• 26 اپریل, 2024

فقہی کارنر

نماز کے بعد تسبیح

ایک صاحب نے (حضرت مسیح موعودؑ سے) پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لے کر 33 مرتبہ اللہ اکبر وغیرہ جو پڑھا جاتا ہے۔ آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ حسب مراتب ہوا کرتا تھا اور اسی حفظ مراتب نہ کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انہوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ محل اور موقعہ کے ہوتی تھی۔ مثلاً ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے۔ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزت نہیں کرتا۔ آپؐ نے فر مایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزت کر۔ اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک کر دیا جاوے یہی نیکی ہے۔ ایسا نہیں، اسی طرح تسبیح کے متعلق بات ہے۔ قرآن شریف میں تو آیا ہے۔

وَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ (الانفال: 46) اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ اب یہ وَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا نماز کے بعد ہے تو 33 مرتبہ تو کثیر کے اندر نہیں آتا۔ پس یاد رکھو کہ 33 مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے، ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو سچے ذوق اور لذت سے یاد کرتا ہے، اسے شمار سے کیا کام۔ وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا۔

ایک عورت کا قصہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی۔ اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ تسبیح ہاتھ میں لئے ہوئے پھر رہا ہے۔ اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کر تا ہوں۔ عورت نے کہا یار کو یاد کرنا اور پھر گِن گِن کر؟ در حقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گِن گِن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الٰہی کثرت سے نہ ہو لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے حاصل نہیں ہو تا۔ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو 33 مرتبہ فر مایا یہ وہ آنی اور شخصی بات ہو گی۔ کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگا تو آپؐ نے اسے فر مادیا کہ 33 مرتبہ کر لیا کرو اور یہ جو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں یہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی شخص آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے آ شنا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپؐ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا تھے۔

(الحکم 24؍جون 1904ء صفحہ1)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

جسے حاصل ہے اماں جانؓ کا شرفِ نگہبانی

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی