• 2 مئی, 2024

لجنہ اماء اللہ کا پس منظر اور سو سالہ ترقیات کا سفر 1922ء – 2022ء (قسط 2)

لجنہ اماء اللہ کا پس منظر اور سو سالہ ترقیات کا سفر
1922ء – 2022ء
قسط 2

مسجد برلن کا سنگ بنیاد رکھنے کی خبر پر دعا کی تحریک

اس موقع پر حضورؓ نے فرمایا:
’’جب میں نے عورتوں میں یہ تحریک کی تو ہماری جماعت کے بعض لوگ بھی سمجھے کہ اتنا روپیہ جمع نہ ہو سکے گا۔ پہلے میں نے تیس ہزار کا اندازہ لگایا تھا لیکن تحریک کرنے کے وقت پچاس ہزار کردیا جسے ہماری جماعت کے لوگوں نے بھی بہت بڑی رقم سمجھا اور جب یہ رقم20 ہزار کے قریب جمع ہوچکی تو غیر اخباروں نے حیرت اور استعجاب کے ساتھ اس کا ذکر کیا اور لکھا کہ احمدی عورتوں نے اس قدر روپیہ جمع کر دیا ہے۔ پھر بھی وہ مدت مقررہ گزری نہ تھی جو اس چندہ کی فراہمی کے لیے مقرر کی گئی تھی کہ مطلوبہ رقم سے زیادہ روپیہ یعنی ساٹھ ہزار جمع ہوگیا ……… یہ اس جماعت کے کمزور حصے کا کارنامہ ہے جو اس وقت دنیا میں سب سے کمزور ہے ….. خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کمزور جماعتوں کو لے کر ان سے جو کام لیتا ہے وہ بڑے بڑے لوگ بھی نہیں کرسکتے۔ کجا ہندوستان اور پھر کجا احمدی جماعت اور پھرکجا ان کی عورتوں کے سرمایہ سے برلن میں مسجد تیار ہو۔‘‘

(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ112-113)

پھر حضورؓ نے دعا کروائی اور عورتوں سے فرمایا کہ آپ بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے۔ جماعت پشاور اور میرٹھ کی جماعت کے لوگ بھی اس دعا میں شامل ہوئے۔ اس دن صرف کھدائی کا کام شروع ہوا تھا۔ 6؍اگست 1923ء کو اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب ہوئی۔ لیکن جرمن حکومت کی طرف سے روک پڑ گئی کہ ’’پانچ منزلہ عمارت بنائی جائے‘‘ جس پر چھ لاکھ کا اندازً خرچ تھا۔ اتنی بڑی رقم جمع کرنی ناممکن نہیں تو محال ضرورت تھی۔ مختصر یہ کہ حضورؓ نے ساری صورتحال سے مجلس شوریٰ کو آگاہ کر دیا۔ 115 آراء فروخت کرنے کے حق میں آئیں۔ رکاوٹ پر رکاوٹ پڑتی رہی لیکن اس سےعورتوں کےعزم اور جوش میں کوئی فرق نہ آیا۔ لیکن یہ مسجد تعمیر نہ ہو سکی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پھر ’’مسجد فضل لندن‘‘ کو عورتوں کے نام سے منسوب کر دیا۔ جواب ایک عالمگیر شہرت حاصل کر چکی ہے۔ حضورؓ نے فرمایا:
’’لندن کی عظمت کومد نظر رکھ کر مناسب بھی یہی ہے کہ اس مسیحیت کے مرکز میں عورتوں کی بنائی ہوئی مسجد ہو تا کہ مسیحیت جو اعتراض کرتی ہے کہ اسلام عورتوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے ایک عملی جواب ہے۔‘‘

(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ113-117)

اتنی تمہید بیان کرنے کا میرا مطلب یہ ہے کہ یہ قربانی کیوں کی گئی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسجد کیوں بنائی جاتی ہے تاکہ لوگ نماز پڑھیں۔ خدا کو یاد کریں۔ خدا کے اس حکم کی بجاآوری کریں کہ نماز ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ’’نماز مومن کی معراج ہے‘‘ یہ حدیث ہے۔ ’’نماز مومن اور کافر میں امتیاز کرتی ہے۔‘‘

یہ بھی حدیث ہے۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ نماز آخرت کے دن انسان کے اعمال کے ترازو میں ایک پلڑے میں اور باقی تمام اعمال دوسرے پلڑے میں ہوں گے۔ اگر نماز والا پلڑا خالی ہو گا تو خود انسان کو سوچنا چاہیے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔

پھر مسجد خدا کا گھر ہے۔ خدا کا گھر بنانے کا جو ثواب ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اس کا اجر خدا دے گا۔ جب تک لوگ اس مسجد میں نماز پڑھتے رہیں گے بنانے والے کو ثواب ملتا رہے گا۔ لجنہ اماء اللہ نے قیام نماز پر زور دیا ہے۔ شروع سے لے کر آج تک جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں وہ اسی لئے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کی پیروی کرنے والی اطاعت گزار بن سکیں۔ اللہ کی محبت کی حق دار بن سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں بلکہ تمام عورتوں کو اس طرف لائیں وہ بھی اس میں شامل ہو کر ثواب کی مستحق بن سکیں۔

اسی لیے ہم لجنہ اماء اللہ اپنے قیمتی زیورات اور روپیہ پیسہ قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں کیونکہ ہم نے عہد کیا ہوا ہے کہ ہم ’’اپنی جان، مال و دولت اور اولاد کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہیں گی۔‘‘

جتنی بھی مسجدیں بنائی گئی ہیں اور بنائی جائیں گی اس میں یہی سوچ، یہی جذبہ کارفرما رہے گا کہ ہم خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین

مسجد فضل لندن تعمیر کرنے کی تحریک میں
خواتین کی بے مثال قربانی

6؍جنوری 1920ء کو بعد نماز مغرب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے انگلستان میں مسجد بنانے کے متعلق تحریک فرمائی اور خرچ کا اندازہ تیس ہزار روپیہ بتایا۔ اور 7؍تاریخ کی صبح مستورات میں حضورؓ نے یہی تحریک فرمائی۔

ابتدا میں یہ تحریک سب مردو خواتین کے لیے تھی بعد میں حضورؓ نے یہ مسجد فضل لندن عورتوں سے منسوب کر دی۔ حضورؓ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
’’لندن میں ایک چھوٹا سا مکان اور مسجد بہت بڑی سمجھی جائے گی اور اس کا بہت بڑا نام ہوگا اور قیامت تک رہے گا۔‘‘

حضورؓ کے منہ سے نکلے یہ الفاظ آج گواہی دے رہے ہیں کہ یہ خدا کے سچے مسیح موعودؑ کے غلام کے الفاظ ہیں۔ یہ مسجد اب جماعت کے سب سے بڑے مرکز کے طور پر جانی جاتی ہے۔

اس تحریک کے بعد عورتوں نے خوب جوش دکھلایا۔ اس کے بارے میں حضورؓ فرماتے ہیں:
’’مرد اور عورت اور بچے سب ایک خاص نشۂ محبت میں نظر آتے تھے۔ عورتوں کا ہی چندہ دو ہزار سے بڑھ گیا۔ اور قریباً سب کا سب فوراً وصول ہوگیا۔ کئی عورتوں نے اپنے زیور اتار دیے۔ اور بہتوں نے ایک دفعہ چندہ دے کر پھر دوبارہ جوش آنے پر اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا شروع کیا اور پھر بھی جوش کو دبتا نہ دیکھ کر اپنے وفات یافتہ رشتہ داروں کے نام سے چندہ دیا۔‘‘

(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ51-53)

یہ خواتین کی قربانی کی بدولت ہوا کہ مسجد فضل لندن کی بنیاد پڑی اور مغرب کے ظلمت کے اندھیروں میں نور کی شمع روشن ہوئی۔ خدا اس نور کی شمع کو ہمیشہ جگمگاتا رکھے۔ آمین

تمام مساجد کی تعمیر میں حصہ لینا لجنہ اماءاللہ کی دلی تڑپ اور خواہش کارفرما ہوتی ہے کہ جو بھی نماز پڑھے گا اس مسجد میں ہمیں اللہ تعالیٰ اس ثواب میں شامل کر لے گا جو اس نے لکھ دیا ہےکہ یہ نیکی کرنے والا اس ثواب کا مستحق ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اسی طرح کی نیکیاں کمانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے اور قیام نماز کے لیے کی جانے والی کوششوں میں وافر حصہ عطا فرمائے۔ آمین

مسجد فضل لندن کی بنیاد اور تعمیر میں لجنہ اماءاللہ کی نماز سے محبت کا جذبہ تھا۔ 1924ء لجنہ کی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتا ہے جب 12؍جولائی کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اسلام کی تبلیغ کی خاطر سفر انگلستان اختیار کیا اور مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس مسجد کی تحریک تو 1920ءمیں کی تھی۔ برلن مسجد تو تعمیر نہ ہو سکی تو وہ رقم بھی مسجد فضل کے لئےمنتقل کر دی گئی۔

مسجد برلن کے لیے کل رقم 72761 روپے جمع ہوئے تھے اور مسجد لندن کے لیے عورتوں اور مردوں کی چندے کی کل رقم 94641تھی جس سے یہ مسجد بنا دی گئی اور باقی رقم مشن ہاؤس کے کاموں پر خرچ ہوئی۔

19؍اکتوبر 1924ء کو بنیاد رکھی گئی اور تعمیر قریباً دو سال میں مکمل ہوئی۔ 24؍اکتوبر 1924ء کو خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پہلا جمعہ یہاں پڑھایا جہاں مردوں کے علاوہ تین مسلمان عورتیں ایک احمدی انگریز شاعرہ اور اس کی بیٹی نے حضورؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔

مسجد کے کتبے پر جو تحریر لکھی گئی وہ حضورؓ کی تحریر تھی جس میں حضورؓ نے لکھا:
’’آج 20؍ربیع الاوّل 1334ھ کو میں مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے۔ اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لیے اس مسجد کو نیکی، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے۔ اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعودؑ نبی اللہ بروز نائب محمد مصطفیٰ علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لیے روحانی سورج کا کام دے۔ اے خدا تو ایسا ہی کر۔‘‘

