• 29 اپریل, 2024

حضرت بابو اکبر علی رضی اللہ عنہ 

حضرت بابو اکبر علی رضی اللہ عنہ 
صحابی حضرت مسیح موعود عليہ السلام

حضرت بابو اکبر علی رضی اللہ عنہ اصل میں ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے لیکن محکمہ ریلوے میں ملازمت کے سلسلے میں مختلف جگہوں پر متعین رہے۔ آخر ہجرت کر کے قادیان آگئے اور دارالعلوم میں رہائش رکھی۔ آپ نے 1906ء یا 1907ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی اور سلسلہ احمدیہ کے ایک مخلص وجود ثابت ہوئے۔ آپ کی بیان کردہ روایات جماعتی لٹریچر میں محفوظ ہیں، آپ بیان کرتے ہیں:
’’میں جب پہلی دفعہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ساتھ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنے کے لئے گیا تو آپ اس وقت داڑھی کو مہندی لگائے ہوئے چارپائی پر بیٹھے تھے۔ میں نے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کیا تو آپ نے مجھے کھینچ کر اپنے پاس چارپائی پر بٹھالیا۔ میں نے بہتیرا کہا کہ حضور میں نیچے بیٹھتا ہوں، جہاں مفتی محمد صادق صاحب بیٹھ گئے تھے۔ آپ فرمانے لگے۔ ’’نہیں آپ ہمارے مہمان ہیں۔ آپ ہمارے پاس بیٹھیں۔‘‘ اور مجھے اپنے پاس چارپائی پر بٹھا لیا۔

مجھ سے دریافت فرمانے لگے کہ ’’آپ کے والد یا کوئی اور رشتہ داروں میں سے بھی احمدی بھی ہے یا نہیں‘‘؟ میں نے عرض کیا کہ حضور وہ تو آپ کے سخت محالف ہیں خاص کر میرے والد تو آپ کے سخت مخالف ہیں۔ اس سے تھوڑا عرصہ پہلے حقیقۃ الوحی چھپی تھی اور ایک نسخہ آپ کی چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔ آپ نے اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ آپ یہ کتاب لے جائیں اور اپنے والد صاحب کو پڑھنے کے لئے دیں۔ ہم نے اس کتاب میں ہر اُس شخص کے لئے جس کے پاس یہ کتاب پہنچے قسمیں ڈالی ہیں کہ وہ اس کتاب کو شروع سے لے کے آخر تک ایک بار سچے دل سے پڑھے اور ہمیں یقین ہے کہ جو ایک دفعہ اس کو شروع سے آخر پڑھے گا وہ ضرور ہمیں مان لے گا۔

میں نے عرض کیا کہ حضور وہ تو آپ کی کتابوں کو ہاتھ لگانا گناہ سمجھتے ہیں۔ فرمانے لگے ’’آپ ان سے کہیں کہ ہماری کتاب کو ہاتھ لگانا گناہ ہوتا تو مولوی ثناء اﷲ صاحب جو ہمارے اتنے بڑے سخت مخالف ہیں اگر ہماری کتابوں کو نہ پڑھیں تو ہم پر وہ اعتراض کس طرح کر سکتے ہیں؟‘‘ پھر فرمانے لگے آپ ان سے کہیں کہ ’’میں آپ کا فرزند ہوں اور آپ کے خیال میں مجھے ایک روحانی بیماری ہو گئی ہے اور اگر مجھے کوئی جسمانی بیماری ہو جاتی تو آپ میرے علاج کے لئے ڈاکٹروں کے پاس جاتے روپیہ خرچ کرتے اور اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتے کہ کسی طرح مجھے شفا ہو جائے۔ اس لئے آپ کا فرض ہے کہ آپ میری اس روحانی بیماری کے علاج کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ جس کا سب سے سہل علاج ہے کہ آپ (حضرت) مرزا صاحب کی کتابیں بغور پڑھیں اور پھر جسمانی بیماری کا تعلق تو صرف میرے تک ہی محدود رہتا۔ مگر اس حالت میں اگر میں حقیقتاً بیمار ہوں تو میری اولاد اور اُن کی اولاد اور قیامت تک لاکھوں انسان جو میری نسل سے پیدا ہوں گے، آپ کے خیال میں دوزخ میں جائیں گے۔ اس لئے آپ ان سب کو بچانے کے لئے مرزا صاحب کی کتابیں پڑھیں۔ تو اﷲ تعالیٰ آپ پر حق کھول دے گا۔‘‘ پھر فرمایا ’’میں نے یہ کتاب بطور تعزیرات ہند کے لکھی ہے۔ جس طرح اس میں دفعات کے نمبر ہیں۔ میں نے بھی اس میں نشانات کے نمبر لگادیئے ہیں۔‘‘

