• 19 اپریل, 2024

حضرت مصلح موعودؓ کا بےمثال عشق رسولؐ

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے 20 فروری 1886ء کو جب الٰہی بشارات کے مطابق بذریعہ اشتہار ایک موعود بیٹے کی پیشگوئی کا اعلان فرمایا تو اس کے ایک ماہ بعد ایک اور اشتہارمحررہ 22 مارچ 1886ء میں یہ اعلان فرمایا کہ:

“یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہٗ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور در حقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اَولیٰ و اکمل و افضل و اتم ہے … اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانہٖ و ببرکت حضرت خاتم الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کرکے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی…۔‘‘

یعنی جہاں یہ پیشگوئی (بابت مصلح موعود) خود آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت و عظمت کا باعث ہے وہاں اس پیشگوئی کا مصداق وہ موعود بیٹا بھی عشقِ محمدؐ سے سرشار ہوکر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت و عظمت کا علمبردار ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جہاں نو سال کی مقررہ میعاد میں اللہ تعالیٰ نے اس موعود بیٹے کو پیدا کرکے صداقتِ اسلام کے لئے مانگے گئے نشان کو پورا کیا وہاں اس موعود بیٹے کی فطرتی صفات میں علاوہ اور باتوں کے آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اُلفت و محبت بھی رکھ کر آپؐ کی صداقت و عظمت کو ظاہر کرنے والا منادی بنا دیا۔

پیشگوئی بابت مصلح موعودؓ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی حضرت مسیح موعودؑ سے وعدہ فرمائی تھی کہ ’’وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا‘‘۔ حضرت مسیح موعودؑ کے حسن سیرت کی ایک اہم اور شہ سرخی عشق رسولؐ بھی ہے اور الہام ’’وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا‘‘ کے مطابق یہی شہ سرخی موعود بیٹے کی سیرت کی فہرست میں بھی شامل ہونی تھی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعودؑ کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہتک کرتے ہیں، اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم، اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ہے۔ وہ کیا جانے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے۔ وہ میری جان ہے، میرا دل ہے، میری مراد ہے، میرا مطلوب ہے۔ اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے۔ اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم ہیچ ہے۔ وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں۔ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں۔ وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قرب نہ تلاش کروں۔ میرا حال مسیح موعود کے اس شعر کے مطابق ہے کہ ؎

بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

حضرت مسیح موعودؑ کے واقعاتِ زندگی کے علاوہ نظم و نثر سے بھی عشق رسولؐ عیاں ہے اسی طرح حضرت مصلح موعود کی تحریرات، منظومات، خطبات و ملفوظات بھی محبت رسولؐ سے لبریز ہیں، آپؓ کے بعض نعتیہ اشعار ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:

اے محمدؐ! اے حبیب کردگار
میں تِرا عاشق، تِرا دلدادہ ہوں
گو ہیں قالب دو مگر ہے جان ایک
کیوں نہ ہو ایسا کہ خادم زادہ ہوں
………………
مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ اے حضرتِ لولاکؐ
ہوتے نہ اگر آپؐ تو بنتے نہ یہ افلاک
جو آپؐ کی خاطر ہے بنا آپؐ کی شے ہے
میرا تو نہیں کچھ بھی یہ ہیں آپ کے املاک
………………
محمدؐ میرے تن میں مثل جاں ہے
یہ ہے مشہور جاں ہے تو جہاں ہے
………………
محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے
کہ وہ کوئے صنم کا رہنما ہے
مرا دل اس نے روشن کر دیا ہے
اندھیرے دل کا میرے وہ دیا ہے
مرا ہر ذرہ ہو قربانِ احمد
مرے دل کا یہی اِک مدعا ہے
اُسی کے عشق میں نکلے مری جاں
کہ یادِ یار میں بھی اِک مزا ہے
………………
محمدؐ عربی کی ہو آل میں برکت
ہو اُس کے حسن میں برکت ، جمال میں برکت
………………

ہر احمدی اپنے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محبت اور عشق رکھتا ہے لیکن بعض وجودوں کا عشق رسولؐ جہاں حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَ وَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْن کی شرط کو احسن طور پر پورا کر رہا ہوتا ہے وہاں دوسرے لوگوں کے لیے بھی بطور مثال بن جاتا ہے اور انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت بڑھانے کے مزید طریق فراہم کرتا ہے۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ بھی انہی خاص عاشقانِ رسولؐ میں سے ایک ہیں۔ آپؓ کی محبت رسولؐ، مطالعۂ حدیث اور اتباع سنت رسولؐ کے انداز اور تفہیم کے زاویے اس قدر منفرد، عمیق اور دلکش ہیں کہ بڑے بڑے عالمِ دین بھی اس کے سامنے طفل مکتب نظر آتے ہیں۔ آپ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے واقعات کو اس انداز میں مطالعہ کرتے اور سوچتے کہ گویا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں پہنچ گئے ہوں اس طرح آپؓ کی قلبی کیفیت اور جذبات بھی اسی رنگ میں ڈھل جاتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن میں یتیمی کی حالت میں اپنے چچا حضرت ابو طالب کے گھر میں پرورش پانے کے دنوں کا تصور کر کے حضرت مصلح موعودؓ اپنے عشق رسولؐ کی وجہ سے مضطرب ہو جاتے ہیں۔ آپؓ بیان کرتے ہیں:

