• 6 مئی, 2024

تخمینہ Estimate کی اہمیت

تخمینہ Estimate کی اہمیت
ہمارے کاموں کے اندر علمیت، افادیت اور ایثار پایا جانا چاہئے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
پس ہر کام کے لئے ضروری ہے کہ اُسے شروع کرنے سے پہلے اس کا اندازہ لگایا جائے۔ پھر ضروری ہے کہ اس کے سامان کو دیکھا جائے کہ آیا وہ موجود ہیں۔ پھر یہ دیکھا جائے کہ ان کو مناسب وقت اور مناسب جگہ پر مہیا کرنے کے سامان موجود ہیں یا نہیں۔ جب یہ اندازہ لگ جائے اورحساب سے معلوم ہو جائے کہ ہر چیز مکمل ہے تو پھر دیانتداری سے کام کرو۔ حساب میں بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر یہ نہیں ہوتاکہ تین کا پانچ ہو جائے یا پانچ کا تین ہو جائے۔ اندازے کے بعد بڑی غلطی تبھی ہو گی جب تم بددیانتی اور سُستی کرو گے۔ یا تو تمہارا اندازہ غلط ہو گا اور یاکام غلط ہوگا۔ اندازہ لگانے میں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے نفس کو مجرم بنا سکتا ہے اور ثابت کر سکتا ہے کہ اس نے جو کہا تھا یا تو وہ غلط تھا اور یا اس نے اپنے عمل کے ساتھ اسے پورا نہیں کیا۔ یہی چیز اِس وقت مغرب کی کامیابی اور مشرق کی ذلت کا باعث ہو رہی ہے۔ یورپ کے لوگ کام شروع کرنے سے پہلے اس کا اسٹیمیٹ (Estimate) لگاتے ہیں۔ پھر وہ دیکھتے ہیں کہ وہ سامان جن کے ساتھ کام پورا ہوگا موجود ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد وہ پوری دیانتداری کے ساتھ کام کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کا ناکام ہونا ان کی ذلت کا موجب ہے۔ گویا ان کا خدا تعالیٰ کو نہ ماننا ان کے لئے فائدہ بخش ہو گیا ہے اور ہمارے لئے اس کا ماننا ذلت کا موجب ہو گیا ہے۔ کیونکہ یورپین لوگ اگر کسی کام میں ناکام ہو جائیں تو وہ یہ نہیں کہتے کہ خدا تعالیٰ نے یوں کر دیا ہے وہ تو خداتعالیٰ کو مانتے ہی نہیں۔ لیکن ایک مسلمان خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے بے ایمانی کرتا ہے اور کہتا ہے میں نے تو پورا زور لگایا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا کر دیا ہے۔ گویا دنیا میں نور اور ظلمت کی جو دو طاقتیں ہیں ان میں سے نور کی طاقت یہ مسلمان ہیں اور ظلمت کی طاقت خدا تعالیٰ ہے۔ (نعوذ باللّٰہ) شیطان کا جو کام تھا وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتاہے اور جو خدا تعالیٰ کا کام تھا وہ اپنی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی یہ کتنی بڑی ہتک ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص یہ امید رکھے کہ خدا تعالیٰ اس کی مدد کرے گا تو یہ اس کی حماقت ہو گی۔ آخر وہ اس کی کیوں مدد کرے گا جب وہ تمام خرابیاں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ تو اُس شخص کی مدد کرتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح کہتا ہے میں اپنی غلطیوں سے بیمار ہوتا ہوں اور خدا تعالیٰ مجھے شفا دیتا ہے۔ اس کے کام کا اگر نتیجہ اچھا نکل آتا ہے تو وہ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ خدا تعالیٰ نے یوں کر دیا۔ اور جب نتیجہ خراب نکلتا ہے تو وہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتا ہے کہ میں اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ناکام رہا۔ اور برکت اُسی کو ملتی ہے جو عیب اپنی طرف اور خوبی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتاہے۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے میرے اس بندہ نے عیب اپنی طرف منسوب کیا ہے اور خوبی میری طرف منسوب کی ہے میں اس کا کام اچھا کر دوں تا خوبیاں میری طرف منسوب ہوں۔ اور جب کوئی ایسا نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں ایسا کیوں کروں۔ کافر کے متعلق قرآن مجید میں آتا ہے کہ جب اُسے کوئی برکت ملتی ہے تو وہ کہتا ہے یہ میری محنت کا نتیجہ ہے لیکن مومن کے متعلق آتا ہے کہ وہ تمام برکات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مانتا ہے۔

پس یہ تین چیزیں یاد رکھو۔ اول اندازے کے بغیر کوئی کام نہ کیا کرو۔ ہمارے ہاں اسٹیمیٹ (Estimate) اس کو کہتے ہیں کہ بجٹ بنے۔ حالانکہ اسٹیمیٹ بجٹ کا نام نہیں۔ بجٹ کے یہ معنے ہیں کہ ہم اس حد تک خرچ کر سکتے ہیں۔ اور اسٹیمیٹ کے یہ معنے ہیں کہ اگر وہ کسی عمارت کا اسٹیمیٹ ہے تو کتنا سامان، کتنے مزدور، کتنے راج اور کتنا وقت ہمیں درکار ہے۔ دوسرے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اتنی اینٹیں مل سکتی ہیں؟ اگر مل سکتی ہیں تو کہاں سے؟ پھر اگر بنوانی ہیں تو کہاں سے بنوائی جائیں گی؟ اور اس کے لئے کتنے مزدوروں کی ضرورت ہے؟ پھر ان کو اٹھا کر لے جانے کے لئے کون سے ذرائع ہیں؟ پھر عمارت بنانے کے لئے کتنے معماروں کی ضرورت ہے؟ کتنے مزدوروں کی ضرورت ہے؟ اورپھر آیا اتنے راج اور مزدور موجود ہیں؟ پھر جتنی لکڑی درکار ہے وہ کہاں سے ملے گی اور کیسے ملے گی اور کتنے دنوں میں ملے گی؟ جب اندازے صحیح ہو جائیں گے تویقینی بات ہے کہ غلطی کرنے والا پکڑا جائے گا۔ کیونکہ جب سامان کی تعیین ہو جائے گی اور جتنے وقت میں وہ کام ہونا ہے اُس کی بھی تعیین ہو جائے گی تو ہر عقلمند یہی کہے گا کہ اب اگر نتیجہ غلط نکلا ہے تو یقینا تم نے غلط کام کیا ہے۔ اگر واقع میں روپیہ موجود تھا اور جس سامان کی ضرورت تھی وہ موجود تھا تو بتاؤ وہ کام کیوں نہ ہوا۔ اگر دس سیر پانی موجود ہو جس سے ہم نے مہمانوں کو شربت پلانا ہے اور شکر بھی کافی موجود ہو اور پھر شربت تیار نہ ہو تو تم کیا کہہ سکتے ہو کہ شربت کیوں تیار نہیں ہوا۔ سیدھی بات ہے کہ تم نے سُستی سے کام لیا ہے اور شربت تیار نہیں کیا۔ غرض اندازے انسان کو جب وہ غفلت کرے مجرم بنا دیتے ہیں۔ اگر اندازے صحیح ہوں گے تو انسان کوئی وجہ پیش نہیں کر سکتا کہ وہ کام کیوں نہیں ہوا۔ بجٹ کے معنے تو توفیق کے ہیں اسٹیمیٹ کے نہیں۔ ہم نے دنیا فتح کرنی ہے۔ اور اگر ہم نے دنیا فتح کرنی ہے تو ہمارے کاموں کے اندر علمیت پائی جانی چاہئے۔ ہمارے کاموں کے اندر افادیت پائی جانی چاہئے، ہمارے کاموں کے اندر ایثار پایا جانا چاہئے۔ یعنی جو کام بھی ہم کریں وہ قَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا کے ماتحت کریں۔ اور جو کام بھی ہم کریں وہ ہمارے لئے اور دوسروں کے لئے فائدہ مند ہوں۔ پھر جو کام بھی ہم کریں جان مار کر کریں اور یہ سمجھ کر کریں کہ ان اندازوں سے بڑھنا ناجائز ہے۔ اگر ہم ایسا کریں تو ہمارے کام میں برکت پڑ جائے گی۔ کیونکہ جب ہم تمام عیب اپنے اوپر لینے کے لئے تیار ہو جائیں گے تو خدا تعالیٰ بھی ہماری رعایت کرے گا۔ اور اگر کوئی حادثہ بھی پیش آگیا تو وہ اس سے ہمیں بچا لے گا۔ کیونکہ وہ سمجھے گا کہ یہ خواہ مخواہ الزام اپنے اوپر لینے کے لئے تیار ہو جائیں گے انہیں میں اس حادثہ سے بچا لوں۔ اور جب کوئی شخص خدا تعالیٰ پر الزام نہیں ڈالتا، جب وہ خود فخر نہیں کرتا، جب وہ نیکی کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا بلکہ ہر نیکی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے حوادث سے بچا لیتا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر نبی کی جماعت کو بھی حوادث پیش آتے ہیں لیکن ان کی نسبت دوسروں کے حوادث سے کم ہو جاتی ہے۔ عام طور پر خدا تعالیٰ قانونِ قدرت زیادہ جاری کرتا ہے اور استثناء کم استعمال کرتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ استثناء کو بالکل ہی مٹادیا جاتا ہے اور صرف قانونِ قدرت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے میں اور میرے رسول ضرور غالب ہوں گے۔ اب اِس قاعدہ کے ساتھ کوئی استثناء نہیں۔ سمندر ہوا بن کر اُڑ جائیں، پہاڑ اُڑ جائیں، دریا خشک ہو جائیں، چاند اور سورج گر جائیں، تمام کا تمام عالَم تہہ و بالا ہو جائے لیکن یہ قانون نہیں بدل سکتا کہ میں اور میرے رسول ضرور کامیاب ہوں گے۔ اب تک کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جو اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو اہو، کسی نبی کو خدا تعالیٰ نے سو سال میں کامیابی دے دی ہو یا کسی کو اِس سے کم یا زیادہ عرصہ میں۔ لیکن کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جو کامیاب نہ ہوا ہو۔ پس جو شخص تمام الزام اپنے اوپر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کو بَری قرار دیتاہے اُس کے لئے خدا تعالیٰ بعض ایسے قانون جاری کر دیتا ہے جن میں استثناء نہیں ہوتا۔ اور جس قانون میں استثناء ہوتاہے وہ بھی اس کے لئے کم از کم کر دیتا ہے۔ یعنی دوسروں کے ساتھ حوادث زیادہ پیش آتے ہیں لیکن اس کے ساتھ حوادث کم پیش آتے ہیں۔ کیونکہ وہ ہر خرابی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور ہر خوبی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17نومبر 1950ء بمقام ربوہ۔ الفضل مورخہ 26نومبر 1950ء)

(مرسلہ: ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے ایک مشاعرہ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 ستمبر 2022