• 29 اپریل, 2024

مکرم محمود احمد شاہد مرحوم

یادرفتگان
مکرم محمود احمد شاہد (بنگالی) مرحوم (سابق امیر آسٹریلیا)

اچھی طرح یاد نہیں پہلی ملاقات مکرم محمود احمد صاحب سے کب ہوئی مگر عموماً میری اسکول کی چھٹیاں ربوہ میں تربیتی کلاس میں شمولیت کر لینے کے بعد شروع ہو تیں۔ جامعہ کے طالب علم بھی ربوہ سے ان ہی دنوں اپنی گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے اپنے گھروں کو سدھار جاتےمگر محمود صاحب سے عام طور پر وہیں ملاقات ہوتی۔

جب کبھی آپ کا سندھ ضلع حیدرآبادکے علاقہ میں آنا ہوتا تو ہمارے ہاں بھی آتے۔ میرے بڑے بھائی جان چوہدری محمداسماعیل خالد مرحوم سے الفت اور احترام کا ایک خاص تعلق تھا۔ جس کا یہاں آسڑیلیا میں بھی گا ہے بگاہے ملاقاتوں میں دلچسپ واقعات کے حوالے سے ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بتانے لگےہم بھی واقف زندگی ہیں مگر چوہدری خالد صاحب کتنے خوش نصیب تھے کہ جماعت کی عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر انہیں سزائے موت کا حکم ہوالمبا عرصہ کال کوٹھڑی اور جیل میں رہے پھر اللہ نے بری فرمایا۔

ایک دفعہ ہمارے ہاں آئے تو آپ کا پاؤں زخمی ہوگیا۔ اس وقت ہمارے قریب کوئی ڈاکٹر نہ تھا۔ بھائی جان کو کافی فکر لاحق ہوئی اور وہ خود محمود صاحب کی مرہم پٹی کرنے لگے تو آپ عزت و احترام کی خاطر بھائی کو اپنے پاؤں پر ہاتھ نہ لگانے دیتے کہ چوہدری صاحب مجھ سے بڑے ہیں۔

آسٹریلیا آمد

کچھ عرصہ بعد ایک دن مجھےفون پر فرمانے لگے آپ سے ایک بات کرنی ہےکہ ایک احمدی طالب علم پاکستان سےآئے ہوئے ہیں اور وہ کسی اور قریبی شہر میں ہیں وہاں ان کو کام کی تلاش میں پریشانی ہے تو وہ سڈنی آنا چاہتے ہیں۔ میں نے سو چا کہ آپ کیونکہ شہر میں ہی رہتے ہیں اس لیے ان کو کام کی تلاش اور آگے پڑھنے میں سہولت ہوگی۔ اگر آپ کے پاس ٹھہرنے کی کچھ عرصہ سہولت ہوتو ؟

میں نے عرض کیا جی! میرے لیے بھی رونق ہو جائے گی۔ فرمانےلگے پھر یہ میں ہی آپ کو بتاؤں گا کہ کب تک وہ ٹھہریں گےاور آپ نے کیا کرنا ہے؟

اپنے جانے اور انجانے ممبرز جماعت کی عزت نفس، وقار اور ضرورتوں کا بے حد خیال کرتے اور ان سے ہمدردی، درد، ولولہ اپنے سینے میں لیے پھرتے تھے۔ دوسروں کا ان سے بڑھ کر خیال کرنے والے تھے اور اکثر دوسروں کی پریشانی کو ذاتی پریشانی بنا لیتے اور اپنے اوپر بیماری وارد کر لیتے تھے۔

1996ء میں پاکستان کے راہ مولا کے کچھ شہیدوں اور اسیروں کے بچوں کی یہاں آنے کی خوشخبری ملی تو بات بات پر شکر الحمدللہ کہتے اور عاجزی سے آنکھوں میں تری آجاتی۔

انہی دنوں کافی لوگوں کو فرمایا۔ اللہ کےخاص الخاص مہمان آرہےہیں۔ ہم سب کو اپنی باہیں اور دل کھولتے ہوئے ان کا استقبال کرنا ہےاور ان کو اپنے گھروں اور دلوں میں بھی جگہ دینی ہے۔ مختلف لوگوں سے مشورے شروع کردئیےکہ کیاکیا اور کس طرح ان کے کام و رہائش کا بندوبست کیا جائے۔

مجھے فرمانےلگے کہ آنے والوں کے روزگار کےمتعلق آپ کی ذمہ داری ہے کہ کیسے ان کو جلد از جلد کام پر لگایا جاسکے۔یہ باتیں ہیں ان مہمانوں کی جو ابھی پہنچے ہی نہیں اور آپ فکرمند ہیں۔ میں نے عرض کی امیر صاحب آنے والوں کے متعلق تو علم نہیں اور نہ ہی آپ کھل کر یہ بتاتےہیں کہ کیا تعلیم ہے، کیا معیار اور عمر ہے تو پھر کیسے یہ ہو؟ فرمانے لگے اس کو آپ چھوڑیں بس پندرہ بیس جوان آدمی ہیں اور کام کرنے والے ہیں آپ اپنا کام شروع کر دیں۔

میں نے عرض کی کہ آج کل سڈنی میں اولمپک کی تیاریوں کے کافی فنڈز حکومت نے جمع کر رکھے ہیں۔ شہر کے قرب و جوار میں ہر طر ف بھاگ دوڑ لگی ہےاس میں کافی زیادہ امید بھی ہےاور آسانی سےکام مل بھی جائےگا۔ زبان وغیرہ کی بھی اتنی مشکل نہیں ہوگی۔ فرمانے لگے۔ اچھا! جائیں اور مجھے ایک ہفتے میں لائسنسزکے حصول اور کام کے قانونی پہلوؤں سے تمام تر معلومات اکھٹی کرکے آگاہ کریں۔

جب آپ کے حکم سے میں نے شہر اور قرب و جوار کی کافی کمپنیوں سے جا کر معلومات حاصل کرنا شروع کیں توایک بڑی کمپنی کا مینیجر مجھے کہنے لگا یہ جو پندرہ سولہ لوگ ہیں تمہارے پاس تو کیا تم کوئی کمپنی چلاتے ہو؟ میں نے کہا نہیں میں تو ویسے ہی مدد کرنے کی کوشش کررہا ہوں تو اسے میری یہ بات بڑی ناقابل یقین محسوس ہوئی۔وہ کہنے لگاکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟

میں نےکہا کہ کیا تم چاہو گےکہ 17-16 لوگ جوصرف مذہب کے نام پر جن کے باپ، بھائی مار دیئے گئے یا خود قید میں ڈال دئیے گئےتھے اور یہ آپ کا اور میرا ملک ان کو انسانی ہمدردی کی بنا پر ٹھہرنے کے لیے یہاں لاوے اور وہ آکرعرصہ تک اس کے اوپر مالی بوجھ بن کر گھر بیٹھ رہیں؟ میں نے سارا حساب کرکے قریباً 27-28 لوگ بنائے۔ (جن میں چند بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں)

وہ اپنے اسٹاف سےمشورہ کے بعد مجھے کہنے لگاکہ اچھا! اگر تو تم خود کوئی فیس وغیرہ نہیں لے رہے تو میں ان سب کو معمولی فیس پر کورس کرنے کی اجازت بھی دوں گا بلکہ جو ایک دفعہ پاس نہ ہو سکا اسے مزید تیاری کے لیے بھی چانس مفت ہی دونگا مگر شرط یہ ہے کہ ساتھ وہ اپنا پاسپورٹ لے کرآئیں کہ کب ملک میں آئے ہیں اور کون سے ویزہ پر آئے ہیں۔ ہر کسی سے میں الگ الگ انٹرویوبھی کرونگا۔

ان شہیدوں، قیدیوں کی قربانیوں اور اللہ تعالی کے خاص فضل اور حضور انورکی دعاؤں سے بعد میں ان میں سے بعض نےاس فیلڈ میں اپنی شاندار کمپنیاں بھی بنانے کی توفیق پائی اور بعض تو دوسروں کو سال دو میں کام مہیا کرنے کے قابل بھی ہو گئے۔ مکرم امیر صاحب جب ان کو ملتے تو بڑے خوش ہوتے تھے اور بڑی خوشی خوشی ہمیں بعض کے گھروں میں ساتھ لے جاتے۔ ان میں سے بعض کو تو بطور مثال اپنے خطابات میں بیان کرتے۔جتنی زیادہ کوئی محنت کرتا اور اپنے خاندان اور رشتہ داروں کی مدد کرتا اتنا ہی زیادہ اس کی کھلے عام تعریف فرماتے بلکہ بعض دفعہ بطور حوالہ اس کا ذکر اپنےخطابات میں کرتے کہ فلاں کے والدین اس سے خوش ہیں۔

جن لوگوں کو اس موقع پر کام کے لائسنس جاری ہوئے ان کا اگلا قانونی مرحلہ تھا کہ ان کو پولیس اسٹیشن جا کر رجسڑ کروانا۔ ایک دن میں نے چار پانچ لوگ ساتھ لیے تاکہ ان کے لائسنسز کا پولیس میں اندراج کروایا جاسکے، جب پولیس آفیسر نے پاسپورٹ چیک کیے تو ان کی ملک میں آمد ہی کچھ ہفتہ قبل ہوئی دیکھی اور ہاتھ میں مختلف لائسنسز ساتھ ہی ان کی انگریزی کی بول چال سے شک میں مبتلا ہوگیا۔ پوچھنے لگا۔ تم نے یہ لائسنسز کیسے حاصل کر لیے ہیں، کون ہے آپ کا ایجنٹ، کہاں رہتے ہو؟ یہ فراڈ کا کیس ہے۔

ان سب نے میری طرف اشارہ کیا تو وہ مجھے کہنے لگا کہ آپ پر بھی فراڈ کا کیس بن سکتاہے۔ جب پولیس آفیسر نے فون پر کمپنی کے مینیجر سے پو چھا تو اس نے بلا جھجک کہا ہاں! یہ میری کمپنی کے جاری کردہ ہیں اور مکمل دورانیے کی تمام کلاسزکی ویڈیو ز، پیپر ورک بھی اگر تم چاہو تو دیکھ لو۔ اس کے بعد وہ اس طرف سے تو مطمئن ہو گیا مگر پھر کہنے لگا کہ یہ انگریزی نہیں بول سکتے انہوں نے کیسے لائسنس لے لیے ہیں۔ وہاں ایک اخبار پڑا ہو ا تھامیں نے وہ ایک لڑکے کے آگے کیا اور اس نے با آسانی پڑھنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا دیکھو! کس طرح سے پڑھ رہاہے آپ کا اوزی تیز لہجہ کہاں سے یہ سمجھیں گے۔ اس طر ح ہم سب کی اس وبال سے جا ن چھوٹی۔ جب آکر سارہ واقعہ آپ کو بتایا تو آپ اس ادارے کے انگریز مینیجرکی ایمانداری اور جرأت پر خوش ہوئے اور مجھے فرمایا ان سے رابطہ رکھا کرو۔

مہمان نوازی

ایک روز پاکستان سے آپ نے کسی کا فون وصول کیا کہ میرا بیٹا فیملی کے ساتھ آج آسٹریلیا پہنچ رہا ہے۔ ان کا وہاں کوئی جاننے والا نہیں ہے ان کی مدد کریں اور ان کو ائیرپورٹ سے بھی لے لیں۔

مجھے فون پر فرمانےگے۔ آج چار پانچ گھنٹے بعد آپ کی کیا مصروفیت ہوگی؟ میں نے کہا امیر صاحب گھر میں ہی ہوں گا۔ فرمانے لگے اچھا توپھر ایک فیملی ائیرپورٹ پر آر ہی ہے انہیں میرے پاس چھوڑ سکو گے؟ کیونکہ میں ائیرپورٹ سے قریب رہتا تھا جو آپ سے کوئی ساٹھ کلومیٹر دوری پر تھا۔عرض کیا میں کیسے جان پاؤں گا کوئی نام، حلیہ وغیرہ۔ فرمانے لگے نا م تو فون پر انہوں نے بتایا تھا مگر لکھنے سے پہلے ہی بھول گیا ہوں یاد آگیا تو بتا دوں گا اور آپ بھی دعا کرکے جانا اب نام کے لیے میں پاکستان فون نہیں کرتا، مگر جب مل جائیں تو تم مجھےاسی وقت فون کردینا تا کہ میں پاکستان ان کو آگاہ کر سکوں۔

اب آپ اپنے گھر ایک الگ پریشانی میں بیٹھے ہیں کہ پتہ نہیں کیا ہوتا ہے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ صرف چند ایک ہی مہمان باہر آئے تو ان سےپوچھنا شروع کیا،جلد ہی ہمارے مطلوبہ مہمان مل گئے۔ ان سے علیک سلیک کے بعد سب سے پہلے ان سے کہا کہ آپ کے پاس اپنے گھر کا یا جو بھی عزیز پاکستان میں ہیں ان کا فون نمبر ہے وہ دیں تاکہ آپ کے بخیریت پہنچنے کی اطلاع دی جاسکے۔ امیر صاحب کو بھی بتا دیا کہ ہم اب نکلنے لگے ہیں۔ آپ اس طرح خوش ہوئے جیسے کوئی اپنا بچہ مدت بعد واپس گھر لوٹ رہا ہو۔

میں نے سوچاکہ ہم تو آپ کے گھررات دیر میں پہنچیں گے چلو! راستے میں ہی کچھ کھا لیتے ہیں۔ ادھر امیر صاحب اپنے مہمانوں کےلیے کھانا تیارکروا کر انتظار کررہے تھے کہ اب آئے کہ اب آئے۔ جب ہم پہنچےتو امیر صاحب بیتاب۔

فرمایا . اتنی دیر خیریت تھی؟ (کیونکہ ابھی موبائل فون کا عام دور شروع نہیں ہوا تھا ) میں نے معافی طلب کی اور کہا کہ امیر صاحب ایسے ہوا۔ تو فرمانے لگے اچھا تو آپ اپنی مہمانداری کرنے لگے لگتا ہے کوئی گجرات کا تعلق بھی نکال لیا ہوگا۔

یہ بندہ خدا اپنے مسیح کے مہمانوں سے جو محبت رکھتا تھا اس قسم کے ایسے بےشمار واقعات بے شمار احباب جماعت کے سینوں میں زندہ ہیں۔

ایک دفعہ میں نے افطاری پر تشریف لانے کی درخواست کی تو فرمانے لگےکہ مجھے اچھا نہیں لگتا کیونکہ میرے استاد مکرم میرصاحب مرحوم فرماتے تھے کہ یہ ہی تو دعا کی قبولیت کا ایک خاص وقت ہوتا ہے جو کسی کے ہاں جانے سے باتوں میں ضائع ہو جاتا ہے۔ میں نے عرض کی کہ یہ میرے علم میں نہ تھا اب تو اور بھی مہمانوں کو بتاچکا ہوں۔ فرمانے لگے ٹھیک ہے ایک دفعہ آجاتا ہوں۔ دل بھی رکھنا اور ساتھ ہی اصلاح بھی کردینا ہر کسی کا کام نہیں۔

آپ جب کسی کے ہاں آنے کی حامی بھر لیتے تو سب سے پہلے یہ پوچھتے۔ کیاوقت مقرر کیا ہے؟ میں کب آؤں اور کب واپسی کی اجازت ہوگی۔ اگر تو وہ وقت نمازوں سے ٹکراتا تو پوچھتےکہ کیا انتظام ہوگا یا گھر سے پڑھ کر آؤں ؟پھر یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ وقت مقررہ پر تشریف نہ لائیں۔

جب ہم نے اپنے بیٹے کی دعوت ولیمہ کی تاریخ مقرر کرنا تھی تو میں پاکستان میں تھا۔میں نے احتیاط کے طور پراپنے گھر والوں کو کہا کہ سب سے پہلے امیر صاحب کی مصروفیت کا معلوم کر کے پھر تاریخ مقرر کرنا اور پروگرام نامہ جلد دینا۔ بعد میں ایسا اتفاق ہو ا کہ اسی روزقریب ہی ایک اور جماعت کےخاندان کی بارات یا ولیمہ تقریب بھی مقرر ہو گئی۔ اپنی جگہ ہم بھی متفکر ہو گئے کہ اب پتہ نہیں کیا بنتا ہے۔ میں نےکہا چلو پہلے پوچھ لیتے ہیں۔ تو مجھے فرمانے لگےمیں نے ایک اصول بنایا ہوا کہ جو مجھے سب سے پہلے بلائے میں اس تقریب میں شمولیت کا وعدہ کر تا ہوں اور بعد والوں سے معذرت کر لیتا ہوں تا کہ ایک ہی جگہ سکون سےدعا میں شمولیت کر سکوں۔

میری پوتی جوچند ماہ کی تھی جب بیمار اور فوت ہوئی تو بار بار تشریف لائےاورساتھ اپنےمہمان خانے سے کھانا بھی بھجوانا شروع کردیا۔ عرض کی امیر صاحب! اس کی کیا ضرورت ہے؟ یہاں کون سے ہمارے باہر کے مہمان ہیں ہم ہی تو ہیں۔ فرمانے لگے جماعت ایک خاندان ہے اس لیے ہمارا فرض ہے کے ایسے موقع پر اکٹھے بیٹھ کر کھائیں۔

میں ایک دفعہ اکیلا یہاں تھا کہ اچانک شدید بیمار ہوگیا اور مسجد سے کافی دور اورشہر کے با لکل دوسرے سرے پر ہسپتال میں مجھےجلدسرجری کے لیے داخل ہونا پڑا تومیں نے دعا کےلیے عرض کی۔ تو فرمایا گھبرانا نہیں۔ میں سمجھا کہ یہاں اتنی دور کون آئے گا میری تیمار داری کرنے کے لیے، جب عمل جراحی اور ہوش میں آنے کے بعد ڈاکڑز نے عام مہمانوں کو ملنے کی اجازت دی تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ چند خدام کے ساتھ میرے سرہانے کھڑے ہیں۔ جب میرے بھائی جان نے آپ کو فون کیا کہ محمود صاحب سے پتہ کروں تو انہیں تسلی دی اور کہا میں تو مل کر آیا ہوں۔ آپ کوئی فکر نہ کریں چند دنوں تک گھر آجائے گا۔

جب بھی کسی بچی کے ساتھ گھریلو جھگڑے کا سنتے تو سخت پریشان ہوجاتےاور دعا شروع کردیتے اور کوشش کرتے کہ جتنی جلدی ہو مسئلہ بہتری کی طرف حل ہو نہ کہ بگاڑ بڑھے اور بچیوں کے حقوق کا اس حد تک خیال فرماتے کہ کوئی اپنی حیثیت سے کم حق مہر نہ لکھائے اور بچیوں کی تعلیم اور اپنی فیلڈ میں کام کرنے کے متعلق کھل کر حوصلہ افزائی فرماتے۔

ایک دفعہ مجھے اور ایک فیجی کے وکیل احمدی دوست کو ایک بچی کےگھریلو تنازع کی کمیٹی بنا کر بجھوایا۔ واپسی پر میں حاضر ہوا اور رو کر معذرت کرنے لگا کہ مجھےآئندہ کسی ایسی کمیٹی میں نہ بھیجیں تو فرمایا تم تو جوان آدمی ہو اور میں جو کمزور ایسے درجنوں معاملات کو سنتا ہوں اور سوچو! خلیفہ وقت کے دل کا کیا حال ہوگا۔

آپ کی الفت اور محبت ہر کسی سے ایسے ہی تھی۔ ایک دن فرمایا کچھ مہمان آرہے ہیں اور آپ سب نے بھی جمعہ کی شام کا کھانا ہمارے ساتھ کھانا ہے۔ میں اپنے خیال میں جمعہ کی شام کا مطلب سمجھا جو شام نماز جمعہ کےبعد آتی ہے۔ اس وقت گھر سے دور تھا، ادھر جمعرات کی شام دیر میں آپ کا فون آیا کہ لگتا ہے ابھی کام ختم نہیں ہوا۔ میں نے کہا امیرصاحب! حکم۔ فرمانےلگے ہم کھانے پر انتظار کر رہے ہیں۔ جب میں نے کہا وہ تو کل جمعہ کی شام نہیں۔ مسکرا کر کہنے لگے ہماری تو جمعہ کی شام آج ہے اس لیے آجاؤ ہم مزید انتطار کر لیتے ہیں۔ نہ کوئی غصہ نہ گلا شکوہ، واہ کیا انسان تھا۔

میں ایک دفعہ پاکستان جانے سے قبل ملنے گیا تو مجھے فرمایا اچھا یہ چند چیزیں میری بھی لے جاؤ اور خود فلاں کے ہاتھ میں دینی ہیں اور جب ایک آپ کے پرانےواقف کار کو جا کر دیں تو وہ تھوڑی دیر بعد کھول کر میرے پاس لائے کہ واہ محمود صاحب وہاں اتنا عرصہ بعد بھی نہیں بھولے کہ یہ چیز میری کمزوری ہے اور آسٹریلیا سے بہت اعلیٰ ملتی ہے۔

یہاں ایک امتحانی پرچہ جو سب انصار بھائیوں نے سہ ماہی میں حل کر نا ہوتا تھا جس پر واپسی کی ایک تاریخ مقررہ لکھی ہوتی تھی کیونکہ آپ ہمارے حلقہ میں تھے سب سے جو پہلا حل شدہ پرچہ ہمشہ مجھےبطور زعیم وصول ہوتا وہ آپ کا ہی ہوتا۔ کبھی یہ خیال نہ کیا کہ مجھے کیا ضرورت ہے حل کرنےکی میں تو پورے ملک کا امیر جماعت ہوں۔ ایک دفعہ میں مسجد میں نظر نہ آیا تو میرے بیٹے کو بلا کرحل شدہ پرچہ گھر بھجوا دیا۔

دین و دنیا

میں اپنے پراپرٹی کے کاروبار کے لحاظ سے مقامی کونسلوں اور علاقے میں ایک سیاسی پارٹی کے ساتھ ہمدردی و ممبر شپ رکھتا تھا۔ میٹگز وغیر ہ پر بڑے بیٹے ساتھ چلے جاتے جس سےان کا بھی علاقے کے سیاسی لوگوں سے تعارف ہوگیا تو کچھ عرصہ بعد میرا ایک بیٹا جو اس وقت ابھی یونیورسٹی کا طالب علم تھا وہ پارٹی کا صوبائی سطح پر انچارج بن گیا۔ جب آپ کو اس بات کا علم ہو ا تو اسے فرمایا فلاں دن مجھے ملو، میں سمجھا کہ ڈانٹ ڈپٹ کریں گے کہ تم اس عمر میں کن کاموں میں پڑ گئے ہو۔ مگر پیار کے ساتھ بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کافی اہم مشوروں کے ساتھ خوب حوصلہ افزائی فرمائی کہ اچھا ہے۔ فرمایا مگر پڑھائی کی طرف پوری توجہ رکھنا آگے بڑھو اور مزید ترقی کرو احمدیوں نے ہر میدان میں کامیاب ہو نا ہے ان شاء اللّٰہ۔

غرض گزشتہ 40-42 سالوں کی فلم ہے جو کہ یہاں مکمل نہیں لکھی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو جماعت احمدیہ کو دین میں ہمیشہ سے ایک مقام عطا فرما رکھا ہے، مگر اب دنیادار مخالفوں اور حاسدوں کی نظر میں، دنیا میں بھی احمدی اپنی بصیرت سے ایک نمایاں اور عالی مقام رکھتے ہیں اور وہ مخالف اس کا بھی رونا ہر جگہ روتے رہتے ہیں۔ میں بھی اچھی طرح جانتا ہوں مرحوم محمود احمد صاحب دنیاوی تعلقات کے لحاظ سے بھی بڑا ہی گہرا تدبر، حوصلہ اور وسیع النظر تھے۔ دنیاوی تعلقات بھی بنانا، پالنا،پھر وقار سے نبھانا بخوبی جانتے تھے اور آپ نے حالات کی تبدیلی کے باعث نہ کبھی کسی سے آنکھ اٹھا کر اور نہ جھکا کر دیکھا، بلکہ مشکل وقت میں زیادہ توجہ فرماتے۔ مجھے یہاں کے مشہور اردو اخبار کے ایڈیٹر سے ہر وقت رابطہ کرنے کا فرماتے کہ ان کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔

یہاں ان موجودہ تمام ثمرات کے حصول میں آپ کی اس دوراندیش سوچ اورمحنت کا ایک بہت نمایاں حصہ ہے۔

دوسری طرف ان کی سادگی یہ کہ کہیں اچانک چلے جاؤ تو ہو سکتا ہےکہ چارخانی پنجابی/ بنگالی دھوتی پہنے گھر سے باہر سیر کرتے نظر آجائیں۔ عاجزی یہ کہ نہ کبھی گفتار میں وہ عالمانہ و فاضلانہ فقرہ بازی، کسی کےہاں گئے تو یہ نہیں کہ بڑھ چڑھ کر گفتگو پر کمانڈ حاصل کریں۔

غرض آپ کے اخلاق، عادات کی کون کون سی خوبی بیان کریں۔آپ کے شب و روز بھی ایسےعام ہی تھے۔ آپ ایک انتہائی مہمان نواز، دلجو، بہترین منظم، حلیم الطبع، انسانوں اور پیاروں کے جذبات اشاروں سے سمجھنے والے، ہمدرد اور اپنے مقصود پر جان کے ساتھ ساتھ ہر چیز قربان کرنے والے، دوسروں کی کوتاہیوں کو درگرزاور خوبیوں کو اچھالنے والے عاجز وجود تھے۔ آپ نے خلافت احمدیہ کا در

اس طرح پکڑا کہ اپنا وطن، خاندان، ماں باپ، بہن بھائی اس درکی خاطر چھوڑے اور اس بستی جا بسے جہاں نہ اپنی زبان نہ وہ اپنا کلچر مگر کبھی پھر مڑ کر پیچھے نہ دیکھا اور ہر چیز کے حصول کی کنجی یہ در ہی بنادیا۔

اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔ اس گلستان آسٹریلیا کو شاداب اور ترقی کی راہوں پر ڈالنے والا یہ مالی رہتی دنیا تک جب جب اس گلستاں کے پھول کھلتے جائیں گے جس کی اس نے اپنے خون جگر، جوانی، حکمت، تدبر، حوصلے، بردباری اور جذبہ عشق سے اس باغ کی آبیاری کی ضرور یاد آتا رہے گا اور ان شاء اللہ یاد رکھا جائے گا۔ جو پودے میری طرح کمزور، سست ہوتے ان کو مزید اپنی حفاظت و محبت کے حصار میں لےلیتا، ان کو گردش زمانہ کی بارشوں، آندھیوں سے بچاتا۔ اس مالی نے تو خود اسی گلستان کی کیاریوں کا حصہ بن کر ہمیشہ ہمیش کے لیے اس کو سر سبز و آباد تو کر دیا ہے اور ایک مثال بنا دی کہ باغ احمد کے باغیچے سے ’’سلطان نصیر‘‘ کا پھول بن کر کیسے کھلا جاتا ہےاور باقیوں کو بھی تو ایک راہِ پا دے گیا کہ مشکل نہیں، ہمت نہ ہارو، مجھ پر بھی نابلدِزباں کے تاثرات رکھے جاتے تھے۔

اللہ ان کے عزیز اقارب اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

(لئیق احمد چوہدری۔سڈنی)

پچھلا پڑھیں

میاں محمد اسحاق طارق صاحب کی وفات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 نومبر 2022