’’میں تو جب بھی اس واقعہ کو پڑھتا ہوں میری طبیعت رقت کے جذبات کے انتہائی مقام پر پہنچ جاتی ہے … پس کبھی بھی اس واقعہ کو پڑھتے ہوئے میں بغیر اس کے کہ رقت مجھ پر غلبہ نہ پالے، آگے نہیں گزر سکتا۔‘‘

جلسہ سالانہ 1961ء کے افتتاحی خطاب میں آپ نے فرمایا:
’’میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کا اندوہناک سانحہ نہیں دیکھا مگر مجھے وہ دن بھی آج تک نہیں بھولا، آج تک آپؐ کی وفات کے حالات میں نے کبھی نہیں پڑھے کہ میری آنکھیں فرطِ جذبات سے پُرنم نہ ہو گئی ہوں اور مجھے اسی طرح درد و کرب محسوس نہ ہوا ہو جس طرح آپؐ کا زمانہ پانے والے مخلصین کو ہوا تھا۔ میں نے جب کبھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ واقعہ پڑھا ہے کہ آپؓ نے جب پہلی مرتبہ چکی سے پسے ہوئے باریک آٹے کی روٹی کھائی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یاد کرکے آپؓ کے آنسو بہہ پڑے تو اس وقت میری آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگ جاتے ہیں …۔‘‘

ایک اور جگہ آپؓ فرماتے ہیں:
’’میں فخر نہیں کرتا لیکن اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کے لحاظ سے ہمیشہ ہی آپؐ کی وفات کو اسی طرح محسوس کرتا ہوں کہ گویا میری زندگی میں ہی آپؓ زندہ تھے اور میری زندگی میں ہی آپؐ فوت ہوئے۔‘‘

پھر فرماتے ہیں:
’’میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال کرتا ہوں تو مجھے آپؐ کے اخلاق نہایت ہی پیارے لگتے ہیں کہ آپؐ کو اتنے بڑے بڑے کام سرانجام دیتے ہوئے کبھی حضرت خدیجہؓ نہ بھولیں …۔‘‘

درود شریف کا ورد آپؓ کا معمول تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعض خاص حالات کے تصور میں ان قلبی کیفیات اور محبت کے جذبات کی وجہ سے آپؓ کے درودشریف پڑھنے کی کیفیت بھی والہانہ ہو جاتی ہے:

عشق رسولؐ کے باعث یہ ضروری تھا کہ آپؓ اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ و سلم پر لگائے جانے والے الزامات و اعتراضات پر بھی غیرت کا اظہار کرتے۔ لہٰذا جب بھی کسی معترض نے آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارک پر حملہ کرنے کی کوشش کی وہ اس عاشق رسولؐ سے مدلل جواب سن کر اور اپنے جھوٹے اعتراض کی قلعی کھلنے پر منہ کی کھائے بغیر نہ رہا۔ ایڈیٹر الحکم حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی حضور کے ایک سفر ڈلہوزی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’5 جولائی 1918ء کو حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور ایک نوجوان تعلیم یافتہ اور آزاد خیال عیسائی صاحب تشریف لائے … ایک موقعہ پر سلسلہ گفتگو میں صاحب موصوف نے ایک ایسا شبہ پیدا کر دیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نیت پر حملہ تھا۔ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ آپؓ اس غیرت سے متحرک ہو کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے آپؓ رکھتے ہیں، باوجود آج طبیعت کے ناساز ہونے کے بڑے جوش کے ساتھ اس کا جواب دینے کے لئے طیار ہوگئے اور ایسا ساکت جواب دیا کہ صاحب موصوف کو اپنے شبہ پر نادم ہونا پڑا۔‘‘

(الحکم 7 جولائی 1918ء صفحہ 4 کالم 1)

اسی طرح ایک اور موقع پر ایک شخص کے ساتھ بات کرنے سے قبل آپؓ نے اُسے پہلے ہی متنبہ فرمایا کہ میں ہر سوال کا جواب دوں گا لیکن اگر سوال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر جان بوجھ کر حملہ کیا گیا تو پھر اگر تم ایک اعتراض کرو گے میں بیس کروں گا۔ چنانچہ آپؓ اس گفتگو کا حال بتاتے ہوئے خود فرماتے ہیں:

ایک دفعہ میرے پاس ایک انگریز آیا اور اُس نے کہا میں آپ سے اسلام کے متعلق کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کوئی الزامی جواب نہ دیں۔ مَیں نے کہا اگر تم اسلام پر حملہ نہیں کرو گے تو میں بھی الزامی جواب نہیں دوں گا۔ لیکن جب باتیں شروع ہوئیں تو تھوڑی دیر کے بعد ہی اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ مَیں نے جواب میں اس کے پیشوا پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ اِس سے اُس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور کہنے لگا میں ان کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا۔ میں نے کہا …۔ اگر تم میں ان کیلئے غیرت ہے تو کیا میں ہی اتنا بے غیرت ہوں کہ مجھے (دین حق) اور محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت پر حملہ دیکھ کر غیرت نہ آئے۔

آپؓ دنیا کے سب سے بڑے عاشق رسولؐ کے فرزند تھے اور ہوش سنبھالتے ہی آپؓ نے اپنے عاشق رسولؐ باپ سے عشق رسولؐ کے اسباق سیکھے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آغاز سے ہی آپؓ نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مطہر ذات لوگوں کے ناپاک حملوں کی زد میں ہے اور اس احساس کے ساتھ ہی آپؓ نے اپنے دل میں اس عظیم نبیؐ کی عصمت کا درد بھی پیدا کر لیا تھا۔ 1912ء میں ملک مصر کو روانگی کے وقت آپؓ نے اپنے ایک خط میں لکھا:

’’یہاں سے جاتی دفعہ اپنے درد دل سے آگاہ کرتا جاؤں شاید کسی دل میں وہ آگ جو میرے دل میں ہے کچھ اثر پیدا کرے اور وہ دین کی کسمپرس حالت میں اس کی مدد کرے۔ کیسا افسوس اور کیسے غضب کی بات ہے کہ محمد رسول اللہ فداہ ابی و امی جیسے انسان کی دنیا ہتک کر رہی ہے، قرآن شریف جیسی کتاب سے تمسخر کر رہی ہے اور لوگ خواب غفلت میں پڑے ہیں۔ ہمارے دل کیوں مر گئے اور ہماری غیرتیں کہاں گئیں…۔‘‘

(بدر 19ستمبر 1912ء صفحہ 6کالم 2)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہتک کے کرب و الم پر آپؓ خاموش نہ رہے اور نہ ہی اس کا ازالہ آپؓ نے توڑ پھوڑ اور ہڑتالوں کی شکل میں کیا بلکہ ’’حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا‘‘ کے مصداق اس بیٹے نے ہتک آمیز مضامین کا جواب علمی مضامین کے ذریعہ دیا اور علمی دلائل کے ذریعہ ان مضمون نویسوں کی جہالت کو ظاہر کیا اور ہمیشہ کے لئے اس علمی خزانے کو محفوظ کر دیا اور یہ سلسلہ بھی جوانی سے ہی ہمیں نظر آتا ہے۔

ایک پادری صاحب W.A.Shedd نے رسالہ The Moslem World میں ایک مضمون بعنوان

“The Influence of a Mohammedan Environment on the Missionary”

لکھا جس میں آنحضرت ﷺ پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا:

(ترجمہ): مذہب اسلام کے بانی کے سوانح کی پیچیدگی نتیجہ ہے ان متضاد قویٰ کا جو اس کے اخلاق حصہ ہیں … (نعوذ باللہ)

(The Moslem World Vol.1 No.3, January 1913 page 5)

حضرت مصلح موعودؓ نے اس خلاف حقیقت مضمون کا جواب رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو ماہ اپریل 1913ء میں بعنوان
’’کون سا مذہب متضاد خیالات کا جامع ہے اسلام یا مسیحیت‘‘
میں دیا جس کا ذکر رسالہ دی مسلم ورلڈ نے اپنے اگلے شماروں میں کیا۔

1920ء میں ایک آریہ پروفیسر نے (دین حق) پر اعتراضات کئے تو آپؓ نے ان کے اعتراضات کے تفصیلی جوابات دیئے جو … ’’اسلام پر پروفیسر رام دیو کے اعتراضات کے جوابات‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہیں۔

(انوار العلوم جلد 5 صفحہ 341)

ایک شخص مرزا احمد سلطان (لکھنؤ) نے ’’ہفوات المومنین‘‘ نامی ایک کتاب لکھی جس میں کتب حدیث کی بعض روایات کو ’’دشمنان رسول و معاندان امہات المومنین کے تحائف‘‘ قرار دیا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا جواب دیا جو ’’حق الیقین‘‘ کے نام پر شائع شدہ ہے۔ آپؓ نے اس میں تحریر فرمایا: ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تصنیف کے اصل مخاطب اہل حدیث صاحبان ہیں اور اگر وہی مسلک ہم اختیار کرتے جو وہ لوگ ہمارے متعلق اختیار کیا کرتے ہیں تو شاید ہمارا طریق بھی یہ ہوتا کہ ہم اس جنگ کا لطف دیکھتے اور ایک دوسرے کی فضیحت اور تحقیر کو خاموشی سے ملاحظہ کرتے لیکن چونکہ ہمارا رویہ تقویٰ پر مبنی ہے اور اسلام کی محافظت اور اس کے خزائن کی نگرانی کا کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اس لئے میری غیرت نے برداشت نہ کیا کہ یہ کتاب بلاجواب کے رہے اور اسلام کے چھپے دشمن اسلام کے ظاہری دشمنوں کے ساتھ مل کر اس کے اندر رخنہ اندازی کرنے کا کام بلا روک ٹوک کرتے چلے جائیں۔‘‘

(حق الیقین، انوار العلوم جلد 9صفحہ 282)

حضرت مصلح موعودؓ کی یہ کتاب ’’حق الیقین‘‘ مرزا احمد سلطان جیسے بد اندیشوں کا جواب تو ہے ہی لیکن قارئین حدیث کے لئے بعض احادیث کی نہایت ہی لطیف اور منفرد شرح بھی ہے۔

ایک طرف تو غیرت رسولؐ میں آپؓ اس طرح مورچہ بند تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لکھے جانے والے مضامین و کتب کو علم و عقل کے اسلحہ سے تباہ کیے جاتے تھے دوسری طرف ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و سلم کی محافظت میں آپؓ نے قرآن کریم کی ایک تفسیر لکھنے کا ارادہ فرمایا اور اس تفسیر میں آپؓ نے اس غلطی کی بھی نشاندہی فرمائی جس سے کہ دشمن اسلام کو آنحضرتﷺ اور قرآن کریم پر حملہ کرنے کو موقع ملتا ہے چنانچہ گزشتہ تفاسیر کی موجودگی میں اپنی تفسیر قرآن کی غرض بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:

’’پہلے مفسرین نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق بہت بڑی خدمت قرآن کریم کی کی ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ دو غلطیاں نہ کرتے تو ان کی تفاسیر دائمی خوبیاں رکھتیں۔ (1)منافقوں کی باتوں کو جو انہوں نے مسلمانوں میں مل کر شائع کیں، ان تفاسیر میں جگہ دے دی گئی ہے اور اس وجہ سے بعض مضامین دین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کیلئے ہتک کا موجب ہوگئے ہیں۔‘‘

اس غلطی کے علاوہ اپنی ان تحریری کاوشوں کی دوسری بڑی وجہ بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:

’’ہماری کتب میں یوروپین لوگوں کے زہریلے اثرات کا دفاع زیادہ مد نظر ہوتا ہے۔‘‘

چنانچہ اس دفاع کے لئے آپ نے اُس وقت کے بڑے بڑے مستشرقین مثلاً جارج سیل (Geoge Sale)، سپرنگر (Aloys Sprenger)، راڈویل (John Medows Rodwell)، ولیم میور (William Muir)، نولڈیکے (Theodor Noldeke)، پادری وھیری (Elwood Morris Wherry) وغیرہ کی تنقید کا گہرا مطالعہ کیا اور ان کے مدلّل جوابات دیئے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے آنحضرت ﷺ کے لئے استغفار کا حکم اور اس کی حقیقت، آپ ﷺ کے تعلق میں لفظِ ذَنب کا قرآنی استعمال اور اس کی حقیقت، آپ ﷺ کے استعاذہ کی حقیقت، آپ ﷺ کے نسیان کی حکمت اور آپ ﷺ کی شادیوں کی غرض وغیرہ جیسے مضامین پر سیر حاصل بحث کی ہے، یہی وہ موضوعات تھے جس میں دشمن کا کج رَو دماغ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقام و مرتبہ نیچا دکھانے کی کوشش کرتا تھا۔

آپ فرماتے ہیں:
ہم جو کچھ کہتے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت اور آپ ﷺ کے جلال کے اظہار کے لئے کہتے ہیں، کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہیں نکالتے جو آپ ﷺ کی شان کو کم کرنے والی اور آپ ﷺ کی عزت کو بٹہ لگانے والی ہو۔

عاشق رسول ﷺ باپ کے عاشق رسول ﷺ بیٹے کا یہ کردار کتنا عظیم الشان اور حیرت انگیز ہے۔ آنحضرتؐ کے عالی مقام کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لیے جو جہاد حضرت اقدس مسیح موعود نے کیا اُس کے متعلق حضرت اقدس کی زندگی میں ہی ایک عیسائی پروفیسر Sirajud Din, B.A. نے اپنے ایک مضمون بعنوان Mirza Ghulam Ahmad میں لکھا کہ وہ ہر دوسرے شخص کو محمدؐ سے کم تر ثابت کریں گے۔

خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اس اولوالعزم بیٹے کی خلافت کے زمانے میں بھی حضرت مسیح موعودؑ کے اسی جہاد کو رواں دواں دیکھ کر ایک اور مصنف E. J. Bolus M.A., B.D. وہی بات پھر دہراتے ہیں کہ

“The Ahmadiyya is determined at all costs to clear the character of the Prophet.”

(The Influence of Islam by E. J. Bolus page 110, Lincoln Williams, Temple Bar Publishing Company Ltd. St. Martin’s Court W.C.2 1932)

یعنی احمدیت ہر حال میں پُر عزم ہے کہ وہ نبیؐ کاکردار صاف ثابت کر کے دکھائیں گے۔

تفسیر کبیر میں آپؓ نے عصمت انبیاء کے مضمون پر بھی خوب قلم چلایا ہے اور انبیاء کرام پر لگے داغوں کو صاف کر کے اُن کا حقیقی مقام دکھلایا ہے۔ جہاں آپؓ نے عصمت انبیاء ثابت کی ہے وہاں خاتم النبییّن ﷺ کا عالی مرتبہ ثابت کرکے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ لاریب انبیاءؑ اُن الزامات سے پاک تھے جو اسرائیلیات نے لگائے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن معصوم انبیاءؑ کے مقام کے سامنے آنحضرت ﷺ کا مقام و مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے اور عشق رسول ﷺ میں سرشار ہوکر یہ موازنہ آپؓ میرا محمد ﷺ اور میرا آقا کہہ کر بیان کرتے ہیں، چنانچہ سورۃ الانبیاء میں مذکور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بت توڑنے والا واقعہ بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:

’’اوپر کی آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رسول کریمؐ سے ایک زبردست مقابلہ کیا گیا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد بھی بچپن میں فوت ہو گئے تھے اور محمدرسول اللہؐ کے والد بھی آپؐ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے تھے اور دونوںکو اُن کے چچاؤں نے پالا تھا جو دونوں مشرک تھے۔ دونوں نے اپنے چچاؤں کو توحید کی تبلیغ کی مگر دونوں نے توحید کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ … پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی بُت توڑے اور محمدؐ رسول اللہ نے بھی بُت توڑے۔ جب اُن کی قوم کے لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے تھے اور محمدؐ رسول اللہ نے اس وقت بُت توڑے جبکہ دوپہر کا وقت تھا اور کعبہ کے پاس تمام لوگ جمع تھے …۔‘‘

اسی طرح ایک جگہ پر آنحضورؐ کے حالات کا موازنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعات سے کرتے ہوئے آپؓ بیان کرتے ہیں:

غزوہ حنین کے موقعہ پر ….یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے کہ

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلب

اے لوگو! میں موعود نبی ہوں، میں جھوٹا نہیں، تم مجھے مار نہیں سکتے مگر میرے اس نشان کو دیکھ کر مجھے خدا نہ بنا لینا، مَیں عبدالمطلب کا بیٹا اور انسان ہوں۔

کتنا عظیم الشان فرق ہے مسیحؑ میں اور میرے آقا میں۔ … میرا محمدؐ ایسے دشمن کے نرغہ میں گھر گیا جو دو طرف پہاڑیوں پر چڑھا ہوا تھا اور دونوں طرف سے اس پر تیر اندازی کر رہا تھا… مگر پھر بھی وہ اپنے خدا سے مایوس نہیں ہوا اور پھر بھی اُس نے یہی کہا کہ میں انسان ہوں خدا نہیں۔

آپؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے الہام میں بتا دیا تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور جب آپؓ نے دنیا کے سامنے اُن علوم کا اظہار فرمایا تو اپنے علوم کے متعلق اس حقیقت کا بھی اعلان فرمایا کہ

’’قرآنی علوم کا دوسرا ماخذ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات ہے۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ کے قلم سے نکلے سیرت النبی ﷺ کے واقعات پڑھنے کے لائق ہیں، آپؓ کے بیان کردہ واقعات اُسوۂ رسول ﷺ کے نت نئے پہلو دکھاتے ہیں اور ایک پڑھنے والا اُن سے اپنے سیرت رسول ﷺ کی فہرست کے علم میں مزید اضافہ دیکھتا ہے۔ آپ کی تحریرات و خطبات سے اخذکردہ سیرت رسول ﷺ کی سرخیوں کی ایک فہرست درج ہے:

آنحضرتؐ کی توحید سے محبت اور اس کے لیے غیرت، شرک کے خلاف جذبہ نفرت، قرآن کریم سے محبت اور اس کے احکام کی اطاعت، ذوق عبادت اور اس میں انہماک، ذکر الٰہی، عبد شکور بننے کی تڑپ، زہد و تقویٰ، کمال انکسار، کمال جرأت، تبلیغ اسلام میں استقلال، مصائب پر کمال صبر، بے مثال قوتِ برداشت، غیر معمولی ضبطِ نفس، غیرمعمولی تنظیمی قابلیت، جذبہ حب الوطنی، خیر و خواہی و ہمدردی مخلوق، لوگوں کے حقوق کا خیال، یتامیٰ کی خبرگیری، جذبہ احسان مندی، مہمان نوازی، بیویوں سے حسن سلوک، قریبی رشتہ داروں کا خیال، صلہ رحمی، دوسروں کے جذبات کا پاس، غرباء اور مساکین کے لیے تڑپ، جانوروں اور پرندوں سے نرم برتاؤ، قوم کی حالت پر درد و کرب اور ہدایت یابی کے لئے شدید غم، سکراتِ موت میں بھی مخلوق کی محبت کا جلوہ، خطرناک حالات میں بھی بے مثال اطمینان قلب، توکل علی اللہ، رسوم سے بیزاری، آپ ﷺ کی سادگی، اپنے جذبات کی قربانی، اپنے رشتہ داروں کی قربانی، اپنے دوستوں کے جذبات کی قربانی، مالی قربانی، عزت کی قربانی، وطن کی قربانی، آرام کی قربانی، حقوق کی قربانی، آئندہ نسل کی قربانی وغیرہ۔

