میرا نام رقیہ اور شفاء بھی ہے
سورۃفاتحہ کا تعارف فاتحہ کی زبانی
اللہ تعالیٰ نے میری بلندیِ شان کے لیے مجھے سب سے پہلے قرآن کریم میں رکھا ہے۔ میں خداتعالیٰ کے کلام پاک کی سب سے پہلی سورۃ ہوں اور میرا آغاز بھی اللہ تعالیٰ کے نام سے ہے۔ میرا پورا نام فاتحۃ الکتاب تھا لیکن لوگوں نے مختصر کرکے سورۃالفاتحہ یا فاتحہ کردیاہے۔ فاتحہ کسی چیزکے کھولنے اور آغاز کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ کسی مضمون یا کتاب کا افتتاح یا ابتداء کرنے کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیا جاتاہے۔ اگر میں کہوں کہ میں قرآن کریم کا دیباچہ ہوں تو یہ مفہوم بھی مجھ پر ہی چسپا ہوتا ہے۔ میں اصل میں ایک دعا ہوں۔ جو انسانوں کو سکھائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اس قرآن کریم سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو پہلے رب العالمین سے یہ دعا کرو۔ نبی پاکﷺ نے میری عظمت اس قدر بلند فرمائی ہے کہ میرے پڑھے بغیر ایک نمازی کی نماز مکمل نہیں ہوتی۔ ناموں میں بھی مجھے ایک خاص مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔ جو شاید کسی اور سورت کو حاصل نہیں۔ میرے کئی نام ہیں۔ چند ایک یوں آتے ہیں۔ سورۃ الصلوٰۃ، سورۃالحمد، سورۃ الکنز، سورۃ الکافیۃ، سورۃالوافیۃ، سورۃالشافیۃ، سورۃ الدعا، امّ القرآن، القرآن العظیم، فاتحۃ القرآن اور السبع المثانی ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے ایک صحابی کو فرمایا کہ کیا مَیں تمہیں قرآن کی عظیم الشان سورۃ مسجد سے باہر نکلنے سے پہلے نہ بتاؤں؟ چنانچہ جب آپ ﷺ مسجد سے باہر نکلے لگے تو فرمایا۔ وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْن ہے۔ السبع المثانی (یعنی سات باربار دُہرائی جانیوالی آیات) اور قرآن عظیم ہے۔ مجھے الرقیہ اور الشفاء کے نام سے بھی پکارا جاتاہے۔ میرے بارے میں آنحضرت ﷺ نے بہت کچھ فرمایا ہے۔مثلاَ فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل میں اُمُّ القُرآن جیسی کوئی سورۃ نازل نہیں کی‘‘۔ ’’الفاتحہ میں ہر بیماری کی شفاء ہے‘‘ اور ’’ہر زہر کا علاج اِس کے اندر موجود ہے‘‘۔ احادیث میں نے ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ نبی کریمﷺ کے کچھ صحابہؓ ایک سفر پر روانہ ہوئے۔ دورانِ سفر اُنہوں نے ایک قبیلہ کے پاس پڑاؤ کیا اور اُن سے مہمان نوازی کا تقاضا کیا لیکن اُنہوں نے انکار کر دیا۔ اسی اثناء قبیلہ کے سردار کو کسی (سانپ یا بچھو) یعنی زہریلی چیز نے ڈس لیا۔ جب علاج سے اُس کو کوئی فائدہ نہ ہوا تو اُن میں سے کسی نے کہا کہ تم اس قافلہ والوں کے پاس جاؤ شاید اُن کے پاس اس کاکوئی علاج ہو۔ چنانچہ وہ آئے اور کہا کہ اے قافلے والو! ہمارے سردار کوکسی چیز نے ڈس لیا ہے۔ کیا تم میں سے کسی کے پاس اس کا علاج ہے۔ تو ایک صحابی نے کہا۔ ہاں میرے پاس ہے۔اللہ کی قسم میں دَم کرتا ہوں۔ مگر تم نے ہماری مہمان نوازی سے انکار کیا ہے۔لہذامَیں ہرگز تمہارے لئے دَم نہ کروں گا۔ یہاں تک کہ تم ہمارے لئے کچھ انعام نہ مقرر کردو۔ چنانچہ اُنہوں نے بکریوں کے ریوڑ میں سےکچھ دینے کا وعدہ کیا۔ اس پر اُس صحابی نے اُس سردارپر سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک ماری اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹھیک ہو گیا۔ قبیلہ والوں نے معاوضہ کے طور پر بکریاں دیں۔ کسی نے کہا کہ اسے اب ہم آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن دَم کرنے والے نے کہا کہ ابھی ایسا نہ کرو۔ جب تک کہ ہم رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس سلسلہ میں رہنمائی نہ لے لیں۔ چنانچہ اُنہوں نے نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوکر اس واقعہ کا ذکر کیا۔ تو آپؐ نے (دَم کرنیوالے سے) پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ رقیہ (یعنی دم کرنے والی) سورۃ بھی سورۃ فاتحہ ہے۔ اِس پر اُس نے جواب دیا کہ ایسے ہی میرے دل میں خیال آیا تھا۔ اس کے جواب پر رسول کریم ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔ بکریاں باہم تقسیم کر لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو۔
فاتحہ کے بارے میں اس زمانے کے امام صادق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’سوجانا چاہیے کہ جیسا خداوند حکیم مطلق نے گلاب کے پھول میں بدن انسانی کے لئے طرح طرح کے منافع رکھے ہیں کہ وہ دل کو تقویت دیتا ہے اور قویٰ اور ارواح کو تقویت بخشتا ہے اور کئی اور مرضوں کو مفید ہے۔ ایسا ہی خداوند کریم نے سورۃ فاتحہ میں تمام قرآن شریف کی طرح روحانی مرضوں کی شفا رکھی ہے۔ اور باطنی بیماریوں کا اس میں وہ علاج موجود ہے کہ جو اس کے غیر میں ہرگز نہیں پایا گیا‘‘۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ405، روحانی خزائن جلد1)
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ اپنی کتاب میں الحمدللہ لکھ کر دینے کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک شخص کاحیدر آباد کی طرف سے خط آیا اور وہ غیر احمدی تھا۔لکھا کہ ایک تعویذ اپنے دست مبارک سے لکھ کر مجھےبھیج دو۔ حضرت اقدسؑ نے مجھے فرمایا۔ صاحبزادہ صاحب ہمیں تو تعویذ لکھنا نہیں آتا۔لاؤ الحمدشریف لکھ دیں اسی میں ساری برکتیں ہیں۔ آپ ؑ نے الحمدُ لکھ کر مجھ کو دیدی اور فرمایا خط میں بھیج دو‘‘
(تذکرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ185)
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ ایک اور واقعہ حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرت اقدسؑ کبھی تعویز آج کل کے درویشوں، فقیروںِ، مولویوں کی طرح سے نہیں لکھتے تھے۔ پانچ چار دفعہ آپ کو تعویذ لکھنے کا کام پڑا۔ اور وہ یوں پڑا ہے۔ کہ خلیفہ نورالدین صاحب ساکن جموں کو اولاد نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے اولاد کے بارہ میں دعا کروائی۔ آپؑ نے فرمایا! ہاں ہم دعا کریں گے۔ خلیفہ صاحب نے عرض کی کہ ایک تعویذ مرحمت ہوجائے۔ فرمایا لکھ دیں گے۔ پھر ایک دفعہ عرض کی فرمایا ہاں یاد دلا دینا لکھ دیں گے۔ اب خلیفہ صاحب نے ادب سے تعویذ کے لیے خود عرض کرنا مناسب نہ جانا۔ اور جناب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد سلمہ اللہ تعالیٰ چھوٹے سے تھے۔ اُن سے کہا کہ تم تعویذ حضرت اقدسؑ سے لادو۔ اُن کو حضرت اقدس علیہ السلام کے پیچھے لگا دیا۔ یہ جب جاتے تو کہتے ابّا۔خلیفہ جی کے واسطے تعویذ لکھ دو۔ دو چار دفعہ تو ٹالا لیکن یہ پیچھے لگ گئے۔ ایک دن انہوں نے کہا ابّا تعویذ لکھ دو۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمیں تو تعویذ لکھنا نہیں آتا۔ محمود کو جس بات کی ضد پڑ جاتی ہے مانتا نہیں۔تعویذ لکھ کر دیا۔ آپ نے معہ بسم اللہ تمام الحمدللہ لکھ کر تعویز محمود صاحب کو دیدیا۔ یہ لے کر خلیفہ جی کو دے آئے۔ بس تعویذ کا باندھنا تھا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہ طفیل دعاء مسیح، ان کی بیوی حاملہ ہوئی اور لڑ کا پیدا ہوا۔‘‘
(تذکرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ184۔ 185)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں۔
’’سورہ فاتحہ شفا ہے کہ اس میں تمام اُن وساوس کا ردّ ہے جو انسان کے دل میں دین کے بارہ میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ رُقْیَة ہے کہ علاوہ دَم کے طور پر استعمال ہونے کے، اس کی تلاوت شیطان اور اس کی ذریت کے حملوں سے انسان کو بچاتی ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد1 صفحہ4)
اسی طرح حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کا ایک واقعہ آتا ہے جس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فاتحہ میں شفاء ہے۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں کہ: ’’ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ۔۔۔ کو مجھ پر ابتداء میں حسن ظن تھا ۔۔۔ ایک دفعہ اُن کا چھوٹا لڑکا بشیر حسین بعمر چھ سات سال سخت بیمار ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی توجہ سے اُس کا علاج کرتے۔ اور دوسرے ماہر ڈاکٹروں اور طبیبوں سے بھی اُس کے علاج کے لئے علاج مشورہ کرتے تھے۔ لیکن بچے کی بیماری دن بدن بڑھتی چلی گئی ۔۔۔ اس نازک حالت میں ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے بڑے عجز و انکسار اور چشم اشکبار سے مجھے بچہ کیلئے دُعا کے واسطے کہا ۔۔۔ مَیں نے کہا کہ مَیں دُعا کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ آپ سب بشیر کی چارپائی کے پاس سے دوسرے کمرے میں چلی جائیں۔ اور بجائے رونے کے اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا میں لگ جائیں۔ اور بشیر حسین کی چارپائی کے پاس جائے نماز بچھا دیا جائے۔ تا مَیں دُعا میں اور نماز میں مشغول ہو جاؤں ۔۔۔ مجھے اُس وقت سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان فرمودہ قبولیت ِدُعا کا گُر یاد آ گیا۔ اور میں کمرہ سے باہر نکل کر کیلیانوالی سڑک کے کنارے جا کھڑا ہوا۔ اور ضعیف اور بوڑھی غریب عورت کو جو وہاں سے گزر رہی تھی آواز دے کر بُلایا۔ اس کی جھولی میں روپیہ ڈالتے ہوئے اُسے صدقہ کو قبول کرنے اور مریض کیلئے جن کے واسطے صدقہ دیا تھا دُعا کرنے کیلئے درخواست کی۔ اس کے بعد مَیں فوراً مریض کے کمرے میں واپس آ کر نماز و دُعا میں مشغول ہو گیا۔ اور سورہ فاتحہ کے لفظ لفظ کو خداتعالیٰ کی خاص توفیق سے حصولِ شفا کے لئے رِقّت اور تضرّع سے پڑھا۔ اس وقت میری آنکھیں اَشکبار اور دِل رقّت اور جوش سے بھرا ہوا تھا اور ساتھ ساتھ ہی مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی شانِ کریمانہ کا جلوہ ضرور دکھائے گا۔ پہلی رکعت میں مَیں نے سورہ یٰسین پڑھی اور رکوع و سجود میں بھی دُعا کرتا رہا۔ جب مَیں ابھی سجدے میں ہی تھا کہ بشیر حسین چار پائی پر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اور کہنے لگا کہ میرے شاہ جی کہاں ہیں۔ میری ماں کہاں ہے۔ مَیں نے اُس کی آواز سے سمجھ لیا کہ دُعا کا تیر نشانے پر لگ چکا ہے اور باقی نماز اختصار سے پڑھ کر سلام پھیرا۔ مَیں نے بشیر حسین سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ اُس نے کہا مَیں نے پانی پینا ہے۔ اتنے میں بشیر کی والدہ آئیں اور کمرے سے باہر سے ہی کہنے لگیں کہ مولوی صاحب !آپ کس سے باتیں کر رہے تھے۔ مَیں نے کہا کہ اندر آکر دیکھو۔ جب وہ پرد ہ کرکے کمرہ میں آئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ عزیز بشیر چارپائی پر بیٹھا ہے۔ اور پانی مانگ رہا ہے۔ تب انہوں نے اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور بچے کو پانی پلایا‘‘۔
(حیات قدسی جلد پنجم صفحہ491تا492)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سورۃ فاتحہ میں یہ خواص ہیں کہ وہ بڑی بڑی امراض روحانی کے علاج پر مشتمل ہے اور تکمیل قوت علمی اورعملی کے لئے بہت سا سا مان اس میں موجود ہےاور بڑے بڑے بگاڑوں کی اصلاح کرتی ہے ۔۔۔ سالک کے دل کو اس کے پڑھنے سے یقینی قوت بڑھتی ہے اور شک اور شبہ اور ضلالت کی بیماری سے شفا حاصل ہوتی ہے‘‘۔
(روحانی خزائن جلد1۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم398)
اس ترقی یافتہ دور میں بھی بعض ہسپتالوں میں قرآن تھیراپی کی جاتی ہے۔جس میں سورت فاتحہ اور چند اورسورتوں کی تلاوت اُونچی آواز سے کی جاتی اور مختلف بیماریوں میں مبتلا مریض شفاء پا رہے ہیں۔
آج کے فیج عوج کے زمانہ میں زبردستی ثواب حاصل کرنے کی غرض سے فاتحہ کا غلط استعمال بھی ہورہا ہے۔ جس سے بدعات اور رسومات جنم لے رہی ہیں۔جسے فاتحہ پڑھنا، فاتحہ کرنا، فاتِحَہ خوانی یا رُسُومِ فاتِحَہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس میں کسی شخص کے مرنے کے تیسرے دن اُس کے ایصال ثواب کے لیے مل بیٹھ کر درود شریف اور فاتحہ وغیرہ پڑھی جاتی ہے اور کھانا تقسیم کیا جاتا ہے اس عمل سے سمجھا یہ جاتا ہے کہ اِس کا ثواب مرنے والے کی روح کو ہوگا۔ لیکن نبی کریمﷺ اور آپؑ کے صحابہ کے عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فاتحہ خوانی کے بارے میں سوال ہوا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’نہ حدیث میں اس کا ذکر ہےنہ قرآن شریف میں نہ سنت میں‘‘
(بدر 19 اپریل 1906 صفحہ3۔ بحوالہ فقہ المسیح صفحہ390)
فرمایا ’’یہ درست نہیں۔ بدعت ہے۔ آنحضرتﷺ سے ثابت نہیں کہ اس طرح صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے‘‘۔
(البدر 16 مارچ 1904 صفحہ6۔ بحوالہ فقہ المسیح صفحہ391)
فاتحہ کے بارے میں ضرب المثل اور محاورے:
ضرب المثل اور محاورں میں بھی فاتحہ بہت مشہور ہے۔ جن میں سے چند ایک یوں ہیں: ’’اُس پر فاتحہ پڑھو‘‘۔ اُس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کام سے نااُمیدی اور مایوسی ہو جائے۔ ’’اٹْکَل کی فاتِحَہ دینا‘‘۔بے سوچے سمجھے باتیں کرنایا کبھی کچھ کہنا اور کبھی کچھ اور کہنا۔ ’’فاتِحَہ نَہ دُرُود کھانے کو موجود‘‘۔بغیر محنت اور کام کے کھانے کو تیار رہنا یا کام نہ کرنے کے باوجود اپنی اُجرت کا مطالبہ کرنا۔ ’’ہم ابھی سے فاتِحَہ کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں‘‘۔ جب کوئی جُھوٹ مُوٹ یا مذاق سے مرنے کی دھمکی دے تو اُس وقت یہ محاورہ استعال کیا جاتا ہے۔ ’’فاتِحَہ نَہ دُرُود مَر گئے مَردُود‘‘۔ بُرے وبے ایمان کی موت پر اس محاورے کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ’’فاتِحَہ نَہ دُرُود کھا گئے مَردُود‘‘۔ نا اہل اور نکمے لوگ چیز کو ضائع کردیتے ہیں کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ ’’جیسا تیل کا مَلیِدَہ وَیسے اَٹْکَل کا فاتحہ‘‘۔ بد انتظامی و بد عملی ہوتو نتیجہ بھی بُرا ہی نکلتا ہے یعنی بُرے کام کا بُرا نتیجہ ہونا۔ ’’بھٹیاری کے تنور پہ نانا کی فاتحہ یاحَلْوائِی کی دُکان پَر دادا جِی کی فاتِحَہ‘‘۔ دوسرے کے مال کو اپنا سمجھ کربغیر سوچے سمجھے اور بےدریغ خرچ کرتے جانا۔
(جاوید اقبال ناصر۔ مربی سلسلہ جرمنی)