• 19 اپریل, 2024

یہ قوتِ ارادی ایمان کی قوتِ ارادی تھی

یہ قوتِ ارادی ایمان کی قوتِ ارادی تھی
جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
دوسری طرف ہم قوتِ ارادی کا ایسا انقلاب دیکھتے ہیں کہ بعض غیر مسلم اس پر مشکل سے یقین کرتے ہیں۔ یہ قوتِ ارادی ایمان کی قوتِ ارادی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کی۔ اس کا نظارہ ہمیں اس روایت سے ملتا ہے کہ چند صحابہ ایک مکان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ دروازے بند تھے اور یہ سب شراب پی رہے تھے اور اُس وقت ابھی شراب نہ پینے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور شراب پینے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی نہیں تھی۔ جس کا جتنا دل چاہے، پیتا تھا، نشے میں بھی آ جاتے تھے۔ شراب کا ایک مٹکا اس مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے خالی کر دیا اور جو مٹکا ہے وہ بھی کئی گیلن کا ہوتا ہے۔ اور دوسرا شروع کرنے لگے تھے کہ اتنے میں گلی سے آواز آئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ آج سے مسلمانوں پر شراب حرام کی جاتی ہے۔ اس آواز کا ان لوگوں تک پہنچنا تھا کہ اُن میں سے ایک جو شراب کے نشے میں مزا لے رہا تھا، اُس میں مدہوش تھا، دوسرے کو کہنے لگا کہ اُٹھو اور دروازہ کھول کر اس اعلان کی حقیقت معلوم کرو۔ ان شراب پینے والوں میں سے ایک شخص اُٹھ کر اعلان کی حقیقت معلوم کرنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک دوسرا شخص جو شراب کے نشے میں مخمور تھا اُس نے سوٹا پکڑا اور شراب کے مٹکے پر مار کر اُسے توڑ دیا۔ دوسروں نے جب اُسے یہ کہا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ پہلے پوچھ تو لینے دیتے کہ حکم کا کیا مفہوم ہے اور کن لوگوں کے لئے ہے؟ تو اُس نے کہا پہلے مٹکے توڑو، پھر پوچھو کہ اس حکم کی کیا حقیقت ہے؟ کہنے لگا کہ جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی آواز سن لی تو پہلے تو حکم کی تعمیل ہو گی۔ پھر میں دیکھوں گاکہ اس حکم کی قیود کیا ہیں؟ اُس کی limitations کیا ہیں؟ اور کن حالات میں منع ہے۔ پس یہ وہ عظیم الشان فرق ہے جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور دوسروں میں نظر آتا ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ445-446 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ شرابیوں کی کیا حالت ہوتی ہے؟ کسی شرابی سے شراب پیتے ہوئے گلاس بھی لے لیں یا اُس کے سامنے سے اُٹھا لیں تو مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ کلبوں اور بَاروں (Bars) میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ چند دن ہوئے یہاں پر بھی ایک خبر تھی کہ ایک کلب میں یا بار (Bar) میں ایک نشئی شخص نے دوسرے کو مار دیا۔ بلکہ یہ نشئی لوگ خلافِ مرضی باتیں سن کر ہی قتل و غارت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ پس ان شرابیوں کی جو نشے میں دھت ہوتے ہیں، نہ عقلیں سلامت ہوتی ہیں، نہ سمجھ سلامت ہوتی ہے، نہ زبان پر قابو رہتا ہے اور نہ ماں باپ کی پرواہ ہوتی ہے۔ اُن کے ہاتھ پاؤں بھی غیر ارادی طور پر حرکت کرتے ہیں۔ نشے میں نہ اُنہیں قانون کی پرواہ ہوتی ہے، نہ سزا کا ڈر ہوتا ہے۔ لیکن صحابہ کی قوتِ ارادی نشے پر غالب آ گئی۔ باوجود اس کے کہ وہ نشے میں مخمور تھے۔ ایک مٹکا اُس وقت پی بھی چکے تھے۔ دوسرا مٹکا وہ پینے والے تھے۔ ایسے وقت میں اُن کے کانوں میں یہ آواز پڑتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ شراب مسلمانوں پر حرام کر دی گئی ہے تو اُن کا نشہ فوراً ختم ہو جاتا ہے۔ وہ پہلے شراب کا مٹکا توڑتے ہیں اور پھر اعلان کرنے والے سے وضاحت پوچھتے ہیں کہ اس اعلان کا کیا مطلب ہے؟

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ446-447 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

اور یہ ایک گھر کا معاملہ نہیں ہے، چند لوگوں کا معاملہ نہیں۔ بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں روایت میں آتا ہے کہ ایسے کئی گھر مدینے میں تھے جن میں شراب کی محفلیں جمی ہوئی تھیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اس تیزی سے شراب کے مٹکے ٹوٹے کہ مدینے کی گلیوں میں شراب پانی کی طرح بہنے لگی۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ448 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

(خطبہ جمعہ 17؍جنوری 2014ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

شہدائے برکینا فاسو کے نام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2023