• 26 اپریل, 2024

ماں تو ماں ہوتی ہے!!!!

ایک عزیز کے نام تحریر
ماں تو ماں ہوتی ہے!!!!

ماں کے رشتے سے بندھے ربوبیت کے تار سدھانے کی جانے آج کیا سوجھی ہے کہ بے اختیار اس بحرِ بےکنار میں غوطہ زنی کرنے کو چلا ہوں ۔ ماں کے رشتے کی شروعات صر ف ماں بننے سے نہیں ہوتی بلکہ دنیا میں آنے والی ہر بچی بچپن سے ہی گڑیوں کو گود لے کر گویا اپنی مامتا کا احساس دلانے لگتی ہے۔ جبکہ اسی عمر کے لڑکے بالعموم گھر سے باہر کھیل کود میں مشغول رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہ بھی ایک سچ ہے کہ دنیا کی ہر ماں کسی بھی دوسری ماں سے مختلف ہوتی ہے۔ اس اختلاف کی بنیادی وجہ ہر ماں کے بچپن سے شادی تک مختلف حالات، تعلیم، ماں باپ اور بہن بھائی اور عزیز رشتہ داروں سے گھریلو تعلقات اور پھر سسرالی رشتہ داروں سے تعلقات اور ان سب کا ہمہ وقت نبھانا ہر ماں کو ایک مختلف ماں بنا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی تقسیم ماؤں کی مصروفیات کے حوالہ سے گھر داری اور نوکری کرنے والی ماؤں کی ہے۔ یہ ایک لازمی امر ہے کہ گھر داری والی ماؤں کے بچے بالعموم زیادہ سگڑھ اور گھریلو مزاج کے ہوتے ہیں جبکہ بالعموم نوکری کرنے والی مائیں کیونکہ گھر پر کم وقت دے پاتی ہیں اس لئے ان کے بچے بسا اوقات تعلیم جیسے بنیادی ہنر اور قابلیت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔

یہ بھی ایک نعمتِ عظمیٰ ہے کہ کسی کی ماں بیک وقت نوکری بھی کرتی ہو اور گھر داری بھی اور اس کی سلیقہ شعاری کا ایک زمانہ معترف ہو۔ میں بھی خو دکو ایسے ہی خوش نصیبوں میں شمار کرتا ہوں کیونکہ میری والدہ نے عمر بھر نوکری بھی کی اور گھر داری کے ساتھ ساتھ مہمانوں اور بالخصوص سسرالی مہمانوں کی مہمان نوازی کا حق بھی ادا کیا۔ ہمارے گاؤں میں کسی کو بھی کوئی تکلیف ہوتی یا ڈاکٹر کو دکھانا ہوتا تو سب سے پہلے میری والدہ کا نام ہی زبان پر آتا اور ربوہ کی طرف عازمِ سفر ہوجاتے اور جیسے کہ گاؤں کا عمومی رواج ہے کہ کوئی ہسپتال میں داخل ہو تو ا سکا پتہ لینے اکثر قریبی عزیز وں کا تانتا بندھا رہتا ہے اسی طرح میری والد ہ کی مصروفیت ان دنوں میں اس قدر بڑھ جاتی کہ کالج جانے سے پہلے سب مہمانوں کا ناشتہ تیار کرکے واپسی پر دوپہر کے کھانے کی فکر اور ساتھ ساتھ مریضوں کی پر ہیزی تو بنتی ہی تھی۔ اس سب کے باوجود آپ کی زبان پر کبھی بھی حرفِ شکایت تو دور کسی بھی مہمان کی دل آزاری کا خدشہ بھی کبھی پیش نہ آنا میری والدہ کے وسعتِ حوصلہ اور بشاشتِ قلبی کا ایک انمول مظاہرہ تھا۔

ایک ماں کے جذبات کو سمجھنا شاید اولاد کے لئے اس وقت تک ناممکن ہوتا ہے جب تک وہ خود ماں یا باپ کے درجہ تک نہ پہنچ جائیں۔ اس تحریر کے لکھنے کا ایک فوری محرک شاید گزشتہ دنوں میرے ایک عزیز کی فون کال تھی جس نے مجھے بتایا کہ اس کی اپنی والدہ سے کچھ ناراضگی ہوگئی ہے اور اس کا اس کی والدہ دونوں کا قصورہے۔ اس کی بات سنتے ہی میں نے اسے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ سارا قصور ہی اس کی والدہ ہے کیونکہ اس کی والدہ نے اس کے والد سے خلع لینے کے بعد اسے ماں اور باپ دونوں بن کر پالا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس کی ماں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ جب اس نے خود بھوکی رہ کر اسے کھلایا اور اس کی اعلیٰ تعلیم کے لئے نہ جانے کیا کیا جتن کئے اور ہر عید پر اس کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے کس قدر کرب میں راتیں کاٹیں اور آج وہ اس قدر عقلمند ہو گیا ہے کہ اسے اپنی ماں کا قصور نظر آنے لگا ہے۔ میرے جواب نے شاید اسکے وجود پر سکتہ طاری کر دیا تھا اس لئے میں نے خود ہی اسے کہا کہ فوراً اپنی والدہ سے معافی مانگو اور جیسے بھی ہو انہیں راضی کرلو۔

دراصل ماں کی ذات ہر لمحہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔ ماں کی وہ قربانیاں جو ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے وہ کر چکی ہوتی ہے خود ماں یا باپ بننے کے بعد ان عظیم قربانیوں کا احساس ہوتا ہے مگر بہت سے احباب کے لئے یہ احساس ایک ندامت بن جاتا ہے کیونکہ احساس کے بعد ماں کے وجود کو کھو چکے ہوتے ہیں۔سوائے اس کے کہ اگر اولاد ایسی خوش نصیب ہو کہ ماں کے ساتھ یادوں کا ایسا گلدستہ سمیٹ لے کہ جب دل چاہے اس کی مہک سے مستفیذ ہو جائے۔ شاید ماں ہی وہ لفظ ہے کہ جس کے سنتے ہی ہر وہ سعادت مند وجود جو اس خزانہ کو بارگاہِ ایزدی کے سپرد کر چکاہے جانے کیوں اس کی آنکھوں کو جیسے آشوبِ چشم کی بیماری لگ جاتی ہے آنسوؤں کی اس نہ تھمنے والے تیز و تند برساتی بارش کا ایک فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ ماں کا وجودسینے سے لگانے کے لئے ہو نہ ہو مگر دل کی تسکین اس غبار کے بہہ جانے سے ضرور ہو جاتی ہے اور ایسی کیفیت میں دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئیں دعائیں اور صدائیں ضرور ماں کی ربوبیت کے بدلے میں خدا کے رحم کو جوش دلانے کا سبب بنتی ہیں۔

رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا

طالبِ دعا
وقار احمد بھٹی

پچھلا پڑھیں

مقابلہ کوئز Current Affairs جامعۃ المبشرین گھانا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 ستمبر 2021