ایک مقدس عہد
حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمدؓ کا ایفائے عہد
حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خلافت سے قبل اپنی معرکہ آرا کتاب سوانح فضل عمرؓ جلد اول کے صفحہ 177 تا 179 میں تحریر فرماتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تدفین کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب (مرزا بشیر الدین محمود احمد۔ ناقل) صبر و عزم کا پیکر بنے ہوئے نہایت وقار کے ساتھ اپنے خالی گھر واپس تشریف لائے۔ وہ گھر جو اپنے پیارے باپ اور مقدس امام کے وجود سے خالی ہو چکا تھا۔ جس میں نہ تو امامت ورثہ کے طور پر پیچھے چھوڑی گئی تھی نہ ہی دنیا کے مال و اسباب اور نعمتوں کے سامان۔ لیکن جیسا کہ آپ کی بزرگ والدہ نے اپنے سب بچوں کو جمع کرکے وصیت فرمائی۔ حقیقت میں یہ گھر خالی نہ تھا آپ نے فرمایا۔
’’بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے۔ انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے۔ جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا۔‘‘
(الفضل 19 جنوری 1962ء)
پس اس دن کے بعد کی تاریخ اسی بھاری خزانے کی تقسیم کی تاریخ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی صورت میں اس نوجوان پر خصوصیت کے ساتھ اور باقی بہن بھائیوں پر بالعموم حسب مراتب اللہ تعالیٰ کی طرف سے قدرِ معلوم کے مطابق نازل ہوتا رہا۔
صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہےاور اس سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ جو اپنے مرحوم آقا سے جدائی کے بعد اس کی دعاؤں کے سائے تلے آپ کو تن تنہا طے کرنا تھا۔ یہ سفر ایک مخصوص منزل کی جانب اور ایک معین قبلہ کی طرف تھا۔ جس کی تعیین خود حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنے مرحوم باپ کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑے ہو کر کی تھی۔ یہ ایک مقدس عہد تھا۔ جو آپ نے اپنے رب سے کیا اور پھر تا زندگی پوری وفا اور عزم اور ہمت کے ساتھ اس پر قائم رہے۔ اپنی زندگی کے ان عہد آفریں لمحات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے آخری لمحے تھے اورآپ کے اردگرد مرد ہی مرد تھے۔ مستورات وہاں سے ہٹ گئی تھیں۔ چارپائی کے تینوں طرف مرد کھڑے تھے میں وہاں جگہ بنا کر آپ کے سرہانے کی طرف چلا گیا یا شاید وہاں نسبتاً کم آدمی ہوں۔
میں وہاں کھڑا ہوا اور میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنی آنکھ کھولتے ادھر ادھر پھیرتے اور پھر بند کر لیتے ان کی پتلیاں ادھر ادھر مڑتیں اور پھر تھک کر اپنی آنکھوں کو بند کر لیتے۔ کئی دفعہ آپ نے اسی طرح کیا۔ آخر آپ نے زور لگا کر کیونکہ آخری وقت طاقت نہیں رہتی اپنی آنکھ کو کھولا اور نگاہ کو چکر دیتے ہوئے سرہانے کی طرف دیکھا۔ نظر گھومتے گھومتے جب آپ کی نظر میرے چہرے پر پڑی تو مجھے اس وقت ایسا محسوس ہو ا جیسے آپ میری ہی تلاش میں تھے اور مجھے دیکھ کر آپ کو اطمینان ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے آنکھیں بند کر لیں۔ آخری سانس لیا اور وفات پا گئے۔ اس وقت میں نے سمجھا کہ آپ کی نظر مجھ ہی کو تلاش کر رہی تھی اور میں نے اپنے ذہن میں سمجھا کہ میں جو دعائیں کر رہا تھا۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرما دی کہ میں آخری وقت میں آپ کی آنکھوں کو دیکھ سکوں۔
آپ کی وفات کے معاً بعد کچھ لوگ گھبرائے کہ اب کیا ہوگا۔ انسان، انسانوں پر نگاہ کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دیکھو یہ کام کرنے والا وجود تھا یہ تو اب فوت ہو گیا اب سلسلہ کا کیا بنے گا؟ جب۔۔۔ا س طرح بعض اور لوگ مجھے پریشان حال دکھائی دیئے اور میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اب جماعت کا کیا حال ہوگا تو مجھے یاد ہے گو میں اس وقت 19 سال کا تھا مگر میں نے اسی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا کہ اے خدا! میں تجھ کو حاضر ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ذریعے تو نے نازل فرمایا ہے میں اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلاؤں گا۔ انسانی زندگی میں کئی گھڑیاں آتی ہیں سستی کی بھی، چستی کی بھی، علم کی بھی، جہالت کی بھی، اطاعت کی بھی، غفلت کی بھی۔ مگر آج تک میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ میری گھڑی ایسی چستی کی گھڑی تھی۔ ایسی علم کی گھڑی تھی۔ ایسی عرفان کی گھڑی تھی کہ میرے جسم کا ہر ذرہ اس عہد میں شریک تھا اور اس وقت میں یقین کرتا تھا کہ دنیا اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کے ساتھ مل کر بھی میرے اس عہد اور اس ارادہ کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ شاید اگر دنیا میری باتوں کو سنتی تو وہ ان کو پاگل کی بڑ قرار دیتی بلکہ شاید کیا یقیناً وہ اسے جنون اور پاگل پن سمجھتی مگر میں اپنے نفس میں اس عہد کو سب سے بڑی ذمہ داری اور سب سے بڑا فرض سمجھتا تھااور اس عہد کے کرتے وقت میرا دل یہ یقین رکھتا تھا کہ میں اس عہد کے کرنے میں اپنی طاقت سے بڑھ کر کوئی وعدہ نہیں کر رہا۔ بلکہ خداتعالیٰ نے جو طاقتیں مجھے دی ہیں۔ انہیں کے مطابق اور مناسب حال یہ وعدہ ہے۔
(الفضل 21 جون 1944ء)
آپ کی تربیت میں آپ کی بزرگ والدہ کا حصہ
یہ مضمون ادھورا رہے گا اگر یہ ذکر نہ کیا جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تربیت کے ساتھ ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب کی بزرگ والدہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا کی تربیت کا بھی آپ کے کردار کی تشکیل پر نہایت گہرا اثر پڑا۔ بہت کم ہوتے ہیں وہ خوش نصیب بچے جن کے والدین دونوں ہی اعلیٰ مربیانہ اوصاف سے متصف ہوں۔ مزید براں دونوں کی تربیت کے دھارے ایک ہی سمت میں بہتے ہوں اور دونوں کے مزاج میں تضاد کی بجائے ہم آہنگی پائی جائے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کےشاندار مستقبل کے بارے میں جو پیشگوئی کی گئی تھی اس کی عملی تصویر بنانے کے لئے جو مختلف اسباب کار فرما تھے ان میں یہ بھی ایک اہم سبب تھا۔ باقی تمام امور بچے کی تربیت کے لئے خواہ کیسے ہی مؤید کیوں نہ ہوں اگر صرف یہی رخنہ پڑ جائے کہ ماں باپ کا انداز تربیت ایک دوسرے کی ضد یا مزاج اور مطمع نظر مخالف ہوں تو صرف یہ ایک سبب ہی بچے کی تربیت میں گہرے گھاؤ ڈال دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر غیر معمولی احسان تھا کہ ماں بھی آپ کو وہ نصیب ہوئی جو شرافت اور نجابت اور فن تربیت میں ایک بلند شان رکھتی تھی اور آپ کا مطمع نظر بھی وہی تھا جو حضرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ السلام کا تھا۔
آپ کی والدہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا جو راقم الحروف کی دادی تھیں اور چوبیس سال تک مجھے بھی آپ کا زمانہ پانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ بڑے سادہ اور مؤثر الفاظ میں نصیحت فرمایا کرتی تھیں۔ بناوٹ اور تصنع کے کوچے سے نا آشنا صدق و صفا کی مظہر تھیں۔ آپ کی ہربات محبت بھری سچائی سے مطہر تھی۔ سوائے غصے کے میں نے آپ کی کسی بات میں کبھی ادنٰی سا تکلف کا شائبہ تک نہ دیکھا۔ دل کی چونکہ بے حد نرم تھیں غصہ بہت کم اور وہ بھی برائے نام ہی آتا تھا لہذا کبھی بچوں کے ساتھ کسی حرکت پر اظہار ناراضگی مقصود ہو تو زبردستی غصہ ظاہر فرمایا کرتیں اور ہم بعد میں ہنسا کرتے کہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کو غصہ وغیرہ تو کوئی نہیں ہے۔ محض ہماری تنبیہ کی خاطر اظہار کر رہی ہیں۔ اس ظاہری غصے کے بعد جس کا کوئی دکھ ہم بچوں کو نہیں پہنچتا تھا خود ہی پریشان ہو جاتی تھیں اور بچے کی دل جوئی کی کوشش فرماتیں۔ ہم بچے تو آپ کے پوتوں، پوتیوں، نواسوں، نواسیوں کی حیثیت سے کبھی کبھی آپ سے فیض یاب ہوتے تھے۔ ہاں وہ اولاد بڑی خوش قسمت تھی جسے مسلسل آپ کا فیضان حاصل رہا۔ میرے والد حضرت مرزا محمود احمد صاحب کے بچپن کے زمانے میں آپ کا کیا اندازِ تربیت تھا اس کے متعلق بہترین بیان آپ کی اولاد ہی میں سے کسی کا ہو سکتا ہے لہذا اپنی بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ایک مضمون میں سے متعلقہ اقتباس پیش خدمت ہے۔
آپ فرماتی ہیں ’’بچے پر ہمیشہ اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کر کے اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آپ کا بڑا اصول تربیت ہے۔ جھوٹ سے نفرت اور غیرت و غنا آپ کا اول سبق ہوتا تھا۔ ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچے میں یہ عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں۔ حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا ہمیشہ فرماتی تھیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ متنفر کرتا تھا۔۔۔ اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس سے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد محبت و قدر کرنے کی وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں اور بھی بڑھا کرتی تھی۔بچوں کی تربیت کے متعلق ایک اصول آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگاؤ۔ دوسرے ان کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘
(سیرت ام المؤمنین مصنفہ محمود احمد عرفانی حصہ اول صفحہ 394)
(ابو سعید)