• 26 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 75)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 75

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 9؍ستمبر 2011ء میں صفحہ 3 پر ہماری ایک خبر شائع کی ہے۔ خبر کے ساتھ 5 تصاویر بھی ہیں۔ خبر کا عنوان ہے

’’سادگی سے بچت ہوتی ہے جو ضرورت مندوں کے کام آسکتی ہے‘‘

’’افریقہ اس وقت قحط سالی کا شکار ہے اس کی مدد کریں‘‘، امام شمشاد ناصر

کیلی فورنیا۔ مسجد بیت الحمید کے امام شمشاد احمدناصر نے کہا ہے کہ آج کل شیطانی حملے انٹرنیٹ کے ذریعے ہورہے ہیں جو گھروں کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں اور بن سکتے ہیں۔ وہ گزشتہ ہفتے نماز عید کے بعد خطبہ دے رہے تھے انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رمضان آنے پر شیطان جکڑ دیا جاتا ہے اور اب رمضان ختم ہوچکا ہے لیکن شیطان کو جکڑا ہی رہنا چاہئے ۔ امام شمشاد نے کہا کہ بعض اوقات لوگ نمازیں پڑھتے ہیں، جمعہ بھی پڑھتے ہیں مگر کاروبار میں دوسرے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں یہ سب شیطان کے کام ہیں اگر تم شیطان کی بات مان لوگے تو سیدھے راستہ سے بھٹک جاؤ گے۔ انہوں نے والدین کو کہا کہ وہ اپنی اولاد کا تعلق بچپن ہی سے خدا کے ساتھ جوڑیں اور سات سال کی عمر تک نماز سکھائیں تا جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچیں تو خود ہی شوق سے نماز ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ میاں بیوی کے تعلقات میں بھی دوستانہ رنگ ہونا چاہئے اور اگر کبھی کچھ اونچ نیچ آجائے تو برداشت کی عادت ڈالنی چاہئے اور سادگی کو شعار بنائیں اور بچت سے ضرورت مندوں کی مدد کریں۔ امام شمشاد نے اس ضمن میں دہشت گردی سے متاثر ہونے والے اور سیلاب متاثرین کا ذکر کیا۔ عید کے اجتماع میں 800 سے زائد احمدی شامل ہوئے۔

ایک تصویر میں خاکسار خطبہ عید دے رہا ہے۔ ایک تصویر میں احباب خطبہ سن رہے ہیں۔ ایک تصویر میں احباب عید کے بعد کھانا لے رہے ہیں۔ اور دو گروپ فوٹوز ہیں۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 9 تا 15؍ستمبر 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’امریکہ پر 9/11 کے اثرات‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ یہ بھی دراصل وہی مضمون ہے جو پہلے اوپر گزر چکا ہے۔ صرف عنوان بدل گیا ہے۔ اور ایڈیٹر صاحبان ایسا کرتے ہیں۔ نفس مضمون وہی ہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 9؍ ستمبر 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’امریکہ پر 9/11 کے اثرات‘‘ خاکسار کی تصویر اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے سانحہ کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس کا بھی نفس مضمون وہی ہے جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔

دی سن نے اپنی اشاعت 11؍ستمبر 2011ء میں A7 پر اس عنوان سے لکھا ’’An Imam’s message‘‘۔ ’’امام کا پیغام‘‘۔ اخبار لکھتا ہے کہ امام شمشاد 9/11 کے سانحہ کے روزواشنگٹن ڈی سی میں تھے جب یہ ہولناک حادثہ پیش آیا۔ اب جب کہ اس پر ایک مدت گزر چکی ہے۔ ابھی بھی بہت سارے امریکنوں کے ذہن پر نقش ہے۔

امام شمشاد اس وقت یہاں پر ہفتہ وار ایک ریڈیو پروگرام چلا رہے ہیں جس میں وہ اپنے فرقہ احمدیت کی تعلیمات کا پرچار کر رہے ہیں۔ اور لوگوں کے سوالوں کے جواب بھی دیتے ہیں۔ ان کا فرقہ احمدیہ اس وقت 200 سے زائد ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ان کی تعلیمات میں سے ایک تو یہ ہے کہ مرزا غلام احمد ہندوستانی (علیہ السلام) اس وقت کے مسیح ہیں اور خدا کی طرف سے ہیں۔

امام شمشاد عام طور پر ’’برداشت‘‘ کے موضوع پر اور پیار اور اخوت کے موضوع پر تقریر اور تعلیمات بیان کرتے ہیں لیکن اسی وقت کچھ عرصے سے وہ 9/11 کے حادثہ پر بات چیت کررہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’اسلام معصوم لوگوں کی جان لینے کے لئے نہیں آیابلکہ ان کو زندگی بخشنے کے لئے آیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا یہی ہمارا پیغام ہے۔ ہمیں کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے اس پیغام انسانیت کو نقصان پہنچے۔ انہوں نے کہا ہمارے پیغام میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم امریکن لوگوں کےاسلام کے بارے میں خدشات کا ازالہ کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ہم اپنے پیغام کی اشاعت کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ 2010ء میں ہم نے بڑے بڑے پوسٹر بنا کر شہر کی بسوں پر لگائے تھے جن میں یہی پیغام تھا کہ ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ ’’مسلم فار پیس‘‘ اور ’’مسلم فار لائف‘‘۔

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 14؍ستمبر 2011ء میں صفحہ 20 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ یہ دراصل حضور انور کے ایک سابقہ خطبہ جمعہ کا دوسرا حصہ ہے۔ جو حضور انور نے رمضان المبارک میں ارشاد فرمایا۔

سب سے اول اخبار نے قرآن کریم کا یہ ارشاد نقل کیا۔ وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ اس کے بعد حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس آیت مبارکہ سے متعلق تفسیر بیان فرمائی حضور انور نے قرآن کریم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آیت قرآنی شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ بھی تلاوت فرمائی۔

حضور نے فرمایا: آج شمال میں جنوب میں، مغرب و مشرق میں ہر جگہ، ہر ملک میں فساد نظر آتا ہے۔ کہیں بھی امن نہیں ہے۔ جس کی اصل وجہ خدا تعالیٰ سے دوری ہے۔ جب انسان حقیقی طور پر ’’عِبَادِیْ‘‘ بن جائیں گے۔ خدا کے حکموں پر عمل کریں گے۔ اور مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی اور اس کے حقوق ادا کریں گے تب امن قائم ہوسکتا ہے۔ قبولیت دعا کے سلسلہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس کی پہلی اور اولین شرط تقویٰ ہے۔ اور یہ بھی بغیر کثرت دعا کے ممکن نہیں۔ اور پھر اس کے ساتھ ساتھ خشیت الٰہی بھی بے حد ضروری ہے۔ اور انسان کو چاہئے کہ اس کے دل میں خوف خدا کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوکہ اسے اللہ تعالیٰ ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ اور اسے خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ہونا چاہئے۔ دعا کے لئے بس اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ انسان کی زبان پر دعائیہ کلمات ہوں بلکہ دعائیہ کلمات اس طورپر ہوں کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے ایک رقّت ہو اور محبت ہو۔ اور پھر یقیناً وہ دعا جو اضطراب، تواضع اور انکساری کے ساتھ کی جائے گی خدا تعالیٰ کے حضور استجابت دعا ہوگی۔ پھر ایک اور بات جو ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں خلق خدا کی ہمدردی بھی رکھے۔ جب انسان رو رو کر خدا کے حضور خلق خدا کے لئے بھلائی چاہے گا تو وہ دعا بھی قبولیت کا درجہ پائے گی۔ حضور انور نے اس خطبہ میں مزید یہ ارشاد فرمایا کہ قبولیت دعا کے لئے ایک اور شرط یہ ہے کہ انسان ہر قدم پر خدا تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اور مخلوق خدا کے حقوق کی ادائیگی کے لئے ہمہ تن تیار رہے۔

پھر یہ بھی ہے کہ انسان جب صحیح سالم ہو یعنی تندرست ہو۔ اسے کوئی فکر دامن گیر نہ ہو تو وہ اس وقت بھی دعا کرے۔ یہ نہیں کہ جب مصیبت پڑجائے تو پھر خدا خدا کرنا شروع کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرے اور برائیو ں سے اپنے آپ کو دور رکھے، عاجزی و انکساری کے ساتھ خدا کے حضور جھکے، خشیت اللہ اور خدا کا خوف اس کے دل میں ہو، وہ تمام محرمات سے بچے تو قبولیت دعا کا دروازہ ایسے انسان کے لئے کھولا جاتا ہے۔ اور یہ ساری نیکیاں جو اس وقت رمضان کے بابرکت مہینہ میں کی جارہی ہیں ان کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھنا چاہئے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 16؍ستمبر 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی و خدمت خلق‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے بتایا کہ حال ہی میں امریکہ میں 9/11 کی برسی منائی گئی ہے۔ اس دن 3 ہزار جانیں ضائع ہوئیں۔ جنہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ دعائیں کی گئیں اور خدمت انسانیت کے جذبے کو بھی سراہا گیا۔ اس دوران جماعت نےسارے امریکہ میں Muslim For Life کے فلائرز تقسیم کئے۔ ایڈریس کے ساتھ رابطہ کر کے ہزاروں یونٹ خون کے عطیات اکٹھے کئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔ آمین

خاکسار نے لکھا کہ اس وقت وطن عزیز (پاکستان) بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی دو چار ہے۔ TVپر خبریں دیکھی نہیں جاسکتیں کہ کس طرح لوگ بے گھر اور آسمان کے نیچے بسیرا کر رہے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ نہ جانوروں کے کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی انسانوں کے کھانے کے لئے۔ اور مہلک بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ انسانیت کو پاکستان میں کسی بھی رخ تسکین نہیں ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ خدمت خلق اور نوع انسان کے ساتھ ہمدردی کا سبق دیا جائے۔ خاکسار نے کچھ قرآنی آیات لکھیں جن میں انسانیت اور قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم ہے۔ مثلاً سورۃ النساء آیت 37۔ پھر کچھ احادیث کا بھی تذکرہ ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔ پھر ایک اور جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے کسی مسلمان کی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی تکالیف اور بے چینی کو دور کرے گا۔ اور جس شخص نے کسی تنگدست کو آرام پہنچایا اس کے لئے آسانی مہیا کی اللہ تعالیٰ آخر میں اس کے لئے آسانیاں مہیا فرمائے گا۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم فرمائے گا تم اہل زمین پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘

خاکسار نے اس کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی کتب سے کچھ اقتباسات پیش کیے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’غرض نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔‘‘ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کرتے رہو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ کسی پر ظلم نہ کرو نہ تیزی کرو نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔‘‘

یہ نصائح پاکستان کے مسلمانوں کے لئے ہیں کہ وہاں پر انسانیت کا احترام ختم ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع جانوروں کی طرح کیا جارہا ہے۔ درندگی بڑھ گئی ہے۔ مخلوق خدا کی ہمدردی ختم ہوگئی ہے۔ تکبر نے جڑ پکڑ لی ہے جس کی وجہ سے وطن عزیز آفتوں میں گھرا ہوا ہے۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 16 تا 22؍ستمبر 2011ء میں صفحہ 42 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی و خدمت خلق‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔

الاخبار نے (انگریزی سیکشن میں) اپنی اشاعت 21؍ستمبر 2011ء میں صفحہ21 پر ہماری ایک خبر اس عنوان سے شائع کی ہے:

Holy Quran in 50+ Languages Display at L.A County Fair.

یعنی ’’قرآن کریم کی 50 سے زائد زبانوں میں لاس اینجلس کونٹی کے میلہ میں نمائش‘‘

اخبار لکھتا ہے کہ عالمگیر جماعت احمدیہ کی لاس اینجلس کی شاخ نے کونٹی فیئر میں 50 سے زائد قرآن مجید کے تراجم کی نمائش کی۔ اس وقت جماعت احمدیہ نے قرآن کریم کی ستر 70سے زائد معروف زبانوں میں تراجم قرآن کی سعادت پائی ہے۔ یہ تراجم آن لائن بھی میسر ہیں۔

الاخبار نے اپنے انگریزی سیکشن کی 21؍ستمبر 2011ء کی اشاعت میں صفحہ21 پر 2 تصاویر کے ساتھ ہماری خبر شائع کی ہے۔ ایک تصویر میں خاکسار خطبہ عید الفطر دے رہا ہے۔ جب کہ دوسری تصویر میں احباب کا گروپ فوٹو ہے۔

اخبار لکھتا ہے 29؍اگست رمضان کا آخری دن (روزہ) تھا۔ جو کہ یکم اگست کو شروع ہوا تھا۔ اخبار نے رمضان المبارک کی تفصیل بیان کی ہے کہ مسلمان روزے صبح سے شام تک رکھتے ہیں اور اس دوران کچھ کھاتے پیتے نہیں ہیں۔ رمضان اسلام کے 5 ارکان میں سے ایک ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کے حوالہ سے رمضان کی فرضیت اور مسائل کا ذکر بھی کیا ہے۔ عید الفطر 30 اگست کو مسجد بیت الحمید میں منائی گئی۔ امام مسجد بیت الحمید سید شمشاد احمد ناصر نے نماز عید پڑھائی اور خطبہ عید دیا۔ اس موقعہ پر 600 سے زائد حاضرین تھے۔ امام نے رمضان کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ امام نے آئندہ ہونے والے چند پرگراموں کے بارے میں بھی بتایا مثلاً خون کے عطیات لینے کے بارے میں اور 9/11 کا ذکر کیا جس میں 3 ہزار سے زائد جانیں تلف ہوئیں۔

الاخبار نے اپنی اشاعت 21؍ستمبر 2011ء میں صفحہ 9 پر عربی سیکشن میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس خطبہ کا عنوان اخبار نے ’’سچائی کا خُلق‘‘ باندھا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ دین اسلام سچائی ہے۔ اور سچائی کے خلق کو اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ دنیا اپنے مطالب کے حصول کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتی ہے لیکن اسلام کسی پہلو سے بھی جھوٹ کو اپنانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ بلکہ جھوٹ ایک شرک کی قسم ہی ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے انفرادی حقوق کے لئے اور بعض اوقات ممالک اجتماعی طور پر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں جو کسی بھی رنگ میں درست اور ٹھیک نہیں ہے۔ اور بعض اوقات جھوٹ پر اتنی ملمع سازی کی جاتی ہے کہ اسے سچ کر کے دکھایا جاتا ہے۔ یہی جھوٹ ہے جو گھروں کو اجاڑنے کا بھی باعث بن رہا ہے (عائلی زندگی کے مسائل کے بارے میں)۔ اس کے علاوہ آج کل سیاست میں تو جھوٹ بولا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سیاست میں جب تک جھوٹ نہ بولا جائے وہ چل نہیں سکتی۔ یا بعض دنیاوی لوگ کہتے ہیں کہ اگر کاروبار میں جھوٹ کا سہارا نہ لیا جائےتو کاروبار چل نہیں سکتا۔ یہ سب کچھ غلط ہے تقویٰ کی راہ سے دوری ہے اور خدا سے دوری ہے۔

