• 6 مئی, 2025

مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانہ میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے

’’چندے کی ابتدا اس سلسلہ سے ہی نہیں ہے بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانہ میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ ذرا چندے کا اشارہ ہوا تو تمام گھر کا مال لا کر سامنے رکھ دیا۔ پیغمبر خداﷺ نے فرمایا کہ حسب مقدور کچھ دینا چاہئے اور آپ کی منشاء تھی کہ دیکھا جاوے کہ کون کس قدر لاتا ہے۔ ابو بکرؓ نے سارا مال لا کر سامنے رکھدیا۔ اور حضرت عمرؓ نے نصف مال۔ آپ نے فرمایا کہ یہی فرق تمہارے مدارج میں ہے اور ایک آج کا زمانہ ہے کہ کوئی جانتا ہی نہیں کہ مدد دینی بھی ضروری ہے۔ حلانکہ اپنی گذران عمدہ رکھتے ہیں ان کے بر خلاف ہندوئوںوغیرہ کو دیکھو کہ کئی کئی لاکھ چندہ جمع کرکے کارخانہ چلاتے ہیں اور بڑی بڑی مذہبی عمارات بناتے اور دیگر موقعوں پر صرف کرتے ہیں حلانکہ یہاں تو بہت ہلکے چندے ہیں۔پس اگر کوئی معاہدہ نہیں کرتا تو اسے خارج کرنا چاہیے وہ منافق ہے اور اس کا دل سیاہ ہے۔ہم ہر گز نہیں کہتے کہ ماہواری روپے ہی ضرور دو ہم تو یہ کہتے ہیں کہ معاہدہ کرکے دو جس میں کبھی فرق نہ آوے۔ صحابہ اکرام ؓ کو پہلے ہی سکھایا گیا تھا۔ لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ (اٰل عمران: 93) اس میں چندہ دینے اور مال صرف کرنے کی تاکیداور اشارہ ہے۔


یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے اس کو نباہنا چاہیئے۔ اس کے بر خلاف کرنے میں خیانت ہوا کرتی ہے۔ کوئی کسی ادنیٰ درجہ کے نواب کی خیانت کرکے اس کے سامنے نہیں ہوسکتا تو احکم الحاکمین کی خیانت کرکے کس طرح اسے اپنا چہرہ دکھلا سکتا ہے۔ ایک آدمی سے کچھ نہیں ہوتا جمہوری امداد میں برکت ہوا کرتی ہے۔ بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس وغیرہ لگا کر وصول کرتے ہیں اور یہاں ہم رضا اور ارادہ پر چھوڑتے ہیں۔ چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور اخلاص کا کام ہے‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ361 ایڈیشن 1988ء)

پچھلا پڑھیں

حاصل مطالعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2022