• 19 مئی, 2024

حضرت مصلح موعودؓ کا الہامی نام ’’محمود‘‘

حضرت مصلح موعودؓ کا الہامی نام
’’محمود‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہوشیارپور میں چالیس روز چلہ کشی کی اور خداتعالیٰ سے عاجزانہ دعائیں کیں۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک زبردست بشارت دی جو پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے مشہور ہے۔ اس پیشگوئی کے مطابق 12جنوری 1889ء کو آپ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہواجس کا نام محمود احمد رکھا گیا۔

بہت خطرناک حالات سے گزرتے ہوئے حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد 1914ء کو آپ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ خلیفہ بننے کے بعد آپ کی خدمت میں مسلسل اصرار کیا گیا کہ آپ اس بات کا اعلان فرمائیں کہ آپ اس پیشگوئی کے مصداق ہیں مگر آپ کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی یہاں تک کہ آپ کو خدا کی طرف سے ایک عظیم الشان بشارت کے ذریعہ بتایا گیا کہ آپ اس پیشگوئی کے مصداق ہیں۔ اس پر آپ نے 28جنوری 1944ء کو قادیان میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے یہ بتایا کہ آپ اس پیشگوئی کے مصداق ہیں۔یہ ایسا عظیم الشان واقعہ تھا کہ جب یہ اعلان قادیان کے احباب نے سنا تو قادیان میں ایک مسرت اور شادمانی کا ماحول پیدا ہوگیا۔ احباب جماعت نے نمازِ جمعہ کے بعد ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب پر خطبہ کے دوران وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ 29جنوری 1944ء بروز ہفتہ قادیان میں ’’یومِ مصلح موعود‘‘ منایا گیا۔ 3بجے بعد نماز ظہر حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب کی زیرِصدارت بیتِ اقصیٰ قادیان میں جلسہ منعقد کیا گیا۔ نیز ایک اجتماعی عرضداشت کے ذریعہ حضور کو مبارکباد دی گئی۔

اس پیشگوئی کی زبردست اہمیت کے پیشِ نظر پانچ جلسوں میں حضرت مصلح موعود نے خطاب فرمائے۔ چنانچہ 20فروری 1944ء کو ہوشیارپور میں جلسہ کیا گیا۔ 12مارچ 1944ء کو لاہور میں جلسہ کیا گیا۔ 23مارچ 1944ء کو لدھیانہ میں جلسہ کیا گیا۔ 16اپریل1944ء کو دہلی میں جلسہ کیا گیا۔ اور پھر 28دسمبر 1944ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان سے اعلان کیا گیا۔ ان جلسوں میں حضرت مصلح موعود نے بنفسِ نفیس شامل ہوکر اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا۔

دنیا میں بے شمار نام رکھے جاتے ہیں اور ان میں بعض اوقات بہت بڑا اورمبارک نام ہوتا ہے۔ مگر وہ شخص بہت بڑے ڈاکو کے طور پر مشہور ہوجاتا ہے یا ایسے فرضی نام رکھ دئیے جاتے ہیں جس کا یا تو کوئی مطلب اور مفہوم نہیں ہوتا۔ یا کوئی مطلب ہو بھی تو اس نام کا وہ شخص مستحق نہیں ہوتا۔ مگر بعض نام خدا کے خاص منشاء کے مطابق رکھے جاتے ہیں جیسے حضور ؐ کا نام محمد رکھا گیا جس کے آپ مستحق تھے۔ ایسا ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خدا سے خبر پا کر جب ایک موعود فرزند کی خبر دی تو اُس کا نام بھی خدا نے ’’محمود‘‘ رکھا۔ اس نام کو بشیر الدین محمود احمد کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اور بشیر الدین نام بھی پیشگوئی کے مطابق ہے تاہم اس تحریر میں صرف ’’محمود‘‘ لفظ کو مدّنظر رکھا جارہا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل درج ذیل ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سراجِ منیر میں فرماتے ہیں:
’’پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہوگا اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا اور اس پیشگوئی کی اشاعت کیلئے سبزورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیںاور ہزاروں میں تقسیم ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے۔‘‘

(سراج منیر، روحانی خزائین جلد12 صفحہ36)

سراج منیر کے اسی صفحہ 36 کے حاشیہ میں ہے:
’’ہاں سبز اشتہار میں صریح لفظوں میں بلا توقف لڑکا پیدا ہونے کا وعدہ تھا سو محمود پیدا ہوگیا۔‘‘

1899ء میں تریاق القلوب کی اشاعت ہوئی۔ اس میں آپ فرماتے ہیں:
’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا پایا کہ محمود۔ تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا۔ جس کی تاریخِ اشاعت یکم دسمبر 1888ء ہے۔ اور یہ اشتہار مورخہ یکم دسمبر 1888ء ہزاروں آدمیوں میں شائع کیا گیا۔ اور اب تک اس میں سے بہت سے اشتہارات میرے پاس موجود ہیں۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ214)

حقیقۃالوحی جو 1907ء کی کتاب ہے اس میں فرمایا:
’’چونتیسواں نشان یہ ہے کہ میرا ایک لڑکا فوت ہوگیا تھا اور مخالفوں نے جیسا کہ ان کی عادت ہے اس لڑکے کےمرنے پر بڑی خوشی ظاہر کی تھی تب خدا نے مجھے بشارت دے کر فرمایا کہ اس کے عوض میں جلد ایک اور لڑاکا پیدا ہوگا جس کا نام محمود ہوگا اور اُس کا نام ایک دیوار پر لکھا ہوا مجھے دکھایا گیا تب میں نے ایک سبز رنگ اشتہار میں ہزارہا موافقوں اور مخالفوں میں یہ پیشگوئی شائع کی اور ابھی ستر(70) دن پہلے لڑکے کی موت پر نہیں گزرے تھے کہ یہ لڑکا پیدا ہوگیا اور اس کا نام محمود احمد رکھا گیا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ227)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ایک خواب تذکرہ میں یوں بھی درج ہے۔

’’5 دسمبر 1894ء کو میں نے خواب دیکھا کہ اول گویا محمود کے کپڑوں کو آگ لگی ہے اور میں نے بجھا دی ہے اور پھر ایک اور شخص کے آگ لگی ہے اور میں نے بجھا دی ہے اور پھر میرے کپڑوں کو آگ لگا دی ہے اور میں نے اپنے پر پانی ڈال لیا ہے اور آگ بُجھ گئی ہے مگر کچھ سیاہ داغ سا بازو پر نمودار ہے اور خیر ہے۔‘‘

(تذکرہ ایڈیشن چہارم 2004ء صفحہ222)

یہاں آگ سے مراد بعض فتنوں کی طرف اشارہ ہے۔ جو حضرت مصلح موعود کی زندگی میں پیدا ہوئے۔

سبزاشتہار کے بارہ میں حضرت مصلح موعود کے دو اہم ارشادات یوں بھی ہیں۔

1: آپ نے خلیفہ بننے کے ایک ہفتہ بعد ایک تقریر کی جس میں فرمایا:
’’کیا تمہیں مسیح موعود کی پیشگوئیوں پر اعتبار نہیں۔ اگر نہیں تو تم احمدی کس بات کے ہو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے سبز اشتہار میں ایک بیٹے کی پیشگوئی کی تھی کہ اس کا ایک نام محمود ہوگا۔ دوسرا نام فضل عمر ہوگا اور تریاق القلوب میں آپ نے اس پیشگوئی کو مجھ پر چسپاں بھی کیا ہے۔۔۔ میں تمہیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حضرت خلیفۃالمسیح کی زندگی میں اس پیشگوئی کا مجھے کچھ بھی علم نہ تھا بلکہ بعد میں ہوا۔‘‘

’’کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے‘‘

(مسئلہ خلافت پر پہلی تقریر21مارچ1914ءانوار العلوم جلد 2صفحہ 16-17)

2: 12مارچ 1944ء کو لاہور میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئےحضرت مصلح موعود ایک لطیف بات بیان فرماتے ہیں:
’’1888ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے 1886ء کے اشتہار کی مزید تشریح کرتے ہوئے ایک اشتہار شائع ٖفرمایاتھا جو سبز رنگ کے کاغذوں پر شائع ہوا۔ ہماری جماعت میں اشتہار کا نام ہی ’’سبز اشتہار‘‘ مشہور ہے اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ وہ مکان جس میں آپ نے چالیس روز اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جو اب ایک ہندو دوست کے قبضہ میں ہے اور جسے ہم ہوشیارپور میں دیکھ آئے ہیں اُس کا رنگ بھی سبز ہی ہے۔ گویا 1888ء کا اشتہار بھی سبز رنگ کے اوراق پر شائع ہوا اور اُس مکان کا رنگ بھی سبز ہی ہے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد17صفحہ222)

’’محمود‘‘ نام جب الہامی ہے تو لازماً اس نام میں یہ اشارہ ہے کہ یہ موعود-خدا کی نظر میں قابل تعریف وجود ہوگا۔ اور ہر پہلو سے قابلِ تعریف ہوگا۔ چنانچہ پیشگوئی مصلح موعود کی دیگر جملہ علامات اس کے ’’محمود‘‘ ہونے پر گواہ ہیں۔ پھر اس محمود کی حمد اور تعریف کے بھی کئی پہلو ہیں۔

عرش کے خدا نے اس پر رؤیاء، کشوف و الہامات نازل کرکے اس کی تعریف کی۔

ان رؤیاء و کشوف و الہامات کو پورا فرما کر اس موعود کی حمد کے سامان ہوئے۔

اس کی شخصیت بہت متاثرکن اورمقناطیسی کشش رکھنے والی ثابت ہوئی جس پر اپنے اور پرائے، واقف اور ناواقف، دوست اور دشمن سب اس کے والہ و شیدا ہوئے۔پھر اس کو محدود طبقہ میں نہیں بلکہ عالمگیر سطح پر زبردست اور حیرت انگیز پذیرائی حاصل ہوئی اور دنیا اس کی عظمت کے ترانے گانے لگی۔ اس اجمال کی کسی قدر تفصیل درج ذیل ہے۔

آپ نے دسمبر 1906ء کے جلسہ میں ایک تقریر کی۔ اس کے بارہ میں خود فرماتے ہیں۔
’’سب سے پہلی تقریر جو میں نے عام جلسہ میں کی اس رکوع کو پڑھ کر اس مسجد میں کی تھی۔ اب مسجد وسیع ہوگئی ہے اور اس کی پہلی شکل نہیں رہی لیکن اس وقت میں جہاں کھڑا ہوں عین اس کے سامنے کے دروازے میں کھڑے ہوکر میں نے تقریر کی تھی۔ اگرچہ اب علم میں بہت ترقی ہوگئی ہے حالات اور افکار میں بہت تغیر ہوگیا ہے لیکن اب بھی میں اس تقریر کو پڑھ کر حیران ہوجاتا ہوں کہ وہ باتیں کس طرح میرے منہ سے نکلیں اور اگر اب میں وہ باتیں بیان کروں تو یہی سمجھوں گا کہ خداتعالیٰ نے خاص فضل سے سمجھائی ہیں۔ اس وقت مجھ پر ایسی حالت تھی کہ چھوٹی عمر اور مجمع عام میں پہلی دفعہ بولنے کی وجہ سے میرے اعصاب پر ایسا اثر پڑا ہوا تھا کہ مجھے لوگوں کے چہرے نظر نہ آتے تھے اندھیرا سا معلوم ہوتا تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ بعد میں اخبار میں میں نے یہی تقریر پڑھی تو معلوم ہوا کہ میں نے کیا کہا تھا۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد1 صفحہ121-122)

اس تقریر پر حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب کا تبصرہ درج ذیل ہے:
’’بُرج نبوت کا روشن ستارہ، اوجِ رسالت کا درخشندہ گوہر محمود سلمہ اللہ الودود شرک پر تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا۔ میں ان کی تقریر خاص توجہ سے سنتا رہا۔ کیا بتاؤں !فصاحت کا ایک سیلاب تھا جو پورے زور سے بہہ رہا تھا۔ واقعی اتنی چھوٹی سی عمر میں خیالات کی پختگی اعجاز سے کم نہیں۔ میرے خیال میں یہ بھی حضور علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہے اور اسی سے ظاہر ہوسکتا ہے کہ مسیحیت مآب کی تربیت کا جوہر کس درجہ پر پہنچا ہوا ہے۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد 1 صفحہ122)

حضرت مولوی شیرعلی صاحب نے یوں تبصرہ کیا:
’’ایک اور واقعہ جس کا میں اس مضمون میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ حضور کی پہلی تقریر ہے جو حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد پہلے سالانہ جلسہ کے موقع پر کی۔یہ جلسہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں منعقد ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حضور کے دائیں طرف سٹیج پر رونق افروز تھے۔ سٹیج کا رخ جانبِ شمال تھا۔ اس تقریر کے متعلق دوباتیں خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ اول عجیب بات یہ تھی کہ اس وقت آپ کی آواز اور آپ کی ادا اور آپ کا لہجہ اور طرزِ تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز اورطرزِ تقریر سے ایسے شدید طور پر مشابہ تھے کہ اس وقت سننے والوں کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی (جو ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا ہم سے جُدا ہوئے تھے) یاد تازہ ہوگئی۔ اور سامعین میں سے بہت ایسے تھے جن کی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُس آواز کی وجہ سے جو اُن کے پسرِ موعود کے ہونٹوں سے اس وقت اس طرح پہنچ رہی تھی جس طرح گراموفون سے ایک نظروں سے غائب انسان کی آواز پہنچتی ہے۔ آنسو جاری ہوگئے اور اُن آنسو بہانے والوں میں ایک خاکسار بھی تھا۔ دوسری بات جو اس تقریر کے متعلق قابلِ ذکر ہے وہ یہ ہے کہ جب تقریر ختم ہوچکی تو حضرت خلیفہ اولؓ نے، جن کی ساری عمر قرآن شریف پر تدبر کرنے میں صَرف ہوئی تھی اور قرآن کریم جن کی روح کی غذا تھی، فرمایا کہ میاں نے بہت سی آیات کی ایسی تفسیر کی ہے جو میرے لئے بھی نئی تھی۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد 1 صفحہ 218)

اسی تقریرپر ایڈیٹر الحکم کا تبصرہ یہ تھا:
’’حضرت صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد کی نظم اور آپ کی تقریر نے مردہ دلوں کو جلا دیا۔ بلا مبالغہ صاحبزادہ صاحب کی تقریر میں قرآن مجید کےحقائق و معارف کا سادہ اور مسلسل الفاظ میں ایک خزانہ تھا۔ پلیٹ فارم سے اس لب و لہجہ میں بول رہے تھے جو حضرت امام علیہ السلام کا تھا۔ صاحبزادہ صاحب کی تقریر کے متعلق مجھے الفاظ نہیں ملتے کہ میں اس کا ذکر کرسکوں۔ صاحبزادہ صاحب نے تشنہ حقائق قوم کو باپ کی طرح سیراب کردیا اور وہی زمانہ یاد دلا دیا۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد 1صفحہ 219-220)

آپ نے (17) سترہ سال کی عمر میں 1906ء میں انجمن تشحیذ الاذہان کی بنیاد ڈالی۔ 21فروری 1909ء کو الحکم اخبار نے لکھا:
’’انجمن کا رسالہ تشحیذ الاذہان حضرت صاحبزادہ صاحب کی ایڈیٹری سے نکلتا ہے اور یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ حق بات ہے کہ رسالہ مذکور کے ایڈیٹر کی زبان اور قلم میں بھی وہی شان جلوہ گر ہے جو ہم سب کے آقا اور محبوب مسیح و مہدی کے زبان اور قلم میں تھی۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد1صفحہ236)

سوانح فضل عمر میں تشحیذ کے بارے میں لکھا ہے:
’’اس رسالہ کے مضامین کی عمدگی کے لئے اس سے بڑھ کر کیا امر پیش کیا جاسکتا ہے کہ موافقین کے علاوہ مخالفین نے بھی اس کو پسند کیا ہے۔ چنانچہ اخبار وکیل امرتسر نے ایک مضمون سالم کا سالم اپنے پرچہ میں نقل کیا ہے جسکا ہیڈنگ ’’کیا تلوار کے زور سے اسلام پھیلا ہے۔‘‘ از قلم صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد۔

(سوانح فضل عمر جلد1 صفحہ 237)

1909ء میں آپ نے انجمن فیروزپور کے جلسہ میں تقریر کی۔ اس پر خواجہ کمال الدین صاحب کی رائے جو خود صدر جلسہ تھے یہ تھی:
’’صاحبزادہ صاحب نے جس قابلیت کے ساتھ اپنے لیکچر کو ختم کیا ہے میں اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ مگر جو حقانیت اُن کے دل پر مرتسم ہے وہ بڑے بڑے آدمیوں میں نہیں۔ اگرچہ ہم نے کوئی گدی نہیں بنائی مگر میں اتنا کہتا ہوں کہ آپ نے اور پیروں کے بچے بھی دیکھے ہیں، میرے مرشدزادہ کو بھی آپ نے دیکھا ہے کہ وہ قرآن پر کیسا شیدا ہے اور اس کے حقائق و معارف بیان کرنے میں کیسا قابل ہے۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد1صفحہ 253-254)

آپ نے پہلا خطبہ جمعہ 29جولائی 1910ء میں دیا۔ اس خطبہ پرحضرت خلیفہ اول کے تعریفی ریمارکس یوں تھے:
’’میاں صاحب نے لطیف سے لطیف خطبہ سنایا۔وہ اور بھی الطف ہوگا۔ اگر تم اس پر غور کرو گے۔ میں اس خطبہ کی بہت قدر کرتا ہوں اور یقیناً کہتا ہوں کہ وہ خطبہ عجیب سے عجیب نکات اپنے اندر رکھتا ہے۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد1صفحہ313)

حضرت قاضی محمد اسلم صاحب نے حضرت میاں محمود کی جوانی کا نقشہ بایں الفاظ کھینچا:
’’1912ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فریضہ حج ادا کرکے واپس تشریف لائے تو امرتسر کے اسٹیشن پر امرتسر کی جماعت نے آپ کا استقبال کیا۔ اس موقع پر میں نے پہلی دفعہ آپ کو دیکھا۔ غالباً سیکنڈ کلاس کے ڈبہ میں تھے۔ یہ میرا پہلا نظارہ ہے جو میں نے آپ کی شخصیت کا کیا۔ بس وہ دن اور یہ دن، ایک مستقل یاد رکھے ہوئے ہوں اس وقت میری عجیب کیفیت تھی کاش میں بیان کرسکتا۔ میں نے دیکھا کہ ایک نہایت ہی خوبصورت آدمی ہے جو ہمارا بزرگ ہے،لیڈر ہے، قابل احترام ہے اور عظیم الشان انسان بننے والا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ کو دیکھ کر آپ کے بوڑھے اور جوان ہونے کا فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔

1924 ء میں حضور ولایت تشریف لے گئے تو وہاں کے ایک اخبار نے لکھا کہ امام جماعت احمدیہ جوان آدمی ہیں۔ قدرت نے جوان عمر میں ایک رعب عطا کیا ہوا تھاجس میں حضور کی جوانی چھپی رہتی۔ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی لیکن اس پر سنجیدگی غالب تھی۔ سر پر سفید پٹکا باندھے ہوئے تھے۔ پاؤں میں پمپ شو قسم کی کالی چمکدار گرگابی پہنی ہوئی تھی۔ آپ کا چہرہ، لباس غرضیکہ آپ کا مجموعی تشخص بہت دلکش تھا۔ آپ کو دیکھ کر طبیعت بہت خوش ہوئی اس لئے کہ ہمارے امام یعنی بانی جماعت احمدیہ کے بیٹے ہیں اور اپنے باپ کی طرح خوبصورت اور دلکش شخصیت کے مالک۔

(سوانح فضل عمر جلد1صفحہ 296-297)

’’محمود‘‘ اس پہلو سے بھی محمود تھا کہ اُس کا بچپن بھی قابل تعریف،جوانی بھی قابل تعریف، بڑھاپا بھی قابل تعریف تھا۔ آپ خود فرماتے ہیں:
’’ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست سنیں۔ میں چھوٹا تھا مگر میرا مشغلہ یہی تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھا رہتا اور آپ کی باتیں سنتا۔ہم نے ان (مجالس میں) اسقدر مسائل سنے ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام باتیں ہم نے پہلے سنی ہوئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے، دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کردیتے تھے اس لئے آپ کی تمام باتیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منشا اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہیں۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد1 صفحہ113)

اسی طرح فرمایا:
’’جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں نہیں جانتا کیوں بچپن ہی سے میری طبیعت میں تبلیغ کا شوق رہا ہے اور تبلیغ سے ایسا اُنس رہا ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا۔ میں چھوٹی سی عمر میں بھی ایسی دعائیں کرتا تھا اور مجھے ایسی حرص تھی کہ اسلام کا جو کام بھی ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو۔ میں اپنی اس خواہش کے زمانہ سے واقف نہیں کہ کب سے ہے۔ میں جب دیکھتا تھا اپنے اندر اس جوش کو پاتا تھا اور دعائیں کرتا تھا کہ اسلام کا جو کام ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو پھر اتنا ہو اتنا ہو کہ قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو جس میں اسلام کی خدمت کرنے والے میرے شاگرد نہ ہوں۔ میں نہیں سمجھتا تھا اور نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ جوش اسلام کی خدمت کا میری فطرت میں کیوں ڈالا گیا۔ ہاں اتنا جانتا ہوں کہ یہ جوش بہت پرانا رہا ہے۔‘‘

(منصب خلافت انوارالعلوم جلد2صفحہ25-26)

اس ضمن میں شیخ غلام احمد صاحب واعظ کا یہ بیان خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ وہ فرماتے ہیں:
’’ایک دفعہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ آج کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا اور تنہائی میں اپنے مولا سے جو چاہوں گا مانگوں گا۔ مگر جب میں مسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاح سے دعا کررہا ہے اس کے اس الحاح کی وجہ سے میں نماز بھی نہ پڑھ سکا اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طاری ہوگیا اور میں بھی دعا میں محو ہوگیا اور میں نے دعا کی کہ یاالہٰی یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اُٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے۔ مگر جب آپ نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں۔ میں نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا اور مصافحہ کیا اور پوچھا میاں! آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیاتو آپ نے فرمایا کہ میں نے یہی مانگا ہے کہ الہٰی! مجھے میری آنکھوں سے اسلام کو زندہ کرکے دکھا۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد1 صفحہ151مطبوعہ دسمبر1975ء)

’’محمود‘‘ اس پہلو سے بھی محمود تھا کہ جو دوسروں کو کہتا اس پر احسن انداز میں عمل کرتا۔ طلبہ جامعہ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
’’میں خداتعالیٰ کے فضل سے دنیا کے تمام علوم کی کتابیں پڑھتا رہتا ہوں۔ اسی طرح اگر تم بھی ان کتب کا مطالعہ کرو اور اپنےاساتذہ سے سوالات دریافت کرتے رہو تو تمہارے استادوں کو بھی پتہ لگ جائے گا کہ دنیا کیا کہتی ہے اور اس طرح تم اپنے استادوں کے بھی استاد بن جاؤ گے۔ میرے پاس کمیونزم کے متعلق ہر قسم کی کتابیں موجود ہیں، سوشلزم کے متعلق ہر قسم کی کتابیں موجود ہیں، احمدیت کے مخالفین کا بھی لٹریچر موجود ہے اور میں نے یہ تمام کتابیں پڑھی ہیں۔ میں نے بعض دفعہ ایک ایک رات میں چار چار سَو صفحہ کی کتاب ختم کی ہے اور اب تک بیس ہزار کے قریب کتابیں میں پڑھ چکا ہوں۔‘‘

(علمائے جماعت اورطلبائے دینیات سے خطاب انوارالعلوم جلد21 صفحہ556)

’’محمود‘‘ اس پہلو سے بھی محمود تھا کہ اس نے اپنی جماعت میں جوش اور ہیجان پیدا کردیا۔ فرماتے ہیں:
’’خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لئے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہیں۔ میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرا دیں۔میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کُود جانے کا حکم دوں تو وہ جلتے ہوئے تنوروں میں کُود کر دکھا دیں۔ اگر خودکشی حرام نہ ہوتی،اگر خودکشی اسلام میں ناجائز نہ ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سو آدمیوں کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مارکر ہلاک ہوجانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اہنے پیٹ میں خنجر مارکر مرجاتا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد17صفحہ241-242)

’’محمود‘‘ اس پہلو سے بھی محمود تھا کہ اُس نے مسلمانوں کے لئے بے انتہا دکھ اٹھائے اور اُن کے لئے تڑپتا رہا۔ خود فرماتے ہیں:
’’خدا نے یہ بھی فضل کیا ہے کہ جہاز کے ٹکٹوں کے ملنے کے غیر معمولی سامان ہوگئے اور ایکسچینج کے ملنے کے سامان بھی پیدا ہوگئے۔ اس موقع پر اسلامی ملک کے بعض نمائندوں نے غیر معمولی شرافت کا ثبوت دیا۔

اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے ان کے ملکوں کو عزت اور ترقی بخشے ۔۔۔ خدا کرے کہ مسلمانوں میں پھر سے اتحاد پیدا ہو جائے اور پھر سے وہ گزشتہ عروج کو حاصل لرنے لگ جائیں اور اسلام کے نام میں وہی رعب پیدا ہو جائے جو آج سے ہزار بارہ سو سال پہلے تھا۔ میں اس دن کے دیکھنے کا متمنی ہوں اور ہروقت اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں جب سعودی، عراقی، شامی اور لبنانی، تُرک، مصری اور یمنی سورہے ہوتے ہیں۔ میں اُن کے لئے دعا کر رہا ہوتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ دعائیں قبول ہوں گی۔ خداتعالیٰ ان کو پھر ضائع شدہ عروج بخشے گا اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوم ہمارے لئے فخر و مباہات کا موجب بن جائے گی خدا کرے جلد ایسا ہو۔‘‘

(خطابات شوریٰ جلد سوم صفحہ581)

حضرت مصلح موعود کی خلافت سے قبل پھر ساری خلافت کے دوران اندرونی اور بیرونی مخالفین نے بےشمار کوششوں کے ذریعہ آپ کو ’’مذموم‘‘ بنانے کی کوشش کی مگر خداتعالیٰ نے ان سب کوششوں اور تدابیر کو اُلٹا کر رکھ دیا اور آپ ’’مذموم‘‘ کی بجائے پیشگوئی کے مطابق ’’محمود‘‘ ثابت ہوئے اور اپنوں اوور پرایوں کی طرف سے آپ کو زبردست خراجِ تحسین ملا۔اس کی ایک چھوٹی سی مثال مولوی ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار زمیندار بھی ہیں۔ انہوں نے کہا:
’’احراریو! کان کھول کر سُن لو۔ تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کرسکتے۔ مرزا محمود کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم ہے۔ تمہارے پاس کیا ہے۔ تم میں سے کوئی ہے جو قرآن کے سادہ حرف بھی پڑھ سکےتم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا تم خود نہیں جانتے۔ تم لوگوں کو کیا بتاؤ گے۔مرزا محمود کی مخالفت تمہارے فرشتے بھی نہیں کرسکتے۔‘‘

(ایک خوفناک سازش مصنف مظہر علی اظہر)

جب کسی شخص کا نام مسجد کی دیوار پر کشفی طور پر لکھا ہوا دیکھا جائے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ یہ شخص عظیم لیڈر ہوگا۔ اور جب ’’محمود‘‘ کا نام مسجد کی دیوار پر لکھا ہوا خدا کے مامور نے دیکھا تو اس سے مراد یہ تھی کہ محمود جماعت کا عظیم لیڈر ہوگا اور روحانی لیڈر کی باقی تمام صفات پیشگوئی مصلح موعود میں آگئی ہیں۔

جماعت کے عظیم لیڈر کے لحاظ سے اگر آپ کو دیکھا جائے تو آپ نے اتنے بےشمار کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس حیثیت سے آپ نے بے شمار کتب بھی لکھیں، بےشمار مضامین بھی لکھے، جماعتی نظام بھی بہت خوبصورت بنایا، ذیلی تنظیمیں بھی بنائیں، پھر اس سارے نظام کے لئے وسیع اور مفصل اور ایسی دائمی رنگ کی ہدایات دیں کہ جو نہ صرف آپ کی زندگی میں بلکہ قیامت تک جماعت کی راہنمائی کرتی رہیں گی۔

عظیم لیڈر کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کا دماغ اعلیٰ پائے کا ہو۔ اور اُس کے اندر لیڈر شپ کی صلاحیت بھی ہو وہ زبردست دلیر ہو اور دوسروں سے کام لینا بھی جانتا ہو، باصلاحیت افرادکی تلاش بھی رکھتا ہو، باصلاحیت افراد سے کام لینا بھی جانتا ہو اور اُس کا اپنا نمونہ بھی اعلیٰ ہو۔ وہ بڑی بڑی مخالفتوں کا سامنا بھی کرسکے۔ وہ ترقی کےگر بھی جانتا ہولیکن اگر وہ روحانی لیڈر ہے تو اس میں تقویٰ اورروحانیت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو۔ حضرت مصلح موعود نے جماعت کے عظیم لیڈر کے طور پر درج ذیل کام کئے۔

1: جماعت کے تقویٰ اور روحانیت کو بلند کرنے کے لئے بلند پایہ لٹریچر چھوڑا۔

2: آپؓ کے دورِ خلافت، 1914ء، 1934ء، 1937ء، 1947ء، 1953ء، 1956ء میں متنوع نوعیت کے فتنے اور ابتلاء آئے ان سے نکالنے کا کسی عام شخص یا سیاسی لیڈر کو کہاں موقع مل سکتا ہے مگر آپ نے جماعت کو ان فتنوں سے نکالا اور اس لئے نکالاکہ آپ خداتعالیٰ سے خاص راہنمائی حاصل کر کے جماعت کی راہنمائی کر رہے تھے اور آپ کی دن رات کی دعاؤں کے نتیجہ میں آپ کو خدا کی خاص نصرت حاصل تھی۔

3: ایک عظیم روحانی لیڈر کے علاوہ آپ سیاسی لحاظ سے بھی عالمگیر سطح پر دنیا کے لئے مبارک اور مفید ترین وجود ثابت ہوئے اور ایک ایسا بلند اعلیٰ اور ارفع لٹریچر چھوڑا جو دائمی طور پر اپنوں اور پرایوں کی راہنمائی کرتا رہے گا۔ اس کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں:
’’خداتعالیٰ کی صفتِ علیم جس شان اور جس جاہ وجلال کے ساتھ میرے ذریعہ جلوہ گر ہوئی اس کی مثال مجھے خلفاء کے زمرہ میں کہیں نظر نہیں آتی۔ میں وہ تھا جسے کل کا بچہ کہا جاتا تھا۔ میں وہ تھا جسے احمق اور نادان قرار دیا جاتا تھا۔ٍ مگر عہدہ خلافت کو سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت کے ساتھ کھولے کہ اب قیامت تک اُمتِ مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے اور اُن سے فائدہ اُٹھائے وہ کونسا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا۔مسئلہ نبوت، مسئلہ کفر، مسئلہ خلافت، مسئلہ تقدیر، قرآنی ضروری امور کا انکشاف، اسلامی اقتصادیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرت وغیرہ وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا۔ مجھے خدا نے اس خدمتِ دین کی توفیق دی اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی ان مضامین کے متعلق قرآن کے معارف کھولے جس کو آج دوست دشمن سب نقل کررہے ہیں۔

مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے۔ مجھے لاکھ بُرا بھلا کہے جو شخص اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے لگے گا اُسے میرا خوشہ چین ہونا پڑے گا اور وہ میرے احسان سے کبھی باہر نہیں جاسکے گا۔ چاہے پیغامی ہوں یا مصری ان کی اولادیں جب بھی دین کی خدمت کا ارادہ کریں گی وہ اس بات پر مجبور ہوں گی کہ میری کتابوں کو پڑھیں اور اُن سے فائدہ اُٹھائیں۔ بلکہ میں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ اس بارہ میں سب خلفاء سے زیادہ مواد میرے ذریعہ سے جمع ہوا ہے اور ہو رہا ہے پس مجھے یہ لوگ خواہ کچھ کہیں خواہ کتنی بھی گالیاں دیں ان کے دامن میں اگر قرآن کے علوم پڑیں گے تو میرے ذریعہ ہی اور دنیا ان کو یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ اے نادانو تمہاری جھولی میں تو جو کچھ بھرا ہوا ہے وہ تم نے اسی سے لیا ہے پھر اس کی مخالفت تم کس منہ سے کررہے ہو۔‘‘

(خلافتِ راشدہ انوارالعلوم جلد15 صفحہ 587-588)

اسی طرح اپنی کتاب صادقوں کی روشنی کے بارہ میں فرمایا:
’’جب حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد میں نے ’’صادقوں کی روشنی کو کون دور کرسکتا ہے‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تو حضرت خلیفہ اول (رضی اللہ عنہ) نے مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ مولوی صاحب مسیح موعود کی وفات پر مخالفین نے جو اعتراض کئے ہیں ان کے جواب میں تم نے بھی لکھا ہے اور میں نے بھی۔ مگر میاں ہم دونوں سے بڑھ گیا ہے۔ پھر یہی کتاب حضرت مولوی صاحب نے بذریعہ رجسٹری مولوی محمد حسین بٹالوی کو بھیجی۔ وہ کیوں۔ محمد حسین نے کہا کہ مرزا صاحب کی اولاد اچھی نہیں ہے۔ اس لئے یہ کتاب بھیج کر حضرت مولوی صاحب نے ان کو لکھوایا کہ حضرت مرزا صاحب کی اولاد میں سےایک نے تو یہ کتاب لکھی ہے جو میں تمہاری طرف بھیجتا ہوں۔ تمہاری اولاد میں سے کسی نے کوئی کتاب لکھی ہو تو مجھے بھیج دو۔‘‘

(انوار العلوم جلد 4صفحہ 413-412)

1920ء کی تقریر سیالکوٹ کے بارہ میں فرمایا:
’’جس وقت میں تقریر کررہا تھا اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ یک لخت آسمان سے نوراُترا ہے اور میرے اندر داخل ہوگیا ہے پھر اس کی وجہ سے میرے جسم سے ایسی شعاعیں نکلنے لگی ہیں کہ مجھے معلوم ہوا میں نے حاضرین کو اپنی طرف کھینچناشروع کردیا ہے اور وہ جکڑے ہوئے میری طرف کھینچے چلے آرہے ہیں۔‘‘

(انوار العلوم جلد 5صفحہ 144)

آپ ایک تقریر کے بارہ میں فرماتے ہیں:
’’میں نے جب جلسہ سالانہ پر ذکر الہٰی کے متعلق تقریر کی تو ایک غیر احمدی صوفی جو باہر سے آئے ہوئے تھے اور میری اُس تقریر میں شامل تھے انہوں نے مجھے ایک رقعہ لکھا جس کا مضمون قریباً یہ تھا کہ آپ کیا غضب کررہے ہیں کہ وہ نکتے جو صوفیاء دس دس بارہ بارہ سال تک لوگوں سے خدمت لینے کے بعد بتایا کرتے تھے اس طرح پےدرپے بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ تو لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے علم کو چھپاتے ہیں لیکن ہمیں اس بات کی پروا بھی نہیں ہوتی کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ ہر وقت نئی سے نئی باتیں سکھاتا رہتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ316)

اپنے لیکچر عرفانِ الہٰی کے بارہ میں فرمایا:
’’خداتعالیٰ نے مجھے اس مضمون کے متعلق خاص علم دیا ہے اور یہ کوئی میری ذاتی خوبی یا میرا اکتسابی علم نہیں ہے اور نہ ہی میری کوشش اور محنت کو اس میں کچھ دخل ہے۔ یہ محض خدا کا فضل اور رحم ہے جو اس نے مجھ پر کیا ہے اور مجھے ایسا علم دیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں جو اس سے فائدہ اُٹھائیں گے وہ بہت جلد اپنے اندر تبدیلی پیدا کرسکیں گے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد4 صفحہ349)

آپ اپنے ایک خطبہ اور کتب کے بارہ میں فرماتے ہیں:
’’ایک تحریک میں نے بیکاری کو دور کرنے کے متعلق کی تھی۔ میں نے اس کے متعلق پچھلے ہفتہ میں ایک خطبہ بھی پڑھا ہے اور اس خطبہ کے پڑھنے اور سننے کے بعد بھی اگر جماعت میں یہ تحریک پیدا نہ ہو کہ وہ بیکاری کو دور کرے تو یہ ایک موت کی علامت ہوگی۔ میں نے اس خطبہ کودوبارہ پڑھا ہے اور میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ وہ خطبہ اپنے اندر ایک الہامی رنگ رکھتا ہے۔۔۔ بعض باتیں اپنے اندر ایسی روحانی لہر رکھتی ہیں جو عام باتوں سے ممتاز ہوتی ہیں۔ بعض تحریرات اور تصنیفات میں میرے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوا ہے چنانچہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام اور دعوة الامیر کے بعض حصے ایسے ہیں جن کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ خدائی تائید شامل ہے اور وہ انسانی الفاظ نہیں رہے بلکہ خداتعالیٰ کے القاء کردہ الفاظ ہوگئے ہیں۔ قرآن مجید کا تو ہر لفظ الہامی ہے مگر قرآن مجید کے ظل کے طور پر بعض دفعہ خداتعالیٰ اپنے بعض بندوں کی زبان پر بھی الہامی کلمات جاری کر دیا کرتا ہے۔ اس خطبہ کے بعض حصوں کے متعلق بھی مجھ پر یہ اثر ہے کہ ان کے پیچھے ملائکہ کام کررہے ہیں اور وہ انسانی الفاظ نہیں رہے بلکہ خدائی نصرت ان میں پائی جاتی ہے۔‘‘

(انوار العلوم جلد 14صفحہ 143-144)

عیسائیوں نے سکول، کالج کھول کر اور ہسپتال بناکر، طرح طرح کے لالچ دے کر غریب مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہا۔ بالخصوص افریقہ میں مسلمانوں کی غربت سے ناجائز فائدہ اُٹھایا اور غریبوں کے ہمدرد بن کر نیز معالج بن کر لوگوں کو ورغلایا اور عیسائی بنانے کی کوشش کی۔ عیسائیوں نے یہاں تک اعلان کیا کہ ’’بر اعظم افریقہ خداوند یسوع مسیح کی جھولی میں ہے‘‘ مگر حضرت مصلح موعود نے عظیم لیڈر کی حیثیت سے ان کی سازشوں کو بھانپ لیا اور افریقہ میں مبلغین اسی غرض کے لئے مبلغین بھیجے اور تحریکِ جدید کی ولولہ انگیز تحریک کے ذریعہ جماعت کو قربانیوں پر اُبھارا۔ چنانچہ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’اب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو، ہاں تم کو، ہاں تم کو! خداتعالیٰ نے پھر اس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے۔ اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو!اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو!ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو، ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھردو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اُٹھیں تاکہ تمہاری دردناک آوازوں اور تمہارے نعرہ ہائے شہادت توحید کی وجہ سے خداتعالیٰ زمین پر آجائے اور پھر خداتعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہوجائے۔ اسی غرض کے لئے میں نے تحریک جدیدکو جاری کیا ہے اور اسی غرض کے لئے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں۔ سیدھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہوجاؤ۔ محمد ؐرسول اللہ کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے اور محمد رسول اللہ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خداتعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہونی ہے۔پس میری سنو اور میری بات کے پیچھے چلو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے۔ میری آواز نہیں۔ میں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں۔ تم میری مانو۔ خدا تمہارے ساتھ ہو، خدا تمہارے ساتھ ہو،خدا تمہارے ساتھ ہو۔ اور تم دنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ۔‘‘

(سیر روحانی جلد7 انوارالعلوم جلد24 صفحہ338-339)

