• 26 جولائی, 2025

محترم مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت کی حوصلہ افزائی اور تحسین

(نوٹ از ایڈیٹر) یادرفتگان کے حوالہ سے ایک نئی طرز پر لکھا گیا یہ ایمان افروز مضمون ہے۔ جو قلم کاروں کو جماعتی اور اپنے خاندانی بزرگوں کی سیرت پر قلم اٹھانے کی دعوت عام دے رہا ہے۔ قارئین کرام سے ان جیسی نابغہ روزگار علمی ہستیوں پر مضامین لکھ کر اداره الفضل کو بھجوانے کی درخواست ہے)

سلسلہ کا ادنیٰ ترین خادم
درِ خلافت کا خادم
ایوانِ خلافت کا کفش بردار
ایوانِ خلافت کا خاکِ در
خاکِ پائے مسرور

یہ وہ عاشقانہ اور عاجزانہ الفاظ ہیں جو محترم مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت اپنے خطوط میں والسلام کے بعد لکھتے تھے۔ القاب آداب تسلیمات کا بھی اپنا انداز تھا۔ یہی عاجزانہ راہیں انہیں خدمت کے مقام محمود عطا کر گئیں۔ خاکسار نے اپنی ٹیم کے ساتھ لجنہ کی خدمت کے دوران آپ کے علم اور دعاؤں سے بہت فیض پایا۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر کچھ ذکر خیر کرتی ہوں۔

دنیا سے رخصت ہونے والے کے ساتھ اس کی دعائیں رخصت نہیں ہو جاتیں ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں تا ہم ایک ارضی رابطہ ٹوٹ جا نے سے محرومی کا دکھ بھرا احساس تکلیف دیتا رہتا ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ مولانا مرحوم کو غریق رحمت فر مائے ہمارے شعبہ اشاعت پر ان کے گراں قدر احسانات تھے۔ جن کو یاد کرتے ہوئے ہم ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہیں۔ کہاں علم وعمل کے ہمالیہ اور کہاں ہم جیسے نو آ موز حقیر سنگریزے ! اس پر ان کا التفات ان کی اعلیٰ ظرفی، علم دوستی اور للہی تعاون کے جذبے کا ثبوت ہے۔ لجنہ کی کتب کی اشاعت کے منصوبے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کے ساتھ جس ہستی کا سب سے زیادہ تعاون حا صل رہا وہ محترم مو لانا صاحب ہی تھے یہ محض فضل و احسان خدا وندی ہے کہ حضرت سلطان القلم ؑکی فوج میں شامل ہونے کی سعادت بخشی اور ایسے راہنما عطا فر مائے جواعلیٰ ظرفی اور خوش دلی سے حوصلہ افزائی کریں۔

اس عظیم مؤرخ احمدیت کے اصلاحی نوٹس، مفید مشوروں اور دعاؤں سے معطر خطوط ہمارے پاس تاریخ کی ا مانت ہیں۔ ان خطوط کے مطالعہ سے جہاں محترم مولانا صاحب کے لیے دعا کی تحریک ہوگی وہاں قارئین کرام ہمارے لیے بھی دعائیں کریں گے کہ بہتر رنگ میں خدمت کی توفیق ملتی رہے۔

ہم نے صد سالہ جشنِ تشکر کی مناسبت سے ایک کتاب ’صد سالہ تاریخ احمدیت‘ تیارکی جس میں سَو سال کی تاریخ مختصر سوال وجواب کی صورت میں جمع کی۔ یہ ہماری اٹھارہویں پیشکش تھی۔ آپ نے مسودے کا ایک ایک لفظ پڑھ کر اصلاح کی جس سے کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ ہؤا۔ آ پ نے 3 /مئی 1989ء کے مکتوب میں تحریر فرمایا :
’’مسودہ تاریخ کی تر تیب و تدوین میں ممبرات لجنہ نے جو غیر معمولی عر قریزی اور کاوش کی ہے اس سے میں بہت متاثر ہؤا ہوں۔ نظارت اشاعت نے بھی اسے مفید اور قابل اشاعت قرار دے کر اس کی افادیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ میرے نزدیک اس کی ایک بھاری خصوصیت یہ ہے کہ اس سے حضرت مصلح موعود ؓ کے ایک نہایت اہم ارشاد مبارک کی تعمیل ہوئی ہے۔ حضورؓ نے جلسہ سالانہ 1937ء کے موقع پر فرمایا:
’’ہر علم کے متعلق کتابیں لکھی جائیں۔ تا لوگ ان سے فائدہ اٹھا سکیں بلکہ بعض کتابیں سوال جواب کے رنگ میں لکھی جائیں تا جماعت کا ہر شخص ان کو اچھی طرح ذہن نشین کرے اس کے بعد جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان باتوں پر عمل کرے۔‘‘

(انقلاب حقیقی صفحہ116)

پیش لفظ میں ایک تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا محولہ بالا فرمان سپرد قلم ہو دوسرے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا درج ذیل اقتباس بھی شامل کرلیں:
’’تاریخ کو جاننا اور خصوصاً اپنی تاریخ کا جاننا ہم سب کے لئے ضروری ہے کیونکہ انسان اور کسی جماعت کی زندگی اپنے ماضی سے کلیتہً منقطع نہیں ہوتی۔ مجھے یہ احساس ہے کہ بہت سے احمدی گھروں میں سلسلہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کے واقعات دہرائے نہیں جاتے۔ حضرت مسیح موعود ؑنے اپنی کتب میں بعض جگہ خود ان واقعات کی تصویر کھینچی ہے ان واقعات کو بچوں کے سامنے دہرانا چاہئے …. ہماری یہ ایک معمور تاریخ ایک کامیاب تاریخ ہے۔‘‘

(الفضل 10 جولائی 1973ء صفحہ 3تا5)

’’کو لمبس نے امریکہ در یافت کر لیا‘‘

شعبہ اشاعت کے تحت لجنہ کی طرف سے دو مجلّے ’’المحراب‘‘ شائع ہوئے 1989ء میں پہلا مجلّہ صد سالہ جشن تشکر اور لجنہ کراچی کے قیام پر پچاس سال گزرنے پر شائع کیا گیا۔ یہ مجلّہ قدرے تاخیر سے محترم مولانا صاحب کی نظر سے گزرا اس پر جو داد ملی وہ بہت جاندار ہے۔ 30 /جون 1993ء کے مکتوب میں تحریر فرمایا :
’’آج سلسلے کے ایک ریسرچ ورک کے دوران مجلّہ المحراب کا صد سالہ جشن تشکر کے سلسلے میں لجنہ کراچی نمبر دیکھنے کا موقع ملا۔ او لین مطالعہ سے ہی دل باغ باغ ہو گیا اور آپ سب کے لئے بہت دعا ئیں نکلیں مگر ساتھ ہی سخت حیرت و افسوس ہوا کہ ہم اس قیمتی علمی یاد گار سے نہ صرف نا واقف بلکہ محروم ہیں ایسا لگا گو یا کو لمبس نے امریکہ در یافت کیا ہے۔

لجنہ کراچی نے بارہ برس میں جو محیر العقول خدمات سر انجام دی ہیں خدا ئے ذوالعرش آ ئندہ اس سے بھی بڑھ کر شاندار کامیا بیوں سے نوازے۔ خدا تعالیٰ سب کو اپنی رضا کے تاج سے مزین فرمائے اورقلوب کو نور ایمان سے معمور رکھے اور ہاتھوں کو عملی قوت کی بجلیوں سے بھر دے۔‘‘

اس مجلّے میں ہم نے آٹو گراف بک کی طرز پر کچھ رفقاء کرام اور اکابرین جماعت کے دستخط شائع کئے۔ اس میں بھی ہمیں محترم مولانا نے مدد دی۔جب ہم نے آپ کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا تو آپ نے بہت سراہا اور آپ کے دماغ کےکمپیوٹر نے فوراًنشان دہی کردی کہ مواد کہاں سے ملے گا۔ ایک صاحب کو بلا کر فر مایا کہ لکھیں رجسٹر نمبر… بکس نمبر… میں چار سو اصحاب کرام ؓکے ہاتھ کی تحریر اور دستخط موجود ہیں ان کو فوٹو کاپی کروا دیں، یہ چٹ خلافت لائبریری کے لائبریرین صاحب کو بھجوا دی اور ہمیں مطلوبہ خزانہ مل گیا۔ داد دیجئے مولوی صاحب کی حاضر دماغی کی کہ انہیں بکس نمبر اور رجسٹر نمبر سب یاد تھا۔

دوسرا ’المحراب‘ 1991ء میں جلسہ ہائے سالانہ کے سو سال مکمل ہونے پر سَو واں جلسہ سالانہ نمبر نکالا گیا۔ ہماری خواہش تھی کہ جلسہ سالانہ کے موضوع پر ایسا مجلّہ شائع کیا جائے کہ ہر جہت سے مکمل سیر حاصل ہو۔ موضوعات کے چناؤ میں محتر م مولانا صاحب سے مشورہ لیا اور قلمی معاونت کی درخواست کی گئی آپ نے بکمال شفقت ایک معر کۃ ا لآراء مقالہ ہمیں عنایت فرمایا جس کا موضوع تھا ’’جلسہ سالانہ کی ارتقائی منزل۔ جدید اقوام متحدہ کی تعمیر‘‘ بلاشبہ اس مقالے سے ہمارے مجلّہ کے وقار میں اضافہ ہوا۔ یہ حسین مجلّہ 1991ء کے جلسہ سالانہ پر قادیان پہنچا اور بہت پسند کیا گیا۔ ہماری خوش نصیبی تھی کہ مجلّہ کی اشاعت کے بعد جماعت کراچی کے تیسرے جلسہ سالانہ کے موقع پر مولانا صاحب کراچی تشریف لائے ہم نے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی۔ 30 /اپریل 1992ء کو گیسٹ ہاؤس کے خوبصورت سبزہ زار پر شکرانے کی ایک تقریب منعقد کی جس کے مہمان خصوصی محترم مولانا صاحب تھے۔ صدرلجنہ محترمہ امۃ الحفیظ محمود بھٹی صاحبہ نے شعبہ ٔاشاعت کا مختصر تعارف پیش کیا۔ جس کے بعد مولانا صاحب سے خطاب کی درخواست کی گئی۔ ہم نے اس خطاب کو آ ڈیو کیسٹ میں محفوظ کر لیا۔ درج ذیل تقریر اسی آڈیو سے لکھی گئی ہے

خطاب مکرم مولانا دوست محمد شاہد

یہ ایک نہایت مبارک مقدس اور یادگار تقریب ہے۔ حضرت مصلحِ موعود ؓ جب پہلی دفعہ سفرِ یورپ سے واپس تشریف لائے اس سفر کے دوران حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبهؓ نے ان کے فراق میں اپنی سب سے پہلی نظم کہی تھی۔حضرت مصلح موعود ؓ نے نہایت والہانہ انداز میں جہاں سفر کی اور برکات کا ذکر فرمایا وہاں فرمایا کہ یہ بھی ایک عظیم برکت ہوئی ہے کہ ہماری بہن کو اللہ تعالیٰ نے جو عظیم الشان قوتیں اور استعدادیں شعرو سخن کی بخشی تھیں ان کا انکشاف اس سفر کے دوران ہوا ہے۔ ان کی زندگی میں میرے سفر کے دوران جو طوفان اٹھا اس سے ان کی زندگی میں نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے سفرِ ہجرت کے نتیجے میں پوری دنیائے احمدیت کے قلوب پر ایک حیرت انگیز اثر ہوا ہے۔ہر ملک ہر جماعت اور ہر گوشہ ہر دل اس سےمتأثر ہوا ہے۔

کراچی لجنہ، جماعتِ کراچی کے امیر اور جماعت کراچی کو اللہ تعالیٰ نے جو عظیم الشان خدمات کی توفیق بخشی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ؂

انہیں کے مطلب کی کہہ رہا ہوں
زبان میری ہے بات ان کی

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے خود اپنی زبانِ مبارک سے جس کا تذکرہ کیا ہو وہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ عرش کا خدا بھی ان خدمات پر خراجِ تحسین پیش کررہا ہے اس واسطے کہ امام کی آواز در اصل خدا کی آواز ہوتی ہے۔

گفتہء اُو گفتہء اللہ بود

یہی امامت کا منصب ہے۔ یہ ایک عظیم الشان چیز ہے۔ یہ اللہ کے فضلوں میں سے ایک بڑا فضل ہے۔ میں اس تقریب کو ایک اور زاویۂ نگاہ سے دیکھتا ہوں اور وہ زاویۂ نگاہ محمد عربی ﷺ کے خدا نے خود قرآن میں پیش فرمایا ہے۔ آخری سورتوں کی تفسیر میں خود مصلح موعود ؓ نے یہ ثابت کیا ہے کہ آخری زمانہ میں جب آنحضور ﷺ کی دوبارہ بعثت ہوگی۔ تو خواتین بھی دین ِمحمدﷺ کی کامیابی اور سرفرازی کے لئے قربانیاں دیں گی۔ یہ عظیم الشان پیشگوئی آج تمام دنیا میں پوری ہورہی ہے۔ اور مبارک باد کے لائق ہے لجنہ کراچی کہ خدا نے اس کو بھی اس میں شامل ہونے کی سعادت بخشی ہے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی ’تذکرۃ الشہادتین‘ میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ میں تو ایک بیج ہوں جو بویا گیا وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور پھیلے گا اور پھلے گا۔ بیج کے لفظ سے ظاہر ہے کہ جس قدر بھی جماعتی تنظیمیں ہیں عنقریب دنیا کی بڑی تنظیموں کی جگہ لینے والی ہیں جلسہ سالانہ اس دن کے لئے ایک بیج ہے جب نوجوانان احمدیت اور خواتین احمدیت خانہ کعبہ کے گرد جمع ہونے والے عشاقِ رسول ﷺ کی خدمت کی توفیق پائیں گے۔ نوجوانوں کی تنظیمیں انٹر نیشنل تنظیموں کی جگہ لیں گی۔ بین الاقوامی جگہ پر آج خواتین کی کوئی تنظیم موجود ہی نہیں۔ لجنہ اماء اللہ کی شکل میں ایک بین الاقوامی تنظیم ہے۔ جو خدا تعالیٰ نے دنیا میں پیدا کردی ہے۔ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس خلوص و محبت سے خلیفۂ وقت کی دعائیں شامل ہیں لجنہ کی ٹیم کا قافلہ ہر میدان میں کامیاب و کامران ہوگا اور ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ اس کی خدمات کو نمایاں کرنے والا ہوگا۔ اللہ کرے لجنہ کراچی کو اس رنگ میں خدمت کی توفیق ملے کہ آئندہ نسلوں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہو ؂

بڑھیں اور ساتھ دنیا کو بڑھائیں
پڑھیں اور سارے عالم کو پڑھائیں
یہ قصرِ احمدی کے پاسباں ہوں
یہ ہر میداں کے یارب پہلواں ہوں

آمین اللّٰھم آمین۔ یہ مبارک تقریب ہمارے لئے یادگار ثابت ہوئی۔

اسی زمانے میں یہ خبر آئی کہ محترم مولانا صاحب کوگرفتار کر لیا گیا ہے بڑی تکلیف دہ خبر تھی جس نے ہر احمدی کو تڑپا کر رکھ دیا جماعت غیر معمولی آ زمائشوں اور ابتلاؤں سے گزر رہی تھی ہر گھڑی کوئی دلدوز خبر سننے میں آجاتی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی دوری ہی کم تکلیف دہ نہ تھی اس پر ایسے واقعات پہاڑ بن کر گرتے۔ ایک نظم ہو گئی جو الفضل میں چھپی ؂

وہ دوست محمدؐ کے ہیں شاہد ہیں خدا کے
مولا نے انہیں گود میں رکھا ہے بٹھا کے
قامت میں وہ خلدون سے بالا ہیں مؤرخ
آتا ہے مقدر سے نصیبا کوئی پا کے
پہلے بھی اسیروں کو نہیں بھولے تھے ہم لوگ
اس تازہ مصیبت نے تو رکھا ہے ہلا کے
بھٹکی ہوئی روحوں کی بھی تقدیر نے سُن لی
رکھا ہے دیا روزنِ زنداں میں جلا کے
کرتے ہیں دعائیں جو ہمارے لئے دن رات
ہیں ان دنوں محتاج وہ خود خاص دعا کے
کس پیار سے ذکر ان کا کیا کرتے ہیں آقا
پارکھ ہیں قدر دان ہیں وہ صدق و صفا کے
جب تک نہ اسیروں کی رہائی کے ہوں ساماں
اب مستقل اٹھے ہی رہیں ہاتھ دعا کے

محترم مولانا صاحب نے خاکسار کی اس کاوش کو پسند فرمایا۔ 28 مارچ 1991ء کو ایک مکتوب میں لکھا:
’’آپ کا منظوم کلام آپ کی اس بے پناہ محبت و عقیدت کا آ ئینہ دار ہے۔ جو سلسلہ احمدیہ اور اسیران راہ مولیٰ کے لئے آپ کے قلب صافی میں بحر مواج کی طرح موجزن ہے۔ مَیں خلیفۂ وقت کے غلاموں کا ادنیٰ ترین غلام اور چاکر ہوں اور یہ غلامی اور کفش برداری کا اعجاز ہے کہ خاکسار کی اسیری کی خبر نے پوری دنیائے احمدیت کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں قلوب کی دعائیں خدا کے عرش پر تہلکہ مچانے کا موجب بن گئیں اور خدا ئے ذوالعرش کی نظر کرم نے ہم مجبوروں کے لئے قید خانے کا پھاٹک کھول دیا۔‘‘

ہمارے سلسلے کی بتیسویں کتاب ’حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ‘ یہ خصو صیت رکھتی ہے کہ اس کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے از خود ارشاد فر مایا تھا اور خطابات بھیجے تھے۔ بہت خوبصورت کتاب شائع ہوئی۔

اس پر حضرت مولانا صاحب نے داد اور دعا سے نوازا۔ پھر کلامِ طاہر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا منظوم کلام ہم نے بڑی محبت سے آرٹ پیپر پر گلو سری کے ساتھ شائع کیا۔ جو آپ کو پسند آیا۔ تحریر فرمایا:
’’کلام طاہر ؔ کا نہایت نفیس دوسرا ایڈیشن بھی جو بیش قیمت اضافوں کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے۔ آپ کی نظر کرم سے احقر کو موصول ہوگیا ہے۔ اس عظیم پیشکش پر تہ دل سے مبارک باد عرض ہے۔

(مکتوب 23 دسمبر 1996ء)

ہماری کتاب نمبر57 ’احمدیت کا فضائی دور‘ دیکھ کر آپ نے دعا دی

’’خدا کرے 100 کا ٹارگٹ جلد تکمیل پا جائے اور کوثر و تسنیم کی یہ سب علمی نہریں بار بار اشاعت کی صورت میں قیامت تک جاری و ساری رہیں‘‘

(مکتوب 4 مئی 1999ء)

یہ دعا قبول ہوئی اور ہماری نصف سے زیادہ کتب کی بار بار اشاعت ہو رہی ہے۔ قادیان سے بھی چھپ رہی ہیں اور ویب سائٹ پر بھی آ رہی ہیں۔ ہماری کتب کے شماروں کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر وہ ہماری خوشی میں شامل ہوتے اور خطوط میں اس کا ذکر فرماتے۔

’’مبارک صد مبارک‘‘

سن 2000ء میں منظرِ عام پر آنے والی کتابوں میں سیرتِ نبوی کے سلسلے کی تیسری کتاب ’ہجرت سے وصال تک‘ اور ’انسانی جواہرات کا خزینہ‘ بشریٰ داؤد کی قابلِ قدر علمی تحقیق کا ثمر تھیں خاکسار کی ’حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا بچپن‘ اور ’حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے مشاغلِ تجارت اور شادی‘ سب ایک ساتھ بھیجیں

مکرم مولانا صاحب نے دعاؤں سے نوازا۔ تحریر فرمایا:
’’صد سالہ جشنِ تشکر کے سلسلہ میں لجنہ کراچی کی طرف سے گراں قدر تالیفات کی اشاعت پر مبارک صد مبارک

ان سے لٹریچر میں نہایت مفید اضافہ ہوا ہے۔ لجنہ کراچی اور آپ کی سب کارکنات کے لئے اس عظیم اور جلیل القدر خدمت پر دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ یہ ایک مثالی کارنامہ ہے جس کی سعادت لجنہ کراچی کے حصے میں آرہی ہے۔ اَللّٰھُمَّ زِدْ وَبَارِکْ۔ دوبارہ مبارک باد‘‘

چونسٹھویں کتاب مکرم عبدالسمیع ایڈیٹر الفضل کا والدین کے احترام پر نتیجۂ فکر ’جنت کا دروازہ‘ تھی۔ پھر خاکسار کی ’’حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا آغازِ رسالت‘‘ شائع ہوئی۔ ’کونپل‘ کا سندھی زبان میں ترجمہ کروایا گیا تاکہ چھوٹے بچوں کو ان کی زبان میں آسانی سے دینی باتیں سکھائی جاسکیں۔ خلافت لائبریری میں تیار کردہ ایک کتاب ’ربوہ منظوم کلام‘ کراچی سے چھپی۔ یہ ایک منفرد کتاب ہے جس میں ربوہ دارالہجرت کے بارے میں احمدی شعراء کا ربوہ کے بارے میں منظوم کلام جمع ہے۔ مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کو یہ پیشکش بھی پسند آئی رقم طراز ہیں:
’67 ویں شاندار اور بہار آفریں کتاب ’ربوہ‘ پر دل کی گہرائیوں سے اور جذباتِ تشکر کے ساتھ مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ربِ جلیل لجنہ کراچی کو پہلے سے بڑھ کر خدماتِ جلیلہ کی توفیق عطا فرمائے اور ہر احمدی خاتون اور ناصرات کا دل اسی طرح علم و معرفت سے لبریز کردے جس طرح بحیرہ ٔ عرب سمندر کے قطروں سے پُر ہے ؂

مجھے یقیں ہے کہ قادیاں سے محمد ؐ کا غلغلہ اٹھے گا
جہاں جہاں ہم فنا ہوئے ہیں وہاں وہاں قافلہ اٹھے گا
ہماری مٹی نئے زمانوں کے معبدوں میں اذان دے گی
ہمارے جسموں پہ ہے جو بیتی وہ خاکِ ربوہ نشان دے گی

خاکسار کی ’’حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی دعوت الی اللہ اور ہجرتِ حبشہ‘‘ کو اڑسٹھواں نمبر ملا۔ کتاب دیکھ کر مکرم مولانا دوست محمد شاہد نے حوصلہ افزائی کی:
’جَزَاکُمُ اللّٰہُ‘ دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ کی شاندار پیش کش پر شکریہ اور دلی مبارک باد۔ یہ ماشاء اللہ اس سال کی ابتدائی مجاہدانہ قلمی خدمات کا مرقع ہے۔ رب العرش اپنے دربارِ عام میں سند ِقبولیت سے نوازے اور ہر لمحہ ممبرات لجنہ کراچی کو روح القدس سے معمور رکھے تا یہ خطہ جلد اسلام کے نور سے جگمگا اُٹھے

؂بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب
بڑھتا رہے وہ نورِ نبوت خدا کرے
قائم ہو پھر سے حکمِ محمد ؐجہان میں
ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے‘

اس کے بعد 70 نمبر پر خاکسار کی ’حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ۔شعبِ ابی طالب اور سفرِ طائف‘ منظرِ عام پر آئی۔ مکرم مولانا دوست محمد شاہد نے بہت حوصلہ افزائی فرمائی :
’شعبِ ابی طالب و سفرِ طائف‘ جیسی نہایت نفیس اور سادہ و سلیس زبان سے مزین اور بیش قیمت تاریخی معلومات پر مشتمل کتاب ملی۔ ضلع کراچی کی مطبوعات کا سلسلہ 70 تک پہنچ گیا ہے اَللّٰھُمَّ زِدْ وَبَارِکْ۔ امۃ الباری ناصر صاحبہ کی خدمت میں بھی صمیمِ قلب سے ہدیۂ تبریک۔ ربِّ کریم ان کے علم و قلم اور ایمان و عرفان میں مزید بے پناہ برکت بخشے ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ

(مکتوب 2002۔3۔16)

در ّثمین اردو کی تیاری کے سلسلے میں آپ سے ایک تحقیقی نکتے پر فیصلے کی ضرورت تھی۔ خاکسار نے بصد ادب گزارش کی کہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے پُر معارف منظوم کلام کا روح پرور مجموعہ۔ درثمین۔ کا پہلا ایڈیشن کب منظر عام پر آیا؟ آپ نے اس کے جواب میں ایک مبسوط مضمون تحریر کیا:

’’درثمین کا پہلا ایڈیشن اور اس کی سو سالہ اشاعتوں پر طائرانہ نظر‘‘

یہ طائرانہ نظر کسی زاغ و زغن کی نہ تھی ایک عقاب کی تھی جس کی دور رس نگاہوں سے تاریخ کاکوئی پہلو اوجھل نہیں رہتا۔ (یہ مضمون چھپ چکا ہے) آپ نے خا کسار کو پہلے ایڈیشن کے سر ورق کی فوٹو کاپی بھی عنایت کی جو درثمین اردو مع فرہنگ کی زینت بنی۔ درثمین کی کراچی سے اشاعت کے بعد جب ان سے ملنے کے لئے گئے تو عجیب پُر مسرت گر مجوشی سے آپ نے درثمین کی تعریف کی اور بہت دعاؤں سے نوازا۔ ہم قلم کے مزدوروں کو اسی نعمت کی لالچ ہوتی ہے جو آپ وافر عنایت کرتے تھے۔

مرزا غلام قادر احمد صاحب کو خاندان مسیح موعود ؑ میں سب سےپہلے جان کی قربانی کرنے والے کا اعزاز حاصل ہے۔ خا کسار کی خواہش تھی کہ کتاب میں کماحقہ خراج تحسین پیش کیا جائے کوئی پہلو ادھورا اور تشنہ نہ رہے۔ کوئی غلطی راہ نہ پائے۔ اس لئے مسودہ آپ کی خدمت میں بھیج دیا۔ آپ کا بڑا پن کہ میری مبتدیانہ کاوش کو خوب سراہا۔ مزید نکھارنے کے لئے چار صفحات پر مشتمل اصلاحات لکھ کر بھیجیں۔ ان کے علاوہ بہت سی چھوٹی چھوٹی ہدایات سے نوازا، مثلاً ً سن مکمل لکھا جائے 35ء نہیں 1935ء تحریر ہو۔ ملکی قوانین کے مطابق متبادل الفاظ لکھے جائیں۔ جن سے مجھے بہت مدد ملی۔

انسائیکلو پیڈیا کی دو جلدیں

ستترویں اور اٹھترویں نمبر پر دو جلدوں میں ’مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل ؓ‘ ہیں۔ یہ 2004ء میں شائع ہوئی۔پہلی جلد 720 اور دوسری 558 صفحات پر مشتمل ہے۔

مؤرخِ احمدیت نے اپنے مکتوب محررہ 4 /جولائی 2004ء میں تحریر فرمایا:
’’مضامین حضرت میر محمد اسمٰعیلؓ‘‘ تصوف و اخلاق کا مرقع گویا انسائیکلو پیڈیا کی دو جلدوں میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوا ہے اس شاندار پیشکش پر مسیح الزماں کے الہامی الفاظ میں:

سَو مبارک

جشنِ تشکر کے سلسلہ میں لجنہ کراچی نے دنیا بھر میں حسین ’معلومات آفریں اور بیش قیمت لٹریچر شائع کرنے کا ریکارڈ قائم کر دکھایا ہے جو حیرت انگیز بات ہے۔ ربِّ کریم اپنی آسمانی افواج کے ذریعے روح القدس سے تائیدِخاص فرمائے آمین

اناسی ویں کتاب ’مختصر تاریخ احمدیت‘ ہے جو 2004 ء میں شائع ہوئی۔ یہ مکرم شیخ خورشید احمد اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ربوہ نے مرتب کی تھی۔ کینیڈا منتقل ہونے کے بعد اس کی اشاعت کے حقوق لجنہ کراچی کو دے دئے۔ ہم نے اس میں بعض گزشتہ سہو کی اصلاح اور خلافتِ خامسہ کے 2003ء تک کے اضافوں کے ساتھ شائع کروائی کتاب کا موضوع تاریخ تھا ہمیں مؤرخ احمدیت سے سند اور دعائیں ملیں۔

’’صد سالہ جشن جوبلی کے سلسلہ میں ’جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ‘ جیسی جامع اور مستند معلومات پر مشتمل پیشکش پر

سَو مبارک باد

یہ دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا کہ اس نئے ایڈیشن میں خلافتِ خامسہ کے انقلاب آفریں عہد کے 2003ء تک کے روح پرور واقعات بھی زیبِ اشاعت ہیں۔ جملہ کارکنات ادارہ اشاعت کی خدمت میں ہدیۂ سلام و تبریک۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عہدِ حاضر میں دین کی نصرت یعنی لسانی اور قلمی جہاد کرنے والے خوش نصیبوں کی شان و عظمت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا ہے:

؎اگر امروز فکرِعزتِ دیں در شُما جو شد
شما را نزدِاللہ رتبت و عزت شود پیدا

پھر جنابِ الٰہی میں دعا کی:

؎کریما صد کرم کن بر کسے کو ناصرِ دین است
بلائے او بگردان گر گہے آفت شود پیدا‘‘

وہ ایک شفیق باپ کی طرح ہمیں قدم قدم چلتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتے۔ تحریر فرمایا:
مبارک ہو قلمی جہاد کی 85 ویں منزل تک لجنہ کراچی پوری آب و تاب کے ساتھ پہنچ گئی ہے۔ جو خدا کا فضل اور خلفاء کی دعاؤں کا زندہ و تابندہ نشان ہے

؎بر کسے جوں مہربانی مے کنی
از زمینی آ سمانی مے کنی

(مکتوب 22 نومبر 2005ء)

کلام محمود اور بخار دل پر ایک ساتھ کام ہو رہا تھا۔ اس دوران ربوہ جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ محترمہ بر کت ناصر صاحبہ کے ساتھ آپ سے ملنے مؤرخ احمدیت، کے دفتر پہنچے۔ بورڈ نہ بھی لگا ہوتا تو دفتر کی وضع بول رہی تھی کہ یہ کیسی بلند پا یہ علم دوست ہستی کا دفتر ہے۔ ہمیشہ کی طرح گر مجوشی سے ملے۔ ذرہ نوازی تھی کہ ہمیں بہت سا وقت دیا۔ ’بخار دل‘ کے ذکر پر ان کی نگاہیں اپنے علمی خزانے کی طرف ایک خاص زاویے سے اٹھیں ایک کتاب اٹھائی۔ یہ ایک پرانی کتاب ’’قادیان گائیڈ‘‘ تھی اس میں سے کچھ صفحات فوٹو سٹیٹ کروا کے ہمیں دئے کہ ان میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی ایک نظم قادیان کے بارے میں چھپی ہے۔ دیکھ لیں یہ شامل ہے یا نہیں۔ الحمدللہ کہ وہ شامل تھی‘

’’شاہی ایڈیشن کو چار چاند لگا دئے‘‘

مؤرخِ احمدیت مکرم دوست محمد شاہد نے اپنے مکتوب محررہ 12 /ستمبر 2006ء میں تحریر فرمایا:
’’کلامِ محمود اور بخارِ دل کے لازوال اور لاثانی شعری ’علمی‘ ادبی اور روحانی خزانے ملے فَجَزَاکُمُ اللّٰہُ ثُمَّ جَزَاکُمُ اللّٰہُ۔ دونوں عارفانہ مجموعہ ہائے کلام ظاہری و معنوی کمالات کا شاہکار ہیں جو شب و روز کی محنتِ شاقہ سے منظرِ عام پر آئے ہیں خصوصاً کلامِ محمود جس کے آخر میں فرہنگ Glossary نے اس شاہی ایڈیشن کو چار چاند لگا دئے ہیں۔ خدا تعالیٰ آپ سب کو اس قلمی جہاد میں ہر قدم پر اور ہر لحظہ روح القدس اور آسمانی افواجِ ملائک کے ساتھ نصرتِ خاص فرمائے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے الہامی وآسمانی الفاظ میں:

مبارک سَو مبارک

حضرت امام عالی مقام مہدی الزمان مسیحِ دوران نے 18/اکتوبر 1906ء یعنی ایک صدی پیشتر دربارِ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’ایک آدمی جس کے دل میں یہ بات ہو کہ خدا کے واسطے کام کرے وہ کروڑوں آدمی سے بہتر ہے‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ65)

مبارک ہو لجنہ اماء اللہ کراچی کی ہر رکن خدا کے مرسل و مسیح کی اس بھاری بشارت کی مصداق نظر آرہی ہے۔

؎ہم تہی دست ترے در پہ چلے آئے ہیں
لطف سے اپنے عطا کر یدِ بیضا ہم کو‘‘

فِیْ اَمَانِ اللّٰہِ‘‘

(مکتوب26 /جنوری 2006ء)

چھیاسی ویں کتاب ’آپ بیتی‘
از حضرت ڈاکٹر محمد اسمٰعیل

’’آپ بیتی کا دلکش اور بیش بہا تحفہ ملا اور دل سے جملہ کارکنات کے لئے بہت دعائیں نکلیں آپ سب مردانہ وار اشاعت کے جہاد میں پرچم لہراتے ہوئے نہایت برق رفتاری سے بڑھتی جارہی ہیں

ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ

(15/دسمبر 2007ء)

ہماری گیارہویں کتاب ’ایک بابرکت انسان کی سر گزشت‘ کا دوسرا نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن 2007ء میں شائع ہوا تو ہمیں مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب سے بہت خوب صورت داد ملی۔ یکم نومبر 2007ء کو لکھا:
جَزَاکُمُ اللّٰہُ۔‘ ایک بابرکت انسان کی سرگزشت ’جیسی تازہ‘ گراں قدر اور محققانہ تالیف دیکھ کر دل باغ باغ اور روح تازہ ہوگئی۔ بالخصوص اس لئے کہ عنوان اور مضمون دونوں نے ایک جدید پیرایہ میں ضیافتِ طبع کا دلکش سامان پیدا کردیاہے۔ جو نفسیاتی اعتبار سے بہت مفید ہے‘

’’یہ رسول اللہ ﷺ کا خزانہ ہے‘‘

ہماری ستاسی ویں کتاب ’کر نہ کر‘ بھی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیلؓ کی تحریر کردہ ہے۔ جسے خوب صورتی سے نمبر لگا کر ترتیب سے صفائی سے لکھوا کر شائع کرنے پر مکرم دوست محمد صاحب شاہد سے بہت شاباش ملی لکھتے ہیں:
’’حضرت میر صاحب کا وہ شاندار رسالہ جو بیسویں صدی کے وسط میں خاکسار نے پہلی دفعہ پڑھا تھا۔ آپ کے طفیل ایک نئی شان سے طبع ہو کر ابھی ملا جشن جوبلی اور اس مبارک کتاب کی:

سَو مبارک

لجنہ کراچی کی سب ہی معزز ممبرات کی خدمت میں صمیمِ قلب سے ہدیۂ تبریک۔ اگر غانا کی لجنہ نے ظاہر ضیافت ِ مہمانانِ مسیحِ موعودؑ میں ریکارڈ قائم کیا ہے تو ممبرات کراچی نے طویل عرصہ پر پھیلے ہوئے علمی مائدہ سے پوری جماعت میں حقائق و معارف پہنچانے کی توفیق پائی ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا خزانہ ہے جس کی تقسیم مسیح الزماں ؑکے ہاتھوں مقدر تھی۔

؎شہِ لولاک یہ نعمت نہ پاتے
تو اس دنیا سے ہم اندھے ہی جاتے
رسائی کب تھی ہم کو آسماں تک
جو اڑتے بھی تو ہم اُڑتے کہاں تک‘‘

(10مئی/2008ء)

’تواریخ مسجد فضل لنڈن‘ از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل ؓ یہ کتاب پہلے 1927ء میں شائع ہوئی تھی اور نایاب ہوچکی تھی لجنہ کراچی نے یہ کتاب نئے سرے سے کمپوز کرواکے مع نایاب تصاویر شائع کی یہ ہماری اٹھاسی ویں کتاب ہے۔ اس سے قبل حضرت میر صاحب ؓ کے مضامین دو جلدوں میں 1280صفحات۔بخار دل 304 صفحات۔ آپ بیتی 220۔ صفحات۔ کرنہ کر 78 صفحات پر مشتمل شائع کرچکے تھے۔ اس کتاب کے ساتھ یہ سیٹ مکمل ہوا۔ حضرت میر صاحب ؓ کو ایسی مسجد کی تاریخ مرتب کرنے کی توفیق ملی جو آئندہ جماعت احمدیہ میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کرنے والی تھی اس مسجد نے چار خلفاء کرام کو سر بسجود ہوتے دیکھا۔

حضرت میر صاحب ؓنے مسجد کے آغاز سے افتتاح تک سب شواہد جمع کردئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ 1924ء میں یورپ کے دورے پر تشریف لے گئے تھے اسی دورے میں آپ نے 19 /اکتوبر 1924ء کو مسجد فضل کا سنگِ بنیاد رکھا آپ کے دورے کی رپورٹیں قادیان آتیں حضرت میر صاحب ؓ نے ان رپورٹوں کو ترتیب دے کر بہت خوب صورتی اور لگن سے آغاز سے افتتاح تک کی تاریخ مرتب فرمائی جو ہر لحاظ سے ایک قیمتی دستاویز ہے۔ اس وقت کے اخباری تراشوں سے واضح ہوتا ہے کہ مسجد کے افتتاح کو غیر معمولی اہمیت ملی۔

ہماری نواسی ویں کتاب ’رفقاء احمد کی قبولیتِ دعا کے واقعات‘ ازمکرم عطاء الوحید باجوہ مربیء سلسلہ نے تحریر کی۔ اور ہم نے2011ء میں شائع کی۔ مکرم مولانا صاحب نے لکھا:
’’سالِ نَو کی صد مبارک اور ایمان افروز کتاب ’رفقاءِ احمد کی قبولیتِ دعا کے واقعات‘ کے دو نسخے عطا کرنے پر بے حد شکریہ۔ فَجَزَاکُمُ اللّٰہ۔ لجنہ اماء اللہ کراچی کے مسلسل قلمی جہاد کی اس نئی پیش کش کو بھی عرش پر سند قبولیت کا شرف عطا ہو اور بندگانِ الٰہی کے لئے دعاؤں کی تحریک کا مؤثر اور کارگر ذریعہ بنادے تا وہ زندہ ایمان کی اس چٹان پر کھڑے ہوجائیں کہ

؎غیر ممکن کو یہ ممکن سے بدل دیتی ہے
اے مرے فلسفیو زورِ دعا دیکھو تو’’

(7/جنوری 2009ء)

حرفِ آخر۔ دو مفید اقتباس

مکرم مولانا صاحب نے ایک دفعہ فرمایا دو حوالے لکھ لیں مجھے لجنہ کراچی کا کام دیکھ کر ان کا خیال آتا ہے۔ ان ہی بابرکت حوالوں سے چھوٹے چھوٹے اقتباس پیش کرکے منہ میٹھا کرتے ہیں۔

1۔ ’وہی قوم ترقی کرسکتی ہے جس کی ساری عورتوں کا دینی معیار بلند ہو۔ وہ جواں ہمت اور حوصلہ مند ہوں۔ وہ مصائب و مشکلات کی پروا کرنے والی نہ ہوں۔ وہ دین کے لئے ہر قسم کی قربانی پر تیار رہنے والی ہوں۔ وہ جرأت اور بہادری کی پیکر ہوں اور وہ اپنے اخلاص اور اپنے جوش اور اپنی محبت میں مردوں سے پیچھے نہ ہوں‘

(تفسیرِ کبیر جلد ہشتم صفحہ54)

2۔ ’بے شک محمدرسول اللہ ﷺ کے ہاں کوئی نرینہ اولاد نہیں رہی جس سے آپ ؐ کی جسمانی نسل چلتی مگر جہاں تک روحانی اولاد کا سوال ہے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اولاد محمد رسول اللہ ﷺ کو ملی اور اتنی کثرت سے ملی کہ اس کی نظیر دنیا کے کسی نبی میں بھی نظر نہیں آتی اسی چیز کا ذکر آیت خاتم النبیین میں کیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ گو محمد رسول اللہ ﷺ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں جس کے آپؐ باپ کہلا سکیں مگر خدا تعالیٰ آپ ؐ کی روحانی اولاد کو قیامت تک جاری رکھے گا جو ہمیشہ آپؐ کے نام کو جاری رکھے گی ۔۔۔ اگر کسی کو روحانی اولاد مل جائے اور وہ اس کے نام اور کام کو دنیا میں پھیلائے تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی کہلائے گی ۔۔۔ گویا اس سورۃ میں اس بات کی پیش گوئی کی گئی تھی کہ آئندہ محمد رسول اللہ ﷺ کو روحانی اولاد دی جائے گی چنانچہ اس وقت جو تم یہاں بیٹھی ہو تم بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہو اور تم اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ کا نظارہ دیکھ رہی ہو۔۔۔کوثر سے مراد ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں کی وہ صاحبِ خیرِ کثیر ہیں اور ایک کوثر سے مراد تم ہو۔ جنہیں خدا تعالیٰ نے بڑی کثرت بخشی ہے‘

(الازہار لذوات الخمار صفحہ188)

اس سارے عرصہ میں اپنے بزرگوں کو بہت شفیق پایا ان مہربانوں کی حوصلہ افزائی ا ور ٹھنڈے میٹھے سایے میں خدمت کرنا سہل ہوگیا۔ ایک عاجزانہ درخواست ہے کہ سب للہی خدمت گزاروں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اللہ تبارک تعالیٰ سب کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

مقابلہ کوئز Current Affairs جامعۃ المبشرین گھانا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 ستمبر 2021