• 15 مئی, 2024

خلافت علیٰ منہاج النبوۃ

خلافت علیٰ منہاج النبوۃ
حضرت مسیح موعودؑ اور امام مہدی سے ہی شروع ہونی تھی، جو جماعت احمدیہ میں قائم ہو چکی ہے

خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے الفاظ ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ یہ وہ مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔ جیسے نبوت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ویسے ہی خلافت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے کوئی انسان نہیں بنا سکتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۶﴾

(النور: 56)

ترجمہ: تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُ ن کے لئے ان کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے عہد کا ذکر کیا ہے۔ جس کی تفصیل آگے آئے گی۔یقینًا قرآن کریم قیامت تک کے لیے ہے اور اس کی تفسیر قیامت تک ہوتی جائے گی۔ لیکن اول حق یہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور یہ آپ ہی کا کام تھا جو قرآن کریم کی تفسیر فرماتے۔ آیت استخلاف کی سب سے واضح تفسیر جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی، وہ حدیث یہ ہے:

حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃ قائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ پھر جب یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔

(مسند احمد بن حنبل مشکوٰۃ کتاب الرقاق باب الانذار والتحذیر الفصل الثالث)

اب ہم آیت استخلاف کی طرف چلتے ہیں جو شروع ہوتی ہے، وعد اللّٰہ سے یعنی اللہ نے وعدہ کیا ہے، اُن لوگوں سے جن کے بارہ میں آگے فرماتا ہے، الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ، یہاں ’’مِنْكُمْ‘‘ کا لفظ بتا رہا ہے کہ امت مسلمہ میں ہی کسی ایک خاص ایسے گروہ کا ذکر ہے جو ایسا کامل ایمان لائے ہیں کہ ان کے ایمانوں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور قرآن کی ہر پیش گوئی کو مکمل کر دیا ہے۔ چونکہ قرآن نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا آپ آخرین میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ تو جب سورۃ جمعہ کی یہ آیت نازل ہوئی۔

وَّاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۴﴾ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۵﴾

ترجمہ: اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسےچاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔

رسول اللہؐ نے اس آیت کی تفسیر فرمائی، جو ان حدیثوں میں بیان ہوئی ہے۔

جب یہ آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کرامؓ نے آنحضرتﷺ سے یہ دریافت فرمایا کہ یہ آخرین کون لوگ ہیں؟ جن میں حضورﷺ کی دوسری بعثت ہو گی۔ اس پر آنحضرتﷺ نے اُسی مجلس میں موجود حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: لَوکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ اَوْرِجَالٌ مِنْ ھٰؤُلَآءِ

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ)

یعنی اگر ایمان ثریا ستارہ پر بھی چلا گیا تو ایک فارسی الاصل شخص یا اشخاص اس ایمان کو دوبارہ دُنیا میں قائم کریں گے۔

ایک اور حدیث میں فرمایا:
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ آپؐ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی۔ جب آپؐ نے اس کی آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ پڑھی جس کے معنے یہ ہیں کہ ’’کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی ان صحابہ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے‘‘ تو ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ حضورؐ نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس آدمی نے تین دفعہ یہی سوال دہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ ہم میں بیٹھے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریّا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین سے اُٹھ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ اس کو واپس لے آئیں گے۔ (یعنی آخرین سے مراد ابنائے فارس ہیں جن میں سے مسیح موعودؑ ہوں گے اور ان پر ایمان لانے والے صحابہؓ کا درجہ پائیں گے۔)

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ جمعہ و مسلم)

حضرت رسول للہﷺ نے تفسیر فرمائی کہ اہل فارس میں سے ایک شخص یا کئی اشخاص اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی چلا گیا تو اسے واپس لائیں گے۔ اور اس حدیث کی تشریح میں آپ نے واضح بیان فرما دیا کہ آنے والا اہل فارس کا آنا ایسے ہے جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود تشریف لائے ہیں۔ کیونکہ واضح بات ہے کہ قرآن کریم تو وہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخرین سے ملا رہا ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ میں اپنے، اسی جسمانی وجود کے ساتھ نہیں لیکن اپنے روحانی رنگ میں واپس آؤں گا جو وہ اہل فارس ہو گا جس کا حدیث میں ابھی ذکر آیا ہے۔

خلافت کی حقدار صرف جماعت احمدیہ ہے

تو جب اللہ نے یہ فرمایا کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ تو اس سے اول مراد یہی تھی کہ امت مسلمہ میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو ایمان کے تمام تقاضوں کو پورا کرے گا۔تب اُن میں خلافت علی منہاج النبوۃ قائم کی جائے گی۔ چونکہ خلافت بغیر کسی مامور من اللہ اور نبی اللہ کے قائم ہو ہی نہیں سکتی۔اس لئے ضروری تھا کہ وہ مامورآئے۔ یعنی وہی مامور۔ جس کا آنا آنحضورﷺ کا آنا قرار دیا گیا، جس کو مسیح ابن مریم اور امام مہدی قرار دیاگیا، جسے اہل فارس کہا گیا، جسے حدیث میں نبی اللہ فرمایا گیا، جسے حکم و عدل قرار دیا گیا۔ یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ وہ ایک ہی وجود ہے جس کے آنے کی بشارت دی گئی اور خود آنحضورﷺ نے لا مہدی الا عیسیٰ فرما کر اس قضیہ کو ہمیشہ ہمیش کے لئے دفن کردیا۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و امام مہدی علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ سے وحی پا کر یہ تمام دعوے فرمائے، تو ایک جماعت، آپ علیہ السلام کے ہر دعوی پر لبیک کہتی ہوئی آپ پر ایمان لاتی چلی گئی اور اُس جماعت میں شامل ہوئی جسے قرآن نے آنحضورﷺ کے اصحاب قرار دیا ہے۔ یہی وہ ایمان والا گروہ ہے، جس کے لیے خلافت کا وعدہ کیا گیا تھا اور اللہ نے اپنے وعدہ کے مطابق جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود اور امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ خلافت علی منہاج النبوہ کو قائم فرما دیا۔ الحمدللّٰہ۔ یہ وعدہ نام کے اُن مسلمانوں کے لئے نہیں تھا، جو حضرت رسول اللہﷺ اور قرآن کی تمام پیشگوئیوں کا انکار کرتے چلے گئے اور بغیر مامور من اللہ کے خلافت کے قیام کی باتیں کرتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ علماء اور مذہبی جماعتیں اور وہ سربراہان ممالک اور وہ عوام جو خلافت کو قائم کرنا چاہتے ہیں، اُن کے پاس کیسا حق ہے اس بات کا کہ اُن میں خلافت قائم ہو؟کیونکہ اُس پیش گوئی میں خلافت کا پہلا حصہ تو خلافت راشدہ کی صورت میں پورا ہوچکا لیکن اُسی پیشگوئی کے ساتھ خلافت کے دوبارہ شروع ہونے کی جو ضروریات ہیں، جب تک وہ پوری نہ ہوں وہ کیسے خلافت کو قائم کر سکتے ہیں؟ سو اب آنے والے مامور کو، مخالف نبی اللہ مانےیا نہ مانےجس کی قرآن اور حدیث میں بشارت دی گئی تھی۔جب تک وہ موعود نہیں آجاتا،یہ کسی کا حق ہی نہیں کہ وہ خلافت اور اس کے قیام کی باتیں کرے اور اگر جسارت کرے گا تو مونہہ کی کھائے گا اور ایسی مثالوں سے حالیہ تاریخ بھری پڑی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ ہم وہ خلافت جاری ہی نہیں کر رہے جو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ ہے۔ تو پہلی بات یہ ہے کہ جس چیز کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیش گوئیوں میں خاص زمانہ تک بند کردیا اسے جاری کرنے کا حق کس کو ہے؟ اور اگر خلافت کے نام پر، کچھ جاری کرنے کی کوشش کی جائے گی تو وہ حضور کی بیان فرمودہ ٹائم لائن میں، ظالم بادشاہت اور ملوکیت تو ہو سکتی ہے، خلافت نہیں ہو سکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر اور واضح پیشگوئیوں کے بعد تو خلافت کا لفظ بھی کسی کو استعمال کرنے کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ متواتر حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو شروع تیس سال کے بعد خلافت کو ختم فرما دیا اور خلافت کے دوسرے حصہ کو مہدی اور مسیح موعود کے ساتھ باندھ دیا۔ جسے اللہ اورحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں ختم کر دیا، اُسے کوئی کیسے شروع کر سکتا ہے؟ اور جسے اللہ اور حضورﷺ نے شروع فرمادیا تو کس کی مجال کہ اُسے ختم کر سکے؟

اگر کوئی گروہ جو اپنی خلافت کا قیام چاہتاہے، تو پہلے خلیفۃ اللہ مہدی اور عیسی مسیح کو لائے، جب لے آئے گا، تو پھر اس کی موت کے بعد سوچنا کہ اب خلافت کا کیا کرنا ہے۔ لیکن ناک رگڑ رگڑ کر آج کا انسان کیا اُن کی نسلیں گزر جائیں گی، نا کوئی آسمان سے اب مسیح نازل ہوگا نہ ہی کسی مہدی کا ظہور ہوگا۔ نہ ہی کبھی کوئی خلافت قائم کر سکے گا۔ سو وہ اصول جو خلافت کے لئے اللہ اور حضرت رسول اللہﷺ نے قائم کردئیے ہیں اُس کے بعد کسی کا خلافت پر ہر گز کوئی حق نہیں ہے۔

حضرت سیدی خلیفۃ المسیح الخامس ايدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلافت جوبلی کے موقع پر اپنے معرکہ آراء خطاب میں فرمایا:
’’اے دشمنان احمدیت!میں تمہیں دوٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ اگر تم خلافت کے قیام میں نیک نیت ہو تو آؤ! اور مسیح محمدی کی غلامی قبول کرتے ہوئے اس کی خلافت کے جاری و دائمی نظام کا حصہ بن جاؤ۔ ورنہ تم کوششیں کرتے کرتے مر جاؤ گے اور خلافت قائم نہیں کرسکو گے، تمہاری نسلیں بھی اگر تمہاری ڈگر پر چلتی رہیں تو وہ بھی کسی خلافت کو قائم نہیں کرسکیں گی۔ قیامت تک تمہاری نسل درنسل یہ کوشش جاری رکھے تب بھی کامیاب نہیں ہو سکے گی۔خدا کا خوف کرواور اور خدا سے ٹکر نہ لو اور اپنی اور اپنی نسلوں کی بقا کے سامان کرنے کی کوشش کرو۔‘‘

ایک اور بات یہ کہ آج کل کے نوجوان ترکی کے ڈرامہ ارطغل کو دیکھ کر اور نت نئے پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر سن کر اپنے خیالات اور اپنے دماغ کو شیطان اور گمراہی کا گھر بنا رہے ہیں۔ ایک یہ بھی خیال ہے پس پردہ اُن ڈراموں کے ذریعے سے خلافت کے دوبارہ قیام کی کوششیں کی جا رہی ہیں اورمسلمانوں کو خلافت کی طرف بلایا جارہا ہے۔لیکن یہ تمام کوششیں تو اب بعثت مسیح و مہدی کے بعد ناکام و نامراد چلی جائیں گی اور مسلمانوں کے اپنے فرقے ہی کبھی کسی ایک کی خلافت پر راضی نہیں ہونگے۔ نیز جیسا کہ میں پہلےعرض چکا ہوں کہ جو ٹائم لائن آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیش گوئیوں میں بیان فرمائی ہے اُس ٹائم لائن میں خلافت تو پہلےتیس سال میں ختم ہو چکی تھی اور سلطنت عثمانیہ (بعض اس کے لئے خلافت کا لفظ استعمال کرتے ہیں) اس ٹائم لائن میں وہ سلطنت عثمانیہ کہاں کھڑی ہے؟ وہیں کھڑی تھی جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج کا زمانہ قرار دیا تھا۔ نیز اُس خلافت سے پہلے وہ مامور من اللہ کہاں تھاجس کے ساتھ خلافت نے دوبارہ شروع ہونا تھا؟ نیز اس بات کو بھی اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس حدیث میں جس کا ذکر چل رہا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دور کا ذکر کر دیا پھر اس کے بعد اس دور کو ختم فرماتے چلے گئے یا اس کے آگے نئے حالات بیان فرماتے چلے گئے اگر آپ خاموش ہوئے تو ایک جگہ اور وہ یہ کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔ یعنی وہ قیامت تک جاری رہے گی۔ اب ذرا سلطنت عثمانیہ کو دیکھو! کدھر ہے اگر یہ وہی خلافت ہوتی جس کے دوبارہ قیام کی خواہش ہے۔ تو وہ ختم ہی کیوں ہو گئی ہے؟۔

مومن کا امن کیا ہے اور خوف کیا ہے؟

وہ مخالفین جو اپنے تئیں سمجھتے ہیں اور گمان رکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنےفتنہ اور فساد اور اپنی دشمنی سے جماعت احمدیہ کو بے امن کر دیا ہے اور وہ چند ایک ایسے بھی کمزور ایمان والے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر لغزش کھاتے ہیں اور اعتراض کرتے اور اپنے آپ کورسوائی اور ہلاکت کے گڑھوں میں گرا دیتے ہیں اور قرآن کریم کے بیان کے مطابق وہ گہرے گڑھوں میں گرے ہوئے ہیں۔بلکہ ایسے لوگوں کے مونہوں کی غلاظت اور گند انہی پر واپس لوٹا دیا جاتا ہے اور جماعت احمدیہ پہلے سے زیادہ پاک اور صاف ہوکر ابھرتی جاتی ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ جو دشمنوں کی دشمنیاں اور ان کے ظلم و ستم اور منافقوں کی منافقتیں ہیں، یہ الٰہی جماعتوں کے لئے ایک عظیم الشان صداقت کا نشان ہوتی ہیں۔ جہاں تک خوف اور امن کا سوال ہے وہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک دنیاوی خوف اور ایک روحانی۔ جہاں تک دنیاوی خوف کا سوال ہے جس میں دشمن اور دنیا کی حکومتیں اپنے ظلم و ستم کی انتہا کر دیتے ہیں۔ آخر پھر خدا کی غیرت جوش میں آتی ہے اور دشمن کی خاک اڑا دی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ ﴿۲۱۵﴾

(سورہ البقرہ)

ترجمہ: کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے جبکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسے حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ انہیں سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ ہلا کر رکھ دیئے گئے یہاں تک کہ رسول اور وہ جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ سنو! یقیناً اللہ کی مددقریب ہے۔

یعنی دشمن نے اس قدر اذیتیں اور تکلیفیں دیں کہ انبیاء اور ان کے متبعین کی چیخیں نکل گئی تھیں اور متٰی نصراللّٰہ جوکوئی شکایت نہیں تھی بلکہ جہاں یہ ایک سوال تھا وہاں درد دل سے مانگی ہوئی دعائیں تھی جن کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود ہی عطا فرما دیا کہ سنو! یقینا اللہ کی مدد قریب ہے اور آخر کار دشمن ذلیل و رسوا اور پارہ پارہ کر دیا گیا اور مومنین کو غلبہ، فتح اور امن عطا فرما دیا گیا۔ آج بھی ہر دشمن اور ہر منافق ذلیل ورسوا اور پارہ پارہ کر دیا جائے گا اور جماعت احمدیہ المومنین کو اللہ تعالیٰ غلبہ، فتح اور امن عطا فرمائے گا۔ ان شاء اللّٰہ

جہاں تک روحانی امن کا سوال ہے تو اللہ نے اس آیت استخلاف میں جو یہ فرمایا کہ اللہ ’’مومنوں‘‘ کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا۔ سومومن تو وہ ہے جو نبوت اور اُس کی خلافت پرایمان لاتا ہےجس کی بشارات اللہ اور اُس کے رسول نے دی ہیں۔ پھر وہ حالت امن میں چلا جاتا ہے۔ کیونکہ مومن کا امن یہ ہے کہ اس کی روح یہ فریاد کرتی ہے کہ کوئی امام اور ہادی ہو جو خدا کی طرف سے مامور ہو اور ہمیں اس راہ پر چلائے جو اللہ کی جنتوں کا وارث بنا دے اور ہمیں اپنی دعاؤں کے حصار میں لے لے۔سو دیکھ لو کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر امن قائم کرنے والا کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے انتہائی خوف سے اس امن میں داخل ہوئے تھے۔ جس کا ابھی اوپر ذکر گزرا ہے۔لیکن ظاہری نظر سے دیکھا جائے تو وہ اپنے گھروں سے نکالے گئے، ہجرتیں کیں، وہ صحراؤں میں گھسیٹے گئے، ان پہ ایسا قتل وغارت ہوا کہ دنیا کی تاریخ میں ایسے واقعات دیکھنے میں نہیں آتے۔ انہوں نے جنگیں لڑیں اور شہادتیں پائیں۔ ہر طرح سے اذیت دیے گئے اور تو اور شریر دشمنوں اور منافقین نے حضرت محمدﷺ پر اور آپؐ کی ازواج کے کردار مبارک و مطہرہ پر غلیظ حملے کیے، لیکن مومنین اسی امن کی حالت میں جس کا وہ وعدہ دیے گئے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بھی لڑے اور بائیں بھی لڑے آگے بھی لڑے اور پیچھے بھی لڑے اور اُن کی جان اور روح کا ہر حصہ زور زور سے گواہی دے رہا تھا کہ ہم امن میں ہیں اور ایک لمحہ کے لیے بھی ان لوگوں نے خوف محسوس نہ کیا، کیونکہ وہ مومن تھے ان کے خوف امن میں بدل دیے گئے تھے وہ خدا کے ہو گئے تھے خدا اُن کا ہو گیا تھا۔