دنیا میں کئی تحریکات ایسی اُبھریں جو لوگوں کی خیر خواہی کے نام پر دھوکہ اور فراڈ کے سوا کچھ نہ تھیں۔ مثلاً کمیونزم، سوشلزم،نیا نظام اسلام کے خلاف عالمی طاقتوں کے منصوبے تھے حضرت مصلح موعود نے ان گہری سازشوں کو بھانپا اور دنیا کی راہنمائی کرتے ہوئے ان شیطانی تحریکات کا رد بھی کیا اور اسلام کی خوبیاں بھی بیان کیں۔ آپ نے 27دسمبر 1942ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک زبردست لیکچر دیا جو ’’نظام نو‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں آپ نے جس طریق سے دنیا کے دیگر نظاموں کے مقابلہ میں اسلام کی برتری ثابت کی ہے اس کو پڑھنے سے دل حمد کے ترانے گاتا ہے۔ فرمایا:
’’یہ بالشوزم، سوشلزم اور نیشنل سوشلزم کی تحریکیں سب جنگ کے بعد کی پیدائش ہیں۔ ہٹلر جنگ کے بعد کی پیدائش ہے۔ مسولینی جنگ کے بعد کی پیدائش ہے اور سٹالن جنگ کے بعد کی پیدائش ہے۔ غرض یہ ساری تحریکیں جو دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرنے کی دعویدار ہیں۔ 1919ء اور 1921ء کے گرد چکر لگا رہی ہیں لیکن خداتعالیٰ کے مأمور نے نئے نظام کی بنیاد 1905ء میں رکھ دی تھی اور وہ ’’الوصیت‘‘ کے ذریعہ رکھی۔‘‘

(نظام نو۔انوارالعلوم جلد16 صفحہ588)

اسی طرح فرمایا:
’’یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے دی آپ صاف فرماتے ہیں کہ ہر ایک امر جو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے اور جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے اس پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ۔۔۔ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب دنیا چلا چلا کر کہے گی کہ ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔ تب چاروں طرف سے آوازیں اُٹھنی شروع ہوجائیں گی کہ آؤ ہم تمہارے سامنے ایک نیا نظام پیش کرتے ہیں۔ روس کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں۔ ہندوستان کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں۔ جرمنی اور اٹلی کہے گا آؤ میں تم کو ایک نیا نظام دیتا ہوں۔ امریکہ کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں۔ اس وقت میرا قائم مقام قادیان سے کہے گا کہ نیا نظام الوصیت میں موجود ہے اگر دنیا فلاح و بہبود کے رستہ پر چلنا چاہتی ہے تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ الوصیت کے پیش کردہ نظام کو دنیا میں جاری کیا جائے۔‘‘

(نظام نو۔انوارالعلوم جلد16صفحہ590)

عظیم عالمی لیڈر ہونے کی حیثیت سے آپ نے مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر،ہندوستان کی آزادی، قیام پاکستان کے معاملات میں گہری دلچسپی لی۔ ان امور کے حل کے لئے تقاریر کیں، کتب لکھیں، مضامین لکھے۔ان سیاسی امور میں ایسی زبردست گہری ہدایات ہیں کہ قیامت تک لوگ آپ کی تحریروں سے فائدہ اُٹھاتے رہیں گے۔ دنیا میں روس اور امریکہ کے پیش کردہ اصولوں اور جمہوریت، ڈکٹیٹرشپ پر لمبے عرصہ سے بحثیں ہورہی ہیں۔ حضرت مصلح موعود نے عظیم روحانی لیڈر کی حیثیت سے اسلام پر پڑنے والے ان خطرناک حملوں کا جائزہ لیا اور آئندہ کے لئے ایک زبردست پیشگوئی کی:
’’یہ دونوں اصول آجکل کلی طور پر دنیا کو تقسیم کئے ہوئے ہیں۔ آدھی دنیا ایک طرف ہے اور آدھی دوسری طرف یعنی آدھی دنیا مغربی ڈیماکریسی کی دلدادہ ہے اور آدھی ڈکٹیٹرشپ کی طرف مائل ہے مگر خداتعالیٰ کا کلام بتاتا ہے کہ آخر اسلام کو فتح حاصل ہوگی اور مخالفِ اسلام طاقتیں توڑ دی جائیں گی۔ ان طاقتوں نے دنیا میں بہت دیر تک حکومت کرلی ہے اب خدا کی غیرت بھڑک رہی ہے۔ اب محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت دنیا میں پھر قائم کی جائے گی۔ خدا کی بادشاہت پھر اس زمین پر لائی جائے گی۔ خدا کے وجود کے دشمن مٹائے جائیں گے۔ خواہ دنیا کی کتنی بڑی قومیں اُن کی تائید میں کھڑی ہوجائیں اور یقیناً وہ دن دنیا کے لئے بڑا مبارک ہوگا۔ ہمارا خدا پھر اپنے تخت پر بٹھایا جائے گا۔ ہمارے رسول کا جھنڈا پھر ہوا میں لہرائے گا اور وہ امن اور صلح کا پیغام جو محمد رسول اللہﷺ نے دیا تھا پھر دنیا میں پھیلے گا اور دشمنوں کی زبانیں بند ہوجائیں گی اور وہ اپنے منہ سے اس بات کا اقرار کریں گے کہ وہ خدا کے مقدس پر خاک ڈالنے میں ناکام رہے ہیں اور اپنے اس فعل پرسخت شرمندہ اور نادم ہوں گے۔۔۔۔۔ یاجوج ماجوج کےزمانہ میں اُن کی تباہی وبربادی کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نئی رو چلے گی جس کے نتیجہ میں کفر کا نظام لپیٹ دیا جائے گا اور وہ مسلمان جن میں زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ پھر ایک فاتح اور طاقتور قوم کی شکل اختیار کرلیں گے اور اسلام دنیا پر غالب آجائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ 565)

(انوارالعلوم جلد5 صفحہ144)

(ف۔ الف۔شاہد)

پچھلا پڑھیں

افضل الانبیاء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2022