پھر مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ کتنی رخصت لے کر آئے ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ ایک مہینہ کی۔ فرمانے لگے ’’اس مہینہ میں سے ہمارے حصہ میں کتنے دن آئے ہیں؟‘‘ (آپ کے محبت بھرے الفاظ جب مجھے یاد آتے ہیں تو مجھے رقت طاری ہو جاتی ہے) پھر فرمایا کہ ’’ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ آپ اور چھٹی لے لیں اور یہاں ہمارے پاس کچھ عرصہ ٹھہریں۔‘‘

اس کے بعد میری ملازمت کے حالات مجھ سے دریافت فرماتے رہے کہ کیا تنخواہ ملتی ہے، کیا کام کرنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی دریافت فرمائیں۔ گویا آپ میرے حالات سے پورے طور پر واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

الغرض میں وہ کتاب (حقیقۃ الوحی) لے کر گیا اور اپنے والد ماجد کو پڑھنے کے لئے دی۔ وہ کہنے لگے کہ میں تو اس گندی کتاب کو (معاذ اﷲ) ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ جس پر میں نے حضرت صاحب کے فرمانے کے مطابق سب کچھ عرض کیا۔ میرے والد صاحب نے کتاب لے کر چند اوراق ادھر اُدھر سے پڑھے۔ پھر وہ کتاب ہمارے گاؤں کا ایک نوجوان مولوی جس کو اُنہوں نے دوسرے مولوی کو ملازم رکھ کر پڑھایا تھا، پڑھنے کے لئے دی اور کہا کہ آپ اس کتاب کو بغور پڑھیں اور پھر اپنی رائے اس کے متعلق دیں۔ اُس بد قسمت نوجوان مولوی نے کتاب کو پڑھ کر والد صاحب کو کہا کہ یہ کتاب تو ایسی ہے جیسا کہ حلوے میں زہر۔ خدا کی شان کچھ عرصہ بعد اﷲ تعالیٰ نے اُسے اُسی رنگ میں زہر پلا دیا یعنی ایک زہریلے سانپ ؔنے اُسے مسجد میں کاٹا کہ اُس کے سارے جسم سے پھٹ پھٹ کر خون بہتا تھا۔ جس سے وہ دوسرے دن راہی مُلکِ عدم ہو گیا۔

(الحکم 21 ستمبر 1935ء صفحہ4-5)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے مزید حالات بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’جب میں پہلی دفعہ حضرت صاحب کے پاس آیا تھا تو میں امرتسر سے خاص طور پر تلاش کر کے بڑے بڑے آم جہاں جہاں سے مجھے مل سکے تحفتاً لایا تھا۔ جب میں اپنے کام پر واپس گیا تو میری بیوی ان دنوں حاملہ تھی….. اُس نے حضرت صاحب کی خدمت میں دُعا کے لئے ایک خط لکھا جس میں اس نے مفصّل حال عرض کیا اور پھر اسے خیال پیدا ہوا کہ چونکہ حضرت صاحب کے خطوط کے جواب ہمیشہ مفتی محمد صادق صاحب دیتے ہیں۔ اس لئے شاید میرا یہ خط بھی حضور جواب کے لئے مفتی صاحب کو دے دیں اور عورتیں چونکہ ہمیشہ اپنے ایسے حالات دوسروں پر ظاہر ہونے سے شرم محسوس کرتی ہیں اس لئے اس کا دل چاہا کہ حضرت کو لکھ دوں کہ اس خط کا جواب حضور اپنے ہاتھ سے دیں اور کسی دوسرے کو میرا خط نہ دکھائیں۔ مگر بعد میں اسے خیال آیا کہ نبی کو ایسا لکھنا بے ادبی میں داخل ہو گا کیونکہ اس میں ایک حکم کا رنگ پایا جاتا ہے اس ادب کے لحاظ سے اس نے یہ نہ لکھا۔ میری اہلیہ کا خط میز پر دیکھ کر حضور نے حضرت اُمّ المؤمنین صاحبہ سے دریافت فرمایا کہ ’’اس طرح ایک عورت کا خط آیا ہے جس کا نام حاکم بی بی ہے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ وہ کب یہاں آئے تھے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو بتائیں۔‘‘ حضرت اُمّ المؤمنین صاحبہ نے فرمایا کہ وہ جو بڑے بڑے آموں کا ٹوکرا لائے تھے۔ اس سے حضرت صاحب کو یاد آگیا اور آپ نے بیت الدعا میں جاکر خاص طور پر میری بیوی کے لئے دُعا فرمائی اور اُس خط کا جواب لکھا کہ
’’میں نے آپ کے لئے بہت دُعا کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو ہر طرح آسانی دے گا۔‘‘ نیز نصیحت فرمائی کہ ’’آپ اپنے لئے، اپنے بچے کے لئے، اپنے خاوند کے لئے، اپنے ماں باپ کے لئے، اپنے بھائی بہنوں کے لئے، عزیز رشتہ داروں کے لئے نماز کے سجدوں میں اپنی زبان میں بہت دعائیں کیا کریں۔‘‘ خط کے آخر میں لکھا کہ ’’یہ خط میں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے کسی سے نہیں لکھایا۔‘‘ گویا دوسرے رنگ میں میری بیوی کی جو خواہش تھی کہ حضور اپنے ہاتھ سے خط لکھیں وہ بھی پوری ہو گئی اور اُس کا جواب بھی آگیا۔

میری بیوی کا والد فوت ہو گیا تو اُس کو بہت رنج ہوا۔ مگر ہم رُخصت پر بجائے اس کے کہ پہلے گھر جاتے سیدھے قادیان آئے۔ واپسی پر میری بیوی نے مجھ سے ذکر کیا اب مجھے اپنے والد کے فوت ہونے کا صدمہ نہیں رہا۔ کیونکہ اب اﷲ تعالیٰ نے اپنے والد سے بڑھ کر ایک والد دے دیا ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اور یہ بالکل حقیقی بات ہے کہ آپ کی محبت دل میں ایسا گھر کر جاتی ہے کہ جسمانی تعلقات اور رشتہ داریاں آپ کے سامنے ہیچ نظر آتی تھیں۔

(الحکم 21 ستمبر 1935ء صفحہ 4-5 رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7 صفحہ 260-265)

انڈین ریلوے میں انسپکٹر آف ورکس کی تعیناتی عام طور پر بڑے ریلوے سٹیشنز یا جنکشنز پر ہوتی تھی اور یہ ریلوے کی عمارتوں کی تعمیر اور دیکھ بھال بشمول اسٹاف کوارٹرز، ان عمارتوں کو پانی کی فراہمی، ریلوے اراضی پر تجاوزات کی روک تھام وغیرہ کے انچارج ہوتے تھے۔ حضرت بابو اکبر علی صاحبؓ اسی انسپکٹر آف ورکس کی پوسٹ پر فائز تھے اور اس سلسلے میں روہڑی (سندھ)، کشن گنج (دہلی) اور جہلم وغیرہ سمیت مختلف سٹیشنز پر ملازمت کی۔ آپ بسلسلہ ملازمت جہاں بھی رہے تبلیغی کاموں میں کوشاں اور جماعتی لحاظ سے فعّال رہے، جماعتی لٹریچر میں ان خدمات کے لحاظ سے بھی آپ کا ذکر محفوظ ہے۔ آپ کے متعلق لکھا ہے: ’’انجمن احمدیہ روہڑی سندھ نے ایک ٹریکٹ بنام ’’انکشاف حقیقت‘‘ سندھی زبان میں شائع کیا ہے، جو صاحب چاہیں 1؍ کا ٹکٹ بھیج کر جناب بابو اکبر علی صاحب انسپکٹر ورکس ریلوے سٹیشن روہڑی سندھ بنگلہ نمبر 5 سے طلب کر لیں۔‘‘

(الفضل 11 مارچ 1920ء صفحہ 2 کالم 2)

روہڑی اور سکھر کا علاقہ کھجوروں کے حوالے سے مشہور ہے، حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ جب تبلیغ اسلام کے لیے انگلستان تشریف لے گئے تو آپ نے یہاں سے کھجوروں کا تحفہ ان کی خدمت میں بھجوایا، حضرت مفتی صاحبؓ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’…. بابو اکبر علی صاحب ہیں جو ہر ڈاک میں عاجز کو یاد فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے صدق اور اخلاص کی خود ہی جزاء ہو۔ پارسل کھجوروں کا جو اُنہوں نے ارسال فرمایا تھا، وہ بہت جگہ تالیف قلب اور تبلیغ کا ذریعہ بنا۔‘‘

(الفضل 25 جنوری 1919ء صفحہ 7)

وسط 1920ء میں آپ کا تبادلہ کشن گنج دہلی ہوگیا۔ (الفضل 19 اگست 1920ء صفحہ 2کالم 2) معلوم ہوتا ہے کہ آپ دہلی میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد دوبارہ روہڑی آگئے تھے جس کے بعد پھر دہلی میں تبدیلی ہوگئی چنانچہ 1927ء میں آپ کا ذکر پھر روہڑی کے حوالے سے ملتا ہے۔ اخبار الفضل ’’قبولیت دعا کا تازہ نشان‘‘ کے تحت لکھتا ہے:
’’شہر روہڑی علاقہ سندھ میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا ہے ….. اس جگہ پر ایک محمد عارب صاحب نامی سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ سلسلہ میں داخل ہونے کے قریبًا دو ماہ بعد ان پر نمونیہ کا حملہ ہوا، کئی دن تک وہ بیمار رہے۔ ان کے بھائی چودھری امید علی وغیرہ (غیر احمدی) ان کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایک دن ان کے بھائی نے جناب بابو اکبر علی صاحب آئی – او – ڈبلیو سیکرٹری جماعت احمدیہ روہڑی کو بلا بھیجا کہ آپ آئیں اور کسی طرح ڈاکٹر سے گھر لے جانے کی اجازت لے دیں کیونکہ یہ اب بچ نہیں سکتے۔ جناب بابو صاحب ان کے مکان پر پہنچے تو ڈاکٹر صاحب اندر سے نکلے۔ انہوں نے پوچھا مریض کا کیا حال ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:ڈبل نمونیہ ہے، بچنے کی کوئی امید نہیں۔ بابو صاحب اندر گئے، سب اہل خانہ پر سراسیمگی چھائی ہوئی تھی، بیمار بے ہوش پڑا تھا اور موت کے منہ میں نظر آتا تھا۔ سب مایوس ہوچکے تھے۔ امید علی صاحب نے بابو صاحب سے کہا اب آپ ہم کو کسی فقیر کے پاس لے چلیں تا اس سے دعا کرائیں، دوائیں تو اَب بیکار ہیں۔ اس پر بابو صاحب کی مومنانہ غیرت نے جوش مارا۔ آپ نے فرمایا اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلاموں سے بڑھ کر کون فقیر ہو سکتا ہے، آؤ ہم دعا کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر آپ نے دعا شروع کر دی اور سب حاضرین نے بھی آپ کے ساتھ ہاتھ اٹھائے۔ آپ کی دعا فورًا شرف قبولیت پاگئی …. چنانچہ وہ ایک دن دن میں چلنے پھرنے لگ گیا اور اس کا مرض کافور ہوگیا۔‘‘

(الفضل 8 نومبر 1927ء صفحہ 1)

اس کے بعد پھر دہلی ٹرانسفر ہوئے اور حسب سابق اپنی ملازمت کے ساتھ جماعت کے کاموں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، دہلی میں چھ سال رہنے کے بعد آپ کا تبادلہ جہلم ہوگیا۔ جہلم روانہ ہوتے وقت جماعت احمدیہ دہلی نے آپ کو ایک الوداعیہ دیا جس کی رپورٹ کرتے ہوئے سیکرٹری تبلیغ انجمن احمدیہ دہلی لکھتے ہیں:
’’جناب مولوی اکبر علی صاحب انسپکٹر آف ورکس ریلوے و جنرل سیکرٹری انجمن احمدیہ …..قریبًا چھ برس دہلی میں رہے اور احباب جماعت سے انتہائی محبت اور شفقت کا سلوک رکھا۔ باوجود بہت سی مصروفیتوں کے دینی خدمات کو ہمیشہ مقدم رکھا اور سلسلہ کے سب کاموں میں دلچسپی لی۔ آپ کے قیام دہلی کے دوران میں تقریبًا 16ٹریکٹ انجمن کی طرف سے شائع ہوئے جن میں سے بعض دوسری مرتبہ بھی طبع کرائے گئے، یہ تمام ٹریکٹ جن کی تعداد تقریبًا 50 ہزار ہوتی ہے، آپ کے خرچ پر شائع ہو کر تقسیم ہوتے رہے، چونکہ اکثر ٹریکٹ ختم ہو چکے تھے اس لئے آپ نے روانگی کے وقت مبلغ پچاس روپے مزید اس کار خیر کے لیے عطا فرمائے تا بعض ضروری ٹریکٹ پھر طبع کرا کر تقسیم کیے جائیں۔ یہ آپ کی ایسی امداد ہے جس کو جماعت احمدیہ دہلی انشاء اللہ کبھی فراموش نہیں کر سکتی …..

(الفضل 10جون 1934ء صفحہ 2)

ریٹائرمنٹ کے بعد آپ ہجرت کر کے قادیان آگئے اور دارالعلوم میں رہائش رکھی۔ آپ نے قادیان میں گلاس فیکٹری اور ہوزری جیسے اقدام کرتے ہوئے صنعتی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے 30 اگست 1943ء کو وفات پائی، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ان دنوں ڈلہوزی میں تھے، قادیان میں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے جنازہ پڑھایا اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے۔

(الفضل یکم ستمبر 1943ء صفحہ 1)

آپ کی وفات پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ نے (الفضل 7ستمبر 1943ء صفحہ 4) اور آپ کے سمدھی حضرت ملک مولا بخش صاحب رضی اللہ عنہ (وفات:اکتوبر 1949ء) نے بھی مضمون لکھے۔

(الفضل یکم اکتوبر 1943ء صفحہ 4)

آپ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی حضرت حاکم بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے 14جون 1914ء بعمر 34سال وفات پائی اور بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔آپ کی دوسری اہلیہ محترمہ اقبال بیگم صاحبہ آف آدورائے ضلع گوجرانوالہ (بیعت:1914ء- وفات:13 جولائی 1957ء) بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں۔

آپ کے پڑپوتے محترم ندیم احمد کرامت صاحب لندن نے آپ کی اولاد کی تفصیل یوں دی ہے:

  • پہلی بیوی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے عطا کیے۔
  1. ڈاکٹر کرنل محمد عطاء اللہ صاحب نائب صدر فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ (وفات 28 نومبر 1977ء)۔ اہلیہ اول بشیر بی بی صاحبہ۔ اہلیہ ثانی قمر النساء صاحبہ
  2. چودھری محمد کرامت اللہ صاحب کراچی (26 مئی 1967ء)۔ اہلیہ آ منہ بیگم صاحبہ
  3. چودھری محمد ضیاء اللہ صاحب۔ اہلیہ اول مبارکہ بیگم صاحبہ۔ اہلیہ ثانی محمودہ بیگم صاحبہ
  • دوسری بیوی سے آپ کے 6 بیٹے اور 5 بیٹیاں ہوئیں۔
  1. چودھری محمد انعام اللہ صاحب۔ اہلیہ محمودہ ثروت صاحبہ
  2. سعیدہ بیگم صاحبہ۔ خاوند صوفی غلام اللہ صاحب
  3. حمیدہ بیگم صاحبہ۔ خاوند لیفٹننٹ کرنل محمد شریف احمد صاحب
  4. چودھری محمد اکرام اللہ صاحب۔ اہلیہ امۃ الحئی صاحبہ
  5. احسان اللہ صاحب۔ (یہ بارہ سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے)
  6. فہمیدہ بیگم صاحبہ۔ خاوند میجر عبد اللطیف صاحب
  7. فلائٹ لیفٹننٹ اعزاز اللہ صاحب۔ (یہ جواں سالی میں طیارے کے حادثے میں وفات پا گئے تھے)
  8. رشیدہ بیگم صاحبہ۔ خاوند اصغر حسین خان صاحب
  9. محمد مطیع اللہ صاحب۔ اہلیہ فائزہ بیگم صاحبہ
  10. محمد احسان اللہ راٹھور صاحب۔ اہلیہ عفت بیگم صاحبہ
  11. ڈاکٹر محمودہ بیگم صاحبہ۔ خاوند محمد سلیمان مبشر صاحب

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

میاں محمد اسحاق طارق صاحب کی وفات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 نومبر 2022