• 14 مئی, 2025

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 28)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 28

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جارہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں

مومن جب توبہ کرتا ہے اور نفس کو پاک صاف کرتا ہے تو خوف ہوتا ہے کہ میں تو جہنم میں جا رہا ہوں کیونکہ تکالیف کا سامنا ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ اسے ہر طرح سے محفوظ رکھتا ہے یہ موت مختلف طریق سے مومنوں پر وارد ہوتی ہے کسی کو لڑائی سے کسی کو کسی طرح سے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے جنگ نہ کی تو آپ کو لڑکے کی قربانی کرنی پڑی۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ خدا پر امید رکھے اور ایک اور بھی حصہ دار ہو۔ قرآن میں بھی لکھا ہے کہ حصہ سے خدا راضی نہیں ہوتا بلکہ فرماتا ہے کہ حصہ داری سے جو حصہ انہوں نے خدا کا کیا ہوتا ہے وہ بھی خدا انہی کا کردیتا ہے کیونکہ غیرت احدیت حصہ داری کو پسند نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء باوجود غریب، یتیم اور بے کس اور بلا اسباب ہونے کہ اور پھر بموجب قانون دنیا کے بے ہنر ہونے کے آگے سے آگے قدم بڑھاتے ہیں اور یہ سب سے پہلاثبوت خدا کی خدائی کا ہے اسی لیے ان کے مخالف حیران ہو جاتے ہیں کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ جو شخص بڑا جاہل اور ان کے تقدس سے بے خبر ہوتا ہے وہ بھی کم از کم ان کی دانائی کا قائل ہوتا ہے جیسے عیسائی لوگ آنحضرت کی پیسگوئیاں پوری ہوتی دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ بہت دانا آدمی تھا۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ165 تا 166، ایڈیشن 2016ء)

انسان کو صرف پنجگانہ نماز اور روزوں وغیرہ وغیرہ احکام کی ظاہری بجا آوری پر ہی ناز نہیں کرنا چاہئے۔ نماز پڑھنی تھی پڑھ لی، روزے رکھنے تھے رکھ لیے، زکوۃ دینی تھی دے دی وغیرہ وغیرہ مگر نوافل ہمیشہ نیک اعمال کے مُتمم و مُکَمِّل ہوتے ہیں اور یہی ترقیات کا موجب ہوتا ہے۔ مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات و صدقہ وغیرہ جو خدا نے اس پر فرض ٹھہرایا ہے بجا لاوے اور ہر ایک کار خیر کے کرنے میں اس کو ذاتی محبت ہو اور کسی تصنع و نمائش وریا کو اس میں دخل نہ ہو۔ یہ حالت مومن کی اس کے سچے اخلاص اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے اور ایک سچا اور مضبوط رشتہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیدا کر دیتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اُس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ کام کرتا ہے۔ الغرض ہر ایک فعل اُس کا اور ہر ایک حرکت و سکون اس کا اللہ ہی کا ہوتا ہے۔ اس وقت جو اس سے دشمنی کرتا ہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے کہ میں کسی بات میں اس قدر تردد نہیں کرتا جس قدر کہ اس کی موت میں۔

قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مومن اور غیر مومن میں ہمیشہ فرق رکھ دیا جاتا ہے۔ غلام کو چاہئے کہ ہر وقت رضا الٰہی کو ماننے اور ہر ایک رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں دریغ نہ کرے۔ کون ہے جو عبودیت سے انکار کر کے خدا کو اپنا محکوم بنانا چاہتا ہے؟

تعلقات الٰہی ہمیشہ پاک بندوں سے ہوا کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا ہے اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی (النجم: 38) لوگوں پر جو احسان کرے ہرگز نہ جتلاوے۔ جو ابراہیم کے صفات رکھتا ہے ابراہیم بن سکتا ہے۔ ہر ایک گناہ بخشنے کے قابل ہے مگر اللہ تعالیٰ کے سوا اور کو معبود و کارساز جاننا ایک ناقابل عفو گناہ ہے اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ (لقمان: 14)، لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ (النساء: 49) یہاں شرک سے یہی مراد نہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جاوے بلکہ یہ ایک شرک ہے کہ اسباب کی پرستش کی جاوے اور معبودات دنیا پر زور دیا جاوے اسی کا نام ہی شرک ہے اور معاصی کی مثال تو حُقہ کی سی ہے کہ اس کے چھوڑ دینے سے کوئی دقت و مشکل کی بات نظر نہیں آتی مگر شرکی مثال افیم کی ہے کہ وہ عادت ہو جاتی ہے جس کا چھوڑنا محال ہے۔ بعض کا یہ خیال بھی ہوگا کہ انقطاع الیٰ اللہ کر کے تباہ ہوجاویں؟ مگر یہ سراسر شیطانی وسوسہ ہے۔ اللہ کی راہ میں برباد ہونا آباد ہونا ہے۔ اس کی راہ میں مارا جانا زندہ ہونا ہے۔ کیا دنیا میں ایسی کم مثالیں اور نظیریں ہیں کہ جو لوگ اس کی راہ میں قتل کئے گئے ہلاک کئے گئے۔ ان کے زندہ جاوید ہونے کا ثبوت ذرہ ذرہ زمین میں ملتا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ہی دیکھ لو کہ سب سے زیادہ اللہ کی راہ میں برباد کیا اور سب سے زیادہ دیا گیا۔ چنانچہ تاریخ اسلام میں پہلا خلیفہ حضرت ابو بکر ہی ہوا۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ173 تا 174، ایڈیشن 2016ء)

خدا کا منشاء ہے کہ انسان توبہ نصوح کرے اور دعا کرے کہ اس سے گناہ سرزدنہ ہو۔ نہ آخرت میں رسوا ہو نہ دنیا میں۔

جب تک انسان سمجھ کر بات نہ کرے اور تذلّل اس میں نہ ہو تو خدا تک وہ بات نہیں پہنچتی۔ صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چالیس دن گزر جاویں اور خدا کی راہ میں رونا نہ آوے تو دل سخت ہو جاتا ہے تو سختی قلب کا کفارہ یہی ہے کہ انسان رودے۔ اس کے لیے محرکات ہوتے ہیں انسان نظر ڈال کر دیکھے کہ اس نے کیا بنایا ہے اور اس کی عمر کا کیا حال ہے۔ دیگر گزشتگان پر نظر ڈالے پھر انسان کا دل لرزاں و ترساں ہوتا ہے۔

جو شخص دعویٰ سے کہتا ہے کہ میں گناہ سے بچتا ہوں وہ جھوٹا ہے جہاں شیرینی ہوتی ہے وہاں چیونٹیاں ضرور آتی ہیں اسی طرح نفس کے تقاضے تو ساتھ لگے ہی ہیں ان سے نجات کیا ہوسکتی ہے؟ خدا کے فضل اور رحمت کا ہاتھ نہ ہوتو انسان گناہ سے نہیں بچ سکتا نہ کوئی نبی نہ ولی اور نہ ان کے لیے یہ فخرکا مقام ہے کہ ہم سے گناہ سرزد نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ خدا کا فضل مانگتے ہیں اورنبیوں کے استغفار کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ خدا کے فضل کا ہاتھ ان پر رہے ورنہ اگر انسان اپنے نفس پر چھوڑا جاوے تو وہ ہر گز معصوم اور محفوظ نہیں ہو سکتا اَللّٰھُمَّ بَا عِدْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَایَ اور دوسری دعائیں بھی استغفار کے اس مطلب کو بتلاتی ہیں۔ عبودیت کا سِرّ یہی ہے کہ انسان خدا کی پناہ کے نیچے اپنے آپ کو لے آوے جو خدا کی پناہ نہیں چاہتا وہ مغرور اور متکبر ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ176 تا 177، ایڈیشن 2016ء)

نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں

اگر اسی قدر مقصود ہوتا جو بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرنا ہی کمال ہے تو اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ کی دعا تعلیم نہ ہوتی جس کا انتہائی اور آخری مرتبہ اور مقام خداتعالیٰ کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے۔ انبیاء علیہم السلام کا اتنا ہی تو کمال نہ تھا۔ کہ وہ چوری چکاری نہ کیا کرتے تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت، صدق، وفا میں اپنانظیر نہ رکھتے تھے۔ پس اس دعا کی تعلیم سے یہ سکھایا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شیئ ہے۔ جب تک انسان اُسے حاصل نہیں کرتا۔ اس وقت تک وہ نیک اور صالح نہیں کہلا سکتا اور منعم علیہ کے زمرہ میں نہیں آتا۔ اس سے آگے فرمایا غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ۔ اس مطلب کو قرآن شریف نے دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے کہ مومن کے نفس کی تکمیل دو شربتوں کے پینے سے ہوتی ہے ایک شربت کا نام کافوری ہے اور دوسرے کا نام زنجبیلی ہے کافوری شربت تو یہ ہے کہ اس کے پینے سے نفس بالکل ٹھنڈا ہو جاوے اور بدیوں کے لئے کسی قسم کی حرارت اس میں محسوس نہ ہو۔ جس طرح پر کافور میں یہ خلاصہ ہوتا ہے کہ وہ زہریلے مواد کو دبا دیتا ہے اسی لئے اُسے کافور کہتے ہیں۔ اسی طرح پر یہ کافوری شربت گناہ اور بدی کی زہر کو دبا دیتا ہے اور وہ موادِ ردّیہ جو اُٹھ کر انسان کی روح کو ہلاک کرتے ہیں اُن کو اُ ٹھنے نہیں دیتا بلکہ بے اثر کر دیتا ہے۔ دوسرا شربت شربت زنجبیلی ہے جس کے ذریعہ سے انسان میں نیکیوں کے لئے ایک قوت اور طاقت آتی ہے اور پھر حرارت پیدا ہوتی ہے۔ پس اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ تو اصل مقصد اور غرض ہے یہ گویا زنجبیلی شربت ہے۔ اور غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ کافوری شربت ہے۔

اب ایک اَور مشکل ہے کہ انسان موٹی موٹی بدیوں کو تو آسانی سے چھوڑ بھی دیتا ہے لیکن بعض بدیاں ایسی باریک اور مخفی ہوتی ہیں کہ اوّل تو انسان مشکل سے انہیں معلوم کرتا ہے اور پھر ان کا چھوڑنا اُسے بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ محرقہ بھی گو سخت تپ ہے مگراس کا علاج کھُلا کھُلا ہو سکتا ہے لیکن تپدق جو اند ہی کھا رہا ہے اس کا علاج بہت ہی مشکل ہے۔ اسی طرح پر یہ باریک اور مخفی بدیاں ہوتی ہیں جو انسان کو فضائل کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔ یہ اخلاقی بدیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ اور معاملات میں پیش آتی ہیں اور ذرا ذرا سی بات اور اختلاف رائے پر دلوں میں بغض، کینہ، حسد، ریا، تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور اپنے بھائی کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ چند روز اگر نماز سنوار کر پڑھی ہے اور لوگوں نے تعریف کی تو ریا اور نمود پیدا ہو گیا اور وہ اصل غرض جو اخلاص تھی جاتی رہی۔ اور اگر خدا تعالیٰ نے دولت دی ہے یا علم دیا ہے یا کوئی خاندانی وجاہت حاصل ہے تو اس کی وجہ سے اپنے دوسرے بھائی کو جس کو یہ باتیں نہیں ملی ہیں، حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے۔ اور اپنے بھائی کی عیب چینی کے لئے حریص ہوتا ہے۔ اور تکبّر مختلف رنگوں میں ہوتا ہے۔ کسی میں کسی رنگ میں اور کسی میں کسی طرح سے۔ علماء علم کے رنگ میں اُسے ظاہر کرتے ہیں اور علمی طور پر نکتہ چینی کر کے اپنے بھائی کو گرانا چاہتے ہیں۔ غرض کسی نہ کسی طرح عیب چینی کر کے اپنے بھائی کو ذلیل کرنا اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ رات دن اس کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں اس قسم کی باریک بدیاں ہوتی ہیں۔ جن کا دور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شریعت ان باتوں کو جائز نہیں رکھتی ہے۔ ان بدیوں میں عوام ہی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ جو متعارف اور موٹی موٹی بدیاں نہیں کرتے ہیں اور خواص سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکثر مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان سے خلاصی پانا اور مرنا ایک ہی بات ہے۔ اور جب تک ان بدیوں سے نجات حاصل نہ کر لے۔ تزکیۂ نفس کامل طور پر نہیں ہوتا اور انسان ان کمالات اور انعامات کا وارث نہیں بنتا جو تزکیہ نفس کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی جگہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان اخلاقی بدیوں سے ہم نے خلاصی پا لی ہے۔ لیکن جب کبھی موقعہ آ پڑتا ہے اور کسی سفیہ سے مقابلہ ہو جاوے تو انہیں بڑا جوش آتا ہے اور پھر وہ گند ان سے ظاہر ہوتا ہے جس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ اس وقت پتہ لگتا ہے کہ ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور وہ تزکیہ نفس جو کامل کرتا ہے میسّر نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تزکیہ جس کو اخلاقی تزکیہ کہتے ہیں بہت ہی مشکل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس فضل کے جذب کرنے کے لئے بھی وہی تین پہلو ہیں۔ اوّؔل مجاہدہ اور تدبیر۔ دوؔم دُعا۔ سوؔم صحبت صادقین۔

یہ فضل الہٰی انبیاء علیہم السّلام پر بدرجہ کمال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوّل اُن کا تزکیہ اخلاقی کامل طور پر خود کردیتا ہے۔ ان میں بد اخلاقیوں اور رذائل کی آلائش رہ ہی نہیں جاتی۔ ان کی حالت تو یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سلطنت پا کر بھی وہ فقیر ہی رہتے ہیں۔ اور کسی قسم کا کبر ان کے پاس نہیں آتا۔

درحقیقت یہ گند جو نفس کے جذبات کا ہے اور بد اخلاقی۔ کبر۔ ریا وغیرہ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اس پر موت نہیں آتی جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور یہ مواد ردّیہ جل نہیں سکتے۔ جب تک معرفت کی آگ اُن کو نہ جلائے۔ جس میں یہ معرفت کی آگ پیدا ہو جاتی ہے وہ ان اخلاقی کمزوریوں سے پاک ہونے لگتا ہے اور بڑا ہو کر بھی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے اور اپنی ہستی کو کچھ حقیقت نہیں پاتا۔ وہ اس نور اور روشنی کو جو انوار معرفت سے اُسے ملتی ہے اپنی کسی قابلیت اور خوبی کا نتیجہ نہیں مانتا اور نہ اسے اپنے نفس کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ وہ اُسے خدا تعالیٰ ہی کا فضل اور رحم یقین کرتا ہے جیسے ایک دیوار پر آفتاب کی روشنی اور دھوپ پڑ کر اُسے منور کر دیتی ہے لیکن دیوار اپنا کوئی فخر نہیں کر سکتی کہ یہ روشنی میری قابلیت کی وجہ سے ہے۔ یہ ایک دوسری بات ہے کہ جس قدّر وہ دیوار صاف ہو گی اسی قدر روشنی زیادہ صاف ہو گی۔ لیکن کسی حال میں دیوار کی ذاتی قابلیت اس روشنی کے لئے کوئی نہیں بلکہ اس کا فخر آفتاب کو ہے اور ایسا ہی وہ آفتاب کو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ تو اس روشنی کو اُٹھا لے۔ اسی طرح پر انبیاء علیہم السلام کے نفوس صافیہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض سے معرفت کے انوار ان پر پڑتے ہیں اور ان کو روشن کر دیتے ہیں اسی لئے وہ ذاتی طور پر کوئی دعویٰ نہیں کرتے بلکہ ہر ایک فیض کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور یہی سچ بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اعمال سے داخل جنت ہوں گے تو یہی فرمایا کہ ہر گز نہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے۔ انبیاء علیہم السلام کبھی کسی قوت اور طاقت کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے وہ خدا ہی سے پاتے ہیں اور اسی کا نام لیتے ہیں۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ272 تا 275، ایڈیشن 1984ء)

پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئی محض سمجھے۔ اور آستانہ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذباتِ نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبّر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اَور بھی ترقی ہو۔ کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اُتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبّر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اُسے حقیر سمجھتا ہے۔

میں یہ سب باتیں بار بار اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گُم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔ اسے دوبارہ قائم کرے۔

عام طور پر تکبّر دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبّر میں گرفتار ہیں۔ فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اور ہی قسم کی ہو رہی ہے۔ ان کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا۔ ان کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے۔ اس لئے اُن کے مجاہدے اور ریاضتیں بھی کچھ اور ہی قسم کی ہیں جیسے ذکر ارّہ وغیرہ جن کا چشمہ نبوت سے پتہ نہیں چلتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنےکی طرف ان کی توجہ ہی نہیں۔ صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے۔ جس میں رُوحانیت کا کوئی نام و نشان نہیں۔ یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں پس یہ زمانہ اب بالکل خالی ہے۔ نبوی طریق جیسا کہ کرنے کا تھا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اس کو بھُلا دیا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آجاوے اور تقویٰ اور طہارت پھر قائم ہو۔ اور اس کو اس نے اس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے۔

پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا طریق بتایا ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ277 تا 278، ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں

شریعت کے دو پہلُو:
شریعت کے دو ہی بڑے حصّے اور پہلو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے۔ ایک حق اللہ، دوسرے حق العباد۔ حق اللہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبّت اس کی اطاعت، عبادت، توحید، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا۔ اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبّر، خیانت اور ظُلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے۔ گویا اخلاقی حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو۔ سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں لیکن عمل کرنے میں بہت ہی مشکل ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل انسان پر ہو تو وہ ان دونو ں پہلوؤں پر قائم ہو سکتا ہےکسی میں قوتِ غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے اور نہ زبان۔ دل سے اپنے بھائی کے خلاف نا پاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے۔ اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے۔ کسی میں قوت شہوت غالب ہوتی ہے اور وہ اس میں گرفتار ہو کر حدود اللہ کو توڑتا ہے۔ غرض جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل الایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔ پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہئے کہ بعد اس کے جو انسان سچا موحد ہو اپنے اخلاق کو درست کرے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی گِری ہوئی ہے۔ اکثر لوگوں میں بد ظنّی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی سے نیک ظنّی نہیں رکھتے اور ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو۔ اس لئے اوّل ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بد ظنّی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور انس پیدا ہوتا ہے اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ۔ بغض۔ حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے پھر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لئے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔ اگر ایک بھائی بھُوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یا اگر وہ کسی اور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔ حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبر گیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے۔ بلکہ یہانتک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شوربا زیادہ کر لو تاکہ اُسے بھی دے سکو۔ اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں۔ لیکن اس کی کچھ پروا نہیں۔ یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو۔ بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں۔

ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ کہانتک ان امور کی پروا کرتا ہے اور کہانتک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے۔ اس کا بڑا بھاری مطالبہ انسان کے ذمہ ہے۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ قیامت کے روز خداتعالیٰ کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ میں پیاسا تھا اور تونے مجھے پانی نہ دیا۔ میں بیمار تھا۔ تم نے میری عیادت نہ کی۔ جن لوگوں سے یہ سوال ہو گا وہ کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ تو کب بھُوکا تھا جو ہم نے کھانا نہ دیا۔ تو کب پیاسا تھا جو پانی نہ دیا اور تو کب بیمار تھا جو تیری عیادت نہ کی۔ پھر خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ جو ہے وہ ان باتوں کا محتاج تھا مگر تم نے اس کی کوئی ہمدردی نہ کی۔ اس کی ہمدردی میری ہی ہمدردی تھی ایسا ہی ایک اَور جماعت کو کہیگا کہ شاباش! تم نے میری ہمدردی کی۔ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا وغیرہ۔ وہ جماعت عرض کرے گی کہ اے ہمارے خدا ہم نے کب تیرے ساتھ ایسا کیا؟ تب اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میرے فلاں بندہ کے ساتھ جو تم نے ہمدردی کی وہ میری ہی ہمدردی تھی۔ دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتاہے۔ اس سے بڑھ کر اَور کیا ہو گا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا؟ کبھی نہیں۔ حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی۔ مگر نہیں۔ اس نوکر کی خدمت اور کے ساتھ حسن سلوک گویا مالک کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چِڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سرد مہری برتے۔ کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔

غرض اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے۔ میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللہ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے۔ جو شخص نوع انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے خداتعالیٰ اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک کام کرتا ہے اور پنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اس کا ایمان قوی ہو جاتا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نمائش اور نمود کے لئے جو اخلاق برتے جائیں و ہ اخلاق خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتے اور ان میں اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس طرح پر تو بہت سے لوگ سرائیں وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ ان کی اصل غرض شہرت ہوتی ہے۔ اور اگر انسان خدا تعالیٰ کےلئے کوئی فعل کرے تو خواہ و ہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اُسے ضائع نہیں کرتا اور اس کا بدلہ دیتا ہے۔ میں نے تذکرۃ الاولیاء میں پڑھا ہے کہ ایک ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوئی اور کئی روز تک رہی۔ ان بارش کے دنوں میں مَیں نے دیکھا کہ ایک اسی برس کا بوڑھا گبر ہے جو کوٹھے پر چڑیوں کے لئے دانے ڈال رہا ہے۔ میں نے اس خیال سے کہ کافر کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں اس سے کہا کہ کیا تیرے اس عمل سے تجھے کچھ ثواب ہو گا؟ اس گبر نے جواب دیا کہ ہاں ضرور ہو گا۔ پھر وہی ولی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جو میں حج کو گیا تو دیکھا کہ وہی گبر طواف کر رہ اہے۔ اس گبر نے مجھے پہچان لیا اور کہا کہ دیکھو ان دانوں کا مجھے ثواب مل گیا یا نہیں؟ یعنی وہی دانے میرے اسلام تک لانے کا موجب ہو گئے۔

حدیث میں بھی ذکر آیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایام جاہلیت میں مَیں نے بہت خرچ کیا تھا۔ کیا اس کا ثواب بھی مجھے ہو گا؟ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب دیا کہ یہ اسی صدقہ و خیرات کا ثمرہ تو ہے کہ تو مسلمان ہو گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کے ادنیٰ فعل اخلاص کو بھی ضائع نہیں کرتا۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کی ہمدری اور خبر گیری حقوق اللہ کی حفاظت کا باعث ہو جاتی ہے۔

پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہو تا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروّت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے جیسا کے سعدی نے کہا ہے

؎بنی آدم اعضائے یک دیگر اند

یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے۔ میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔ نہیں، میں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندو ہو یامسلمان یا کوئی اَور۔ میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں بعض اس قسم کے خیالات بھی رکھتے ہیں کہ اگر ایک شیرے کے مٹکے میں ہاتھ ڈالا جاوے اور پھر اس کو تلوں میں ڈال کر تِل لگائے جاویں تو جس قدر تِل اس کو لگ جاویں۔ اس قدر دھوکا اور فریب دوسرے لوگوں کو دے سکتے ہیں۔ ان کی ایسی بے ہودہ اور خیالی باتوں نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے اور اُن کو قریباً وحشی اور درندہ بنا دیا ہے۔ مگر میں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہر گز ہر گز اپنی ہمدردی کے دائرہ کو محدود نہ کرو۔ اور ہمدردی کے لئے اس تعلیم کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے یعنی اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی (انحل: 91)۔ یعنی اول نیکی کرنے میں تم عدل کو ملحوظ رکھو۔ جو شخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو۔

اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر اس سے سلوک کرو۔ یہ احسان ہے۔ احسان کا درجہ اگرچہ عدل سے بڑھا ہو ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان والا اپنا احسان جتلا وے مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبت ذاتی کے رنگ میں ہو جس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلے کی خواستگار نہیں ہوتی بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لئے اپنے سارے سُکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے یہانتک کہ اگر کوئی بادشاہ کسی ماں کو حکم دیدے کہ تو اپنے بچہ کو دودھ مت پلا اور اگر ایسا کرنے سے بچہ ضائع بھی ہو جاوے تو اس کو کوئی سزا نہیں ہو گی تو کیا ماں ایسا حکم سُنکر خوش ہوگی؟ اور اس کی تعمیل کرے گی؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ وہ تو اپنے دل میں ایسے بادشاہ کو کوسے گی کہ کیوں اس نے ایسا حکم دیا۔ پس اس طریق پر نیکی ہو کہ اسے طبعی مرتبہ تک پہنچا یا جاوے۔ کیونکہ جب کوئی شئے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچ جاتی ہے اس وقت و ہ کامل ہوتی ہے۔

یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے (سبحانہ تعالٰی شانہٗ)

(ملفوظات جلد7 صفحہ278 تا 284، ایڈیشن 1984ء)

(ترتیب و کمپوزنگ: خاقان احمد صائم و فضلِ عمر شاہد۔ لٹویا)

پچھلا پڑھیں

حاصل مطالعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2022