آنحضرتؐ کی پاکیزہ سیرت اور آپ ﷺ کے پاک کلمات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ احادیث ہیں، حضور اکرمؐ صحابہ کرامؓ کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ آپ ﷺ کی باتیں دوسروں تک پہنچائیں اور صحابہؓ خود بھی ذکر و اذکار کے ذریعہ آپ ﷺ کی باتوں کو زندہ رکھتے تھے۔ حضرت مصلح موعود نے بھی ہمیشہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو اپنے فیصلوں اور منصوبوں میں مدنظر رکھا، خلافت جوبلی کے موقع پر مندرجہ ذیل وصیۃالرسول ﷺ کی کثیر اشاعت کی تحریک فرمائی:

وصیۃ الرسول ﷺ

برادرم! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع میں جب کہ آپ ﷺ کی وفات قریب آگئی بطور وصیت سب مسلمانوں کو جمع کر کے فرمایا اِنَّ دِمَاء َکُمْ وَ اَمْوَالَکُمْ (اور ابی بکرۃ کی حدیث میں ہے وَاَعْرَاضَکُمْ) حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِی بَلَدِکُمْ ھٰذَا۔ وہی تمہاری جانوںاور تمہارے مالوں (اور ابی بکرۃ کی روایت کے مطابق تمہاری عزتوں) کو خدا تعالیٰ نے حفاظت بخشی ہے یعنی جس طرح مکہ میں حج کے مہینہ اور حج کے وقت کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح پُر امن بنایا ہے اِسی طرح مومن کی جان اور مال اور عزت کی سب کو حفاظت کرنی چاہئے۔ جو اپنے بھائی کی جان، مال اور عزت کو نقصان پہنچاتا ہے گویا وہ ایسا ہی ہے جیسے حج کے ایام اور مقامات کی بے حرمتی کرے۔

پھر آپ ﷺ نے دو دفعہ فرمایا کہ جو یہ حدیث سنے، آگے دوسروں تک پہنچادے۔ میں اِس حکم کے ماتحت یہ حدیث آپ تک پہنچاتا ہوں۔ آپ کو چاہئے کہ اِس حکم کے ماتحت آپ آگے دوسرے بھائیوںتک مناسب موقع پر یہ حدیث پہنچا دیں اور انہیں سمجھا دیں کہ ہر شخص جو یہ حدیث سنے اسے حکم ہے کہ وہ آگے دوسرے مسلمان بھائی تک اس کو پہنچاتا چلا جائے۔

والسلام ۔

خاکسار

مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح

(الفضل 3جنوری 1940ء صفحہ 7)

اسی طرح اگست 1917ء میں جماعت احمدیہ کا ایک وفد عیسائیوں سے مباحثہ کی غرض سے بمبئی گیا، اس وفد کے امیر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس موقع پر چند ہدایات تحریر فرما کر امیر وفد کو دیں جن میں ایک ہدایت یہ تھی:۔ ‘‘غریب، امیر، متوسط الحال جو کوئی آئے اُس کی طرف یکساں توجہ ہو، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کون شخص ہدایات کا مستحق ہے۔ ہاں اس بات کا خیال رہے کہ اَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ اَنْ تُنَزَّلُ النَّاسُ علیٰ منازلِھِمْ۔‘‘

(الحکم 14 اپریل 1918ء صفحہ 8 کالم 2)

ایسی اوربہت سی مثالیں ہیں کہ آپؓ نے معاملات میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ اس بارے میں آنحضرتؐ کی کیا تعلیم ہے اور اُس پر عمل کرنے کو یقینی بنایا۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و اکرام قائم کرنے میں آپؓ کی ایک بڑی اور سنہری حروف سے لکھی جانے والی خدمت یہ بھی ہے کہ آپؓ نے جلسہ سیرت النبیؐ کا آغاز فرمایا، یہ 1928ء کے سال کی بات ہے۔ گنجائش نہیںکہ اس عظیم خدمت کی تفصیل یہاں بیان کی جائے ورنہ اس وسیع سکیم کے ہر پروگرام سے آپؓ کی محبت اور غیرت رسول ﷺ عیاں ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’لوگوں کو آپ ﷺ پر حملہ کرنے کی جرأت اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ آپ ﷺ کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں یا اسی لئے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا علاج ایک ہی ہے جو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپﷺ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے اور کسی کو آپؐ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرأت نہ رہے۔

