچی محبت بھی کرتا ہے۔’’

(نورالقرآن نمبر2 روحانی خزائن جلد9 صفحہ409تا410)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ اسوۂ حسنہ ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔ خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رضا جوئی پر قائم کرتے ہوئے ہمیں اس نیک اسوہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(درثمین احمد ۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جون 2021

اگلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام ڈاک