یہی جذبات لجنہ اماء اللہ کے تھے جس کے لیے یہ مالی قربانی کی گئی تھی۔

کیا آپ سچے احمدی ہیں؟

قادیان سے ہجرت کے بعد اس عنوان کے تحت 15؍ستمبر 1947ء کو لاہور سے الفضل کا پہلا پرچہ شائع ہوا۔ یہ جلی الفاظ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے تھے۔ آپؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’اگر آپ سچے احمدی ہیں تو آج ہی سے اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں۔ دعاؤں پر زور دیں۔ نمازوں پر زور دیں۔ اگر آپ کی بیوی نماز میں کمزور ہے اسے سمجھائیں۔ باز نہ آئے طلاق دے دیں۔ اگر آپ کا خاوند نماز میں کمزور ہے اسے سمجھائیں۔ اگر اصلاح نہ کرے تو اس سے خلع کرالیں۔ اگر آپ کے بچے نماز میں کمزور ہیں تو ان کا اس وقت تک مقاطعہ کریں کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔‘‘

(الفضل 15؍ستمبر 1947ء صفحہ5)

قیام نماز کے لیے کینیڈا کی لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانی

سیکرٹری مال لجنہ اماء اللہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بشریٰ بشیر صاحبہ لکھتی ہیں۔
’’مکرمہ عطیہ شریف صاحبہ نےلجنہ اماء اللہ کی ان مالی قربانیوں کی جھلک پیش کی ہے جو انہوں نے احمدیہ مشن ہاؤس اور احمدیہ مسجد ٹورنٹو کے لیے بڑھ چڑھ کر پیش کی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں:
’’اس مسجد ٹورانٹو (کینیڈا) کی ایک ایک اینٹ، سیمنٹ، بجری اور چونے سے نہیں بلکہ احباب جماعت، خواتین اور بچوں کی قربانیوں سے چنی گئی ہیں۔ اس مادی دور میں جبکہ کوئی ایک پیسہ بھی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس طرح کی قربانی وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں۔ اور اس کے فضلوں کے عینی شاہد ہوتے ہیں۔

اس مسجد اور مشن ہاؤس کے لیے لجنہ نے اپنے قیمتی زیورات تک چندے میں دے دئیے جو انہوں نے سالہاسال پیسہ پیسہ جوڑ کر خریدے تھے یا بیٹیوں کی شادی کے لئے محفوظ کیے ہوئے تھے۔ اکثریت ان لجنات کی تھی جنھوں نے نقد اپنے وعدہ جات کیش کی صورت میں ادا کر دیےتھے۔ دوبارہ وعدہ جات میں اضافی بھی دے دیا۔ تین سالوں میں تقریباً 80,000 ہزار ڈالرز کی مالیت کے زیورات لجنہ اماء اللہ کینیڈا نے پیش کیے۔ بعض زیورات تو بالکل نئے نوبیاہتا دلہنوں کے تھے۔

اطفال اور ناصرات بھی اپنی ماؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا جیب خرچ اور عیدی یا آمین کے تحفے ڈبوں میں بھر بھر کر لے آئے۔ اپنی ماؤں سے انہوں نے سیکھا تھا کہ نیکی سے محروم نہ رہنا۔

کینیڈا میں گزشتہ بارہ سال سے مینا بازار لگایا جارہا ہے۔ جس کی آمدنی صرف اور صرف مسجد اور مشن ہاؤس کے لیے مختص ہے۔ مختلف طریقوں سے یہ رقم جمع کی جاتی رہی ہے۔

اُم الموٴمنین حضرت امّاں جانؓ کی نماز کے متعلق عورتوں کو نصیحت (قیام نماز کے لیے)

سیرت حضرت اماں جانؓ کے صفحہ34 پر صاحبزادی امۃ الشکور صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:
’’آپ نہ صرف خود نمازوں کی پابندی کرتیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی تاکید کرتی رہتیں۔ کوئی خاص بات ہوتی، چاہے وہ اپنے لیے ہو یا کسی اور کے لیے تو سب سے دعا کرواتیں، خاص طور پر بچوں سے ضرور دعا کرواتیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ ’’بچے معصوم ہوتے ہیں اس لیے خدا بچوں کی بہت سنتا ہے۔‘‘ ایک واقعہ خاں بہادر چوہدری ابو الہاشم خان صاحب کی بیوی نے سنایا کہ ایک دفعہ وہ اپنی پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد حضرت اماں جان کے پاس دعا کے لیے گئیں۔ نماز کا وقت ہو گیا اور جب امّاں جان نماز پڑھ کر دوبارہ واپس آئیں تو اُن سے پوچھا کہ لڑکیو! کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ انہوں نے جواب دیا ’’بچے نے پیشاب کیا ہوا ہے گھر جا کر پڑھیں گے‘‘ اس پر فرمایا ’’بچوں کے بہانے سے نماز ضائع نہ کیا کرو اس طرح بچے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ بنتے ہیں۔ بچہ تو خدا کا انعام ہے۔‘‘

آپ کی سیرت کی نمایاں بات آپؓ کی عبادت ہے۔ آپ پانچوں وقت کی نمازیں باقاعدگی سے پڑھتی تھیں بلکہ نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی پابند تھیں۔ نفلوں کے علاوہ نماز میں ہی سکون حاصل کرتیں۔ حدیث ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘ یہ حضرت امّاں جان کو بھی ورثہ میں ملا تھا۔

(سیرت حضرت امّاں جان مصنفہ صاحبزادی امۃ الشکور صفحہ32)

مسجد مبارک ہیگ (ہالینڈ) کے لئے لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانی

مَنْ بَنیٰ لِلّٰہِ مَسْجِدً ا بَنَی اللّٰہُ لَہٗ بَیْتًافِی الْجَنَّۃِ

ترجمہ: خدا کا گھر بنانے والے کے لئے اللہ تعالیٰ جنت میں گھر بنائے گا۔ آیت سے آغاز کرتے ہوئے احمدی بہنوں کی خدمت میں حضورؓ کی طرف سے اس مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی گئی۔ تحریر کیا گیا۔

’’سیّدنا حضرت امیر الموٴمنین خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا منشا ہے کہ جس طرح لندن مسجد کی تعمیر میں احمدی مستورات نے حصہ لیا تھا اسی طرح یہ مسجد بھی صرف احمدی بہنوں کی قربانی سے تعمیر کی جائے گی۔ اس لیے حضور کے ارشاد کے ماتحت اعلان کیا گیا کہ مسجد کی تعمیر کے لئے دل کھول کر حصہ لیں۔‘‘

چنانچہ یہ اعلان سنتے ہیں تمام مستورات نے لبیک کہا۔ حالانکہ ان دنوں نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ حالات بہت خراب تھے۔ مالی حالت بہت کمزور تھی جماعت کی اکثریت ہجرت کرکے آئی تھی۔ ان نامساعد حالات میں حضورؓ نے فوری طور پر ایک لاکھ روپے کی تحریک کی۔ یہ تحریک مارچ 1950ء میں پیش کی گئی۔

اپریل 1950ء تک مندرجہ ذیل لجنات اپنے وعدہ جات پیش کر چکی تھیں۔

  • ضلع جھنگ: ربوہ، لالیاں، مگھیانہ، چنیوٹ۔
  • ضلع لائلپور: جڑانوالہ، چک نمبر 644گ، کتھو والی چک نمبر312
  • چک نمبر 69، گھسیٹ پورہ، لاٹھیا نوالہ، چک نمبر 194، جھنڈا نوالہ نمبر 195 رکھ، منڈی تاندلیانوالہ۔
  • ضلع سرگودھا: سرگودھا، چک نمبر35ج، چک نمبر46، بھیرہ۔
  • ضلع سیالکوٹ: سمبڑیال، لوہان، بدو ملہی، بہلول پور، چونڈہ۔
  • ضلع گوجرانوالہ: گوجرانوالہ، گجو چک، تلونڈی کھجور والی، مدرسہ چھٹہ۔
  • ضلع شیخو پورہ: ننکانہ صاحب، بہوڑو چک نمبر 18۔
  • ضلع گجرات: گولیکی، شادیوال، خورو، نورنگ، گھپڑ، ادرحمہ
  • ضلع لا ہور: حلقہ سول لائن۔
  • ضلع ملتان: ملتان شہر، خانیوال۔
  • ضلع منٹگمری: منٹگمری، اوکاڑہ۔
  • سندھ: مسن باڈہ
  • سرحد: پشاور شہر، راولپنڈی۔
  • مشرقی پاکستان: چٹاکانگ (حال بنگلہ دیش)

اس مسجد کی تعمیر کے لئے صرف پاکستان ہی کی خواتین نے حصہ نہیں لیا بلکہ ہر ملک کی احمدی خواتین نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لیا۔ 26؍دسمبر 1950ء کے جلسہ سالانہ پر تقریر کرتے ہوئے محترم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب نے بتایا کہ:
’’ایک انگریز احمدی خاتون نے ہی ایک سو پاؤنڈ چندہ دے دیا۔ ان کے علاوہ بورنیو، بٹورا، نیروبی، کولمبو، شام، کستموں، امریکہ، ہالینڈ، ماریشس، تہران، کماسی، ممباسہ، ٹانگا نیگا، غانا، دارالسلام، کویت، سعودی عرب، بحرین، نائجیریا، عدن، مسقط اور دمشق کی بھی لجنہ نے اس تحریک میں حصہ لیا۔

12؍فروری 1955ء کو چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے کھدائی کرکے اس کی تعمیر کی بنیاد رکھی اور 20؍مئی 1955ء کو سنگ بنیاد رکھا 19؍جون 1955ء کو حضرت مصلح موعودؓ مسجد کی تعمیر دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے۔

9؍دسمبر 1955ء کو اس مسجد کا افتتاح ہوا۔ چوہدری محمد ظفر علی خان صاحب نے خطبہ جمعہ دیا اور نماز پڑھائی۔ اس مسجد پرلجنہ اماء اللہ نے بہت جدوجہد اور محنت سے چندہ جمع کیا اور مطالبے سے زیادہ ادا کیا یعنی 1,43,664روپے اور وعدہ کی تکمیل 1959ء تک ہوئی۔

(تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ150-171)

مسجد خضر سلطانہ

مسجد خضر سلطانہ کی بنیاد بھی قیام نماز کے شوق میں رکھی گئی۔ اس مسجد کا قیام محترمہ سیّدہ خضر سلطانہ صاحبہ اہلیہ محترم محمد یونس صاحب کی خواہش پر ہوا۔ آپ اپنے خاندان میں اکیلی احمدی تھیں۔ آپ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ جب ربوہ میں مکانات کے لیے زمین الاٹ ہونا شروع ہوئی تو مرحومہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے درخواست کی کہ انہیں بھی کوئی مکان الاٹ کر دیا جائے۔ چنانچہ آپ کی درخواست پر حضورؓ نے محلہ دار الرحمت وسطی میں برلب سڑک ایک کنال کا قطعہ عطا فرمایا جس کے ایک حصہ میں انہوں نے مکان بنوا لیا۔

22؍جولائی 1964ء کو مرحومہ کی وفات ہوئی۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنا مکان وقف کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ صدر انجمن احمدیہ نے اسے منظور کرلیا اور اس کا نام مسجد خضر سلطانہ تجویز ہوا۔ پہلے ایک کچا کمرہ تعمیر کیا گیا جب اسے پختہ کرنے کا موقع آیا اور آخری خواہش کا علم ہوا تو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مرحومہ نے 1964ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ارشاد پر اس کی بنیاد رکھی۔ یہ چھوٹی سی شاندار مسجد اب ریلوے اسٹیشن کے سامنے موجود ہے۔

یہ مالی قربانی کی بھی ایک مثال ہے اورقیام نماز نماز کے لئے ایک تڑپ ہے کہ لوگ نماز پڑھیں تو آپ کو ہمیشہ اس کا ثواب ملتا رہے گا۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو بھی اس راستہ پر چلنے کی توفیق دے۔

(تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ44)

حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کے پچاس سال پورے ہونے پر
لجنہ اماء اللہ کی ایک مسجد کی تعمیر کی پیشکش

1964ء کا اہم ترین واقعہ حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کے پچاس سال مکمل ہونے پرلجنہ اماء اللہ کی طرف سے ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ایک مسجد تعمیر کرنے کی پیشکش کی تھی۔

مسجد کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے حضور یہ قیمتی تحفہ پیش کرکے لجنہ نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ واقعی ایک زندہ قوم کی زندہ خواتین ہیں۔ جماعت احمدیہ اپنی خوشیاں ڈھول اور باجے بجاکر نہیں مناتی بلکہ وہ اس رنگ میں مناتی ہے جس سے اسلام کا بول بالا ہو اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اضافہ ہو اور ان کا رب اُن سے راضی ہو جائے۔

یہ تجویز صدر لجنہ اماء اللہ پاکستان حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے پیش کی۔ جسے آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے سامنے رکھا آپؓ نے اس تجویز کو منظور فرمایا۔ پھر حضرت چھوٹی آپا جان یعنی صدر صاحبہ لجنہ نے اس تجویز کو اپنی بہنوں کے سامنے رکھا۔ جسے انہوں نے بھی بڑے مخلصانہ جذبات کے ساتھ قبول فرمایا۔

وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے مشورہ سے سے دو لاکھ روپیہ جمع کرنے کی تحریک کی۔ اسی وقت اس اجلاس میں ایک لاکھ روپے کے وعدے اور نقد آٹھ ہزار جمع ہوگئے۔

سیدہ حضرت مریم صدیقہ صاحبہ نے 1000 روپے کا وعدہ لکھوایا بعد میں خرچ بڑھ جانے پر تین سو روپے مزید اضافہ کر دیا۔ عورتوں نے نقد رقوم کے ساتھ اپنے زیورات بھی پیش کر دیے۔

یہ بھی فیصلہ ہوا کہ جو 300روپے دے گا اس کا نام اس مسجد نصرت جہاں پر کندہ کروائے جائیں گے۔

حضرت چھوٹی آپا نے جلسہ سالانہ 1964ء پر خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ابھی تو ہم یہ تیسری مسجد بنوا رہی ہیں ہمیں تو اس وقت چین آنا چاہیے جب یورپ اور امریکہ کے کونے کونے سے اللّٰہ اکبر کی آواز بلند ہو اور وہاں کے رہنے والے کئی کئی بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجیں…

پھر فرمایا:
پس میری بہنو! اٹھو اپنے اخراجات کم کرو اپنی اور اپنی ضروریات پر دین کی ضرورت کو مقدم رکھو۔ اور اپنے خرچوں میں سے رقم بچاؤ اور مسجدوں کے لیے دو تا جلد ازجلد سارے یورپ میں مساجد تعمیر ہو جائیں۔‘‘

چندہ جمع ہونا شروع ہو گیا۔ اسی دوران ہندوستان نے پاکستان پر 6؍ستمبر 1965ء کو حملہ کردیا انکم کم ہوگئی۔ دفاعی فنڈمیں بھی مستورات نے حصہ لیا۔ ایک سال گزرنے تک دو لاکھ کا ٹارگٹ پورا ہوچکا تھا بلکہ زائد رقم وصول ہوگئی۔ لیکن ساتھ ہی عمارت کا اندازہ دو لاکھ کی بجائے تین لاکھ ہو گیا۔

چنانچہ تحریک پر پورے دو سال گزر جانے پر اس چندہ کی وصولی 31؍دسمبر 1966ء کو تین لاکھ اٹھارہ ہزار روپے تھی۔

یہ مسجد احمدی خواتین کی انجمن لجنہ اماء اللہ کے چندے سے تقریباً پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی اور اس مسجد کا نام ’’نصرت جہاں‘‘ رکھا گیا۔

(تاریخ لجنہ حصہ دوم صفحہ427-467)

مسجد کوپن ہیگن کے لیے
لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانی اور نیت ثواب

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 1967ء میں یورپ کا سفر کیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بشارت دے رکھی تھی کہ یہ سفر بہت اہم اور با برکت ہو گا۔ اس سفر کے دوران اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے کئی نظارے دیکھنے کو ملے۔

آپؓ 6؍جولائی 1967ء کو ربوہ سے روانہ ہوئے اور 24؍اگست 1967ء کو واپس تشریف لائے۔ اس سفر میں حضورؓ مغربی جرمنی، سویٹزرلینڈ، ڈنمارک اور انگلستان تشریف لے گئے۔ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں حضورؓ نے اس ملک کی پہلی مسجد کا افتتاح فرمایا جو کہ لجنہ اماء اللہ کے چندہ سے تعمیر کی گئی ہے مسجد النصرت۔ حضورؓ نے ہر جگہ پریس کانفرنسوں اور تقریروں کے ذریعہ اہل یورپ کو اسلام کا پیغام احسن رنگ میں پہنچایا۔

(نظام خلافت اور خلافت احمدیہ کے سو سال صفحہ285-286)

غیر ممالک لجنات کی مالی قربانی
یورپین مراکز اور جرمنی میں سو مساجد کی تعمیر کی تحریک

یہ تحریک ایک بہت بڑے خرچ کی متقاضی تھی۔ لیکن جماعت نے پورے جوش و خروش سے اس میں حصہ لیا اور اپنے مضبوط ایمان کا عملی ثبوت دیا۔ لجنہ نے اپنے بھاری زیورات اپنے امام کے حضور پیش کر دیے۔ امریکہ کے مشن ہاؤس اور مسجد کی تعمیر کا خرچہ اٹھانا کوئی اتنا آسان کام نہ تھا لیکن مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ لجنہ نے ساتھ دیا اور اس گراں قدر اسکیم کو قابل عمل بنا دیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے برطانیہ میں مشن ہاؤس اور مسجد کا تذکرہ فرمایا تو وہاں بھی اُسی فراخدلی سے رقوم موصول ہونے لگی جس میں لجنہ برابر کی شریک ہیں۔

مالی قربانی کا یہ سلسلہ صرف پاکستان، ہندوستان یا جرمنی تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام دنیا میں پھیل چکا ہے۔

خداتعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ لفظ با لفظ پوری ہورہی ہے۔ اس درخت وجود کی سرسبز شاخیں چپے چپے پر پھیل رہی ہیں۔

جرمنی کی لجنہ کی مالی قربانی

لجنہ اماء اللہ کی تاریخ 1973ء سے 1990ء مرتبہ کوثر شاہین ملک سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی کی لجنہ تمام چندہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ مثلاً لجنہ گیزن کی آٹھ ممبرات کے نام سو مساجد کی تحریک کے وعدہ کے سلسلہ میں درج ہیں۔

جس میں ہر ایک کی طرف سے پانچ سو (500) مارک سے تین ہزار (3000) مارک تک وعدہ لکھوائے گئے ہیں۔ اور کل 12000 مارک ہیں۔ اسی طرح لجنہ Hannover کی 17 ممبران نے 30,000 مارک سومساجد کی تحریک کے میں وعدہ جات میں لکھوائے۔

لجنہ شمٹن کی 26 ممبران نے 32,000 کے وعدہ جات اس تحریک کے لیے پیش کیے۔

ہر ممبر نے بڑھ چڑھ کر مالی قربانی کی تاکہ اللہ کے گھر زیادہ سے زیادہ بنائے جائیں۔ لجنہ جرمنی بڑی تیزی سے منظم ہوئی اس کی ایک سو آٹھ مجالس ہیں۔

اسی طرح یورپین مراکز کے لیے بھی لجنہ جرمنی نے شاندار مالی قربانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لجنہ نے اپنے سونے کے زیورات کے پورے پورے سیٹ اس عظیم مقصد کے لیے پیش کر دئیے۔ طلائی ہار کانٹے نتھ، ٹیکا اور انگوٹھیاں ایک ممبر نے عطیہ کیں اور ایک دوسری ممبر نے بڑی چوڑیاں چار عدد، کانٹےایک جوڑی، دو انگوٹھیاں اور ایک عدد لونگ پیش کر دیے۔

مختلف اوقات میں مختلف تحریکات کے موقع پر ہر ممبر نے دو دو چار چار زیورات دیے۔ تاریخ لجنہ کے صفحہ نمبر 313 تا 323 پر 141 نام درج ہیں جنہوں نے یہ قربانی دی ہے۔ اور زیورات کی تعداد چھ سات سو تک ہے۔

(محسنات صفحہ219-223)

مالی قربانی کی یہ مثالیں آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے قیامت تک کے لیے ایک راہ متعین کر گئی ہیں اور ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے کوشاں نظر آتا ہے۔ لینے کے لیے نہیں بلکہ دینے کے لیے۔ یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ اس نے اس معاشی بدحالی کے دور میں جماعت احمدیہ کے افراد میں وہ روح پھونک دی ہے جس نے قرون اولیٰ اور پھر نشاۃ ثانیہ کے ابتدائی دور کی یاد تازہ کردی جس طرح انہوں نے قربانیاں پیش کیں۔