اسی ضمن میں آپ نے آنحضرتؐ کے مقام محمود کی تشریح میں جماعت کو اپنی ذمہ داری سمجھاتے ہوئے فرمایا:
’’حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اس دعا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو مقامِ محمود مانگتے ہیں وہ مقام جنت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس دنیا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ایسے رنگ میں تعلق رکھتا ہے کہ ہمارے اعمال کا بھی اس میں دخل ہے ورنہ اگر دخل نہ ہوتا تو ہمارے دعا مانگنے کی کیا ضرورت تھی۔ پس یہ جو خطرہ ہے کہ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود نہ مل سکے وہ یہ ہے کہ ایک مقام محمود وہ بھی ہے جو امت محمدیہ کے اعمال کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنا ہے اور چونکہ یہ خطرہ اسی کے متعلق ہے کہ شاید ہماری کمزوریوں کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محروم رہ جائیں اس لئے اس مقام محمود کے لئے دعا مانگتے ہیں نہ اس کے لئے جو جنت سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ وہ تو آپ ﷺ کو پہلے ہی مل چکا ہے … ہم مانتے ہیں کہ قیامت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک مقامِ محمود مقرر ہے لیکن اس کے لئے ہماری دعاؤں کی ضرورت نہیں، وہ تو آپ کو مل چکا۔ ہاں جس کے لئے ہم دعا کرتے ہیں وہ ہمارے اعمال کے بدلے میں آپ کو ملنا ہے …‘‘

الحمد للہ محبت رسول ﷺ سے لبریز آپؓ کی اس تحریک کے عظیم الشان نتائج ظاہر ہوئے اور آنحضرتؐ کے نام لیوا ایک دفعہ ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہوگئے اور بڑے پیمانے پر اس تحریک کو سراہا گیا لیکن افسوس کہ غیر مبائعین کو آپؓ کے ہاتھوں ناموس رسالت ﷺ کی یہ خدمت برداشت نہ ہوئی اور اس میں اپنی شرکت کو بلا جواز شرائط کے ساتھ مشروط کر دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی اولواالعزمی اس الٰہی سکیم میں کسی بھی روک سے نہیں رکی، آپؓ نے اعلان فرمایا:

’’صرف اس بات سے چڑ کر کہ کیوںہم نے رسول کریمؐ کی عزت کی حفاظت کے لئے اور آپ ﷺ کے خلاف گالیوں کا سدباب کرنے کے لیے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر ایک ہی دن سینکڑوں جلسوں کا انعقاد کیا ہے۔ میں اس جرم کا مجرم بے شک ہوں اور اس جرم کے بدلہ میں ہر ایک سزا خوشی سے برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

بحیثیت خلیفۃ المسیح انتہائی مصروفیات کے باوجود آپ ان سیرت النبی ﷺ کے جلسوں میں شامل بھی ہوتے یا اُن کے لیے مضامین بھی لکھتے، اسی طرح الفضل وغیرہ اخبارات کے خصوصی نمبروں بابت آنحضرتؐ کے لیے بھی مضامین تحریر فرماتے۔ 18 نومبر 1951ء کو بمقام بیت مبارک ربوہ میں جلسہ سیرت النبی ﷺ ہوا، حضرت مصلح موعودؓ ناسازی طبع کے باوجود جلسہ میں شریک ہوئے اور فرمایا:

’’… میری یہاںآنے کی غرض حصولِ برکت تھی جو اس قسم کے جلسوںمیں شمولیت کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے … مَیں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ یہ جلسہ نہایت اہم ہے، یہ جلسہ اُس عظیم الشان انسان کے حالات اور سوانح بیان کرنے کے لئے ہے جو نہ صرف خود ایک عظیم الشان انسان تھا بلکہ اُس نے ہمیں بھی عظیم الشان بنا دیا ہے۔ اِس جلسہ میں چھوٹے بچوں کو گھسیٹ کر لانا چاہیے تا کہ معلوم ہو کہ تمہیں رسول کریمؐ سے والہانہ محبت ہے، محض خیالی محبت نہیں۔‘‘

جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انعقاد کی اس تحریک کو قریباً نوے سال ہونے کو ہیں لیکن آج بھی یہ تحریک اس طرح جاری ہے اور پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ دنیا میں بعض عاشقوں نے اپنے محبوبوں کی یاد میں محل، قلعہ یا کسی اور رنگ میں یادگار بنوائی ہیں جو دنیا کو اُن کی محبت کی یاد دلاتی ہیں لیکن ان دنیاوی یادگاروں کی نسبت حضرت مصلح موعودؓ کے جلسہ سیرت النبیؐ کے منظم طور پر انعقاد کی یادگار کتنی حسین اور منفرد ہے جو رہتی دنیا تک آپؓ کے عشق رسول ﷺ کو خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔

1925ء میں جب نجدیوں اور شریفیوں (عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود اور حسین بن علی شریف آف مکہ) کے درمیان لڑائی ہوئی، اُس میں نجدیوں کی طرف سے مقامات مقدسہ (مسجد نبوی ﷺ، روضہ رسولؐ وغیرہ) کو بہت نقصان پہنچا، اور مسلمانان ہند میں فرقہ بندیوں کی بنیاد پر اس کے حق میں اور اس کے خلاف بحثیں ہونے لگیں یہاں تک کہ نجدیوں کے حامیوں نے مقامات مقدسہ کے نقصان کو بھی جائز سمجھ کر یہ کہنا شروع کیا کہ مقامات مقدسہ (قبر، قبے وغیرہ) کو مسمار کرنا شرک مٹانا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 4 ستمبر 1925ء میں محبت رسول ﷺ کی وجہ سے ان مقامات مقدسہ کو منہدم کرنے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

’’اس خطبہ کے ذریعے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہم نجدیوں کے اس فعل کو نہایت نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور جو لوگ ان کی تائید کر رہے ہیں ان کے سینے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے خالی سمجھتے ہیں۔

ہماری ان باتوں کو دیکھ کر نجدیوں کے حامی کہیں گے یہ بھی شریف علی کے آدمی ہیں لیکن اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر کے متعلق آواز اٹھاتے ہوئے شریف کا آدمی چھوڑ کر شیطان کا آدمی بھی کہہ دیں تو کوئی حرج نہیں … بیشک ہم قبوں کی یہ حالت دیکھ کر خاموش رہتے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عزت کی خاطر ہم آواز بلند کرنے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں …

ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں جس سے ہم نجدیوں کے ہاتھ روک سکیں ہاں ہمارے پاس سہام اللیل ہیں۔ پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مقدس اور مسجد نبوی اور دوسرے مقامات کو اس ہتھیار سے بچائیں، ہماری جماعت کے لوگ راتوں کو اٹھیں اور اس بادشاہوں کے بادشاہ کے آگے سر کو خاک پر رکھیں، جو ہر قسم کی طاقتیں رکھتا ہے اور عرض کریں کہ وہ ان مقامات کو اپنے فضل کے ساتھ بچائے۔‘‘

ایک طرف شرک مٹانے کے بہانے مقامات مقدسہ کو مٹایا جا رہا تھا اور دوسری طرف کئی لوگ مشرکانہ عادات میںمبتلا پڑے ہوئے تھے، کوئی قبروں پر سجدہ ریز ہے، کوئی پیروں سے مانگ رہا ہے اور کئی اپنی مرادیں پوری کرنے کے لیے قبروں پر شمعیں جلا رہا ہے یا پھول اور چادریں چڑھا رہا ہے وغیرہ۔ حضرت مصلح موعود مسلمانوں کے اس خلاف سنت فعل پر بھی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اوراُن کی محبت و عقیدت کے اس کھوکھلے اظہار پر فرماتے ہیں:

… ہمیں تو یہ بھی سن کر تعجب آتا ہے کہ ابنِ سعود کے نمائندے بھی قبروں پر پھول چڑھانے لگ گئے ہیں۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ اگر کوئی پھول چڑھانے کی مستحق قبر تھی تو وہ رسول کریم ﷺ کی قبرتھی، کیا حضرت ابو بکرؓ کو پھول نہ ملے کہ وہ آپ ﷺ کی قبرِ مبارک پر پھول چڑھاتے؟ کیا حضرت عمرؓ کو پھول نہ ملے کہ وہ آپؐ کے مزار پر پھول چڑھاتے؟ اگر آپ ﷺ کے مزار پر ان بزرگوں نے پھول چڑھائے ہوتے تو ہم اپنے خون سے پھولوں کے پودوں کو سینچتے تا آپ ﷺ کے مزار پر پھول چڑھائیں مگر افسوس زمانے بدل گئے اور ان کی قدریں بدل گئیں لیکن ہم موحد ہیں، مشرک نہیں … دنیا میں جو لوگ اچھے کام کر جاتے ہیں اُن کی قبروں پر جانا اور اُن کے لیے دعائیں کرنا ہی اُن کے لیے پھول ہیں، گلاب کے پھول ان کے کام نہیں آتے عقیدت کے پھول ان کے کام آتے ہیں۔

قصہ مختصر کہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت میں عشق رسول ﷺ کا عنوان ایک نمایاں رنگ رکھتا ہے اور آپؓ کی محبت آل رسول ﷺ، محبت اصحاب رسول ﷺ اور محبت امت رسول ﷺ اس عشق رسول ﷺ میں نئے رنگ بھرتی ہے۔

آپؓ فرماتے ہیں:
’’یاد رہے کہ میں کسی خوبی کا اپنے لئے دعویدار نہیں ہوں، میں فقط خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے۔ اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعویٰ ہے نہ مجھے کسی دعویٰ میں خوشی ہے، میری ساری خوشی اسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آ جائے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہوجائے اور میرا خاتمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو۔

(غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ مورخہ 14 فروری 2020ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