• 8 مئی, 2024

یوم مصلح موعودؓ منانے کے اغراض و مقاصد

یوم مصلح موعودؓ منانے کے اغراض و مقاصد

جشن تشکر لجنہ کے موقع پر ایک تحریر

20؍فروری کا دن جماعت احمدیہ میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔یہ دن پیشگوئی مصلح موعودؓ کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک عظیم بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی جو دین کا خادم ہو گا۔لمبی عمر پائے گا اور بےشمار دوسری خصوصیات کا حامل ہو گا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کی ’’مصلح موعود‘‘ کے دور میں غیر معمولی ترقیات کی پیشگوئی بھی تھی۔ یہ پیشگوئی بعینہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پوری ہوئی جو حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود کے 52 سالہ دَورِ خلافت میں اس پیشگوئی کی تمام جزئیات لفظاً لفظاً پوری ہوئیں۔ لہذا 20؍فروری کا دن جماعت احمدیہ اس عظیم الشان پیشگوئی کی یاد میں مناتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجداتِ شکر بجا لاتی ہے تاہمیشہ اس کے فضلوں کی وارث بنتی چلی جائے۔

ہم یوم مصلح موعود کیوں مناتے ہیں اس کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’مصلح موعود کی پیشگوئی کا دن ہم ایمانوں کو تازہ کرنے اور اس عہد کو یاد کرنے کے لیے مناتے ہیں کہ ہمارا اصل مقصد اسلام کی سچائی اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کو دنیا پر قائم کرنا ہے۔ یہ کوئی آپ کی پیدائش یا وفات کا دن نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذریت میں سے ایک شخص کو پیدا کرنے کا نشان دکھلایا تھا جو خاص خصوصیات کا حامل تھا اور جس نے اسلام کی حقانیت دنیا پر ثابت کرنی تھی اور اس کے ذریعہ نظام جماعت کے لیے کئی اور ایسے راستے متعین کر دیے گئے کہ جن پہ چلتے ہوئے بعد میں آنے والے بھی ترقی کی منازل طے کرتے چلے جائیں گے۔

پس یہ دن ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرواتے ہوئے اسلام کی ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور دلانے والا ہونا چاہیے نہ کہ صرف ایک نشان کے پورا ہونے پر علمی اور ذوقی مزہ لے لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍فروری 2009ء)

یوم مصلح موعود منانے کی اصل غرض اس وقت پوری ہوگی جب ہم اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں گے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’آپ کے کام کو دیکھ کرحضرت مصلح موعودؓ کی پیشگوئی کی شوکت اور روشن تر ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہااصل میں تو یہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی ہے جس سے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اعلیٰ اور دائمی مرتبے کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا تعلق صرف ایک شخص کے پیدا ہونے اور کام کر جانے کے ساتھ نہیں ہے۔ اس پیشگوئی کی حقیقت تو تب روشن تر ہو گی جب ہم میں بھی اُس کام کو آگے بڑھانے والے پیدا ہوں گے جس کام کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے اور جس کی تائید اور نصرت کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مصلح موعود عطا فرمایا تھا جس نے دنیا میں تبلیغِ اسلام اور اصلاح کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں لگا دیں۔

پس آج ہمارا بھی کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں۔ اپنے علم سے، اپنے قول سے، اپنے عمل سے اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہر طرف پھیلا دیں۔ اصلاحِ نفس کی طرف بھی توجہ دیں۔ اصلاحِ اولاد کی طرف بھی توجہ دیں اور اصلاحِ معاشرہ کی طر ف بھی توجہ دیں اور اس اصلاح اور پیغام کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کریں جس کا منبع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بنایا تھا۔ پس اگر ہم اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے تو یومِ مصلح موعود کا حق ادا کرنے والے ہوں گے، ورنہ تو ہماری صرف کھوکھلی تقریریں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍ فروری 2011ء)

حقیقی یومِ مصلح موعودکب ہوگا اس کے متعلق پیارے حضور ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ وہ اولوالعزم موعود بیٹا تھا جس نے اپنے دل کی تڑپ کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی۔ آج ہم جب یومِ مصلح موعود مناتے ہیں تو حقیقی یومِ مصلح موعود تب ہی ہو گا جب یہ تڑپ آج ہم میں سے اکثریت اپنے اندر پیدا کرے کہ ہمارے مقاصد بہت عالی ہیں، بہت اونچے ہیں، بہت بلند ہیں جس کے حصول کے لیے عالی ہمتی کا بھی مظاہرہ کرنا ہو گا اور اپنے اندر اعلیٰ تبدیلیاں بھی پیدا کرنا ہوں گی، پاک تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہوں گی۔ خداتعالیٰ سے ایک تعلق بھی جوڑنا ہو گا۔ اسلام کا درد بھی اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا۔ دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا درد پیدا کرتے ہوئے اظہار بھی کرنا ہو گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 2012ء)

یہ سال جس سے ہم گزر کر آئے ہیں اس کا گہرا تعلق ہم سے اور حضرت مصلح موعودؓ سے ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے جماعت کے ہر طبقہ پر بے شمار احسانات ہیں۔ طبقہ نسواں بھی حضو ؓ کی شفقتوں سے خاص طور پر معمور ہے۔ آپ نے اپنے دور خلافت کےابتدائی سالوں میں ہی خواتین کی تعلیم وتربیت کے لئے ایک تنظیم قائم کرنے کا ارادہ فرما لیا تھا تا کہ خواتین اپنی تنظیم کے لائحہ عمل کی پیروی کرتے ہوئے اعلیٰ کردار کی حامل ہوں اور دینی و دنیاوی تعلیمات سے آراستہ ہو کر اپنی اولاد کی بہتر رنگ میں پرورش کر سکیں تا احمدیت کا مستقبل روشن اور تابناک ہو۔ الحمد للّٰہ طبقہ نسواں کی وہ تنظیم جس کی باقاعدہ داغ بیل حضرت مصلح موعودؓ نے 1922ء میں رکھی تھی وہ ایک صدی کا سفر مکمل کرکے دوسری صدی میں داخل ہوچکی ہے۔ الحمد للّٰہ۔ یہ موقع جہاں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا ہے وہیں۔ اس محسن کے لئے دعاؤں کا بھی ہے جو پیشگوئی مصلح موعود کے حرف حرف کی صداقت کا مصداق تھا۔

ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اپنوں اور غیروں کے حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں جو تأثرات ہیں وہ آپ سے مل کر آپ کی شخصیت کا جو گہرا اثر اُن پر ہوتا تھا اور آپ کی خصوصیات کا جب علم ہوتا تھا وہ ہر ایک کو حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ پیشگوئی کی صداقت کا یہ سب کھلا اظہار ہے۔ ان جلسوں میں جو آج کل ہو رہے ہیں پیشگوئی کا ذکر اور آپ کے کارہائے نمایاں کی باتیں سن کر …… اپنی حالتوں کے جائزے بھی لینے چاہئیں کہ احمدیت کی ترقی کے لیے ایک عزم کے ساتھ ہر فرد جماعت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو نکھارنا اور استعمال کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم یہ کریں گے تو ہم احمدیت کی ترقی کو اپنی زندگیوں میں پہلے سے بڑھ کر پورا ہوتے دیکھیں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ فروری 2018ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ کا ایک الہام تھا کہ:
’’اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی‘‘

(الفضل 29؍اپریل 1944ء صفحہ3)

آپؓ نے احمدی مستورات کی مذہبی، تعلیمی، ذہنی، فکری اور عملی ترقی کے لئے لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ آپؓ نے مستورات کو بتلایا کہ وہ بھی بنی نوع انسان کا ایک جزو لاینفک ہیں اور قوموں کی ترقی وتنزل میں ان کا بھی ہاتھ ہے۔ عورت کی گود آئندہ نسل کا گہوارہ ہے اگر عورتیں نیکی وتقویٰ میں آگے بڑھنے والی ہوں گی تو اولاد بھی نیکی وتقویٰ پر چلنے والی ہوگی۔

حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت کے مطابق 25؍ دسمبر 1922ء کو لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور خواتین مبارکہ کی مقدس قیادت میں یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑی تیزی سے سفر پر روانہ ہوا اور ایک منظم تنظیم کی شکل اختیار کر گیا۔ حضورؓ کی ہدایات کی روشنی میں احمدی خواتین نے اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے اور دینی تعلیم و تربیت میں پرورش پانے کے لئے مساعی شروع کی اور مختلف دینی مہمات میں صفِ اوّل کی مجاہدات ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کا اظہار اپنوں نے ہی نہیں بلکہ غیروں نے بھی کیا کہ احمدی عورتوں کی تنظیم اصلاحِ معاشرہ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ابتدا میں اس میں شمولیت اختیاری تھی البتہ 1939ء میں اس کا فیض عام کرنے کے لیے ہر احمدی عورت کا اس میں شامل ہونا لازمی قرار دے دیا۔

حضرت سیدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ (حرم حضرت مصلح موعودؓ) کو خدمت دین کا بڑا شوق تھا ان کی خواہش کے مطابق سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ایک معین لائحہ عمل بنا کر جماعت کی عورتوں کے سامنے پیش کیا جو حضور نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا تھا اور یہ تاریخ میں لجنہ اماء اللہ کے متعلق ابتدائی تحریک کے نام سے مشہور ہے۔ اس مضمون میں سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ نے لجنہ اماء اللہ کے بنیادی مقاصد بیان کئے ہیں اور لجنہ اماء اللہ کی ممبر بننے کے لئے ضروری قرار دیا کہ وہ اسے پڑھے اور پڑھ کردستخط کرے۔ یہ اسکیم حضورؓ نے 15؍ دسمبر 1922ء کو مستورات کے سامنے پیش کی تھی جس پر 14 خواتین نے دستخط کئے تھے۔

(الفضل 11؍ جنوری 1923ء صفحہ9)

15؍ دسمبر 1922ء کو آپؓ نےجو مضمون تحریر فرمایا اس کی اوّلین مخاطب گو قادیان کی مستورات تھیں لیکن در حقیقت یہ ایک بین الاقوامی تنظیم کی بنیادی دستاویز تھی۔ اس مضمون کے حرف حرف سے خدمت اسلام کا توانا عزم و حوصلہ جھلکتا ہے۔ جس میں آپؓ نے مستوارت کو ایک لائحہ عمل دیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سترہ ضروری اموراس اولولالعزم ہستی نے تجویز فرمائے۔ ان میں علم حاصل کرنا اور دوسروں تک علم پہنچانا، اسلام کی حقیقی تعلیمات جاننا اور ان پر عمل کرنا، جماعت میں اتفاق اور وحدت کی روح قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہنا، اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی ہمہ وقت سعی کرنا، بچوں میں خدا اور رسولِ خداﷺ، حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے کرام کی محبت پیدا کرنا، خلافت کی اطاعت کا درس دینا اور سب سے اہم یہ دعا کرنا کہ ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں جو ہماری پیدائش میں خالقِ حقیقی نے مدنظر رکھے ہیں۔

اللہ کرے کہ ہماری زندگیوں کا مقصد خدا تعالیٰ اور رسولِ خداﷺ کی محبت اور اطاعت ہو۔ اس تنظیم کے 100 سال پورے ہونے کی خوشی میں لجنہ اماء اللہ تنظیم کی ہر ممبر اپنے عہد کی تجدیدکرتی ہے کہ:
میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب اور قوم کی خاطر اپنی جان مال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لئے تیار رہوں گی نیز سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی اور خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہوں گی۔ ان شاءاللّٰہ

اللہ اس عہد کو اس کی روح کے مطابق ہمیں نبھانے کی توفیق دے تا ہم واقعی خدا کے حضور’’ اماء اللہ‘‘ یعنی اللہ کی باندیاں لکھی جائیں۔ آمین

(زاہد محمود)

پچھلا پڑھیں

جسے حاصل ہے اماں جانؓ کا شرفِ نگہبانی

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی