• 18 مئی, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک وشہور (قسط 9)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک وشہور
قسط 9

ارشادات برائے بٹالہ

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
٭ اب ہم اپنى جماعت کو اور تمام سننے والوں کو بڑى صفائى اور وضاحت سے سناتے ہىں کہ سلطنت انگرىزى ہمارى محسن ہے۔ اس نے ہم پر بڑے بڑے احسان کىے ہىں۔ جس کى عمر 60 ىا 70 برس کى ہوگى وہ خوب جانتا ہو گا کہ ہم پر سکھوں کا اىک زمانہ گزرا ہے۔ اس وقت مسلمانوں پر جس قدر آفتىں تھىں وہ پوشىدہ نہىں ہىں۔ ان کو ىاد کر کے بدن پر لرزہ پڑتا ہے اور دل کانپ اٹھتا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو عبادات اور فرائض مذہبى کى بجا آورى سے جو ان کو جان سے عزىز تر ہىں روکا گىا تھا۔ بانگ نماز جونماز کا مقد مہ ہے اس کو بآواز بلند پکارنے سے روکا گىا تھا۔ اگر کبھى مؤذن کے منہ سے سہواً اللہ اکبر بآواز بلند نکل جاتا تو اس کو مار دىا جاتا تھا۔ اسى طرح پر مسلمانوں کے حلال و حرام کے معاملہ مىں بے جا تصرف کىا گىا تھا۔ اىک گائے کے مقدمہ مىں اىک دفعہ پانچ ہزار غرىب مسلمان قتل کئے گئے۔ بٹالہ کا واقعہ ہے کہ اىک سىد وہىں کا رہنے والا باہر سے دروازہ پر آىا۔ وہاں گائىوں کا ہجوم تھا۔ اس نے تلوار کى نوک سے ذرا ہٹاىا اور اىک گائے کے چمڑے کو خفىف سى خراش پہنچ گئى۔ وہ بے چارہ پکڑ لىا گىا۔ اور اس امر پر زور دىا گىا کہ اس کو قتل کر دىا جائے۔ آخر بڑى سفارشوں کے بعد اس کا ہاتھ کاٹا گىا۔ مگر اب دىکھو کہ ہر قوم و مذہب کو کىسى آزادى ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ429-430 جدىد اىڈىشن)

٭ اىک شخص نے کہلا بھىجا کہ مىں ہندوستان سے کوئى مولوى اپنے ساتھ لاؤں گا، جو آپ کے ساتھ گفتگو کرے، مگر مولوى لوگ قادىان آنا پسند نہىں کرتے۔ آپ بٹالہ مىں آ جائىں۔ فرماىا:
’’قادىان سے وہ لوگ اسى واسطہ نفرت کرتے ہىں کہ مىں قادىان مىں ہوں۔ پھر اگر مىں بٹالہ مىں ہوا تو بٹالہ ان کے لئے نفرت کا مقام بن جائے گا، قادىان مىں وہ ہمارے پاس نہ ٹھہرىں۔ کسى اور کے پاس جہاں چاہىں قىام کرىں۔ دوسرے دہرىئے موجود ہىں ان کے پاس ٹھہر ىں۔ ہم بحث کرنا نہىں چاہتے۔ ہمارا مطلب صرف سمجھا دىنا ہے۔ اگر اىک دفعہ ان کوتسلى نہ ہووے پھرسنىں پھر سنىں۔‘‘

(ملفوظات جلددوم صفحہ217 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
٭ ’’افسوس ہے کہ لوگ جوش اور سرگرمى کے ساتھ قرآن شرىف کى طرف توجہ نہىں کرتے جىسا کہ دنىا دار اپنى دنىا دارى پر ىا اىک شاعر اپنے اشعار پر غور کرتا ہے۔ وىسا بھى قرآن شرىف پر غور نہىں کىا جا تا۔ بٹالہ مىں اىک شاعر تھا۔ اس کا اىک دىوان ہے۔ اس نے اىک دفعہ اىک مصرعہ کہا۔

؏ صبا شرمندہ مے گردد بروئے گل نگہ کردن

مگر دوسرا مصرعہ اس کو نہ آىا دوسرے کى تلاش مىں برابر چھ مہىنے سرگردان و حىران پھرتا رہا۔ بالآخر اىک دن اىک بز از کى دکان پر کپڑے خرىدنے گىا۔ بزاز نے کئى تھان کپڑوں کے نکالے پر اس کو کوئى پسندنہ آىا۔ آخر بغىر کچھ خرىدنے کے بعد جب اٹھ کھڑا ہوا، تو بزاز ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے اتنے تھان کھلوائے اور بے فائدہ تکلىف دى۔ اس پر اس کو دوسرا مصرعہ سوجھ گىا۔ اور اپنا شعراس طرح سے پورا کىا۔­

؎ صبا شرمندہ مے گردد بروئے گل نگہ کردن
کہ رخت غنچہ را وا کردد نتوانست تہ کردن

جس قدر محنت اس نے اىک مصرعہ کے لئے اٹھائى۔ اتنى محنت اب لوگ اىک آىت قرآنى کے سمجھنے کے لئے نہىں اٹھاتے۔ قرآن جواہرات کى تھىلى ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہىں۔‘‘

(ملفوظات جلددوم صفحہ281-282 جدىد اىڈىشن)

٭ اس کے بعد حضر ت اقدسؑ نے جناب اُمّ المؤمنىن رضى اللہ عنہا کى اىک رؤىا سنائى، جو انہوں نے گزشتہ شب دىکھى تھى۔ اور وہ ىہ ہے

آپ نے دىکھا کہ دو پہر کے بعد ظہر جس وقت عموماً ىکے بٹالہ سے آتے ہىں۔ مىں (حضرت اقدسؑ) کچھ اسباب اور دوسردے لے کر گىا ہوں اور ام المومنىن کو دىئے ہىں کہ مرزا غلام قادر آ گئے ہىں اور رحمت اللہ بھى ہے۔ (رحمت اللہ حضرت اقدس کے والد مرحوم کا مختار تھا۔ اىڈىٹر) اس پر ام المومنىن نے حضرتؑ سے درىافت کىا۔ اس خىال سے کہ ان کا گھر تو دوسرى طرف ہے اور ان کى بىوى بھى موجود ہے جن سے حضرت اقدس کو موجودہ صورت مىں بالکل انقطاع ہے کہ پھر ان کے کھانے کا کىا انتظام ہو گا۔ حضرت اقدس نے فرماىا کہ دراصل وہ مر گئے ہىں اور وہ دونوں گھروں کے دىکھنے کو آئے ہىں۔ ام المومنىن نے کہا کہ رحمت اللہ خاص آپ سے ملنے کو آىا ہے۔ پر منظور على اىک لڑکا ہے۔ وہ اىک پوٹلى کپڑوں کى اس دوسرے گھر مىں ہمارے ہى مکان کى سىڑھىوں مىں سے ہو کر اس طرف لے گىا ہے۔ جس کو انہوں نے کھولا ہے۔ تو وہ سىاہ بوٹى اور سفىد زمىن کى اىک چھىنٹ تھى۔ اس کے بعد ان کا اور اسباب بھى ادھر ہى آگىا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ منظور على ادھر جو پوٹلى لے گىا تھا وہ بھى غلطى سے لے گىا ہے۔ دراصل ادھرہى کى تھى پھر آ نکھ کھل گئى۔

حضرت اقدسؑ نے فرماىا:
’’مىرى اس رؤىا کے ساتھ جو کل سنائى تھى۔ اس کے بعض اجزاء ملتے ہىں۔ اور فرماىا کہ غلام قادر مىں جو قادر کا لفظ ہے اس کا تعلق دونوں گھروں سے ہے مگر رحمت اللہ مخصوص اسى گھر سے ہے۔‘‘

(ملفوظات جلددوم صفحہ371-372 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
٭ پھر اسى طرح جھنڈا سنگھ نامى اىک زمىندار کے ساتھ درخت کاٹنے کا مقد مہ تحصىل مىں دائر تھا۔ مجھے خدا تعالىٰ کى طرف سے معلوم ہوا کہ ڈگرى ہو جائے گى۔ جب کوئى دس بارہ دن ہوئے تو لوگوں نے جو بٹالہ سے آئے کہا کہ وہ مقدمہ خارج ہو گىا ہے اور خود اس نے بھى آ کر بطور تمسخر کہا کہ مقدمہ خارج ہو گىا۔ مجھے اس خبر کے سننے سے اتنا غم ہوا کہ کبھى کسى ماتم سے بھى نہىں ہوا۔ مىں نے کہا کہ الله تعالىٰ نے ڈگرى کى خبر دى تھى ىہ کىا کہتے ہىں۔ وہ اسامى تھے اور ہم مالک تھے اور مالک کى اجازت کے بغىر وہ درخت کاٹنے کے مجاز نہ تھے مختلف قسم کے پندرہ ىا سولہ آدمى اس مقدمہ مىں تھے۔ مجھے بہت ہى غم محسوس ہوا۔ اور مىں جىسے کوئى مبہوت ہوجاتا ہے سراسىمہ ہو کر سجدہ مىں گر پڑا۔ اور دعا کى تب اىک بلند آواز سے الہام ہوا ’’ڈگرى ہوئى ہے مسلمان ہے۔‘‘ ىعنى آىا باور نمے کنى۔ صبح کو جب مىں تحصىل مىں گىا تو وہاں جا کر اىک شخص سے جو حاکم کا سر رشتہ دار تھا۔ مىں نے درىافت کىا کہ کىا فلاں مقدمہ خارج ہو گىا ہے۔ اس نے کہا نہىں اس مىں تو ڈگرى ہو گئى ہے۔ پھر مىں نے اس سے کہا کہ انہوں نے گاؤں مىں مشہور کىا ہے کہ وہ مقدمہ خارج ہو گىا ہے ىہ کىا بات ہے؟ اس نے کہا اصل بات ىہ ہے کہ اس خبر مىں وہ بھى سچے ہىں۔ جب حافظ ہداىت على صاحب فىصلہ لکھنے لگے تو مىں کہىں باہر چلا گىا تھا، جب باہر سے آىا تو انہوں نے روبکار مجھے دى کہ ىہ مقدمہ خارج کر دىا ہے۔ سر رشتہ دار کہتا ہے کہ تب مىں نے ان کو کہا کہ تم نے غلطى کى ہے۔ اس نے کہا نہىں مىں نے کمشنر کا فىصلہ جو انہوں نے پىش کىا تھا د ىکھ لىا ہے۔ مىں نے ان کو کہا کہ فنانشل کمشنر کا فىصلہ بھى تو دىکھنا تھا۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ فىصلہ جو اس نے کىا تھا وہ غلط ہے۔ اس نے رو بکار لے کر پھاڑ کر پھىنک دى اور دوسرى روبکار لکھى جس مىں ڈگرى کا فىصلہ دىا اور اس طرح پر پىشگوئى جو خدا تعالىٰ نے قبل از وقت مجھے بتلائى تھى پورى ہوئى۔ اس پىشگوئى کے بھى بہت سے لوگ گواہ ہىں اور اب تک موجود ہىں۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ153 جدىد اىڈىشن)

٭ اىڈىٹر الحکم کو مخاطب کر کے فرماىا کہ:۔
مىاں نبى بخش صاحب عرف عبد العزىز صاحب نمبر دار بٹالہ کا تو بہ نامہ جو اس نے بھىجا ہے۔ الحکم مىں چھاپ دىا جاوے۔

اور ساتھ اپنا اىک رؤىا بھى جسے بار ہا آپ نے فرماىا ہے سناىا کہ:۔
مىں نے اىک بار اس کے متعلق دىکھا تھا کہ گوىا اسى راستہ ہم سىر کو نکلے ہىں تو اس بڑ کے درخت کے نىچے جو مىراں بخش حجام کى حوىلى کے پاس ہے۔ نبى بخش سامنے سے آ کر ملا ہے اور اس نے مصافحہ کىا ہے۔ ىہ رؤىا ان دنوں کى ہے جب وہ مخالفت کے اشتہارچھپواتا پھرتا تھا۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ232 جدىد اىڈىشن)

٭ اذان سے پىشتر ہى حضرت اقدس با لا ئى مسجد مىں تشرىف لے آئے اور جس مکان کى خرىد کے متعلق حضور نے کشتى نوح مىں اشتہار دىا ہے اس کا ذکر کرتے رہے کہ:۔
توسىع مکان کى بہت ضرورت ہے جہاں تک ہو سکے جلدى فىصلہ کرنا چاہىے۔

پھر اذان ہوئى اور نماز ادا کر کے حضرت اقدسؑ حسب معمول شہ نشىن پر جلوہ افروز ہوئے۔ اىک خط اخبار عام کے کارپرداز وں کى طرف سے حضرت اقدس کى خدمت مىں آىا تھا جس کا راقم اىک شخص رحمت مسىح نامى بٹالہ سے تھا۔ اس خط مىں لکھا تھا کہ قادىان مىں سخت طاعون پھوٹى ہے دھڑادھڑ لوگ مر رہے ہىں۔ مرزا صاحب کى جماعت بھى بہت طاعون سے تباہ ہو چکى ہے خود مرزا صاحب بھى مبتلائے طاعون ہىں وغىرہ وغىرہ۔

اخبار عام نے اس خط کو بجنسٖہ حضرت اقدسؑ کے پاس تصدىق کے لئے روانہ کر دىا تھا۔ اس کا ذکر حضرت اقدس نے کىا۔ راقم خط کے متعلق کہا کہ
بعض لوگ شرىر فتنہ پردازى سے اىسا کرتے ہىں کہ اىک خط لکھ کر دوسرے مخالف کا نام اس پر لکھ دىا کرتے ہىں اس لئے کىا معلوم کہ کس کا لکھا ہوا ہے۔ مىں نے اخبار عام کولکھ دىا ہے کہ ىہ بالکل غلط ہے صرف چند اىک اموات چوڑھوں مىں ہوئى ہىں سو ان کا با عث بھى مشکوک ہے۔ کچھ ڈنگر مرے تھے وہ چوڑھوں نے کھائے پھر جن لوگوں نے ان کو کھا ىا وہى مرے ىہ نہىں کہا جا سکتا کہ وہ طاعون سے مرے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ291-292 جدىد اىڈىشن)

٭ مغرب کى نماز سے چند منٹ پىشتر ماه رمضان کا چاند دىکھا گىا۔ حضور علىہ الصلوٰۃ والسلام مغرب کى نماز گذار کر مسجد کى سقف پر تشرىف لے گئے کہ چاند کو دىکھىں اور دىکھا اور پھر مسجد مىں تشرىف لائے۔ فرماىا کہ :۔
رمضان گذشتہ اىسا معلوم ہوتا ہے جىسے کل گىا تھا۔ شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ فِىۡہِ الۡقُرۡاٰنُ (البقرة: 186) بھى اىک فقرہ ہے جس سے ماہ رمضان کى عظمت معلوم ہوتى ہے۔ صوفىا نے لکھا ہے کہ ىہ ماہ تنوىر قلب کے لئے عمدہ مہىنہ ہے۔ کثرت سے اس مىں مکاشفات ہوتے ہىں۔ صلوٰة تزکىہ نفس کرتى ہے اور صوم (روزه) تجلى قلب کرتا ہے۔ تزکىہ نفس سے مراد ىہ ہے نفس امارہ کى شہوات سے بُعد حاصل ہو جاوے اور تجلى قلب سے ىہ مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دىکھ لىوے۔ پس اُنۡزِلَ فِىۡہِ الۡقُرۡاٰنُ مىں ىہى اشارہ ہے اس مىں شک و شبہ کوئى نہىں ہے روزہ کا اجر عظىم ہے لىکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہىں مجھے ىاد ہے کہ جوانى کے اىام مىں مىں نے اىک دفعہ خواب مىں دىکھا کہ روزہ رکھنا سنت اہل بىت ہے۔ مىرے حق مىں پىغمبر خدا نے فرماىا سَلْمَانُ مِنَّآ اَھْلَ الْبَىْتِ۔ سَلْمَانُ ىعنى اَلصُّلْحُ کہ اس شخص کے ہاتھ سے دوصلح ہوں گى۔ اىک اندرونى دوسرى بىرونى اور ىہ اپنا کام رفق سے کرے گا نہ کہ شمشىر سے۔ اور مىں مشرب حسىن پرنہىں ہوں کہ جس نے جنگ کى بلکہ مشرب حسن پر ہوں کہ جس نے جنگ نہ کى مىں نے سمجھا کہ روزہ کى طرف اشارہ ہے چنانچہ مىں نے چھ ماہ تک روزے رکھے۔ اس اثنا مىں مىں نے دىکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہىں ىہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمىن سے آسمان پر جاتے تھے ىا مىرے قلب سے لىکن ىہ سب کچھ جوانى مىں ہو سکتا تھا اور اگر اس وقت مىں چا ہتاتو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا۔

؎ نشاط نوجوانى تا بہ سى سال
چو چہل آمد فرو رىزد پر و بال

 اب جب سے چالىس سال گذر گئے دىکھتا ہوں کہ وہ بات نہىں۔ ورنہ اول مىں بٹالہ تک کئى بار پىدل چلا جاتا اور پىدل آتا اور کوئى کسل اورضعف مجھے نہ ہوتا اور اب تو اگر پانچ چھ مىل بھى جاؤں تو تکلىف ہوتى ہے چالىس سال کے بعد حرارت غرىزى کم ہونى شروع ہو جاتى ہے خون کم پىدا ہوتا ہے اور انسان کے اوپر کئى صدمات رنج وغم کے گذرتے ہىں۔ اب کئى دفعہ دىکھا ہے کہ اگربھوک کے علاج مىں زىادہ دىر ہو جائے تو طبىعت بے قرار ہو جاتى ہے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ424-425 جدىد اىڈىشن)

٭ بٹالہ مىں طاعون کا ذکر سن کر فرماىا کہ :۔
ىہ سر زمىن بہت گندى ہے خوف ہے کہىں تباہ نہ ہو جاوے۔ اللہ کا رحم ہے اس شخص پر جو امن کى حالت مىں اسى طرح ڈرتا ہے جس طرح کسى پر مصىبت وارد ہوتى ہو تو وہ ڈرے جوامن کے وقت خدا کو نہىں بھلا تا خدا اسے مصىبت کے وقت مىں نہىں بھلاتا اور جو امن کے زمانے کوعىش مىں بسر کرتا ہے۔ اور مصىبت کے وقت دعائىں کر نے لگتا ہے تو اس کى دعائىں بھى قبول نہىں ہوتىں۔ جب عذاب الہٰى کا نزول ہوتا ہے تو توبہ کا دروازہ بند ہو جا تا ہے۔ پس کىا ہى سعىد وہ ہے جو عذاب الہٰى کے نزول سے پىشتر دعا مىں مصروف رہتا ہے صدقات دىتا ہے اور امر الہٰى کى تعظىم اور خلق الله پر شفقت کرتا ہے۔ اپنے اعمال کو سنوار کر بجا لاتا ہے ىہى ہىں جوسعادت کے نشان ہىں۔ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسى طرح سعىد اورشقى کى شناخت بھى آسان ہوتى ہے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ401-402 جدىد اىڈىشن)

٭ حضرت اقدس حسب معمول سىر کے لئے تشرىف لائے۔ آتے ہى قاضى امىر حسىن صاحب مدرس عربى مدرسہ تعلىم الاسلام قادىان کے والد ماجد مسمىّٰ غلام شاہ صاحب تاجر اسپاں سے ملاقات ہوئى انہوں نے حضرت اقدس کے دست مبارک کو بوسہ دىا اور نذر گذ رائى۔ حضرت اقدس ان کے حالات درىافت فرماتے رہے معلوم ہوا کہ اسى سال سے زىادہ عمر آپ کى ہے انہوں نے درخواست کى مىرے خاتمہ بالخىر کى دعا فرمائى جاوے۔ حضرت اقدس نے فر ماىا:۔
بس ىہى بڑى بات ہے کہ خاتمہ بالخىر ہو کسى نے نوح ؑسے درىافت کىا تھا کہ آپ تو قرىب اىک ہزار سال کے دنىا مىں رہ کے آئے ہىں بتلاىئے کىا کچھ دىکھا۔ نوحؑ نے جواب دىا کہ ىہ حال معلوم ہوا ہے جىسے اىک دروازہ سے آئے اور دوسرے سے چلے گئے تو عمر کا کىا ہے لمبى ہوئى تو کىا تھوڑى ہوئى تو کىا خاتمہ بالخىر چاہىے۔ پھر اىک بڑ کے درخت کى طرف اشارہ کر کے حضرت اقدس نے فرماىا کہ :۔
ہم سے تو ىہ درخت ہى اچھا ہے ہم چھوٹے ہوتے تھے تو اس کے تلے ہم کھىلا کرتے تھے ىہ اسى طرح ہے اور ہم بڈھے ہو گئے ہىں ىہ سال بہ سال پھل بھى دىتا ہے۔

پھر فرماىا کہ پرسوں مىں نے ان شاء اللہ (اىک شہادت کے واسطے) بٹالہ جانا ہے اس مىں کوئى حکمت الہٰى ہوگى اس لئے کل سىر موقوف رہے گى۔ مہندى لگاؤں گا۔ فرض منصبى مىں التوا ہو گىا ہے مگر خدا کى حکمت ہى ہوگى وہ جرح نہ ڈالے گا۔ مولوى محمد على صاحب کو ہمراہ لے جاؤں گا۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ349 جدىد اىڈىشن)

٭ حضرت اقدس نے آ کر فرماىا کہ :۔
چونکہ کام کى کثرت ہے اور وقت تنگ ہے کل انشاء اللہ بٹالہ بھى جانا ہے اس لىے نماز مىں جمع کر لى جاوىں۔

حضرت اقدسؑ حسب معمول بعد ادائے نماز مغرب شہ نشىن پر جلوہ گر ہوئے فرماىا کہ :۔
آج مىں نے (کام مىں) بہت توجہ کى۔ سر مىں درد تھارىزش بھى ہے اور گلا بھى پکا ہوا ہے جىسے کسى نے چىرا ہوا ہو۔ اور مرىض بھى بہت آئے اگرچہ حکىم نور الدىن صاحب کو علاج کے لئے مقرر کىا ہوا مگر بعض اپنے اعتقاد کے خىال سے مجھ سے ہى علاج کراتے ہىں۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ352-353 جدىد اىڈىشن)

٭ بعد ادائے نماز فجر حضرت اقدس علىہ الصلوٰۃ والسلام بٹالہ جا نے کے لئے تىار ہوئے کل جماعت، مدرسے کے طالب علم نہاىت اشتىاق اور اخلاص کے ساتھ اپنے سىد و مولا امام کى روانگى کے منتظر اور ہمراہ چلنے کے حکم کے لئے بىقرار تھے۔ حضرت اقدسؑ نے ىہى فرماىا کہ :۔
چونکہ آج ہى واپس آ جانا ہے اس لئے کچھ ضرور نہىں کہ سب لوگ ساتھ جاوىں۔

 آپ نے اىک اور طالب علم کو جو پا پىادہ ہمراہ تھا فر ما ىا کہ:۔
تم کو تو ىونہى تکلىف ہوئى تھوڑى دىر شاىد ٹھہر نا ہو گا سفر کى کوفت مىں تم خواہ مخواہ ہمارے شرىک ہو گئے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ353 جدىد اىڈىشن)

٭ بٹالہ آ نے کا تذکرہ ہو پڑ ا فرماىا:۔
ہمارا ىہاں آ نا تو کوئى اور ہى حکمت رکھتا ہے ورنہ ىہ شہادت کىا اور شہادت بھى لاعلمى کى۔

اس پر آپ نے فر ماىا کہ:۔
دو بزرگ ابوالقاسم اور ابوسعىد نام تھے۔ اتفاق سے دونوں اىک جگہ اکٹھے ہو گئے ان کے اىک مرىد نے کہا کہ مىرے دل مىں اىک سوال ہے اتفاق سے دونوں اىک جگہ جمع ہو گئے ہىں۔ مىں پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ سوال ىہ پىش کىا کہ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم جومدىنہ مىں آئے تھے اس کى کىا وجہ تھى؟ ابوالقاسم نے کہا کہ بات اصل مىں ىہ تھى کہ آنحضرت صلى الله علىہ وسلم کے بعض کمالات مخفى تھے ان کا ظہور اور بروز وہاں آنے سے ہوا۔

ابوسعىد نے کہا آنحضرت صلى الله علىہ وسلم اس لئے آئے تھے کہ بعض ناقص ابھى موجود تھے ان کى تکمىل کے لئے آئے۔

گوىا دونوں نے اپنے اپنے رنگ پر اپنى انکسارى کا اظہار کىا اور اىک دوسرے کى تکرىم۔ اس طرح ہمارے ىہاں آنے کى غرض تو ىہى معلوم ہوتى ہے کہ مىاں نبى بخش سے ملاقات ہوگئى کچھ تبلىغ ہو جائے گى بہت لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے گا۔

البدر مىں ہے کہ ہما را اس جگہ آنا بھى حکمت الہٰى پر مبنى ہے ورنہ شہادت تو اىک اىسا معاملہ ہےجس کا جواب ہمارے پاس سوائے لاعلمى کے اور کچھ نہىں۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ356-357 جدىد اىڈىشن)

٭ اىک شخص نبى بخش نام ساکن بٹالہ نے آپؑ کو لکھا کہ مىں عىسائىوں سے بحث کر نے لگا ہوں اور اس نے لکھا کہ مىں نے تمہىں اىک پرانى بائبل دى تھى وہ بھىج دو مىں نے اس کو لکھا ہے کہ
تم عىسائىوں سے کىا مباحثہ کرو گے؟ ان کى سارى باتىں تو تم خود مانتے ہو۔ عىسٰى کو زندہ آسمان پر سمجھتے ہو۔ غىب دان اور مُردوں کو زندہ کرنے والا کہتے ہو۔ اور پھر تمہارا ىہ اعتقاد ہے کہ صرف وہى مس شىطان سے پاک ہے غرض اس قسم کے جب تمہارے عقائد ہىں تو پھر ان سے کىا بحث کرنى چاہتے ہو؟ اس سلسلہ کے بغىر اور کوئى صورت عىسائىوں سے مباحثہ کى نہىں رہى۔ ہمارے مخالفوں نے تو اقبالى ڈگرى کرالى ہوئى ہے اور ان کے تمام عقائد باطلہ کى تائىد کى ہوئى ہے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ257 جدىد اىڈىشن)

٭ شاہ عبدالعزىز صاحب کے شاگردوں مىں سے اىک کا ذکر ہوا فرماىا کہ:۔
اىک دفعہ وہ شاىد بٹالہ مىں تھے تو اىک نے حقہ کا فتوىٰ پوچھا تو انہوں نے جواب دىا (حالانکہ غلط تھا) حقہ دو قسم کا ہے اىک وہ جو کہ تکىوں مىں ہوتا ہے دس دس دن تک پانى نہىں بدلتے اسے غسل نہىں دىتے تو وہ حرام ہے اور دوسرا جس کا پانى بدلتا رہتا ہے اور اسےغسل دىتے رہتے ہىں وہ حلال ہے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ260 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
٭ کوئى تىس سال کا عرصہ گذرا مىں نے اىک دفعہ خواب دىکھا کہ بٹالہ کے مکانات مىں اىک حوىلى ہے۔ اس مىں اىک سىاہ کمبل پر مىں بىٹھا ہوں اور لباس بھى کمبل ہى کى طرح پہنا ہوا ہے۔ گوىا کہ دنىا سے الگ ہوا ہوں۔ اتنے مىں اىک لمبے قد کا شخص آىا اور مجھے پوچھتا ہے کہ مىرزا غلام احمد غلام مرتضىٰ کا بىٹا کہاں ہے۔ مىں نے کہا مىں ہوں۔ کہنے لگا کہ مىں نے آپ کى تعرىف سنى ہے کہ آپ کو اسرار دىنى اور حقائق اور معارف مىں بہت دخل ہے۔ ىہ تعرىف سن کر ملنے آىا ہوں۔ مجھے ىاد نہىں کہ مىں نے کىا جواب دىا۔ اس پر اس نے آسمان کى طرف منہ کىا اور اس کى آنکھوں سے آنسو جارى تھے۔ اور بہہ کر رخسار پر پڑتے تھے۔ اىک آنکھ اوپر تھى اور اىک نىچے اور اس کے منہ سے حسرت بھرے ىہ الفاظ نکل رہے تھے۔ ’’تہىد ستان عشرت را‘‘ اس کا مطلب مىں نے ىہ سمجھا کہ ىہ مرتبہ انسان کو نہىں ملتا جب تک کہ وہ اپنے اوپر اىک ذبح اور موت وارد نہ کرے۔

اس مقام پرعرب صاحب نے حضرت کا ىہ شعر پڑھا۔ جس مىں ىہ کلمہ منسلک تھا کہ

’’مىخواہد نگار من تہىدستان عشرت را‘‘

حضرت نے فرماىا کہ:۔
مىں نے پھر اس کلمہ کو اس مصرعہ مىں جوڑ دىا کہ ىا درہے۔

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ39 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
٭ انسان مىں جو قوتىں اور ملکے اللہ تعالىٰ نے رکھے ہىں ان مىں وہ حد سے نہىں بڑھ سکتے مثلاً آنکھ اس نے دىکھنے کے لىے بنائى ہے اور کان سننے کے لىے، زبان بولنے اور ذائقہ کے لىے۔ اب ىہ کوئى نہىں کہہ سکتا کہ وہ کانوں سے بجائے سننے کے دىکھنے کا کام لے اور زبان سے بولنے اور چکھنے کى بجائے سننے کا کام لے۔ ان اعضاء اور قوىٰ کے افعال اور خواص محدود ہىں مگر اللہ تعالىٰ کے افعال اور صفات محدود نہىں ہىں اور وہ لَىْسَ کَمِثْلِہٖ شَىْءٌ ہے۔ غرض ىہ توحىد تب ہى پورى ہوگى جب الله تعالىٰ کو ہر طرح سے واحد لاشرىک ىقىن کىا جاوے اور انسان اپنى حقىقت کو ہا لكتہ الذات اور باطلتہ الحقىقت سمجھ لے۔ کہ نہ مىں اور نہ مىرى تدابىر اور اسباب کچھ چىز ہىں۔

 اس سے اىک شبہ پىدا ہوتا ہے کہ شاىد ہم استعمال اسباب سے منع کرتے ہىں ىہ صحىح نہىں ہے ہم اسباب کے استعمال سے منع نہىں کرتے بلکہ رعاىت اسباب بھى ضرورى ہے کىونکہ انسانى بناوٹ بجائے خود اس رعاىت کو چاہتى ہے لىکن اسباب کا استعمال اس حد تک نہ کرے کہ ان کو خدا کا شرىک بناوے بلکہ ان کو بطور خادم سمجھے جىسے کسى کو بٹالہ جانا ہو تو وہ ىکہ ىا ٹٹو کرا ىہ کرتا ہے تو اصل مقصد اس کا بٹالہ پہنچنا ہے نہ وہ ٹٹو ىا ىکہ۔ پس اسباب پر کلى بھروسہ نہ کرےىہ سمجھے کہ ان اسباب مىں اللہ تعالىٰ نے کچھ تاثىرىں رکھى ہىں اگر الله تعالىٰ نہ چاہے تو وہ تاثىر ىں بىکار ہو جائىں اور کوئى نفع نہ دىں۔ اسى کے موافق ہے جو مجھے الہام ہوا ہے رَبِّ کُلُّ شَىْءٍ خَادِمُکَ۔

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ104-105 جدىد اىڈىشن)

 (جارى ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

فضل عمر تربیتی کلاس مالی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 نومبر 2021