اور ایسا ہی حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کی خلافت میں ہوا۔ جماعت احمدیہ ہر قربانی کرتی چلی گئی اور کرتی چلی جائے گی کیونکہ جماعت احمدیہ میں خلافت ہے اور جماعت کا ہر فرد امن میں ہے۔ کیونکہ جماعت کا ایک خلیفہ ہے۔ جو ڈھال بن کر ہر احمدی کے سامنے کھڑا ہے۔ جس کی دعاؤں کی قبولیت کے حصار میں، جس کی اطاعت اور محبت اور وفا کی چار دیواری میں بیٹھ کر، ایک احمدی ایسے امن میں ہے کہ دنیا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ اللہ اپنے خلیفہ سے کلام کرتا ہے اور اُس کی کی تائید ونصرت کے لیے اللہ جیسے آسمان سے زمین پر آتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے خلیفہ کے کام کرتا ہے اور دنیا کی حکومتوں، دشمنوں اور مخالفین کی، خلافت اور خلیفہ وقت کے آگے اور جماعت احمدیہ المومنین کے آگے، ایک مرے ہوئے کیڑے سے زیادہ حیثیت نہیں ہوتی اور یہی وہ امن کا وعدہ ہے جو مومنین کیلئے دیا گیا تھا، سو وہ وعدہ بڑی شان سے اللہ تعالیٰ نے پورا کیا اور قیامت تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پورا کرتا چلا جائے گا۔ ان شاءاللّٰہ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جب خلافت کمیٹی کا قیام فرمایا تو آپ نے آنے والے خلفاء کے لئے یہ عظیم الشان پیشگوئی فرمائی:
’’یہ سب لوگ مل کر جو فیصلہ کریں گے وہ تمام جماعت کے لئے قابل قبول ہوگا اور جماعت میں سے جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ باغی ہوگا اور جب بھی انتخابِ خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اُس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہو گا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لئے کھڑا ہوگا کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرے کہ خلافت اسلامیہ ہمیشہ قائم رہے۔ پس چونکہ وہ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کو پورا کرنے کے لئے کھڑا ہوگا اس لئے اُسے ڈرنا نہیں چاہیے۔‘‘

(خلافت اسلامیہ حقہ)

مسند احمد کی وہ حدیث جو مضمون کے شروع میں بیان ہوئی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک دور کے بعد دوسرے آنے والے دور کی پیشگوئی فرمائی لیکن آخر میں خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے قیام کی پیشگوئی فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے۔اس حدیث کی تشریح میں آپ کے غلام کا مل اور عاشق صادق حضرت مسیح موعود و خلیفۃ اللہ المہدی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر خلافت کے دوبارہ قیام کے ساتھ اس کے قیامت تک قائم رہنے کی خوشخبری عطا فرمائی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قُدرتیں دِکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دِکھلاوے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جُدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے۔ وہ سب کچھ تمہیں دِکھائے گا جس کا اُس نے وعدہ فرمایا۔ اگرچہ یہ دن دُنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دُنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسّم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ301-302)

ہر احمدی کو اور ہر خادم سلسلہ اور ہر عہدیدار کو اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اسی بات کی فکر کرنی چاہئے اور یہی دعا کرنی چاہیےکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اُن مبارک وجودوں میں شامل فرمائے،اللہ تعالیٰ نے جن کی بشارت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو عطا فرمائی تھی۔

حضرت سیدی خلیفۃ المسیح الخامس ايدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلافت جوبلی 2008ء کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا:
’’میری تو بہت عرصہ پہلے خدا تعالیٰ نے یہ تسلی کروائی ہوئی ہے کہ اس دور میں وفاداروں کو خدا تعالیٰ خود اپنی جناب سے تیار کرتا رہے گا۔ پس آگے بڑھیں اور اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کا محاسبہ کرتے ہوئے آپ میں سے ہر ایک ان بابرکت وجودوں میں شامل ہو جائے جن کو خدا تعالیٰ خلافت کی حفاظت کے لئے خود اپنی جناب سے ننگی تلوار بنا کر کھڑا کرے گا‘‘

(ابن ناصر الدین طارق)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2022