• 25 اپریل, 2024

دنیا کی پہلی کار الیکٹرک تھی

ماحولیاتی آلودگی سے پریشان دنیا آج روایتی فوسل فیول( تیل) سے جان چھڑا کر بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ تیل سے چلنے والی گاڑیوں کی نسبت بیٹری پر چلنے والی گاڑیاں تیزی سے مقبول ہورہی ہیں۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا میں بنائی جانے والی پہلی کار الیکٹرک تھی۔ جی ہاں، اس بات پر یقین کرنا شاید مشکل ہو لیکن برقی کاروں کی طرف موجودہ رجحان کوئی نیا نہیں البتہ اس رجحان کو ہم تاریخ کا دہرایا جانا کہہ سکتے ہیں۔ 1900ء کے ابتداء میں 40فیصد گاڑیاں تیل کی بجائے برقی بیٹریوں سے چلتی تھیں۔ 38 فیصد گاڑیاں بھاپ انجن سے جبکہ صرف 2 فیصد گاڑیاں روایتی تیل سے چلائی جاتی تھیں۔ بیٹری پر چلنے والی یہ گاڑیاں 1935ء تک دنیا سے تقریباً ناپید ہوگئیں تھیں۔ 1835ء میں پہلی بار بجلی سے چلنے والی کار تھامس ڈیون پورٹ نے بنائی تھی۔ یہ پہلی ہائیڈروجن کار کے 30 سال بعد بنائی گئی تھی۔ جبکہ گیسولین انجن 1870ء کے بعد بننا شروع ہوئے تھے۔ وہیں پہلی پروڈکشن کار 1885ء میں کارل بینز کی جانب سے بنائی گئی تھی جو بعد میں مرسڈیز بینز کہلائی۔ روڈلف ڈیزل نے 1900ء میں ہونے والے پیرس عالمی میلے میں اپنے ڈیزل انجن کو مونگ پھلی کے تیل سے چلایا۔ 1900ء کے ابتدائی عشروں میں انٹرنل کمبشچن انجن نے بڑی تیزی سے دنیا میں مقبولیت حاصل کی۔ یہ انجن تیزی سے بھاپ کے انجنوں کو پیچھے چھوڑ رہے تھے۔ بھاپ سے چلنے والے انجن سرد موسم میں گرم ہونے میں 45 منٹ لگا دیتے تھے۔ پانی کی محدود گنجائش ہونے کے باعث بھاپ سے چلنے والی گاڑیاں زیادہ فاصلہ طے نہیں کر سکتی تھیں۔ گیسولین پر چلنے والی گاڑیاں ان کی نسبت زیادہ موزوں تھیں۔ البتہ ان کے انجن چالو کرنے کے لیے کافی زیادہ مشقت کرنا پڑتی تھی۔ یہ گاڑیاں بہت زیادہ شور کرتی اور لرزتی تھیں۔ ان تمام نقائص کو دیکھتے ہوئے برقی کاریں ذاتی استعمال کے لیے بہت زیادہ سود مند تھیں۔ یہ بالکل بھی شور نہیں کرتی تھیں، انہیں اسٹارٹ کرنے میں مشقت نہیں کرنا پڑتی تھی اور گیسولین اور بھاپ والی گاڑیوں کی نسبت انہیں چلانا نہایت آسان تھا۔ شہر کے اندر اور کم فاصلہ تک سفر کے لیے برقی کاریں بہت موزوں تھیں۔ کاروں کے حوالہ سے بڑے نام جیسا کہ ’’فیڈرک پورش‘‘ پورش موٹر کمپنی کے مالک اور تھامس ایڈیسن سمیت متعدد افراد برقی گاڑیوں کے ہی دلدادہ تھے۔ حتٰی کہ پورش کی پہلی کار 1898ء میں الیکڑک ماڈل تھی جو Loaner Porsche کے نام سے جانی جاتی تھی۔ ایک سال بعد تھامس ایڈیسن نے برقی گاڑیوں کو نسبتاً طویل سفر کے لیے موزوں بیٹریاں بنانے پر کام شروع کیا۔ ایڈیسن کو یقین تھا کہ برقی کاریں ہی انسانیت کا مستقبل ہیں۔ ایک عشرہ تک اس پر کام کرنے کے بعد ایڈیسن نے مزید اس پر کام کرنا چھوڑ دیا۔ برقی کاریں اس دور میں کافی مہنگی ہونے کے باعث صرف امراء کی پہنچ میں تھیں۔

تیزی سے بدلتے عالمی منظر نامہ میں گاڑیوں کی عام عوام تک رسائی کے خواب کو ہینری نے تعبیر بخشی۔ ہینری فورڈ نے کار تک عام عوام کی پہنچ کے لیے بہت غور کیا۔ وہ ایسی کار بنانا چاہتے تھے جو تین سے چار افراد کو بٹھا کر آسانی سے سفر کر سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بنائی گئی فیکٹریوں میں گاڑیوں کے پرزے جوڑنے کا عمل ان کی نظر میں بہت ساری اصلاحات کا متقاضی تھا۔ پہلی تبدیلی جو انہوں نے کی اس میں گاڑی کے ہر حصہ کو اس حصہ کے لیے مخصوص ماہر بناتا۔ جو آگے سے درجہ بدرجہ منتقل ہوتا جاتا اور یوں ایک گاڑی مکمل تیار ہوتی۔ اس تبدیلی سے گاڑیاں بنانے کے عمل میں بہت تیزی آئی اور بڑی تعداد میں گاڑیاں بنائی جانے لگیں۔ اس سے گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی جس کی بدولت متوسط طبقہ یہ گاڑیاں خریدنے کے قابل ہوگیا۔صرف 1914ء میں فورڈ کمپنی نے دیگر تمام کاریں بنانے والی کمپنیوں کی مجموعی تعداد کی نسبت زیادہ کاریں بنا کر فروخت کیں۔ اس وقت فورڈ کی ماڈل ٹی کار کی قیمت 260 ڈالر تھی۔ جو آج کے قریباً 650 ڈالر کے برابر ہے۔ جبکہ اس وقت ایک برقی کار کی قیمت ایک ہزار سات سو ڈالر تھی جو آج کے 43 ہزار ڈالر بنتے ہیں۔ قیمتوں کے اس فرق نے برقی کاروں کے رجحان کو تقریباً ختم کر دیا۔

ہینری فورڈ اور تھامس ایڈیسن دونوں بہت اچھے دوست تھے۔ فورڈ، ایڈیسن کی کمپنی میں کام کرتے تھے جب انہوں نے 1896ء اپنی پہلی تجرباتی برقی کار بنائی۔ تب انہیں اپنی برقی کار کمپنی (فورڈ موٹر کمپنی) بنانے کا خیال آیا۔ 1914ء میں جب یہ دونوں برقی کاریں بنانے پر کام کر رہے تھے 11 جنوری 1914ء میں نیویارک ٹائم میں فورڈ کا ایک بیان شائع ہوا جس میں ان کا کہنا تھا:
’’مجھے امید ہے کہ ایک سال کے اندر ہم کمرشل بنیادوں پر برقی کاریں بنانا شروع کر دیں گے۔ میں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرنا چاہتا لیکن اپنا ایک منصوبہ آپ کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ حقیقت میں، میں اور مسٹر ایڈیسن پچھلے کئی سال سے برقی کاریں بنانے پر ایک ساتھ کام کر رہے تھے جو سستی اور استعمال میں سہل ہوں۔ تجرباتی طور پر کاریں بنائی گئیں جن کی کار کردگی سے ہم مطمئن ہیں اور یہ گاڑیاں عام دستیابی کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اس وقت جو مسئلہ ہے وہ زیادہ چارج کی حامل ہلکی بیٹریاں بنانا ہے جو لمبا سفر کرنے کے قابل ہوں۔ مسٹر ایڈیسن ایسی بیٹریاں بنانے پر تجربات میں مصروف ہیں۔‘‘

انہی دنوں تھامس ایڈیس کا بھی ایک بیان شائع ہوا جس میں ان کا کہنا تھا:
’’میرا یقین ہے کہ جلد یا بدیر برقی گاڑیاں پوری دنیا کے بڑے شہروں میں نقل و حمل کے لیے استعال ہوں گی۔ برقی گاڑیاں ہماری سفری سہولیات کا مستقبل ہوں گی۔ سامان کی نقل و حمل والے تمام ٹرک الیکٹرک ہوں گے۔ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے جب نیویارک کے تمام ٹرک الیکٹرک ہوں گے۔‘‘

اسقدر یقین کے باوجود الیکڑک گاڑیاں نہ بننے کی کیا وجہ ہوئی اس بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ لیب جہاں برقی کاریں تجرباتی طور پر بنائی جاتی تھیں وہاں عمداً آگ لگا دی گئی جس کے باعث لیب مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو گئی۔ بعض کے نزدیک تیزی سے ترقی کرتی آئل انڈسٹری اس کی ذمہ دار ہے جس سے وابستہ لوگ الیکٹرک گاڑیوں کی انڈسٹری کو پنپنے دینا نہیں چاہتے۔ لیکن زیادہ تقویت اس خیال کو ملتی ہے کہ فورڈ جو بیٹریاں برقی کاروں میں استعمال کرتے تھے وہ اس قابل ہی نہیں تھیں جو برقی کار کو مطلوبہ معیار تک چلا سکیں۔ حقیقت کیا ہے کوئی حتمی طور پر نہیں جانتا، وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ پراجیکٹ جس میں 1.4 ملین ڈالر کی خطیر رقم جھونکی گئی تھی ختم ہوگیا۔ یہ رقم آج کے 34 ملین ڈالر کے برابر ہے۔

برقی کاریں کیوں مقبول نا ہو سکیں اس کے محرکات واضح ہیں۔بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں بیٹری ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی جو گاڑیوں کو لمبے فاصلہ تک چلا سکے۔ ساتھ ہی اس وقت تیل سستا تھا اور دھوئیں کے اخراج کے نقصانات کا ادراک بھی نہیں تھا۔

یہ وہ دور تھا جب آٹو انڈسٹری میں ایک طرح سے انقلاب آیا۔ بہتر سے بہتر تیز اور طاقتور انجن بننے لگے۔ ہر چڑہتا دن گزرنے والے کی نسبت جدت لے کر آتا۔ اس انقلاب کے ساتھ عالمی ماحولیاتی آلودگی کا بھی ادراک ہونے لگا جس نے روایتی تیل کے متبادل کی طرف سنجیدگی سے سوچنے پر حضرت انسان کو مجبور کر دیا ہے۔

تیل پر انحصار ختم کرنے اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے آج ہم اسی طرح برقی کاروں کے بارے میں سوچ رہے ہیں جس طرح ایک سو سال قبل سوچ رہے تھے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت آج ایسی برقی کاریں بنائی جا چکی ہیں جو ایک بار چارج کرنے پر سینکڑوں کلومیٹر تک کا سفر کرنے کے قابل ہیں۔ ایک صدی بعد ہی سہی تھامس ایڈیسن کی بات سچ ثابت ہو رہی ہے کہ ‘‘برقی گاڑیاں انسانیت کا مستقبل ہیں۔’’

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

مقابلہ کوئز Current Affairs جامعۃ المبشرین گھانا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 ستمبر 2021