• 6 مئی, 2024

پردہ میں بے پردگی

حدیقۃ النساء
پردہ میں بے پردگی

پردہ سے مراد

اردو لغت میں پردہ کے معنی۔ گھونگٹ۔ روک۔ راز چھپانا۔ اسلامی اصطلاح میں پردہ سے مراد عورت کا اپنے جسم کو ہر بُری نظر سے بچانے کے لئے ڈھانپ کر رکھنا ہے۔ پردہ کا یہ خدائی حکم عورت کی حفاظت کا ضامن ہے۔ یہ ڈھال ہے جو اسے کسی بھی مفسد خیال آدمی کے بد ارادوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ پردہ عورت کی حفاظت کا وہ ذریعہ ہے جو اسے غلط قسم کے الزام کی زد میں آنے سے بچاتا ہے اور نفس بھی پھسلنے سے بچا رہتا ہے۔ الغرض پردے کا حکم قادر مطلق نے عورت ہی کے تحفظ کی خاطر نازل فرمایا ہے۔

پردہ ہے روایت عصمت کی، پردہ ہے علامت عفت کی
عورت کے تقدس کی خاطر کوئی اس سے حسیں تدبیر نہیں

حضور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’اگر سر ڈھا نپا جائے، حجاب پورا لیا جائے اور لباس ٹھیک طرح ہو جس سے زینت ظاہر نہ ہوتی ہو تو یہ پردہ ہے جو حقیقت میں ہر احمدی عورت کو کرنا چاہئے‘‘

(جلسہ سالانہ برطانیہ 26 جولائی 2008ء)

قرآن مجید میں پردہ کا حکم

قرآن مجید میں پردہ کے بارے میں بہت واضح ہدایات ہیں ان میں غضّ بصر (مرد و عورت دونوں کے لئے) زینت کو چھپانا، بڑی عمر کی عورتوں کے لئے پردے کے احکامات میں نرمی، بالغ بچوں کے لئے خصو صاً اور چھوٹے بچوں کے لئے عموماً خواب گاہوں میں داخل ہونے کے بارے میں احتیاط کے تین اوقات و غیرہ شامل ہیں۔

سورة الاحزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۰﴾

(الاحزاب: 60)

ترجمہ: اے نبی! تُو اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کو اپنے اوپر جھکا دیا کریں۔ یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں تکلیف نہ دی جائے اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفسِ انسانی پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچا رہے‘‘

(ملفوظات جلد چہارم)

پردہ میں بے پردگی کے دو پہلو

  1. اپنی بے پردگی کو پردہ میں رکھنا یعنی چھپانا
  2. بظاہر پردہ کرنا جس میں بے پردگی ہوتی ہو

اپنی بے پردگی کو پردہ میں رکھنا یعنی چھپانا

حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جرمنی کے جلسہ سالانہ پر عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فر مایا:
’’میں نے دیکھا ہے کئی عورتیں جو بے پردہ ہونے لگیں ہیں تو وہ ایسا کرتی ہیں کہ جب کوئی واقف یا محرم مرد سامنے آ جائے تو اس سے پردہ کر لیتی ہیں اور جب غیروں کے سامنے جاتی ہیں تو پردہ اتار دیتی ہیں‘‘

(خطبات طاہر جلد اول صفحہ 117)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فر مایا:
’’مجھے ان کی بات سے فکر پیدا ہوئی کہ کہیں یہ تو نہیں کہ جب یہاں میرے سامنے آتی ہیں، ملاقات کے لئے آ رہی ہوتی ہیں تو پردہ کر کے یا زیادہ بہتر پردہ کر کے آ رہی ہوں۔ اگر آپ ملاقات کے وقت آتے ہوئے پردہ کر کے یا برقع پہن کر یا اچھی طرح چادر اوڑھ کے یا سکارف باندھ کے اس لئے آ رہی ہوں کہ ہمیں عادت پڑ جائے تو پھر ٹھیک ہے۔ لیکن اگر اس لئے آ رہی ہوں کہ میرا خوف ہے کہ میں کچھ کہوں نہ، تو آپ کو میرا خوف کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے‘‘

(خطاب بر موقع جلسہ سالانہ کینیڈا 25 جون 2005ء)

اس بے پردگی کا احساس اُس وقت بھی ہوتا ہے جب کسی مال، کسی Function میں پردہ سے لا پرواہی کرنے والی خاتون کو نیشنل، ریجنل، یا لوکل عاملہ کی کوئی ممبر نظر آ جائے تو وہ ان سے گریز کرتے ہوئے خود کو چھپانے کی کوشش کرتی ہیں یا اگر گلے میں دوپٹہ موجود ہو تو اس سے سر ڈھانپتی ہیں اور ایسی صورت حال بھی دیکھنے میں آتی ہے جب مسجد یا جلسہ گاہ کے پاس پہنچ کر اپنی بے پردگی کو درست کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسی ہی صورت حال کو محترمہ امة الباری ناصر نے اس طرح بیان فر مایا ہے۔

پردہ نہیں ہے مردوں سے مسجد سے ہے ضرور ہے
مسجد قریب آئے تو پردہ کرے کوئی

طالبات (اسکول، کالج، یونیورسٹی) کے بارے میں اس قسم کی شکایات بھی ملتی ہیں کہ گھروں سے تو کوٹ اور حجاب کے ساتھ نکلتی ہیں مگر یہ صرف جائے تعلیم تک پہنچنے کے لئے ہوتا ہے پھر سارا دن لاکر (Locker) کی زینت بنا رہتا ہے۔ والدین کو تسلی ہوتی ہے کہ ہماری بچی پردہ کے تقاضے پورے کر رہی ہے۔ مگر حقیقت ان سے چھپی رہتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی بیٹی کی بے پردگی ان سے پردہ میں رہتی ہے۔

اس وقت ہم جس معاشرہ کا حصہ ہیں یہاں مرد و عورت کی برابری کے جو درجات معین کئے گئے ہیں اسی کا تو یہ پھل ہے کہ عورتیں حیا اور پاک دامنی کی بہت واضح تعلیمات کو بھول کر بظاہر بے پردگی کے فیشن کو اپنا چکی ہیں۔ برقعہ پہن کر غیر مردوں سے مصافحہ، مکسڈ پارٹیوں میں شمولیت، کیا یہ اپنی تعلیمات کی چادر میں لپٹا ہوا وہ جھوٹ نہیں جو اصل تعلیمات سے فاصلہ اور دوری پر ہے۔

جو خدا کا حکم ہے واضح بھی ہے آسان بھی
قابل عزت وہی لیلیٰ ہے جو محمل میں ہے

بظاہر پردہ کرنا جس میں بے پردگی ہوتی ہے

یہ صورت ِ حال بھی دیکھی گئی ہے کہ خود کو تسلی ہوتی ہے کہ ہم پردہ کر رہی ہیں مگر یہ پردہ قرآنی احکام کو پوری طرح ادا کرنے والا نہیں ہوتا یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایسی خواتین پردہ کرنے کے باوجود پوری طرح با پردہ خواتین کے زمرے میں نہیں آتیں۔ اسی طرف متوجہ کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’بعض تو سادہ برقعے ہوتے ہیں بعض ضرورت سے زیادہ کڑھائی اور موتی لگا کر پہنے جاتے ہیں گویا نظروں سے بچنے کے لئے پردہ کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا اسے توجہ کھینچنے کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے‘‘۔

(8 اکتوبر 2016 ء جلسہ سالانہ کینیڈا۔ مستورات سے خطاب)

یعنی اس قسم کا پردہ جو کسی مرد کی توجہ، اس کی نظر کو اپنی طرف اٹھنے پر مجبور کرے درست پردہ نہیں ہے۔ یہ رواج بھی عام ہوتا جا رہا ہے کہ لمبا کوٹ تو پہن لیا جاتا ہے مگر اس پر بٹن یا تو ہوتے ہی نہیں یا صرف ایک ہوتا ہے۔ گویا پردہ کی خوش فہمی میں بے پردگی ہو جاتی ہے۔

پردہ صرف یہ نہیں کہ غیر مرد عورت کو نہ دیکھ سکے بلکہ عورت کے لئے بھی غیر مرد کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا پردہ کے تقاضوں کے خلاف ہے۔

حضرت اُم سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہؓ آنحضرتﷺ کے پاس تھیں کہ ایک نابینا صحابی ابن ام مکتوم ؓ حاضر ہوئے۔ حضورﷺ نے ہم دونوں کو ان سے پردہ کرنے کا کہا۔ میں نے عرض کیا۔ کیا وہ نابینا نہیں؟ وہ ہمیں دیکھ نہیں سکتا۔ حضورﷺ نے جواب دیا کیا تم دونوں بھی نا بینا ہو کہ اس کو دیکھ نہیں سکتیں؟

(مشکوٰة المصا بیح کتاب النکاح)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ارشاد ہے کہ
’’اگر پردہ کر کے، برقعہ پہن کر ہر آنے جانے والے کو آ نکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کر دیں تو پھر اس پردے کا تو فائدہ نہیں ہے۔ یہ تو ایک لباس ہے جو آپ نے پہنا ہوا ہے۔ نظروں میں حیا ہونی چاہئے۔ نظریں نیچی رہنی چائیں یہ حکم ہے‘‘

(خطبہ جمعہ 3 جولائی 2004ء)

نوکروں کا گھروں میں بلا اجازت آنا جانا، آزادانہ ماحول، پڑوسیوں، دوستوں اور کزنوں سے ہنسی ٹھٹھا، مکسڈ پارٹیوں میں شمولیت رواج پا جانے والی وہ برائیاں ہیں جو پردے میں بے پردگی کا واضح ثبوت ہیں کیونکہ یہ وہ خواتین ہیں جو باہر تو پردہ میں نظر آ تی ہیں مگر در اصل پردہ میں بے پردگی کی مرتکب۔

حضور ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ ہر قسم کے ملازمین کے سامنے بے حجابانہ آ جاتے ہیں تو سوائے گھروں کے ملازمین یا وہ بچے جو گھروں میں پلے بڑھے یا پھر بہت ہی ادھیڑ عمر کے ہیں جو اس عمر سے گزر چکے ہوں کہ کسی قسم کی بد نظری کا خیال پیدا ہو یا گھر کی باتیں باہر نکالنے کا ان کو کوئی خیال ہو۔ اس کے علاوہ ہر قسم کے لوگوں سے، ملازمین سے پردہ کرنا چاہئے‘‘

(خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004ء)

جلسہ سالانہ مستورات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’نفس کو پھسلنے سے بچانے کے لئے پردہ کرو تو اس میں صرف پردہ یا حجاب کام نہ آئے گا اگر آپ برقعہ پہن کر مردوں کی مجلسوں میں بیٹھنا شروع کر دیں تو پردے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے‘‘

(3 جولائی 2004 مستورات سے خطاب)

کپڑوں کا انتخاب کرتے وقت اگر پردہ کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے تو یہ بھی بے پردگی ہی کا حصہ ہے۔ حضرت عائشہؓ سے بیان فر مودہ ایک حدیث ہے:
’’اسماء بنت ابوبکر ؓ آنحضرتﷺ کے پاس اس حالت میں آئیں کہ وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ حضورﷺ نے ان سے اعراض کیا اور فرمایا۔ اے اسماء! عورت جب بالغ ہو جائے تو اس کے لئے مناسب نہیں کہ منہ اور ہاتھوں کے سوا اس کے بدن کا کوئی حصہ نظر آئے‘‘

(حدیقۃ الصالحین صفحہ 472)

اسی امر کی طرف ایک اور پہلو سے توجہ دلاتے ہوئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل ؓ نے فرمایا:
’’اے عورت! تو ایسے باریک کپڑے کا برقعہ نہ پہن کہ اس میں سے تیرے کپڑے نظر آئیں‘‘

(مصباح جنوری 2007ء)

ان ہدایات پر توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ قمیص یا برقعے پر ایسے کپڑوں کے بازو لگانے کا رواج تو آج کے فیشن کا حصہ ہے جو مناسب نہیں کیونکہ بے پردگی کا عنصر ہے۔ جالی کے بازو یا برقعہ پہننے میں مغربی ممالک میں خصوصاً یہ رواج عام ہوتا جا رہا ہے کہ شادیوں کی دعوتوں میں پردہ کی خاطر عورتوں کے لئے بیٹھنے کا الگ انتظام تو کیا جاتا ہے مگر اسی ہال میں کھانا پیش کرنے کے لئے مرد بیرے اور تصاویر کے لئے مرد فوٹو گرافر آزادی سے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ گویا الگ جگہ لے کر بظاہر پردہ کے باوجود بے پردگی کا انتظام کر دیا۔

یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت کی نعمت سے سرفراز فر مایا ہے جو ہمیں بار بار ہماری کمزوریوں کے بارے میں اپنی قیمتی ہدایات سے نوازتے رہتے ہیں۔ اطاعت خلیفہ کے نظریہ سے ہماری تنظیم مرکزی بھی فَذَکِّرْ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں توجہ دلاتی رہتی ہے۔ ضرورت ہے تو اس امر کی کہ ان دینی مسائل کا مناسب طور پر اپنے پروگرامز میں تذکرہ کرتی رہیں تا کہ کہیں سستی نہ ہو سکے۔

حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے پردہ سے لا پرواہی کرنے والی خواتین کو اس طرح تنبیہ فر مائی:
’’بعض خواتین ایسی بھی ہیں جو یہاں کے ماحول میں پردہ کی کماحقہ پابندی کو ضروری نہیں سمجھتیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر وہ سمجھتی ہیں کہ اس ملک میں رہ کر پردہ نہیں کر سکتیں تو پھر انہیں انہی نتائج سے دو چار ہونا پڑے گا جن سے یہاں کی عورتیں دو چار ہیں‘‘

(عورتوں کو نصیحت فر مودہ 2 اگست 1980ء)

اللہ تعالیٰ کے احکمات میں سے کسی ایک حکم میں کمزوری، ایمان اور اللہ تعالیٰ سے محبت میں کمی ہے۔ چاہئے کہ سب مل کر اس کمزوری کے ختم کرنے میں اپنی بہنوں کی مدد کریں اور ہر وقت یہی دعا کریں کہ:

گناہوں سے بچا لے ہم کو یارب
نہ ہونے پائے کوئی ہم سے تقصیر

آمین

(طیبہ حبیب۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

میاں محمد اسحاق طارق صاحب کی وفات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 نومبر 2022