• 7 مئی, 2024

حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح الثانیؓ کےآخری لمحات

حاصل مطالعہ
حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ایک یادگار تحریر
حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے آخری لمحات

ہمارے نہایت ہی پیارے امام، میرے محبوب روحانی اور جسمانی باپ حضرت اقدس امام جماعت احمد یہ الثانی کی بیماری کے آخری چند لمحات کی یا دا یک نہ مٹنے والا نقش ہے۔

شام سے طبیعت زیادہ خراب تھی اور مسلسل سانس کو درست رکھنے کے لئے آکسیجن دی جارہی تھی۔ چھاتی میں رسوب زیادہ بھر رہا تھا جسے بار بار نکالنے کی ضرورت پیش آتی تھی اور مکرم محترم ڈاکٹر قاضی مسعود احمد صاحب اور برادرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب بار بار معائنہ فرماتے اور رسوب کا اخراج خود اپنے ہاتھوں سے کرتے رہے۔ بچوں میں سے دو تو ڈیوٹی پر تھے اور باقی تمام ویسے ہی جمع تھے۔ خاندان کے بڑے چھوٹے سبھی کے دل اندیشوں کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ تاہم زبان پر کوئی کلمہ بے صبری کا نہ تھا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا تھا۔ اندیشے دھوئیں کی طرح آتے اور جاتے تھے۔ توکل علی اللہ اور نیک امید غیر متزلزل چٹان کی طرح قائم تھے۔ وہ جو صاحب تجربہ نہیں شاید اس بظاہر متضاد کیفیت کو نہ سمجھ سکیں لیکن وہ صاحب تجربہ جو اپنے رب کی قضاء کے اشاروں کو سمجھنے کے باوجود اس کی رحمت سے کبھی مایوس ہونا نہیں جانتے میرے اس بیان کو بخوبی سمجھ جائیں گے۔ پس انکار کے دھوئیں میں گھری ہوئی ایک امید کی شمع ہر دل میں روشن تھی اور آخر تک روشن رہی تاہم کبھی کبھی یہ فکر کا دھواں دم گھونٹنے لگتا تھا۔ دعائیں سب ہونٹوں پر جاری تھیں اور ہر دل اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھا۔

حضرت صاحب پر کبھی غنودگی طاری ہوتی تو کبھی پوری ہوش کے ساتھ آنکھیں کھول لیتے اور اپنی عیادت کرنے والوں پر نظر فرماتے۔ ایک مرتبہ بڑی خفیف آواز میں برادرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو بھی طلب فرمایا۔ لیکن جیسا کہ مقد رتھارفتہ رفتہ یہ غنودگی کی کیفیت ہوش کے وقفوں پر غالب آنے لگی اور جوں جوں رات بھیگتی گئی غنودگی بڑھتی رہی۔ اس وقت بھی گو ہماری تشویش بہت بڑھ گئی تھی لیکن یہ تو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ حضرت صاحب کی یہ آخری رات ہے جو آپ ہمارے درمیان گذار رہے ہیں۔ تقریباً گیارہ بجے شب میں ذرا سستانے اور ایک لاہور سے تشریف لائےہوئےمہمان کو گھر چھوڑنے گیا اور عزیزم انس احمد کو تاکید کر گیا کہ اگر ذرا بھی طبیعت میں کمزوری دیکھو تو اسی وقت بذریعہ فون مجھے مطلع کر دو۔

نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹے ابھی چند منٹ ہی ہوئےہوں گے کہ فون کی دل ہلا دینے والی گھنٹی بجنے لگی۔ مجھے فوری طور پر پہنچنے کی تاکید کی جا رہی تھی۔ اس وقت جلدی سے وضو کر کے ایک ناقابل بیان کیفیت میں وہاں پہنچا۔ قصر خلافت میں داخل ہوتے ہی مکرم ڈاکٹر مسعود احمد صاحب اور مکرم ڈاکٹر ذکی الحسن صاحب کے پژمردہ چہروں پر نظر پڑی جو باہر برآمدے میں کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ حضرت صاحب کے کمرہ میں پہنچا تو اور ہی منظر پایا۔ کہاں احتیاط کاوہ عالم کہ ایک وقت میں دو افراد سے زائد اس کمرہ میں جمع نہ ہوں اور کہاں یہ حالت کہ افراد خاندان سے کمرہ بھرا ہوا تھا۔ حضرت سیدہ امّ متین اور حضرت سیدہ مہر آپا بائیں جانب سرہانے کی طرف اُداسی کے مجسمے بنی ہوئی پٹی کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں۔ برادرم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب دائیں طرف سرہانے کے قریب کھڑے تھے اور حضرت بڑی پھوپھی جان اور حضرت چھوٹی پھو پھی جان بھی چار پائی کے پہلو میں ہی کھڑی تھیں۔ میرے باقی بھائی اور بہنیں بھی جو بھی ربوہ میں موجود تھے سب وہیں تھے اور باقی اعزاء واقرباء بھی سب اردگرد اکٹھے تھے۔ سب کے ہونٹوں پر دعائیں تھیں اور سب کی نظریں اس مقدس چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ سانس کی رفتار تیز تھی اور پوری بے ہوشی طاری تھی۔ چہرے پر کسی قسم کی تکلیف یا جد و جہد کے آثار نہ تھے۔ میں نے کسی بیمار کا چہرہ اتنا پیارا اور ایسا معصوم نظر آتا ہوا نہیں دیکھا۔ میں نہیں جانتا کہ اس حالت میں ہم کتنی دیر کھڑے رہے اور سانس کی کیفیت میں وہ کیا تبدیلی تھی جس نے ہمیں غیر معمولی طور پر چونکادیا۔

اُس وقت مجھے پہلی مرتبہ یہ غالب احساس ہوا کہ گو خداتعالیٰ قادر مطلق اور حیّ و قیّوم ہے اور ہر آن اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے لیکن وہ تقدیر جس سے ہمارے نادان دل گھبراتے تھے وہ تقدیر آ پہنچی ہے۔ پس اسی وقت میں نے قرآن کریم طلب کیا اور اس مقدس وجود کی روحانی تسکین کی خاطر جس کی ساری زندگی قرآن کریم کے حق اور خدمت میں صرف ہوئی سورۃیٰسین کی تلاوت شروع کر دی۔ یہ ایک مشکل گھڑی تھی اور سر سے پاؤں تک میرے جسم کا ذرہ ذرہ کانپ رہا تھا۔ اس وقت مجھے صبر کی طنابین ڈھیلی ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اس وقت میں نے اپنےچاروں طرف سے گھٹی گھٹی سسکیوں کی آوازیں بلند ہوتی ہوئی سُنیں۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ ہر سسکی دعاؤں میں لپٹی ہوئی اور ہر دعا آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی۔ سورۃ یٰسین کی تلاوت کے دوران ہی میں سانس کی حالت اور زیادہ تشویشناک ہو چکی تھی اور تلاوت کے اختتام تک زندگی کی کشمکش کے آخری چند لمحے آپہنچے تھے۔ میں نے قرآن کریم ہاتھ سے رکھ دیا اور دوسرے عزیزوں کی طرح قرآنی اور دیگر مسنون دعاؤں میں مصروف ہو گیا۔ حضرت صاحب نے ایک گہری اور لمبی سانس لی جیسے معصوم بچے روتے روتے تھک کر لیا کرتے ہیں اور ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے یہ آپ کی آخری سانس ہے۔اسی وقت میں نے ایک ہومیو پیتھک دوا کے چند قطرے پانی میں ملا کراپنی تشہد کی انگلی سے قطره قطره حضرت صاحب کے ہونٹوں میں ٹپکانے شروع کئے اور ساتھ ہی بے اختیار ہونٹوں پر یہ دعا جاری ہوگئی کہ یا حیّ یا قیّوم برحمتک نستغیث اس وقت سانس بند تھے اور جسم ٹھنڈا ہورہا تھا اوربظاہر زندگی کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا لیکن اچانک ہم نے حی و قیوم خدا کا ایک عظیم معجزہ دیکھا۔ مجھے حضرت پھو پھی جان کی بے قرار آواز سنائی دی کہ دیکھو! ابھی پاؤں میں حرکت ہوئی تھی اور ان الفاظ کے ساتھ ہی ہونٹوں پر بھی خفیف سی حرکت ہوئی اور سانس لینے کا سااشتباہ ہوا۔ معاًشدید کرب اور بے چینی سکینت میں بدل گئے اور ہر طرف سے ’’یا حی و یا قیوم‘‘ کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور جوں جوں ہم دعا کرتے رہے حضرت صاحب کے سانس زیادہ گہرے ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ ڈاکٹر بھی جو جسم کو بظاہر مردہ چھوڑ کر چلے گئے تھے واپس بلائے گئے اور بڑی حیرت سے اس معجزانہ تبدیلی کا مشاہدہ کرنے گئے۔ مگر معلوم ہو تا ہے کہ حضرت صاحب کی زندگی کا بظاہر جسم کو چھوڑنے کے بعد معجزانہ طور پر پھر واپس لوٹ آنا محض ہمارے دلوں کوسکینت عطا کرنے کی خاطر تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے گویا ایک فضل و احسان کا پھایہ تھا جو ہمارے قلوب پر رکھا گیا۔

چنانچہ اس کے تقریبا ًبیس منٹ کے بعد حضرت صاحب کو اپنے آسمانی آقا کا بُلاواآگیا۔ اس وقت کا منظر اور کیفیت ناقابل بیان ہے۔ ہم نے آسمان سے صبراور سکینت کو اپنے قلوب پر نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور یوں محسوس ہوا جیسے ضبط و تحمل کی باگ ڈور رحمت کے فرشتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ آنکھوں سے آنسو ضرور جاری تھے اور دلوں سے دعائیں بھی بدستور جاری تھیں مگر سب دل کامل طور پر راضی برضا اور سب سراپنے معبود خالق و مالک کے حضور جھکے ہوئے تھے۔ ہم ٹکٹکی لگا کر اس طرح خدا جانے کب تک اس پیارے چہرے کی طرف دیکھتے رہے۔ جسےموت نے اور بھی زیادہ معصوم اور حسین بنادیا تھا۔ اس تقدس کے ماحول میں جس کی فضاء ذکرالٰہی سے معمور تھی اور جس کی یاد کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔ حضرت صاحب کی نعش مبارک نور میں نہائی ہوئی ایک معصوم فرشتے کی طرح پڑی تھی۔ دل بے اختیار یہ کہتا تھا: یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۸﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿۲۹﴾

(روز نامہ الفضل ربوہ 19؍فروری 1994ء)

پچھلا پڑھیں

جسے حاصل ہے اماں جانؓ کا شرفِ نگہبانی

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی