• 4 مئی, 2024

Water for Life

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 8؍اکتوبر 2022ء کو مسجد بیت الاکرام ڈیلس کی افتتاحی تقریب میں جماعت احمدیہ کی خدمت انسانیت کا ذکر کرتے ہوئے مہمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ
’’ہم نے Water for Life جیسے پروگرام بھی شروع کیے ہیں جن کے تحت دنیا کے دور افتا دہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ گو صاف پانی کے ایک گلاس کو ہم معمولی سمجھتے ہیں لیکن ترقی پذیر دنیا کے لاکھوں لوگوں کے لیے یہ زندگی بدل دینے والا انقلابی تجربہ ہے۔‘‘

(رپورٹ: مکرم عبد الماجد طاہر موٴرخہ8؍اکتوبر 2022ء قسط13)

یہ کام جماعت احمدیہ کی ایک آرگنائزیشن ہیو مینٹی فرسٹ کے تحت دنیا بھر بالخصوص افریقہ اور برصغیر کے Remote Areas میں جاری ہے۔ جہاں نلکے لگا کر شہریوں کو صاف ستھرا پانی مہیا کیا جاتا ہے جس کو افریقہ سیرا لیون کے 2019ء کے دورہ میں خاکسار اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا۔ وہاں کے بچے اور خواتین جو پانی بھرنے آتے وہ بہت خوش نظر آتے اور جماعت احمدیہ کی انسانیت کی اس خدمت کو سراہتے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اس اسکیم کا نام Water for Life ہے جس کے معنی ہیں پانی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ انسانی زندگی اور روحانی زندگی کے لیے مادی پانی اور روحانی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس پر خاکسار اس سے قبل بھی دو ایک آرٹیکلز لکھ چکا ہے۔

انسان کی زندگی خواہ جسمانی ہو یا روحانی، پانی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ حتی کہ انسانی پیدائش بھی پانی کے ذریعے ہوئی ہے۔اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ

(الانبیاء: 21)

اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔

وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ

(النور: 46)

اور اللہ نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔

وَہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الۡمَآءِ بَشَرًا

(الفرقان: 55)

اور وہی ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا کیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انسانی زندگی کا پانی سے تعلق ہے کو سورۃ الرعد کے تعارفی نوٹ میں یوں تحریر فرمایا ہے:
’’ایک دوسرا اہم مضمون اس سورت میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے شفاف پانی سے زمین کی ہر چیز کو زندگی عطا کی ہے۔ سمندر کا پانی تو انتہائی کھاری ہوتا ہے کہ اس سے خشکی پر بسنے والے جانور اور نباتات زندگی حاصل کرنے کی بجائے موت کا شکار ہو جاتے۔اس میں سمندر کے پانی کو نتھار کر بلند پہاڑوں کی طرف لے جانے اور پھر وہاں سے اس کے برسنے اور سمندر کی طرف واپس پہنچتے پہنچتےہر طرف زندگی بکھیرنے کے نظام کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس نظام کا بہت گہرا تعلق آسمانی بجلیوں سے ہے جو سمندر سے بخارات اٹھنے کے نتیجہ ہی میں پیدا ہوتی ہیں اور پانی بھی بادلوں کے درمیان بجلی کے لپکوں کے بغیر قطروں کی صورت میں زمین پر نہیں برس سکتا۔یہ بجلی کے کڑکے بعض دفعہ ایسے ہولناک ہوتے ہیں کہ بعضوں کے لئے وہ زندگی بخش ہونے کی بجائے ان کی ہلاکت کا موجب بن جاتے ہیں۔‘‘

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ صفحہ399)

*پانی کے تعلق میں اللہ تعالیٰ نے سمندر کے پانی کو مخلوق کے فائدہ کے لیے لکھا ہے۔ جیسے سورۃ النحل آیت15 میں اللہ تعالیٰ نے مچھلیوں اور قیمتی چیزوں کا ذکر فرمایا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَہُوَ الَّذِیۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡکُلُوۡا مِنۡہُ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّتَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡہُ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا

ترجمہ: اور وہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کیا تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے تم زینت کی چیزیں نکالو جنہیں تم پہنتے ہو۔

*اسی طرح پانی میں کشتیاں چلنے اور اس کے ذریعہ سفر کرنے کا ذکر سورۃ الجاثیہ آیت 13 میں بھی ہے۔ گویا پانی کا استعمال یا فائدہ اس رنگ میں بھی استعمال کیا ہے۔ پرانے وقتوں میں مال برداری پانی ہی کے ذریعہ ہوتی تھی اور آج بھی مغربی دنیا میں نہروں کو مال برداری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

*ہاں اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل کرنے کا ذکر متعدد بار قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ بارشوں کے ذریعہ جو پانی اترتا ہے اس سے زمین زرخیز ہوتی ہے۔ پھول پھل لاتی ہے چاروں طرف سرسبزہ اور ہریالی ہوتی ہے۔ نباتا ت اُگتی ہیں۔ فصلیں ہری بھری ہوتی ہیں۔ بالخصوص بارانی علاقوں میں بارش وہاں کے مقیم حضرات کے لیے ایک خوشی کی نوید لے کر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو یوں بیان فرماتا ہے۔

الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً ۪ وَّاَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ

(البقرہ: 23)

ترجمہ: جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا اور آسمان کو (تمہاری بقا کی) بنیاد بنایا اور آسمان سے پانی اُتارا اور اس کے ذریعہ ہر طرح کے پھل تمہارے لئے بطور رزق نکالے۔

وَہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَیۡءٍ فَاَخۡرَجۡنَا مِنۡہُ خَضِرًا نُّخۡرِجُ مِنۡہُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًا ۚ وَمِنَ النَّخۡلِ مِنۡ طَلۡعِہَا قِنۡوَانٌ دَانِیَۃٌ وَّجَنّٰتٍ مِّنۡ اَعۡنَابٍ وَّالزَّیۡتُوۡنَ وَالرُّمَّانَ مُشۡتَبِہًا وَّغَیۡرَ مُتَشَابِہٍ ؕ اُنۡظُرُوۡۤا اِلٰی ثَمَرِہٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَیَنۡعِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکُمۡ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۰۰﴾

(الانعام: 100)

ترجمہ: اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر ہم نے اس سے ہر قسم کی روئیدگی پیدا کی۔ پھر ہم نے اس میں سے ایک سبزہ نکالا جس میں سے ہم تہ بہ تہ بیج نکالتے ہیں اور کھجور کے درختوں میں سے بھی ان کے خوشوں سے بھرپور جھکے ہوئے تہ بہ تہ پھل اور اسی طرح انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار، ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی اور نہ ملتے جلتے بھی۔ ان کے پھلوں کی طرف غور سے دیکھو جب وہ پھل دیں اور ان کے پکنے کی طرف۔ یقیناً ان سب میں ایک ایمان لانے والی قوم کے لئے بڑے نشانات ہیں۔

(ترجمہ: از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

یہ بارش سرد اور برفانی علاقوں میں Snow fall (برف) کی صورت میں نازل ہوتی ہے جو گلیشئرز بن جاتے ہیں اور موسم گرما میں پگھل کر نہروں، کھالوں، دریاؤں اور سمندروں میں پانی کے اضافہ کا موجب بنتے ہیں اور انسان کی زندگی کو رواں رکھنے میں ممدثابت ہوتے ہیں۔ان برفانی پہاڑوں اور گلیشئرز میں بھی انسانی زندگی کے آثار موجود ہوتے ہیں۔

روحانی پانی کی ضرورت

آئیں! دیکھتے ہیں کہ جس طرح انسان کی حیات کے لیے مادی پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور واٹر فار لائف اس کی زندگی پر صادق آتا ہے۔ اسی طرح ایک مومن کی روحانی زندگی کے لیے انبیاء، مرسلین، مجددین اور صلحاء کی صورت میں روحانی پانی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ضرورت تا قیامت جب تک انسانی زندگی جاری و ساری ہے مسلّمہ رہے گی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سورۃ ہود کی آیت8 کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ کی تفسیر میں فٹ نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ سے یہ مراد نہیں ہے کہ نعوذ باللہ خدا کی روح پانی پر تیر رہی تھی۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اس نے تمام زندگی کی بِنا (بنیاد) پانی سے ڈالی ہے اور روحانی زندگی بھی روحانی پانی پر منحصر ہے جو آسمان سے انبیاء پر اتارا جاتا ہے۔‘‘

(فٹ نوٹ: قرآن کریم اردو ترجمہ صفحہ356)

گویا انبیاء اور رسول خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ روحانی پانی ہوتے ہیں اور ان پر وحی، الہامات، سچی خوابوں اور کشوف کے ذریعہ روحانی پانی نازل کیا جاتا ہے۔ اس روحانی پانی سے اسی طرح فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ یہ روحانی پانی انسان کی روحانی زندگی کے لیے اسی طرح ضروری ہے جیسے مادی پانی۔ یہ مادی پانی انسان کے اندر سے ختم ہو جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے اسی طرح اگر کسی کا خدا کے فرستادے سے رابطہ منقطع ہو جائے تو وہ بھی بظاہر مردہ ہی ہوتا ہے۔ ہم بارہا سابقہ قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں جنہوں نے اس روحانی پانی سے استفادہ نہیں کیا اور وہ صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں بار بار ملتا ہے۔ اسی مضمون کو خاکسار نے گزشتہ دنوں پاکستان کے ملاؤں پر چسپاں کیا تھا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی صورت میں روحانی پانی سے فیض نہیں پایا بلکہ اس کی نمائندگی میں جاری روحانی پانی کو اپنے سے الگ کر دیا۔ جس کی وجہ سے مصائب اور مشکلات نے پاکستان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ان سے دُور ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ کہیں سیلاب، کہیں زلزلے، کہیں قتل و غارت اور مہنگائی کا عذاب۔ جبکہ برطانیہ اور دنیا کے دیگر علاقے اس روحانی پانی سے فیضیاب ہو رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس روحانی پانی سے سیراب کر رہےہیں کہ ہم نے امریکہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ کے دوران اپنوں اور غیروں میں یکساں طور پر اترتے اور سیراب کرتے دیکھا۔ جن کی جھلک مکرم عبدالماجد طاہر ایڈیشنل وکیل التبشیر کی رپورٹس میں دیکھنے کو ملتی رہی۔

یہی روحانی پانی مومنوں کو اس حد تک سیراب کر تا ہے کہ یہ ان کی آنکھوں سے نمازوں میں اور خوف خدا کے تناظر میں آنسوؤں کی صورت میں نکلتا ہے جو اس کی نسلوں کو انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر جماعتوں کو سیراب کرتا ہے۔ یہی وہ چند قیمتی قطرے ہوتے ہیں جن کے متعلق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کو دو قطروں اور نشانات سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں ایک اللہ کے خوف سے بہنے والا آنسو کا قطرہ اور دوسرا اللہ کے راستے میں بہنے والا خون کا قطرہ۔‘‘ (ترمذی)

اس مضمون یعنی مادی پانی اور روحانی پانی کی قدر نہ کرنے کی صورت میں جو نقصان اٹھانے پڑتے ہیں کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’اگرچہ زندگی کا پانی آسمان سے اُترتا ہے اور اس کے باربار آسمان سے نازل کرنے کا نظام موجود ہے لیکن اگر کسی بنا پر بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ سبق سکھانا چاہے تو وہ اس بات پر قادر ہے کہ اس پانی کو لے جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں یا تو یہ کہ پانی بار بار آسمان کی بلندیوں سے واپس کرنے کا جو نظام ہے اس میں اللہ تعالیٰ کوئی تبدیلی فرما دے جیسا کہ ابتدائے آفرنیش میں زمین کا پانی مسلسل بخارات کی صورت میں آسمانوں کی طرف بلند ہوتا رہا اور جب برستا تھا تو درمیانی گرم فضا کے نتیجہ میں پھر واپس عروج کر جاتاتھا اور دوسری صورت وہ ہے جو عام مشاہدہ میں آتی ہے کہ جب پانی زمین میں گہرا اُتر جائے تو پھر گہرے کنوؤں کہ تہ سے بھی نیچے غائب ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد پھر پانی کے مضمون کو آگے بڑھا کر اُن کشتیوں کا ذکر ہے جو پانیوں پر چلتی ہیں اور اس نسبت سے حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کشتی کا ذکر بھی آیا ہے کہ پانی کی سطح پر بلند رہنے کی استطاعت کشتیوں کو تبھی نصیب ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا اِذن ہو۔ بلند سے بلند طوفان میں بھی کشتیاں پانی کی سطح پر بلند ہوتی رہتی ہیں اور معمولی سے طوفان میں غرق بھی ہو جاتی ہیں۔ جب قومیں آسمانی پانی سے جو روحانی طور پر ان پر نازل کیا جاتا ہے ناشکری سے پیش آتی ہیں تو دنیاوی پانی کی طرح اس سے بھی اللہ انہیں محروم کر دیتا ہے اور یہ امر بھی ان کو فائدہ نہیں پہنچاتا کہ موسلا دھار بارش کی طرح مسلسل رسول ان میں آتے رہے ہیں بلکہ سب کے انکار پر وہ مُصر رہتے ہیں۔‘‘

(ترجمہ:قرآن کریم مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ577)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

میاں محمد اسحاق طارق صاحب کی وفات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 نومبر 2022