مسجد ہیمبرگ

مسجد ہیمبرگ کی تعمیر کے لئے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسری احمدی خواتین نے بھرپور حصہ لیا۔ اس کی بنیاد 22؍فروری 1957ء میں رکھی گئی۔

مسجد زیورخ

مسجد زیورخ کی تعمیر میں بھی عورتوں نے حصہ لیا۔ اس کا سنگ بنیاد حضرت سیدہ امة الحفیظ بیگم صاحبہ نے پچیس اگست 1962ء کو رکھا۔

(محسنات صفحہ220-222)

یہ تو صرف چند مساجد کا ذکر کیا ہے کیونکہ سب کو احاطہ تحریر میں لانا بہت مشکل ہے۔ مساجد کی تعمیر میں ہمیشہ قیام نماز کا پہلو مدنظر ہوتا ہے اسی سوچ کو لے کر لجنہ اماءاللہ مساجد کی تعمیر میں حصہ لیتی ہے۔ رہتی دنیا تک یہ کام ہوتا رہے گا۔ لجنہ اسی طرح مساجد کی تعمیر میں حصہ لیتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔

’’جماعت احمدیہ کی خواتین توجہ کریں‘‘

اس عنوان کے تحت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 17؍اکتوبر 1928ء کو ایک مضمون شائع فرمایا۔ اور اس میں حضورؓ نے عورتوں کے ذمہ ایک اور چندہ لگایا۔ حضورؓ نے تحریر فرمایا:
’’اس مسجد (یعنی لندن کی) کے بن جانے کے سبب سے انگلستان میں تبلیغ کا کام بہت بڑھ گیا ہے …چونکہ مسجد کی تعمیر کےبعد مناسب عملہ کا نہ رکھنا گویا پہلے خرچ کیے ہوئے روپے کو بھی ضائع کرنا ہے۔ اس لیے میں نے تجویز کی ہے کہ ایک مبلغ وہاں اور بڑھایا جائے ……چونکہ ہمارے بجٹ میں گنجائش نہیں ہے۔ اور چونکہ عورتوں کو بھی تبلیغی کاموں میں مناسب حصہ لینا چاہیے۔ اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس زائد خرچ کو بھی ہماری عورتیں ہی اٹھائیں۔ اس خرچ کا اندازہ چار ہزار روپے سالانہ کا ہے۔‘‘

(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ244-245)

اس مضمون میں حضورؓ نے وہاں کے اخراجات اور قرض کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ قرض کی ادائیگی اور اخراجات ملا کر حضورؓ نے 9ہزار روپے کی تحریک کی۔ چنانچہ لجنہ اماء اللہ نے اپنی قربانی کی عادت کو اپناتے ہوئے تمام خواتین کو تحریک کی اور وصولی کی کوششیں تیز کر دیں۔

سب سے پہلے قادیان کی خواتین نے تحریک کے موقع پر ہی 300 روپے ادائیگی کر دی اور 500 روپے کا وعدہ دے دیا۔

28؍اکتوبر 1928ء کو امرتسر کی لجنہ نے جلسہ کیا اور وعدے لکھوائے۔

4؍نومبر 1928ء کو لدھیانہ کی لجنہ نے جلسہ کیا۔ نقد اور زیورات اکٹھے کیے۔

کراچی کی لجنہ نے بھی جلسہ کیا اور چندہ اکٹھا کیا۔

گوجرانوالہ کی لجنہ نے بھی جلسہ کیا اور 100روپے اکٹھے لیے۔ اور دوسرے شہروں مثلاً کیمبل پور، لالہ موسیٰ، فیروز پور، گھوکھو وال، گھٹیالیاں، ملتان، لاہور، جہلم، منٹگمری، فیض اللہ چک، ایبٹ آباد، نوشہرہ چھاؤنی، مونا ضلع گجرات، کندرہ، ضلع اڑیسہ، چنگا بنگیال ضلع راولپنڈی، راولپنڈی کتھو والی چک نمبر312، انبالہ، بھیرہ، چکوال، امراؤتی، جھنگ، صدر گوگیرہ، شاہدرہ، کھاریاں، محبوب نگر، ڈیرہ غازی خان اور سیالکوٹ کی خواتین نے جلسے کیے اور نقد اور زیورات اکٹھے کیے۔ بعض استانیوں نے اپنی تنخوایں دے دیں اور ساڑھے تین سو روپے اکٹھے کر لیے اور جلد ہی یہ مطالبہ پورا کر دیا۔

(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ245-247)

لجنہ اماء اللہ کا سو سالہ سفر خدمت قرآن
1922ء تا 2022ء

خدمت قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے

فَلَوۡلَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَلِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾٪

(التوبہ: 122)

ترجمہ: اور مومنوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ سب کے سب (اکٹھے ہو کر تعلیم دین) کے لئے نکل پڑیں۔ پس کیوں نہ ہوا کہ ان کی جماعت میں سے ایک گروہ نکل پڑتا۔ تا کہ وہ دین پوری طرح سیکھتے اور اپنی قوم کو واپس لوٹ کر (بے دینی) سے ہوشیار کرتے۔ تاکہ وہ (گمراہی سے) ڈرنے لگیں۔

(تفسیر صغیر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ صفحہ252)

اس آیت کی جو تشریح خاکسار کو سمجھ آئی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حکم دے رہا ہے کہ قرآن سیکھو کیونکہ دین کا علم قرآن ہی مہیا کرتا ہے۔ سب ایک ہی دفعہ اکٹھے ہو کر جاتے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں تو ممکن نہ تھا کہ ایک بار سب کچھ سکھا دیا جاتا یا سب سیکھ لیتے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک جماعت بن کر یا ایک گروہ جایا کرے جا کر علم حاصل کرے اور واپس آکر اپنے دوسرے دینی بھائیوں کو سکھائے تاکہ گمراہ ہونے سے بچ سکیں۔

بالکل اسی قرآنی ہدایت کے مطابق جماعت احمدیہ کا نظام چل رہا ہے۔ صرف لجنہ اماء اللہ ہی نہیں انصاراللہ اور خدام الاحمدیہ بھی اس فرض کو ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

قرآن کریم سیکھنا اور سکھانا ہر مسلمان پر فرض کر دیا گیا ہے۔ اسی لئے لجنہ اماءاللہ کی ہمیشہ کوشش رہی ہے اور رہے گی کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے وہ کام کر جائیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جانے والے ہوں۔ اسی لئے خدمت قرآن کولجنہ اماء اللہ ایک اہم فریضہ سمجھ کر ادا کر رہی ہے تاکہ ہمارے دائیں بائیں والے فرشتے ہماری گواہی دیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔

قرآن عظیم کی پیشگوئی ہے کہ قرآن مجید کی خدمت کرنے والے کامل اشخاص پیدا ہوتے رہیں گے۔

سورۃ الاعلیٰ میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے۔

سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ﴿۷﴾

(الاعلیٰ: 7)

ترجمہ: (اے مسلمان) ہم تجھے (اس طرح) پڑھائیں گے کہ اس کے نتیجہ میں تو بھولے گا نہیں۔

اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے تفسیر صغیر کے صفحہ نمبر819 کے حاشیہ نمبر3 میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’یعنی قرآن کریم مسلمانوں کے دلوں میں اس طرح رچا دیا جائے گا کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی حصہ قیامت تک اس کی محبت میں سرشار رہے گا اور بار بار ایسے کامل انسان مسلمانوں میں پیدا ہوتے رہیں گے جو قرآن کریم کا جھنڈا اونچا رکھیں گے۔

اس آیت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خدمت قرآن پر پر خود ہی کامل انسان چُن کر لگا دیے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ لجنہ اماء اللہ کو بھی خدا تعالیٰ نے اس کی ذمہ داری کا حصہ بنا دیا ہےاور ان کے دل میں طرح طرح کے طریقے ڈالتا ہے کہ کس طرح خدمت قرآن کر سکتی ہیں۔ کس طرح قرآن کریم کی محبت اور خدمت قائم رکھتی ہیں۔ جماعت میں پوری دنیا میں ایسی ایسی علم القرآن رکھنے والی لجنہ موجود ہیں جو لفظی ترجمہ اور تفسیر کی ماہر سمجھی جاتی ہیں اور اپنے حلقہ اور شہر کی لجنہ کو قرآن کریم کا علم سکھانے میں مصروف عمل ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق یہ سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا۔ ان شاءاللّٰہ

حدیث مبارکہ میں قرآن کریم سیکھنے کے متعلق کیا حکم آتا ہے؟ کیوں لجنہ اماء اللہ خدمت قرآن پر زور دیتی ہے؟ آخر کیوں؟

اس لیے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَّ مُسْلِمَةٍ

(ابن ماجہ)

ترجمہ: یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

(چالیس جواہر پارے صفحہ نمبر 138)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔ علم دین کا ہو یا دنیا کا دونوں سیکھنے کے لیے قرآن کریم کا علم سب سے پہلے سیکھنا پڑے گا کیونکہ حقیقی اور کامل نجات قرآن ہی سے مل سکتی ہے۔ اسی لیے ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دے دیا کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں کتنا ہی کٹھن راستہ کاٹنا پڑے کتنی ہی مصیبتیں برداشت کرنی پڑیں برداشت کرو۔

پھر فرمایا:

خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَهٗ

ترجمہ: تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن کریم سیکھتا ہے اور دوسروں کو سکھاتا ہے۔

(حدیقۃ الصالحین مرتبہ سیف الرحمٰن مرحوم صفحہ 165)

یعنی سب سے بہتر سب سے اچھا سب سے اعلیٰ وہ شخص ہے جو خود بھی قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو بھی سکھائے نہ صرف اپنے تک محدود رکھے۔ لَو سے لو جلاتے چلے جاؤ جیسے ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن کرتے جاتے ہیں اسی طرح علم قرآن کا چراغ جلاتے جاؤ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قرآن کریم سیکھنے کے متعلق فرماتے ہیں:
’’جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔‘‘

(ہماری تعلیم صفحہ8)

پھر فرمایا:
’’حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں۔ اور باقی سب اُس کے ظلّ تھے۔ سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہی ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔‘‘

(ہماری تعلیم صفحہ21-22)

انہی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے لجنہ اماء اللہ اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لا رہی ہے کیونکہ ہماری فلاح اور کامیابی اسی میں پنہاں ہے۔

(باقی کل ان شاء اللّٰہ)

(راشدہ مصطفٰے)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2022