اسلام کے نقطہ نگاہ سے جھوٹ بولنا، جھوٹ کا سہارا لینا بھی شرک ہے۔ حالانکہ تمام برائیوں کی جڑ اور تمام گناہوں کی اساس جھوٹ ہی ہے۔ یہ تو دنیاوی لیڈروں اور حکومتوں کی باتیں ہیں۔ اگر ہم دینی امور دیکھیں تو حامل دین متین بھی جھوٹ کے ذریعہ سچائی کو پھیلانا چاہتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ آپ نے ہر قدم پر صدق و سچائی کو اعلیٰ معیار کو اپنایا جس کی وجہ سے آپ صادق اور امین کے لقب سے مشہور ہوئے۔ حضور انور نے اس ضمن میں وہ واقعہ بھی بیان فرمایا کہ جب آپ کو یہ حکم ہوا کہ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ تو آپ نے اپنے تمام رشتہ داروں اور رؤساء مکہ کو دعوت تبلیغ دی۔ اور انہیں فرمایا کہ اگر میں یہ کہوں کہ مکہ کے اس طرف ایک بہت بڑا لشکر ہے جو آپ پر حملہ کرنے والا ہےتو کیا آپ اس بات کو مان لو گے؟ انہوں نے کہا ہاں کیوں نہیں۔ کیوں کہ ہم نے آپ سے کبھی بھی سچائی اور صدق کے اور کچھ نہیں سنا اور نہ دیکھا۔ مگر وہ پھر بھی ایمان نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاءکے آنے کا مقصد ہی سچائی اور صدق کو قائم کرناہے۔ اور انبیاء کی اپنی زندگی، نبوت سے قبل، اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے سچا نبی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دلیل کفار کے سامنے پیش کی تھی جس کا ذکر قرآن مجید میں یوں آیا :۔ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس: 17) پس مىں اس (رسالت) سے پہلے بھى تمہارے درمىان اىک لمبى عمر گزار چکا ہوں، تو کىا تم عقل نہىں کرتے۔

حضور انور نے آخر میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صدق اور سچائی کو اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین

ہفت روزہ یو۔کے ٹائمز نے اپنی اشاعت 22؍ستمبر 2011ء میں صفحہ 15 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’آپ کی صرف ایک مسکراہٹ دل جیت سکتی ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ خاکسار نے اس مضمون میں لکھا کہ: ’’کافی عرصہ پہلے کی بات ہےامریکہ کے ایک اخبار نے اپنے ریڈرز سے سوال کیا تھا کہ ان کے نزدیک خوبصورتی کی سب سے بڑی علامت کیا ہے؟ اس کے جواب میں 93 فیصد لوگوں نے لکھا ’’ایک دلکش مسکراہٹ‘‘۔

(نوائے وقت میگزین 14؍اگست 1989ء صفحہ21)

یہ ملک جو دنیا میں اپنی حکمرانی منوانے کا اختیار رکھتا ہے جسے دنیا کی ہر قسم کی نعمت میسر ہے لیکن یہ بھی ایک دلکش مسکراہٹ کو ترستا ہے کیوں کہ ایک دلکش مسکراہٹ صرف اس قوم کے دل کی آواز نہیں ہے بلکہ یہ عالمی معیار ہے۔ ہر شخص دنیا میں یہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ پیار و محبت کا معاملہ ہو۔ خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کیا جائے۔

اسلام کے لفظ میں یہ سب کچھ پیار، محبت، خندہ پیشانی سے ملنا، مسکرا کر ملنا شامل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نصیحت فرمائی:۔ کسی معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ اگرچہ اپنے بھائی کے ساتھ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنے کی ہی کیوں نہ ہو۔

ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم لوگوں کی اپنے اموال سے مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم بشاشت اور حسن خلق کے ساتھ ان سے ملو تاکہ کچھ تو ان کی دلداری ہو۔ پس آپ کا کسی کو مسکرا کر ملنا کسی دکھی دل کے لئے آبِ بقاء سے کم نہ ہوگا۔ خاکسار نے اس ضمن میں مزید لکھا کہ رسالہ لاہور اپنی 11؍اکتوبر کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ سائنس دانوں نے معلوم کیا ہے کہ مسکرانا، تیوری چڑھانے سے زیادہ مفید ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسکراتے وقت چہرے کے 17 ریشے یا اعصابی تار حرکت کرتے ہیں جب کہ تیوری چڑھاتے وقت یا گھورتے وقت 43 ریشے حصہ لیتے ہیں اور دو لاکھ تیوریاں چڑھانے سے چہرے پر نشان پڑجاتے ہیں۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی شگفتہ مزاج اور بہت مسکرانے والے تھے۔ اس ضمن میں اور بھی احادیث نقل کی گئی ہیں۔ طبقہ غرباء کا تو آپ بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کی ہر قسم کی دلداری فرماتے تھے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 23؍ستمبر 2011ء میں صفحہ13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’آپ کی صرف ایک مسکراہٹ دل جیت سکتی ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ یہ مضمون وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالے سے گزر چکا ہے۔

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی