• 19 اپریل, 2024

وہ ایک آواز جو ایک چھوٹی سی بستی سے اٹھی

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایک آواز جو ایک چھوٹی سی بستی سے اٹھی تھی دنیا کے 210 ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے اور یہی آپ کی سچائی کی دلیل بھی ہے۔ دور دراز کے علاقے جہاں تیس چالیس سال پہلے تک بھی احمدیت کے پہنچنے کا تصور نہیں تھا، نہ صرف وہاں پیغام پہنچا ہے بلکہ وہاں ایسے پختہ ایمان والے اللہ تعالیٰ پیدا فرما رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک واقعہ بھی بیان کرتا ہوں۔ بینن افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ وہاں 2012ء میں ایک جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ وہاں کے ایک گاؤں کے ایک احمدی، ان کا نام ابراہیم صاحب ہے۔ انہوں نے احمدیت قبول کی۔ اس سے پہلے یہ مسلمان تھے اور کافی علم رکھنے والے تھے اور احمدیت قبول کرنے کے بعد انہوں نے اخلاص و وفا میں ترقی کرنی شروع کی۔ اپنے رشتہ داروں کو بھائیوں وغیرہ کو تبلیغ کرنی شروع کی۔ ان کے بھائی نے ان کی تبلیغ سے تنگ آ کر کہ یہ تبلیغ کر کے ہمیں ہمارے دین سے ہٹا رہا ہے، ان سے لڑائی کرنی شروع کر دی لیکن یہ تبلیغ کرتے رہے۔ لوگوں کو احمدیت کا پیغام، حقیقی اسلام کا پیغام پہنچاتے رہے۔ اور اس طرح ان کی کوششوں سے ارد گرد کے تین گاؤں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں شامل ہو گئے۔ تو ابراہیم صاحب کے بھائی نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا کہ یہ تو احمدیت کو پھیلاتا چلا جا رہا ہے اس لئے ایک ہی علاج ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے۔ ابراہیم صاحب کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ان کا بڑا بھائی اور اس کا دوست کوئی گڑھا کھود کر اس میں کچھ ڈال رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ خواب کے تین دن بعد ہی ان کے بڑے بھائی کا دوست اچانک بیمار ہوا اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس پر ان کے بھائی نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ احمدی جو ہے اس نے میرے دوست کو کوئی جادو ٹونہ کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد یہ کہتے ہیں کہ میں نے پھر ایک خواب دیکھی کہ ان کا بھائی ایک درخت کے ساتھ لگ کر خود کو ماپ رہا ہے۔ اس علاقے میں یہ رواج ہے کہ جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اس کی قبر کھودنے کے لئے ایک درخت کے تنے کی چھال کے ساتھ میّت کو ماپا جاتا ہے تا کہ قبر اس کے سائز کے مطابق بنائی جائے۔ کہتے ہیں کچھ دن کے بعد بڑے بھائی کی حاملہ بیوی بیمار ہوئی اور دو دن کے اندر فوت ہو گئی۔ اور اس کے سارے بچے بیچارے بیمار ہونے شروع ہوئے۔ ان کو فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ ان کے بھائی نے مشہور کر دیا کہ یہ جادو ٹونہ کرنے والا شخص ہے اور وہاں کا جو مقامی بادشاہ تھا، چیف تھا اس کے پاس شکایت کی۔ اس کو مدد کے لئے کہا۔ اس نے کچھ پیسے مانگے کہ یہ لے کر آؤ تو مَیں اس کا علاج کرتا ہوں۔ خیر ان کے بھائی نے رقم ادا کر دی۔ بادشاہ نے ابراہیم صاحب کو بلایا اور جب یہ گئے تو بڑے غصے اور طیش میں اس نے کہا کہ تم نے یہ کیا تماشا بنایا ہوا ہے۔ یہ نیا مذہب اختیار کیا ہے۔ نیا دین شروع کر دیا ہے۔ اس کو فوراً چھوڑو اور توبہ کرو ورنہ کل کا سورج نہیں تم دیکھ سکو گے۔ تمہارے پر کل کا دن نہیں چڑھے گا۔ ابراہیم صاحب کہنے لگے کہ مذہب تو مَیں نے سچ سمجھ کر قبول کیا ہے اس کو تو مَیں چھوڑ نہیں سکتا اور رہی بات مرنے کی تو زندگی موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر اس چیف نے یا بادشاہ نے کہا کہ اس علاقے کا خدا مَیں ہوں۔ میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تم لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کیا فیصلہ کرنے لگا ہوں اور جس کو میں یہ کہہ دوں کہ وہ کل تک مر جائے گا تو وہ ضرور مرتا ہے۔ ابراہیم صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے تم اپنے روایتی لوگوں کو کہتے ہو گے لیکن میں اس بات میں تمہیں کچھ نہیں کہتا۔ مگر مَیں دین نہیں چھوڑوں گا کیونکہ حقیقت یہی ہے اور سچا اسلام یہی ہے۔ اس پر چیف کو مزید غصہ آیا۔ اس نے اپنے لوگوں کو کہا ان کو لے جاکے کمرے میں بند کر دو۔ وہ لے کے جا رہے تھے تو ابراہیم صاحب نے ان لوگوں کو کہا کہ تم میرے بیچ میں نہ پڑو اور اس معاملے کو چھوڑو۔ مجھے بند کرنے کی بجائے جانے دو۔ خیر وہ لوگ بھی لالچی ہوتے ہیں کچھ رقم لے کے انہوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ اس بادشاہ نے یا چیف نے ان پر صبح کا سورج کیا طلوع کروانا تھا اگلے دن ہی اطلاع ملی کہ اس بادشاہ کو فالج ہو گیا اور وہ ہلنے جلنے کے قابل نہیں رہا اور دو دن بعد ہی وہ فوت ہو گیا۔ یہ دیکھ کر ان کے بڑے بھائی جو اُن کے مخالف تھے انہوں نے خاندان والوں سے کہا کہ ہماری صلح کرا دیں۔ انہوں نے کہا میری تو لڑائی کسی سے تھی ہی نہیں۔ ہم تو ایسے ہی صلح جُو ہیں اور اسلام کا حقیقی پیغام بھی یہی ہے۔ تو اس چیف کے مرنے کا یہ نشان دیکھ کر وہاں علاقے میں اس کا بہت اثر ہوا اور بڑا چرچا ہوا۔ احمدیت کی سچائی ثابت ہوئی۔ تو یہ چیزیں ہیں جو آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ثابت ہو رہی ہیں۔

(خطبہ جمعہ 23؍مارچ 2018ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی